• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قائد اعظم کی قرآن فہمی ..۔ڈاکٹر صفدر محمود

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اس موضوع پر میرا گزشتہ کالم 16مارچ (اتوار) کے جنگ میں چھپا تھا جس میں میں نے جنرل اکبر اور عبدالرشید بٹلر گورنر ہائوس پشاور کے مشاہدات کے حوالے سے قائد اعظم کی قرآن مجید میں گہری دلچسپی اور قرآن فہمی کا ذکر کیا تھا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ قائد اعظم انگریزی لباس پہنتے، انگریزی بولتے اور برٹش انداز کی زندگی گزارتے تھے اس لئے ان کے بارے میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ انہیں مذہب اور قرآن مجید سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اسی تاثر کا فائدہ اٹھا کر روشن خیال سیکولر دانشور یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ محض لوگوں کو مسلم لیگ میں آنے کی ترغیب دینے کے لئے بار بار اسلام اور قرآن حکیم کا ذکر کرتے تھے ۔ یہ ان حضرات کا سطحی نقطہ نظر ہے کیونکہ انہوں نے قائد اعظم کو سمجھنے کی خلوص نیت سے کوشش ہی نہیں کی نہ ہی انہیں اصلی قائد اعظم ''سوٹ '' کرتا ہے بظاہر انگریزی لباس پہننے والے محمد علی جناح کا باطن حب رسول ؐ اور قرآن فہمی سے منور تھا جس کی واضح علامتیں بلکہ ثبوت ان کے فرمودات میں ملتے ہیں۔ قول وفعل کے تضاد کا الزام تو قائد اعظم کے بدترین دشمن بھی نہ لگا سکے اس لئے یقین رکھیئے کہ وہ سچا اور کھرا انسان جو کہتا تھا اس پر قلبی یقین رکھتا تھا۔ قائد اعظم کا نہ کوئی ذاتی مفاد تھا نہ کوئی ذاتی ایجنڈا، انہوں نے زندگی کا ہر قیمتی لمحہ مسلمان قوم کے لئے وقف کیا ہوا تھا۔ مثلاً جب وہ گاندھی کے نام خط وکتابت (10ستمبر سے لیکر 30ستمبر 1944) میں لکھتے ہیں کہ قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔اس میں مذہبی ،مجلسی، دیوانی، فوجداری ،عسکری، تعزیری، معاشی اور سیاسی غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں تو یہ ان کی قرآن فہمی کا اعجاز ہے۔

اسی طرح جب قائد اعظم 4مارچ 1946ء کو شیلانگ میں خواتین کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''ہندو بت پرستی کے قائل ہیں، ہم نہیں ہیں ہم مساوات، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں جبکہ ہندو ذات پات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہمارے لئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم صرف ایک بیلٹ بکس میں اکٹھے ہو جائیں۔ آئیے اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم اور حدیث نبوی ؐ اور اسلام کی عظیم روایات کی طرف رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کے لئے ہر چیز موجود ہے ۔ہم خلوص نیت سے ان کی پیروی کریں اور اپنی عظیم کتاب قرآن کریم کا اتباع ''تو یہ الفاظ ان کے قلب کی گہرائیوں سے نکل رہے تھے اور اس جذبے کے ساتھ قائد اعظم نے مشورہ دیا ''ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے ''کیونکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے (Complete Code) جو زندگی کے ہرشعبے پر محیط ہے '' قائد اعظم کی تقاریر، مرتبہ خورشید یوسفی، ،جلد سوم صفحہ 2053عید پیغام 8ستمبر 1945ء)

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، قرآن ایک مکمل کوڈ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے ۔قرآن اور اسوہ حسنہ ؐ کا اتباع ہماری نجات کی ضمانت رہتا ہے ،یہ الفاظ، یہ مفہوم اور پیغام قائد اعظم نے اتنی بار دیا کہ اسکی گنتی کرنی ممکن نہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اگر کوئی سچا کھرا اور صاحب کردار یہ بات لگاتار کئی برس تک اور مدت تک کہتا رہے تو یہ اسکے سچے عشق اور گہری لگن کی علامت ہوتی ہے ۔

مسلمانوں میں مذہبی شعور کے احیاء اور اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی کا ہی نتیجہ تھا کہ قائداعظم وائسرائے ہند اور لارڈلن لتھگو سے ملے اور اس سے اجازت لیکر عید کے موقع پر 13نومبر 1939ء کو آل انڈیا ریڈیوسے مسلمانان ہندو پاکستان سے خطاب کیا یہ خطاب پڑھنے کے لائق ہے کیونکہ اس میں فلسفہ رمضان و نماز اور تعلیمات رسول ؐ پر جس طرح قائد اعظم نے روشنی ڈالی ہے یہ ان کی قرآن فہمی کا زندہ ثبوت ہے ۔ اقتصابات دینے ممکن نہیں صرف ان چند الفاظ پر غور کیجئے تو آپ پر اسلام کی روح کے دروازے کھلتے جائیں گے ۔ قائد اعظم کے الفاظ تھے ۔
Man has indeed been called God's Caliph in the Quran.....it imposes upon us a duty to follow the Quran and to behave towards others as God behaves towards his mankind (speemhes of Quid-e- Azam, Khurshid yusufi Vol II p.1060-62
مطلب یہ کہ قرآن حکیم میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا زمین پر خلیفہ قرار دیا گیا ہے ۔اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کریں اور دوسروں سے اسی طرح سلوک کریں جس طرح اللہ بھی انسانوں سے کرتا ہے۔سبحان اللہ

وزیر آباد کے معلم طوسی صاحب قائد اعظم کی دعوت پر ان کی لائبریری میں چند ماہ کام کرتے رہے انہوں نے اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ قائداعظم کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی تراجم موجود تھے جنہیں وہ پڑھتے رہتے تھے ۔جناب شریف الدین پیرزادہ کئی برس قائد اعظم کے سیکرٹری رہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا ''قائد اعظم کے پاس قرآن حکیم کے چند ایک عمدہ نسخے تھے ۔ان میں کچھ قلمی بھی تھے ایک بہترین نسخہ احتراماً جزدان میں ان کے بیڈروم میں اونچی جگہ رکھا رہتا تھا ۔میں نے انہیں محمد مارما ڈیوک پکتھال کا قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ پڑھتے دیکھا ۔پکتھال انگریز تھا جو بعدازاں مسلمان ہو گیا ''(بحوالہ قائداعظم اور قرآن فہمی محمد حنیف شاہد صفحہ 73)

میں نے شروع میں ذکر کیا تھا ایک جرنیل اور ایک بٹلر کا لیکن قائد اعظم کی قرآن فہمی کی تصدیق ایک ایسے شخص نے بھی کی ہے جو بذات خود علم و فضل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھا، اسلام اور قرآن مجید پر گہری نظر رکھتا تھا اور ہندو پاکستان میں نہایت احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا ۔وہ شخصیت تھی حضرت مولانا غلام رشدجو قیام پاکستان سے قبل تاریخی شاہی مسجد لاہور کے خطیب رہے اور جن کا علامہ اقبال سے اتنا گہرا تعلق تھا کہ انہوں نے 1926ء میں علامہ اقبال کے پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا ۔ مولانا خود مفسر اور شارح قرآن تھے اس لئے ان کی گواہی حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ملاحظہ فرمائیے مولانا غلام رشد کیا فرماتے ہیں قائد اعظم کا قرآن حکیم کے ساتھ کس قدر گہرا تعلق تھا میں اس میں ایک ذاتی واقعہ کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں ۔1945ء کے آخری ثلث کی بات ہے کہ قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے اراکین کے ساتھ ''ممدوٹ ولا '' لاہور میں قیام پذیر تھے ۔ایک نمائندے کے ذریعے مجھے یاد فرمایا میں فوراً تیار ہو گیا لیکن خیال آیا کہ میں انگریزی نہیں جانتا ۔اتفاق سے جناب مسعود کھدر پوش آئی سی ایس ڈپٹی کمشنر نواب شاہ میرے پاس بیٹھے تھے ۔ان سے ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے کو کہا ہم ممدوٹ ولا پہنچ گئے ۔قائد اعظم منتظر تھے فرمایا ایک اہم دینی مقصد کے لئے بلایا ہے جمعیت علمائے ہند اور مولانا معین احمد مدنی جیسے نیشنلسٹ علماء تحریک پاکستان کی مخالفت میں سرگرم ہیں بہت سے علما ہمارے ہم نوا ہیں لیکن ان کی کوئی تنظیم نہیں ہے ۔اس مقصد کے لئے نامزد صدر مولانا شبیر احمد عثمانی نے افتتاح کرنا تھا وہ علیل ہو گئے ہیں پھر کہا تم جلد از جلد خطبہ افتتاحیہ تیار کرو خاکسار نے شکریہ ادا کرکے رخصت چاہی تو فرمایا '' ذرا ٹھہرو چند بنیادی نکتے ذہن میں رکھ لو ان کے سامنے میز پر قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ رکھا تھا اسے ہاتھ میں لیکر فرمایا میرا اس حقیقت پر ایمان ہے کہ اس کتاب عظیم میں دنیا اور آخرت کی زندگیوں کے متعلق مکمل ضابطے اور آئین موجود ہے ۔مثال کے طور پر انہوں نے کہا قرآن حکیم میں کہا گیا ہے کہ جرم کی سزا جرم کی نوعیت کے مطابق دی جائے اس پر میں نے کہا آپ کے ذہن میں غالباً قرآن کریم کی وہ آیت ہے (ترجمہ جن میں لوگوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا بدلہ تو اسی جیسا ہوتا ہے ) (سورہ یونس 27/10) اس پر انہوں نے قرآن حکیم کھولا اور اس آیت کو دیکھ کر فرمایا بے شک یہی آیت میرے ذہن میں تھی۔ اس کے بعد کہا دیکھو یہ ایک اصولی حکم ہے اور ابدی ۔یہ دیکھنا اسلامی مملکت کا کام ہو گا کہ معاشرہ کے حالات کی روشنی میں کس جرم کی سزا کتنی ہونی چاہئے جو قرآن کریم کے اصولوں کے مطابق ہو۔ میں نے سلسلہ کلام منقطع کرتے ہوئے عرض کیا حضور ؐ نے ایسا کچھ خود اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کیا تھا جس کی رو سے کہا گیا تھا (ترجمہ اور معاملات میں ان سے مشورے کر لیا کرو آل عمران 159/3) انہوں نے پھر قرآن مجید کھولا اور اس آیت کو نکال کر کہا کہ بات بالکل واضح ہے ۔

انہوں نے فرمایا حضور ؐ کے بعد امت کو بھی اس طرح تدوین قوانین کرنا ہوگی میں نے عرض کیا اس کے لئے خدا کا حکم موجود ہے (ترجمہ اور جن کے معاملات باہمی مشورے سے ہوتے ہیں سورۃ الشوریٰ 38/42پر انہوں نے پھر قرآن حکیم سے یہ آیت نکالی اور کہا خدا کی یہ ہدایت ہماری رہنمائی کے لئے کس قدر واضح ہے اسلامی مملکت جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں اس کے آئین کی بنیاد یہی ہو گی ۔وہ اس گفتگو کو زیادہ وقت دینا چاہتے تھے لیکن مسلم لیگ کے اراکین کے اصرار پر مختصر کرنا پڑا ۔ میں اٹھا تو فرمایا دو بنیادی اور ناقابل معافی جرم ہیں ایک شرک دوسرا تفرقہ، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ایک مومن دوسرا کافر اسی کا نام دو قومی نظریہ ہے ۔ اس نکتے کو ذہن میں رکھنا ۔جائو خدا حافظ، میں رخصت ہو کر آیا تو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ یہ شخص جسے عام طور پر بیرسٹر سمجھا جاتا ہے اسلام کے بنیادی اصولوں پر کتنی گہری نگاہ رکھتا ہے ۔

میں مختلف مکتبوں اور دارالعلوموں میں تعلیم حاصل کرتا رہا بڑی بڑی نامور ہستیوں سے شرف تلمندحاصل رہا سیاسی لیڈروں مذہبی رہنمائوں کو بھی دیکھا لیکن مجھے پوری زندگی میں قائد اعظم سے بڑھ کر کوئی شخصیت متاثر نہ کرسکی۔ میں نے ہر ایک کو ان سے کم تر پایا بلندی کردار کے اعتبار سے بھی اور قرآنی بصیرت کے نہج سے بھی اس قسم کے انسان صدیوں میں جاکر پیدا ہوتے ہیں '' روزنامہ نوائے وقت 24ستمبر 2008بحوالہ حنیف شاہد ص 86۔81)

اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم نے قرآن حکیم ، اسوہ حسنہ ؐ اسلامی قوانین وغیرہ کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور ان کا تصور پاکستان بھی انہی سے ماخوذ تھا جس کا ذکر بار بار ان کی تقریروں میں ملتا ہے اس حوالے سے ان کے الفاظ کسی سیاسی مقصد کےلئے نہیں بلکہ ان کی قلب و روح سے نکلتے تھے اور وہ ان پر مکمل ایمان رکھتے تھے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
قائداعظم کی قرآن پاک سے رغبت۔
ڈاکٹر صفدر محمود کے قلم سے​
اکثر محفلوں میں یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر میں جابجا قرآن حکیم سے رہنمائی کا ذکر ملتا ہے۔ کیا انہوں نے قرآن مجید پڑھاہوا تھا اور کیا وہ قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو اس کےشواہد یا ثبوت دیجئے۔ رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے قائداعظم ؒ کے قریبی رشتے داروں کے انٹرویو بھی کئے۔ رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظمؒ کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا جس طرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا۔ وزیرآباد کے طوسی صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور وہ اعلیٰ درجے کی انگریزی لکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے چند برس قبل انہوں نے بڑے جوش و خروش سے پاکستان کے حق میں نہایت مدلل مضامین لکھے جو انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ملازمت کے سبب طوسی صاحب نے یہ مضامین قلمی نام سے لکھے تھے۔ قائداعظمؒ ان کے مضامین سے متاثر ہوئے اور انہیں ڈھونڈ کر بمبئی بلایا۔ قائداعظم ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے

چنانچہ طوسی صاحب چند ماہ ان کے مہمان رہے جہاں وہ دن بھر قائداعظم ؒ کی لائبریری میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قائداعظمؒ کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی انگریزی تراجم، اسلامی و شرعی قوانین، اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین پر اعلیٰ درجے کی کتب موجود تھیں اور وہ اکثر سید امیر علی کا قرآن کا ترجمہ شوق سے پڑھاکرتے تھے۔ انہیں مولاناشبلی نعمانی کی ''الفاروق'' کا انگریزی ترجمہ بھی بہت پسند تھا جس پر کئی مقامات پر قائداعظمؒ نے نشانات لگا رکھے تھے۔ کئی دہائیاں قبل طوسی صاحب کے مضامین لاہور کے ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا یا نہیں۔

اس حوالے سے عینی شاہدین کی یادیں ہی بہترین شہادت ہوسکتی ہیں۔ ایک روز میں جنرل محمد اکبر خان، آرمی پی اے نمبر Iکی سوانح عمری ''میری آخری منزل'' پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک دلچسپ اور چشم کشا واقعہ نظر سےگزرا۔ جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ جن دنوں قائداعظم ؒ زیارت میں بیماری سے برسرپیکار تھے انہوں نے جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو تین دن کے لئے زیارت میں بطور مہمان بلایا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔ جنرل اکبر 25جون 1948 کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظمؒ سے کئی ملاقائیں ہوئیں۔ ایک ملاقات کاذکر ان کی زبانی سنئے۔

''ہمارے افسروں کےسکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کااعلان فرمائیں۔ قائداعظمؒ نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حکم دیا کہ ''میرا کانفیڈریشن باکس لے آئو''جب بکس آ گیا تو قائداعظمؒ نے چابیوں کاگچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اوراسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ'' شراب و منشیات حرام ہیں'' کچھ تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے ایک مسودہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دے کر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر اپنےایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا۔ میں نے قائداعظمؒ سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ہم نے دفاعی نقطہ نظر پر ریسرچ شروع کردی ہے اور کچھ موادبھی جمع کرلیا ہے۔ قائداعظمؒ نے اس تحریک کو پسند فرمایا۔ ہماری ہمت افزائی ہوگئی۔ '' (صفحہ 282-281)

اس حوالے سے ایک عینی شاہد کاا ہم انٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ''دی گریٹ لیڈر'' حصہ اول میں شامل ہے۔ یہ انٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو ان دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہائوس پشاور میں قیام کیا۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھئے اور غور کیجئے ''میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جائوں۔

سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب:اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی۔
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے،اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے۔
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، رو پڑتے ہیں اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں۔
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار اچکن۔ سوال:لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی۔ شبہ ہوا کوئی سرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟
جواب:اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہائوس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہرائو تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔ اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوئوں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پائوں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔'' (صفحات 239-40)

غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجیدنکالنا کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 27جولائی1944کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی'' (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز، خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی اسلام آباد صفحہ 10)

یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے۔ 19اگست 1941کو ایک انٹرویو میں قائداعظم ؒ نے کہا ''میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات، البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے۔کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو۔''(گفتار ِقائداعظمؒاحمد سعید صفحہ 261)

قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیاا ور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اوراس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے۔ 12جون 1938کو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ان کے الفاظ پر غور کیجئے ۔مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ (ہفت روزہ انقلاب 12جون 1938ب حوالہ احمد سعید صفحہ 216)

قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن، جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور محمد علی جناح قائداعظم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آل انڈیامسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)

قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن، زندہ ضمیر، اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوف ِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا۔ اسی لئے تو اقبالؒ، جیسا عظیم مسلمان فلسفی، مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔
(جنگ 16 مارچ 2014)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
متذکرہ بالا کالم کی ”روح“ کو سمجھنے کے لئے مندجہ ذیل ”حقائق“ کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
  1. حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ایک خوشحال آغاخانی تاجر خاندان میں پیدا ہوئے۔ (غالباً) مڈل تک کی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن چلے گئے۔ گویا آپ ”شعوری عمر“ کو پہنچنے سے قبل ہی ”آغاخانی ماحول“ سے دور چلے گئے۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ لندن روانگی سے قبل آپ نے کوئی باقاعدہ ”آغاخانی دینی تعلیم“ بھی حاصل کی ہو۔
  2. لندن میں وہ ایک عام انگریزی (سیکولر) ماحول میں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس دوران ان کا رہن سہن انگریز امراء کا سا رہا۔ اور وہ کسی بھی دین (آغاخانی، اسلام ، عیسائیت) کی تعلیمات سے عملی طور پر جڑے ہوئے نہیں دکھائی دئے۔ تاہم خود کو ”مسلمان“ ضرور کہلواتے رہے۔ اور اس پر ”فخر“ بھی کرتے رہے۔ یہ واقعہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ انہوں نے قانون کی تعلیم کے لئے ایک ایسے تعلیمی ادارہ کو ”منتخب“ کیا، جہاں دنیا کے نمایاں قانون دانوں کی فہرست میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سر فہرست رکھا گیا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نوجوان طالب علم کی محبت کا ایک بڑا ”ثبوت“ ہے۔
  3. بیرسٹر بن کر وہ بمبئی پہنچے اور ایک سیکولر اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کے طور پر پریکٹس کا آغاز کیا۔ یقینی طور پر اس وقت تک وہ اسلام اور قرآن کی تعلیمات کی گہرائی سے تو نا آشنا تھے، مگر خود کو اسلام میں موجود فرقوں سے یقیناً ”بلند“ سمجھتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ شیعہ ہیں (آغاخانی بھی ایک طرح سے شیعہ ہی ہیں) یا سنی تو انہون نے کہا تھا کہ مجھے بتلائیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شیعہ تھے یاسنی۔ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننے والا ہوں۔
  4. اسی دوران جب آپ کی پہلی خاندانی بیوی کا انتقال ہوا اور بمبئی جماعت خانہ نے اپنے عقیدہ کے مطابق جنت میں ان کی بکنگ کے لئے قائد اعظم سے رقم کا مطالبہ کیا تو قائد اعظم کو یہ بات عجیب و غریب لگی اور انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں موجود ہے، تبھی وہ ایسی کوئی ادائیگی کریں گے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے بمبئی ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ بھی جیت لیا اور جماعت خانہ کو کوئی ادائیگی نہیں کی۔ اور عدالت میں آغاخانی عقائد سے خود کو بری الذمہ قرار دیا۔
  5. کہا جاتا ہے کہ اسی کے بعد قائد اعظم نے مختلف انگریزی تراجم کی مدد سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ایک قابل فاضل بیرسٹر نے جب قرآن کا مطالعہ کیا ہوگا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کتنی جلدی اسلام کے اصل پیغام کو پالیا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود انہیں کوئی ”عالم دین“ نہیں سمجھتا اور نہ ہی وہ خود کو ایسا سمجھتے تھے۔ وہ ہندوستانی مسلمانون کے جملہ مسائل کو قرآن اور علماء کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔
  6. یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کو چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کرتےہوئے کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی متوقع غلامی (جمہوریت کی شکل میں) سے بھی آزاد کروایا۔ لیکن افسوس کہ ایک آزاد مملکت پاکستان میں آنکھ کھولنے والے، تاریخ مسلمانان ہند سے ناواقف بہت سے ”نادان مسلمان“ آج بھی قائد اعظم کو ”شیعہ، آغا خانی، کافر“ سمجھتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو قائد اعظم سے زیادہ ”پارسا اور سچا مسلمان“ سمجھتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تصویر کا دوسرا رخ کافی دلچسپ ہے ۔
بہت شکریہ یوسف ثانی صاحب ان معلومات کے لیے ۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
نیک نے نیک سمجھا، بد نے بد جانا مجھے
جس کا جتنا ظرف تھا اتنا ہی پہچانا مجھے
شام کو مے پی صبح کو توبہ کرلی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
شاید پوری طرح صادق نہ آئے ،لیکن ۔۔۔۔۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
شام کو مے پی صبح کو توبہ کرلی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
بہت خوب ۔ ماشا ء اللہ آپ کا شعری ذوق بھی بہت اعلیٰ ہے۔

لیکن اس شعر میں شاعر ”توبہ“ سے ”کھلواڑ“ کرتے ہوئے بین السطور ”زاہد خشک“ کو اللہ سے لڑوانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں تو ساری زندگی ”پیاسا کا پیاسا“ رہا اور رند پینے کے بعد بھی (بعد از توبہ سہی) جنت میں آگیا؟ کیا یہ اسلامی تعلیمات میں سے نہیں ہے کہ گناہ کے بعد اگر کسی نے توبہ کرلی تو گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں؟

خیر یہ تو ”معاملات شعر و سخن“ ہیں۔ انہیں چھوڑئیے اور کچھ سنجیدہ اور سوچنے سمجھنے کی باتیں کرتے ہیں۔

آج کل "ایک ہی صفحہ پر" کا بڑا چرچہ ہے کہ اگر فلاں اور فلاں ایک ہی صفحہ پر آجائیں تو سارا مسئلہ حل ہوجائے۔ اب ٖقائد اعظم، ہندوستان کے مسلمان اور ہندوستان کے علمائے کرام کو اسی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کیجئے۔
  1. تحریک پاکستان کے دوران گو علمائے کرام اور قائد اعظم ایک ہی صفحہ پر نہیں تھے (الا ماشاء اللہ) لیکن برصغیر کے مسلمان اور حضرت قائد اعظم ” رح ایک ہی صفحہ“ پر آگئے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالٰی نے تحریک پاکستان کو کامیاب کیا۔
  2. قیام پاکستان کے بعد قیام پاکستان کے مخالف یا غیر حامی علمائے کرام اور ان کی جماعتیں (جیسے جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام) نے عملی طور پر پاکستان کو ”قبول“ کیا۔ گویا یہ بھی بالآخر قائد اعظم اور ان کے پاکستان کے ساتھ ایک صفحہ پر آگئے
  3. پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اور پاکستان کو اللہ تعالیٰ کا تحفہ گردانتی ہے اور بانی پاکستان کی حیثت سے قائد اعظم کے اس احسان پر حضرت قائد کی شکر گذار ہے۔ گویا من حیث القوم پاکستانی عوام اور قائد اعظم ایک ہی صفحہ پر ہیں۔
  4. قائد اعظم کی زندگی کے ”دو روپ“ ہیں۔ ایک تصویر ”سیکولر اور اسلام سے لاتعلقی“ والی ہے تو دوسری تصویر ”محب اسلام اور قرآن پر سچے ایمان“ والی۔
  5. آج پاکستان کے ”اسلام پسند مسلمان“ اور ”قائد اعظم کی تصویر کا دوسرا رُخ“ دونوں ایک ہی صفحہ پر موجود ہیں۔
  6. جبکہ پاکستان کے اقلیتی سیکولر عوام و خواص ہوں یا شراب و شباب اور ڈالر کے رسیا عوام و خواص، انہیں فطری طور پر قائداعظم کی پہلی تصویر ہی ”سوٹ“ کرتی ہے۔ اسی لئے وہ قائد اعظم کے اسی پہلے روپ کے ساتھ ایک ہی صفحہ پر کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں۔
  7. مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ”علمائے حق“ آخر کس مقصد کے لئے قائد اعظم کے ”پہلے روپ“ ہی کو اُن کا ”آخری روپ“ قرار دینے پر مصر ہیں؟ انہیں حضرت قائد اعظم کی اُسی پہلی تصویر کو بار بار پورٹریٹ کرنے ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ وہ مندرجہ بالا اقلیتی عوام و خواص اور حضرت قائد اعظم کو ایک ہی صفحہ پر کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔ کیوں آخر کیوں؟
  8. قائد اعظم آئے، غلام مسلمانوں کو آزاد کرایا، پاکستان بنایا، مسلمانوں کے حوالہ کیا اور چلے گئے۔ اب وہ جانیں اور اُن کا اللہ کہ حقیقت میں وہ کیا تھے۔ وہ اول و آخر رند ہی رہے یا شام کو پینے والے نے صبح کو توبہ کرلی تھی۔ کیا حضرت قائد اعظم رح کے اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن سے متعلق قبل از مرگ والے اتنے سارے اقوال و بیانات تو ان کی ”توبہ“ کی طرف اشارہ نہیں کرتے؟
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ہر سال نوجوان نسل ایک سوال پوچھتی ہے کہ آخر پاکستان کیوں بنا تھا ؟ بالکل اسی طرح جیسے ایک صاحب جائداد سے جائداد سنبھلتی نہیں تو وہ اپنے بزرگوں کو برا بھلا کہتا ہے کہ اس سے تو بہتر ہوتا کہ کوئی کاروبار کرلیا ہوتا ، یا کسی اچھے کاروبار میں سرمایہ کاری کر لی ہوتی ، کمائی آتی اور ہم آرام سے کپہیں بھی بہتر مکان کرائے پر لے کر رہ لیتے ۔ اب یہ مکان تو گلے ہی پڑ گیا کبھی دیواروں میں چوہے بل بنا لیتے ہیں اور کبھی دروازے کی چوکھٹ کو دیمک چاٹتی ہے بہتر یہی ہے کہ اس کے دروازے ، کھڑکیاں اور ملبہ بیچ کر سب بھائی اپنا پنا خود دھندہ کریں ۔ لیکن مکان کی اہمیت کیا ہے یہ کوئی مجھ سے پوچھے ، یہ شناخت ہے ، آج جبکہ میری عمر ساٹھ سال ہو چکی ہے میں کرائے کہ مکان میں رہتا ہوں ۔ ایک انچ قطعہ زمین میری نہیں جب میں شناختی کارڈ بنوانے نادرا کے دفتر گیا تو انہوں نے میرا مستقل پتہ پوچھا میں نے انہیں بتایا کہ میرا مستقل پتہ فی الحال یہی عارضی پتہ ہے کیونکہ میرا کوئی گھر نہیں ، وہ مجھے اپنے افسر کے پاس لے گیا کہ جناب ان کا کوئی مستقل پتہ ہی نہیں ۔ دیکھا ، یہ مکان ہی شناخت بنتی ہے ۔

اس بار اس مضمون کی ترغیب اس طرح ہوئی کہ اس دھاگے میں بعض ساتھیوں نے تحریک پاکستان کو ایک سازش قرا ردیا ۔یعنی ایک ایسی سازش جس برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ملک مل گیا ۔ کیا یہ ایک سازش تھی یا یہ ملک جس مقصد کے لئے بنا تھا اس سے دور کرنا ایک سازش تھی ۔
کیا دو قومی نظریہ غلط تھا ؟​
طالب علموں کو اسکولوں کالجوں میں بتایا جاتا ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی تو یہ بھی تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ سرسید سے بہت پہلے لالہ لجپت رائے اور دوسرے بہت سے بھارتی دو قومی نظریہ دے چکے تھے مگر جانے کیا وجہ تھی کہ دو قومی نظریے کا سہرا سرسید کے سر باندھا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی خدمات تحریک پاکستان کے لیے بلاواسطہ کہیں زیادہ ہیں اور یہ انہی کے علی گڑھ کالج کے فیضان کا اثر تھا کہ پاکستان کی تحریک نے زور پکڑ لیا وگرنہ مسلمانوں کے لیے پاکستان کا حصول کم از کم ایک صدی تک ممکن نہ تھا۔​

دو قومی نظریے کی بنیاد غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے البیرونی نے اپنی کتاب "کتاب الہند"میں پیش کی۔ اس نے واضح طور پر لکھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ اس نے تو یہاں تک بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ قوم قرار دیتے ہیں اور ان سے کراہیت کرتے ہیں۔

1193 ء میں شہاب الدین غوری نے اُس وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پرتھوی راج چوہان کو جنگ سے بچنے کے لیے مشورہ دیا کہ دریائے سندھ کا اس طرف والا حصہ (جو اب پاکستان میں شامل ہے) غوری کو دے دیا جائے جبکہ دریائے سندھ کا دوسری طرف والا حصہ (جس میں آج کا بھارت شامل ہے) وہ رکھ لے مگر چوہان نے اس کی بات نہ مانی اور شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔
اور بقول ہمارے قائد اعظم ؒ کے کہ برصغیر میں دو قومی نظریہ اسی دن پیدا ہوگیا تھا جب یہاں کے پہلے ہندو نے اسلام قبولکیا اور وہ اپنی برادری سے کٹ کر مسلم قوم کا حصہ بنا۔

یہ بات تو واضح ہے کہ ہندووں ، یہودیوں ، عیسائیوں ،سکھوں ، پارسیوں کی طرح ایک قوم ہیں۔ جن کی اپنی تۃذیب ، و روایات ، رسم و رواج ہیں یعنی قومی نظریہ تو مسلم ہے ۔ اب بحث یہ ہے کہ ہندو مسلم اکٹھے کیوں نہیں رہے ؟ جبکہ سینکڑوں سال سے وہ رہ رہے تھے ۔

بلا شبہ مسلمان اور ہندو سینکڑوں سال سے رہ رہے تھے مگر جیسا کہ البیرونی کی کتاب " کتاب الہند " میں ذکر ہے کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ سمجھتے تھے ۔ مسلمان ایک نیچ قوم کی حیثیت سے ذہنی غلام تھے ۔ یا د رہے کہ یہ وہ مسلمان نہیں تھے جو ایران ، ترک یا عرب سے آئے تھے ان سیدوں ،شیرازیوں ، گیلانیوں ، برلاس ، قریشیوں بخاریوں کو مقام حاصل تھا یہ وہ مسلمان تھے جن کا نسلی تعلق ہندووں ہی کی مختلف برادریوں سے تھا جن میں بگٹی ، مینگل ، بھٹو ، بھٹی ، شیخ ، راو ، رانا ،کھوکھر، سبھی شاامل تھے ۔مگر ان کے قبول اسلام ہی سے وہ ہندو قوم سے جدا ہو کر امت مسلمہ میں شامل ہوگئے اور ہندووں کی نظر میں نیچ کہلائے ۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے ساڑھے پانچ سو سے زائد ریاستیں تھیں جن کے ماتحت جاگیریں تھٰن۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے وہاں رواداری ، مساوات عام تھی ، مگر جن کے حکمران ہندو تھے وہاں تعصب عام تھا۔ ہو سکتا ہے مسلمان حکمران ہندووں کی اکثریت اور حیثیت کی وجہ سے مصلحتاً رواداری برتتے ہوں مگر بعض حالات میں ایسا نہیں تھا۔بے شک انگریزوں نے بزور شمشیر اور عیاری و مکاری سے برصغیر پر قبضہ کیا مگر انہوں نے عوامی مفاد کے لئے کام بھی بہت کئے جن میں تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں کے قیام کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھانا انہیں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ۔انگریزوں کی غلامی کا جو سب سے اہم فائدہ ہوا وہ جذبہ حریت کا پیدا ہونا تھا ۔ ورنہ انگریزوں کی آمد سے قبل یہ ہندو اور مسلمان اپنے جاگیردار یا نواب کی بیگار و خدمت گذاری کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے تھے۔ سینکڑوں سال سے مقامی حکمران ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتے تھے ۔ یہ غلامی ہماری گھُٹی میں شامل تھی اور ہے آج بھی ہم اپنے محلے ، اپنی بستی کے غنڈے ، جابر و ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتے ۔بہر حال ہندو اور مسلامانوں نے امل کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی جس میں اگر مینگل پانڈے ،بھگت سنگھ ، جیسے آزادی کے متوالے تھے تو دلا بھٹی ۔ رائے احمد خان کھرل ، عجب خان آفریدی جیسے بھی اس قافلے میں شامل تھے مگر اُس دور کے خوشامد یوں نے انہیں ڈاکو اور لٹیرے کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ آزادی کی جنگ دونوں قوموں نے لڑی ۔ اُس وقت معاشی اور معاشرتی طور پر ہندو مسلمانوں کے مقابل میں بہت مستحکم تھے ۔ مسلمانوں کی اکثریت مقامی طور پر ان کے تابع تھی ۔ جہاں ہندو کم تھے وہاں بھی معاشرتی اور سیاسی طور پر وہ غالب تھے اس لئے یہ یقین کامل تھا کہ مسلمان آزادی کے بعد پھر ماضی کی طرح ہندووں کی غلامی میں آجائیں گے ۔۔ اس موقع پر مسلمانوں کا ایک مفاد پرست طبقے نے جن میں پنجاب کی یونیسسٹ پارٹی اور خیبر پختون خواہ کی کانگریس مذہبی علما سے مل کر پاکستان اور دو قومی نظریہ کی مخالفت کی ۔ آج حالت یہ ہے کہ جو لوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، آج انہیں کی اولادیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں

پنجاب کی یونیسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہو سکی

بلوچستان کی بات جانے دیجیے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر تھی۔ آئیے خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سرزمین اُس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی خیبر پختون خوا میں ریفرنڈم کران پڑا جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی آج اے۔این۔پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے آج خیبرپختونخواہ کی سیاست پر راج کر رہا ہے۔ کیا یہ تاریخ کا مذاق نہیں؟

جن اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور پاکستان کو ایک حرافہ سے تشبیح دی۔ مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں کیا یہ تاریخ کا ظلم نہیں؟ محسن بھوپالی نے اسی لئے کہا تھا
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے​

درباری ملاؤں اور مفاد پرست سیاست دانوں نے پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا دھچکا کسی نہیں پہنچایا۔ بازاری عورتیں ان سے افضل ہیں کہ جہاں وہ بے چاری اپنا جسم فروخت کرتی ہیں اور یہ یہ چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرتے ہیں یہ وہی ہیں۔جنہوں نے شیعہ کو سنی کے ہاتھوں اور سنیوں کو شیعوں کے ہاتھ شہید کروایا۔ انہوں ہی نے قوم کو علاقائی ، فرقوں اور مختلق قویتوں میں تقسیم کردیا خدا کی لعنت ہو ایسے لو گوں پر۔ خدا کی مار پڑے ایسے جہنمیوں پر۔وگرنہ میرے آقا محمد ﷺ نے تو سدا امن کا،پیار و محبت کا آشتی اور مذہبی رواداری کا پیغام دیا۔

تو عرض یہ ہے کہ یہ ارض پاکستان سازش کا تحفہ نہیں عطیہ خداوندی ہے جو 27 رمضان کو معرض وجود میں آیا ۔ہمارا نظریہ مستحکم ہے ، ہمارا عقیدہ و ایمان ہمیں باہم اور غیر مسلموں سے رواداری ، مساوات ، امن و سلامتی کا درس دیتا ہے ۔ مثبت سوچ سے ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔ (از: سید زبیر، اردو محفل)
 
Top