• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"في السمٰوٰت ايتوني" کو وصل کی صورت میں کیسے پڑھیں؟

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
49
تحریر: ہدایت اللہ فارم

سورہ احقاف میں ایک جگہ ہے " فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ°اِیتُونِی....."
اسے اکثر طلبہ یہاں تک کہ کثیر تعداد میں حفاظ کرام بھی وصل کی حالت میں " فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ اِیْتُونِی " یا تو " فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ یْتُونِی " پڑھتے ہیں واضح رہے یہ دونوں ہی طریقے غلط ہیں۔۔
صحیح کیا ہے ملاحظہ کریں
اگر فی السّمٰوٰت کو اِیْتُونِی کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیں تو فعل کا ابتدائی ہمزہ وصلی مکسور وسط کلام میں حذف ہوجائے گا۔ اور " اِیْتُونِی " میں ہمزہ کے بعد جو " یاء " ہے چونکہ ہمزہ سے بدلی ہوئی ہے اس لیے فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ کو اِيْتُونِي سے ملا کر پڑھنے کی صورت میں یہ " یاء" اپنی اصل شکل ہمزہ میں واپس لوٹ آئے گی اور اس طرح پڑھا جائے گا فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ ءْتُونِی۔۔۔۔

کیوں کہ " اِيْتُونِي " کا ابتدائی ہمزہ وصلی مکسور ہے، قاعدہ یہ ہے کہ فعل کے تیسرے حرف پر فتحہ، کسرہ ، یا ضمہ عارضی ہو تو فعل کا ابتدائی ہمزہ وصلی مکسور ہوتا ہے۔ اور یہاں کلمہ میں تیسرے حرف پر ضمہ عارضی آرہا ہے۔

اِيْتُوْا اصل میں اِيْتِیُو تھا یاء پر ضمہ ثقیل ہونے کی وجہ سے ماقبل کو دے دیا اور اجتماع ساکنین کے وجہ سے " یاء " کو حذف کردیا گیا۔
اس کی دوسری مثالیں ملاحظہ ہوں
جیسے : اِمْثُوْا ، اِتَّقُوْا ، اِقْضُوْا ، اِبْنُوْا وغیرہ
ان تمام کلمات میں بھی وہی تعلیل ہے جو کہ
اِيْتُوا کے سلسلے میں بیان کی گئی ہے ۔
اِيْتُوا اصل میں اِءْتُوا تھا اس میں پہلا ہمزہ وصلی ہے، یہ اس لیے لایا جاتا ہے تاکہ اس حرف ساکن (جو اس ہمزہ کے بعد آرہا ہے) کا تلفظ کیا جاسکے اب چونکہ ہمزہ ساکنہ کلمہ کے شروع میں ہے اور کسی بھی ساکن حرف سے ابتداء متعذر ہے اس لیے شروع میں ہمزہ وصلی لایا گیا، اب دو ہمزہ ایک کلمہ میں جمع ہوگیے قاعدہ یہ ہے کہ جب دو ہمزہ ایک کلمہ میں اس طرح جمع ہوجائیں کہ پہلا ہمزہ متحرک اور دوسرا ہمزہ ساکن ہو تو ہمزہ ساکنہ کو ماقبل کی حرکت کے مطابق حرف مد سے بدل دیا جائے گا۔ اس تبدیلی کو ابدال وجوبی کہتے ہیں۔
ابدال کا طریقہ یہ ہے کہ ہمزہ ساکنہ یا متحرکہ کے ماقبل اگر ضمہ ہو تو ہمزہ کو واؤ مدہ سے کسرہ ہو تو یاء مدہ سے اور فتحہ ہو تو ہمزہ کو الف سے بدلا جائے گا۔۔۔
لہذا معلوم ہوا کہ وصل کی صورت میں " فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ اِیْتُونِی " یا " فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ یْتُونِی " پڑھنا دونوں ہی غلط ہے، بلکہ اسے "فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ ءْتُونِی۔۔۔" پڑھنا ہوگا بالکل ویسے ہی جیسے ہم ان جیسی آیتوں کو پڑھتے ہیں

وَقَالَ الۡمَلِكُ ائۡتُونِی بِهِ.... (يوسف)
قَالَ ائۡتُونِی... (يوسف)
فَلۡیُؤَدِّ الَّذِی اؤۡتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُ.. (البقرة)

(فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠ت پر وقف کرکے " اِیتُونِی " پڑھیں تب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے)

#نوٹ : میں نے بعض حافظ جی حضرات کو بھی غلط پڑھتے ہوئے پایا ہے!
اس لیے حفاظ کرام سے گزارش ہے کہ حفظ کرکے ہی حفظ میں پڑھانے نہ لگ جائیں بلکہ اس پہلے کچھ قواعد بھی سیکھ لیں۔
اللہ ہمیں قرآن مجید صحیح طریقے سے پڑھنے کی توفیق دے آمین
 
Top