قرآن مجید کو غنا سے نہ پڑھنے والا ہم میں سے نہیں
قرآن حکیم اللہ سبحانہ وتعالی کی آخری کتاب ہے خوش قسمتی سے اس کا نزول ہماری رشد و ہدایت کے لیے آخر الزمان پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا۔
قرآن پاک کا ایک ایک لفظ اپنے اندر ایک جہاں رکھتا ہے آیا ت قرآنیہ کی فصاحت و بلاغت اس قدر عالی ہے کہ عرب کے بڑے بڑے شعراء، ادباء اور فصیح اللسان عربی النسل بھی اس کی برابری کرنے میں ناکام رہے اور یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے کہ "ما ھذا كلام البشر" یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔
اس کلامِ الٰہی میں تاثیر، قوت، لذت اور روحانیت اس قدر زیادہ ہے کہ جاہل سے جاہل شخص بھی اگر غور سے اس کی تلاوت کرے یا تلاوت سنے تو اطمینان و سکون، خوشی و مسرت اور تازگی و فرحت سے شاداں ہو جاتا ہے۔
جو شخص قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط رکھتا ہے اللہ اس کو بلندی عطا فرماتے ہیں اور جو اس کی قدر کرتا ہے رب اس کو عزت وعظمت کے اعلی مقام پر فائز کرتے ہیں۔
لہذا تعلق اور قدر یہ دونوں خوبیاں پیدا کرتے ہوئے بڑے ذوق و شوق اور آداب سے اس کی تلاوت کرنی چاہیے۔ قراءت و تجوید اور ادائیگی تلفظ کو ملحوظِ خاطر رکھنا از حد ضروری ہے۔
قراء کرام کی خدمت میں:
الحمد للہ اکثر قراء کرام عمدہ انداز اور صحیح تلفظ کیساتھ بڑے ہی پیارے لہجے میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اُن کی پیاری آواز اور اچھے انداز کے پیشِ نظر آدمی تلاوتِ قرآن میں مست ہو کر ایقان و یقین اور ایمان کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔ اللہ ہمارے ایسے قراء کی حفاظت فرمائے اور وہ زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن سنا کر ہمارے دلوں کی بنجر زمین اور ویران بستی کو آباد کرتے رہیں۔
مگر! کچھ قاری حضرات اس قدر تکلف و تصنع کرتے ہیں کہ کانوں میں انگلیاں دے کر، آنکھیں بند کرتے ہوئے حد درجہ زور لگاتے ہوئے ایک سانس میں آیات کو کھینچنے اور زیادہ پڑھنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ خود ساختہ، مبنی بر غلو بلکہ آدابِ تلاوت ہی کے سراسر خلاف ہے، اسی طرح کچھ نقال خطباء بھی ترنم کے نشے میں قرآن حددرجہ غلط پڑھتے ہیں۔ قراءت و تجوید اور ادائیگی تلفظ کا ہرگز خیال نہیں رکھتے بلکہ صرف سُر اور راگ کو سیٹ کرنے کے چکروں میں لگے رہتے ہیں۔
یاد رکھیں! آج کل یہ سب کچھ عوام کو خوش کرنے اور ان سے داد وصول کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے خطباء و قراء خود قرآن کی روحانیت حتی کہ ترجمہ تک سے غافل ہوتے ہیں جبکہ ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں سخت وعید ہے۔
سنت کے مطابق اندازِ قراءت:
احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہر آیت پر رُک کر ، ٹھہرتے ہوئے آہستگی کے ساتھ تلاوت کرتے، اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو شمار کرنا چاہتا تو آسانی سے کر سکتا تھا۔ مگر ہمارے ہاں شروع ہی سے حافظ صاحب کو تیزی، سپیڈ اور جلدی کی ایسی عادت ڈال دی جاتی ہے کہ وہ ساری زندگی قینچی کی طرح آیات قرآنیہ کو کترتا رہتا ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت و تلاوت کی دوسری نمایاں خوبی یہ تھی کہ آپ کے لہجہ میں رقت ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر، رُک رُک کر تلاوت فرماتے، حتی کہ داڑھی مبارک آنسووں سے تر ہو جاتی۔
یہی اندازِ صدیقی تھا اور یہی طرزِ فاروقی تھی اور اسی لیے آپ نے ارشاد بھی فرمایا:
"کہ تم میں سب سے بہتر قاری وہ ہے جو قرآن پڑھتے وقت اللہ تعالی سے ڈر رہا ہو"
"ان احسن الناس قراءة الذي اذقراء رايت انه يخشي الله" (سلسلۃ :1583)
یعنی جسے تم دیکھو کہ وہ خشیت الہی کے سائے تلے تلاوت قرآن کر رہا ہے جان لو وہ سب سے افضل اور بہتر قاری ہے۔
مگر افسوس کہ اُمت کا یہ اندازِ تلاوت نہ رہا۔
رہ گئی ہے رسمِ اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے
قرآن کو غنا سے نہ پڑھنے والا ہم میں سے نہیں:
سید المحدثین حضرت امام ابوہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ" (صحیح بخاری:7527)
"قرآن کو غنا سے نہ پڑھنے والا ہم میں سے نہیں"
غنا کا مفہوم:
قرآن مجید کو غنا کے ساتھ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی آواز سنوار کر پڑھے اپنی فطری آواز کو اچھا، سوہنا اور خوبصور بنا کر تلاوت کرے، تلاوت قرآن کے وقت ایسی بے توجہگی نہ ہو کہ بے رخی اور سستی کے انداز میں قراءت کرے اور دل روحانیت کی بجائے بوریت محسوس کرے۔ سامعین سن کر فورا اُکتا جائیں بلکہ ذوق و شوق کے ساتھ، ٹھہر ٹھہر کر، تلفظ کی درستی اور آواز کی خوبصورتی اور صفائی کے ساتھ تلاوت کرے تا کہ صحیح معنوں میں، تلاوت قرآن کے فیوض و برکات اور تجلیات کو اپنے دامن میں سمیٹا جا سکے۔
دیگر روایات میں بھی اچھے انداز اور اچھی آواز میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، سیدنا حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"زينوا القرآن بأصواتكم، فإن الصوت الحسن يزيد القرآن حُسناً" (سنن دارمی، سلسلہ:771)
"اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو، بے شک اچھی آواز قرآن مجید کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔"
علقمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بہت خوبصورت آواز دی تھی اور بالخصوص قرآن مجید انتہائی پروقار لہجے اور بہترین انداز میں پڑھتے تھے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خصوصی طور پر بلوا کر ان سے تلاوت قرآن سنتے ، جب علقمہ تلاوت ختم کرتے تو آپ فرماتے: اقرا فداک ابی وامی، میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں اور قراءت کرو۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے:
" حُسْنُ الصَّوْتِ زِينَةٌ الْقُرْآنِ " (سلسلہ:771)
"اچھی آواز قرآن مجید کی زینت ہے۔"
قراء و خطباء خصوصی توجہ فرمائیں:
مسلمان دنیا میں آخرت کی تیاری کے لیے آتا ہے اللہ تعالی کی رضا اور اسی کی خوشنودی مومن کا مقصد ہے۔ اس پر فتن دور میں اپنی آخرت کی فکر کرتے ہوئے نیک اعمال میں آگے بڑھنا سب سے افضل کام ہے، مندرجہ ذیل حدیث مبارکہ کا مطالعہ فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ کیا ایسا وقت ہمارے سر پر تو نہیں؟ اگر واقعتاََ ہمارے حالات ایسے ہو چکے ہیں تو پھر ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کے آخری حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار بننا چاہیئے۔
آقا علیہ السلام کا فرمان ہے:
" بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ خِصَالا سِتًّا : إِمْرَةُ السُّفَهَاءِ ، وَكَثْرَةُ الشُّرَطِ ،وَقَطِيعَةُ الرَّحِمِ ،وَبَيْعُ الْحُكْمِ ، وَاسْتِخْفَافٌ بِالدَّمِ ، وَنَشْؤٌ يَتَّخِذُونَ الْقُرْآنَ مَزَامِيَر ، يُقَدِّمُونَ الرَّجُلَ لَيْسَ بِأَفْضَلِهِمْ ، وَلا بِأَعْلَمِهِمْ ، وَلا بِأَفْقَهِهِمْ ، مَا يُقَدِّمُونَهُ إِلا لِيُغَنِّيَهُمْ " . (مسند احمد، سلسلہ:979)
چھ چیزیں واقع ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، بے وقوفوں کی حکومت، پولیس کی زیادتی، قطع رحمی، رشوت سے فیصلے، قتل کو معمولی سمجھنا اور ایسی نئی نسل پیدا ہو گی جو قرآن مجید کو موسیقی بنا لیں گے وہ ایک ایسے آدمی کو امامت کے لیے آگے کریں گے جو ان میں سے زیادہ فقیہ ہو گا اور نہ وہ علم والا اُس کو صرف اس لیے آگے کریں گے کہ وہ انہیں موسیقی کے انداز میں قرآن سنائے۔
قرآن مجید کو اوپر سے دیکھ کر پڑھنا:
قرآن مجید کو کھول کر اوپر سے دیکھ کر پڑھنا کوئی کمی یا عیب نہیں بلکہ افضل و بہتر عمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہے کہ:
"مَنْ سَرَّهُ أنْ يُحِبَّ اللهَ و رسولَهُ فليَقرأْ في " المُصْحَفِ" (سلسلہ:2342)
جس کو یہ پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے تو وہ مصحف سے پڑھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن اوپر سے دیکھ کر پڑھنا بہت شرف اور مقام کی بات ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو سنت رسول کے مطابق قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین