- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,409
- پوائنٹ
- 562
اس موضوع پر میرا گزشتہ کالم 16مارچ (اتوار) کے جنگ میں چھپا تھا جس میں میں نے جنرل اکبر اور عبدالرشید بٹلر گورنر ہائوس پشاور کے مشاہدات کے حوالے سے قائد اعظم کی قرآن مجید میں گہری دلچسپی اور قرآن فہمی کا ذکر کیا تھا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ قائد اعظم انگریزی لباس پہنتے، انگریزی بولتے اور برٹش انداز کی زندگی گزارتے تھے اس لئے ان کے بارے میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ انہیں مذہب اور قرآن مجید سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اسی تاثر کا فائدہ اٹھا کر روشن خیال سیکولر دانشور یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ محض لوگوں کو مسلم لیگ میں آنے کی ترغیب دینے کے لئے بار بار اسلام اور قرآن حکیم کا ذکر کرتے تھے ۔ یہ ان حضرات کا سطحی نقطہ نظر ہے کیونکہ انہوں نے قائد اعظم کو سمجھنے کی خلوص نیت سے کوشش ہی نہیں کی نہ ہی انہیں اصلی قائد اعظم ''سوٹ '' کرتا ہے بظاہر انگریزی لباس پہننے والے محمد علی جناح کا باطن حب رسول ؐ اور قرآن فہمی سے منور تھا جس کی واضح علامتیں بلکہ ثبوت ان کے فرمودات میں ملتے ہیں۔ قول وفعل کے تضاد کا الزام تو قائد اعظم کے بدترین دشمن بھی نہ لگا سکے اس لئے یقین رکھیئے کہ وہ سچا اور کھرا انسان جو کہتا تھا اس پر قلبی یقین رکھتا تھا۔ قائد اعظم کا نہ کوئی ذاتی مفاد تھا نہ کوئی ذاتی ایجنڈا، انہوں نے زندگی کا ہر قیمتی لمحہ مسلمان قوم کے لئے وقف کیا ہوا تھا۔ مثلاً جب وہ گاندھی کے نام خط وکتابت (10ستمبر سے لیکر 30ستمبر 1944) میں لکھتے ہیں کہ قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔اس میں مذہبی ،مجلسی، دیوانی، فوجداری ،عسکری، تعزیری، معاشی اور سیاسی غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں تو یہ ان کی قرآن فہمی کا اعجاز ہے۔
اسی طرح جب قائد اعظم 4مارچ 1946ء کو شیلانگ میں خواتین کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''ہندو بت پرستی کے قائل ہیں، ہم نہیں ہیں ہم مساوات، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں جبکہ ہندو ذات پات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہمارے لئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم صرف ایک بیلٹ بکس میں اکٹھے ہو جائیں۔ آئیے اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم اور حدیث نبوی ؐ اور اسلام کی عظیم روایات کی طرف رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کے لئے ہر چیز موجود ہے ۔ہم خلوص نیت سے ان کی پیروی کریں اور اپنی عظیم کتاب قرآن کریم کا اتباع ''تو یہ الفاظ ان کے قلب کی گہرائیوں سے نکل رہے تھے اور اس جذبے کے ساتھ قائد اعظم نے مشورہ دیا ''ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے ''کیونکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے (Complete Code) جو زندگی کے ہرشعبے پر محیط ہے '' قائد اعظم کی تقاریر، مرتبہ خورشید یوسفی، ،جلد سوم صفحہ 2053عید پیغام 8ستمبر 1945ء)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، قرآن ایک مکمل کوڈ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے ۔قرآن اور اسوہ حسنہ ؐ کا اتباع ہماری نجات کی ضمانت رہتا ہے ،یہ الفاظ، یہ مفہوم اور پیغام قائد اعظم نے اتنی بار دیا کہ اسکی گنتی کرنی ممکن نہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اگر کوئی سچا کھرا اور صاحب کردار یہ بات لگاتار کئی برس تک اور مدت تک کہتا رہے تو یہ اسکے سچے عشق اور گہری لگن کی علامت ہوتی ہے ۔
مسلمانوں میں مذہبی شعور کے احیاء اور اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی کا ہی نتیجہ تھا کہ قائداعظم وائسرائے ہند اور لارڈلن لتھگو سے ملے اور اس سے اجازت لیکر عید کے موقع پر 13نومبر 1939ء کو آل انڈیا ریڈیوسے مسلمانان ہندو پاکستان سے خطاب کیا یہ خطاب پڑھنے کے لائق ہے کیونکہ اس میں فلسفہ رمضان و نماز اور تعلیمات رسول ؐ پر جس طرح قائد اعظم نے روشنی ڈالی ہے یہ ان کی قرآن فہمی کا زندہ ثبوت ہے ۔ اقتصابات دینے ممکن نہیں صرف ان چند الفاظ پر غور کیجئے تو آپ پر اسلام کی روح کے دروازے کھلتے جائیں گے ۔ قائد اعظم کے الفاظ تھے ۔
Man has indeed been called God's Caliph in the Quran.....it imposes upon us a duty to follow the Quran and to behave towards others as God behaves towards his mankind (speemhes of Quid-e- Azam, Khurshid yusufi Vol II p.1060-62
مطلب یہ کہ قرآن حکیم میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا زمین پر خلیفہ قرار دیا گیا ہے ۔اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کریں اور دوسروں سے اسی طرح سلوک کریں جس طرح اللہ بھی انسانوں سے کرتا ہے۔سبحان اللہ
وزیر آباد کے معلم طوسی صاحب قائد اعظم کی دعوت پر ان کی لائبریری میں چند ماہ کام کرتے رہے انہوں نے اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ قائداعظم کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی تراجم موجود تھے جنہیں وہ پڑھتے رہتے تھے ۔جناب شریف الدین پیرزادہ کئی برس قائد اعظم کے سیکرٹری رہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا ''قائد اعظم کے پاس قرآن حکیم کے چند ایک عمدہ نسخے تھے ۔ان میں کچھ قلمی بھی تھے ایک بہترین نسخہ احتراماً جزدان میں ان کے بیڈروم میں اونچی جگہ رکھا رہتا تھا ۔میں نے انہیں محمد مارما ڈیوک پکتھال کا قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ پڑھتے دیکھا ۔پکتھال انگریز تھا جو بعدازاں مسلمان ہو گیا ''(بحوالہ قائداعظم اور قرآن فہمی محمد حنیف شاہد صفحہ 73)
میں نے شروع میں ذکر کیا تھا ایک جرنیل اور ایک بٹلر کا لیکن قائد اعظم کی قرآن فہمی کی تصدیق ایک ایسے شخص نے بھی کی ہے جو بذات خود علم و فضل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھا، اسلام اور قرآن مجید پر گہری نظر رکھتا تھا اور ہندو پاکستان میں نہایت احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا ۔وہ شخصیت تھی حضرت مولانا غلام رشدجو قیام پاکستان سے قبل تاریخی شاہی مسجد لاہور کے خطیب رہے اور جن کا علامہ اقبال سے اتنا گہرا تعلق تھا کہ انہوں نے 1926ء میں علامہ اقبال کے پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا ۔ مولانا خود مفسر اور شارح قرآن تھے اس لئے ان کی گواہی حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ملاحظہ فرمائیے مولانا غلام رشد کیا فرماتے ہیں قائد اعظم کا قرآن حکیم کے ساتھ کس قدر گہرا تعلق تھا میں اس میں ایک ذاتی واقعہ کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں ۔1945ء کے آخری ثلث کی بات ہے کہ قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے اراکین کے ساتھ ''ممدوٹ ولا '' لاہور میں قیام پذیر تھے ۔ایک نمائندے کے ذریعے مجھے یاد فرمایا میں فوراً تیار ہو گیا لیکن خیال آیا کہ میں انگریزی نہیں جانتا ۔اتفاق سے جناب مسعود کھدر پوش آئی سی ایس ڈپٹی کمشنر نواب شاہ میرے پاس بیٹھے تھے ۔ان سے ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے کو کہا ہم ممدوٹ ولا پہنچ گئے ۔قائد اعظم منتظر تھے فرمایا ایک اہم دینی مقصد کے لئے بلایا ہے جمعیت علمائے ہند اور مولانا معین احمد مدنی جیسے نیشنلسٹ علماء تحریک پاکستان کی مخالفت میں سرگرم ہیں بہت سے علما ہمارے ہم نوا ہیں لیکن ان کی کوئی تنظیم نہیں ہے ۔اس مقصد کے لئے نامزد صدر مولانا شبیر احمد عثمانی نے افتتاح کرنا تھا وہ علیل ہو گئے ہیں پھر کہا تم جلد از جلد خطبہ افتتاحیہ تیار کرو خاکسار نے شکریہ ادا کرکے رخصت چاہی تو فرمایا '' ذرا ٹھہرو چند بنیادی نکتے ذہن میں رکھ لو ان کے سامنے میز پر قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ رکھا تھا اسے ہاتھ میں لیکر فرمایا میرا اس حقیقت پر ایمان ہے کہ اس کتاب عظیم میں دنیا اور آخرت کی زندگیوں کے متعلق مکمل ضابطے اور آئین موجود ہے ۔مثال کے طور پر انہوں نے کہا قرآن حکیم میں کہا گیا ہے کہ جرم کی سزا جرم کی نوعیت کے مطابق دی جائے اس پر میں نے کہا آپ کے ذہن میں غالباً قرآن کریم کی وہ آیت ہے (ترجمہ جن میں لوگوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا بدلہ تو اسی جیسا ہوتا ہے ) (سورہ یونس 27/10) اس پر انہوں نے قرآن حکیم کھولا اور اس آیت کو دیکھ کر فرمایا بے شک یہی آیت میرے ذہن میں تھی۔ اس کے بعد کہا دیکھو یہ ایک اصولی حکم ہے اور ابدی ۔یہ دیکھنا اسلامی مملکت کا کام ہو گا کہ معاشرہ کے حالات کی روشنی میں کس جرم کی سزا کتنی ہونی چاہئے جو قرآن کریم کے اصولوں کے مطابق ہو۔ میں نے سلسلہ کلام منقطع کرتے ہوئے عرض کیا حضور ؐ نے ایسا کچھ خود اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کیا تھا جس کی رو سے کہا گیا تھا (ترجمہ اور معاملات میں ان سے مشورے کر لیا کرو آل عمران 159/3) انہوں نے پھر قرآن مجید کھولا اور اس آیت کو نکال کر کہا کہ بات بالکل واضح ہے ۔
انہوں نے فرمایا حضور ؐ کے بعد امت کو بھی اس طرح تدوین قوانین کرنا ہوگی میں نے عرض کیا اس کے لئے خدا کا حکم موجود ہے (ترجمہ اور جن کے معاملات باہمی مشورے سے ہوتے ہیں سورۃ الشوریٰ 38/42پر انہوں نے پھر قرآن حکیم سے یہ آیت نکالی اور کہا خدا کی یہ ہدایت ہماری رہنمائی کے لئے کس قدر واضح ہے اسلامی مملکت جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں اس کے آئین کی بنیاد یہی ہو گی ۔وہ اس گفتگو کو زیادہ وقت دینا چاہتے تھے لیکن مسلم لیگ کے اراکین کے اصرار پر مختصر کرنا پڑا ۔ میں اٹھا تو فرمایا دو بنیادی اور ناقابل معافی جرم ہیں ایک شرک دوسرا تفرقہ، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ایک مومن دوسرا کافر اسی کا نام دو قومی نظریہ ہے ۔ اس نکتے کو ذہن میں رکھنا ۔جائو خدا حافظ، میں رخصت ہو کر آیا تو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ یہ شخص جسے عام طور پر بیرسٹر سمجھا جاتا ہے اسلام کے بنیادی اصولوں پر کتنی گہری نگاہ رکھتا ہے ۔
میں مختلف مکتبوں اور دارالعلوموں میں تعلیم حاصل کرتا رہا بڑی بڑی نامور ہستیوں سے شرف تلمندحاصل رہا سیاسی لیڈروں مذہبی رہنمائوں کو بھی دیکھا لیکن مجھے پوری زندگی میں قائد اعظم سے بڑھ کر کوئی شخصیت متاثر نہ کرسکی۔ میں نے ہر ایک کو ان سے کم تر پایا بلندی کردار کے اعتبار سے بھی اور قرآنی بصیرت کے نہج سے بھی اس قسم کے انسان صدیوں میں جاکر پیدا ہوتے ہیں '' روزنامہ نوائے وقت 24ستمبر 2008بحوالہ حنیف شاہد ص 86۔81)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم نے قرآن حکیم ، اسوہ حسنہ ؐ اسلامی قوانین وغیرہ کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور ان کا تصور پاکستان بھی انہی سے ماخوذ تھا جس کا ذکر بار بار ان کی تقریروں میں ملتا ہے اس حوالے سے ان کے الفاظ کسی سیاسی مقصد کےلئے نہیں بلکہ ان کی قلب و روح سے نکلتے تھے اور وہ ان پر مکمل ایمان رکھتے تھے ۔
اسی طرح جب قائد اعظم 4مارچ 1946ء کو شیلانگ میں خواتین کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''ہندو بت پرستی کے قائل ہیں، ہم نہیں ہیں ہم مساوات، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں جبکہ ہندو ذات پات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہمارے لئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم صرف ایک بیلٹ بکس میں اکٹھے ہو جائیں۔ آئیے اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم اور حدیث نبوی ؐ اور اسلام کی عظیم روایات کی طرف رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کے لئے ہر چیز موجود ہے ۔ہم خلوص نیت سے ان کی پیروی کریں اور اپنی عظیم کتاب قرآن کریم کا اتباع ''تو یہ الفاظ ان کے قلب کی گہرائیوں سے نکل رہے تھے اور اس جذبے کے ساتھ قائد اعظم نے مشورہ دیا ''ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے ''کیونکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے (Complete Code) جو زندگی کے ہرشعبے پر محیط ہے '' قائد اعظم کی تقاریر، مرتبہ خورشید یوسفی، ،جلد سوم صفحہ 2053عید پیغام 8ستمبر 1945ء)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، قرآن ایک مکمل کوڈ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے ۔قرآن اور اسوہ حسنہ ؐ کا اتباع ہماری نجات کی ضمانت رہتا ہے ،یہ الفاظ، یہ مفہوم اور پیغام قائد اعظم نے اتنی بار دیا کہ اسکی گنتی کرنی ممکن نہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اگر کوئی سچا کھرا اور صاحب کردار یہ بات لگاتار کئی برس تک اور مدت تک کہتا رہے تو یہ اسکے سچے عشق اور گہری لگن کی علامت ہوتی ہے ۔
مسلمانوں میں مذہبی شعور کے احیاء اور اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی کا ہی نتیجہ تھا کہ قائداعظم وائسرائے ہند اور لارڈلن لتھگو سے ملے اور اس سے اجازت لیکر عید کے موقع پر 13نومبر 1939ء کو آل انڈیا ریڈیوسے مسلمانان ہندو پاکستان سے خطاب کیا یہ خطاب پڑھنے کے لائق ہے کیونکہ اس میں فلسفہ رمضان و نماز اور تعلیمات رسول ؐ پر جس طرح قائد اعظم نے روشنی ڈالی ہے یہ ان کی قرآن فہمی کا زندہ ثبوت ہے ۔ اقتصابات دینے ممکن نہیں صرف ان چند الفاظ پر غور کیجئے تو آپ پر اسلام کی روح کے دروازے کھلتے جائیں گے ۔ قائد اعظم کے الفاظ تھے ۔
Man has indeed been called God's Caliph in the Quran.....it imposes upon us a duty to follow the Quran and to behave towards others as God behaves towards his mankind (speemhes of Quid-e- Azam, Khurshid yusufi Vol II p.1060-62
مطلب یہ کہ قرآن حکیم میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا زمین پر خلیفہ قرار دیا گیا ہے ۔اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کریں اور دوسروں سے اسی طرح سلوک کریں جس طرح اللہ بھی انسانوں سے کرتا ہے۔سبحان اللہ
وزیر آباد کے معلم طوسی صاحب قائد اعظم کی دعوت پر ان کی لائبریری میں چند ماہ کام کرتے رہے انہوں نے اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ قائداعظم کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی تراجم موجود تھے جنہیں وہ پڑھتے رہتے تھے ۔جناب شریف الدین پیرزادہ کئی برس قائد اعظم کے سیکرٹری رہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا ''قائد اعظم کے پاس قرآن حکیم کے چند ایک عمدہ نسخے تھے ۔ان میں کچھ قلمی بھی تھے ایک بہترین نسخہ احتراماً جزدان میں ان کے بیڈروم میں اونچی جگہ رکھا رہتا تھا ۔میں نے انہیں محمد مارما ڈیوک پکتھال کا قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ پڑھتے دیکھا ۔پکتھال انگریز تھا جو بعدازاں مسلمان ہو گیا ''(بحوالہ قائداعظم اور قرآن فہمی محمد حنیف شاہد صفحہ 73)
میں نے شروع میں ذکر کیا تھا ایک جرنیل اور ایک بٹلر کا لیکن قائد اعظم کی قرآن فہمی کی تصدیق ایک ایسے شخص نے بھی کی ہے جو بذات خود علم و فضل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھا، اسلام اور قرآن مجید پر گہری نظر رکھتا تھا اور ہندو پاکستان میں نہایت احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا ۔وہ شخصیت تھی حضرت مولانا غلام رشدجو قیام پاکستان سے قبل تاریخی شاہی مسجد لاہور کے خطیب رہے اور جن کا علامہ اقبال سے اتنا گہرا تعلق تھا کہ انہوں نے 1926ء میں علامہ اقبال کے پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا ۔ مولانا خود مفسر اور شارح قرآن تھے اس لئے ان کی گواہی حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ملاحظہ فرمائیے مولانا غلام رشد کیا فرماتے ہیں قائد اعظم کا قرآن حکیم کے ساتھ کس قدر گہرا تعلق تھا میں اس میں ایک ذاتی واقعہ کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں ۔1945ء کے آخری ثلث کی بات ہے کہ قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے اراکین کے ساتھ ''ممدوٹ ولا '' لاہور میں قیام پذیر تھے ۔ایک نمائندے کے ذریعے مجھے یاد فرمایا میں فوراً تیار ہو گیا لیکن خیال آیا کہ میں انگریزی نہیں جانتا ۔اتفاق سے جناب مسعود کھدر پوش آئی سی ایس ڈپٹی کمشنر نواب شاہ میرے پاس بیٹھے تھے ۔ان سے ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے کو کہا ہم ممدوٹ ولا پہنچ گئے ۔قائد اعظم منتظر تھے فرمایا ایک اہم دینی مقصد کے لئے بلایا ہے جمعیت علمائے ہند اور مولانا معین احمد مدنی جیسے نیشنلسٹ علماء تحریک پاکستان کی مخالفت میں سرگرم ہیں بہت سے علما ہمارے ہم نوا ہیں لیکن ان کی کوئی تنظیم نہیں ہے ۔اس مقصد کے لئے نامزد صدر مولانا شبیر احمد عثمانی نے افتتاح کرنا تھا وہ علیل ہو گئے ہیں پھر کہا تم جلد از جلد خطبہ افتتاحیہ تیار کرو خاکسار نے شکریہ ادا کرکے رخصت چاہی تو فرمایا '' ذرا ٹھہرو چند بنیادی نکتے ذہن میں رکھ لو ان کے سامنے میز پر قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ رکھا تھا اسے ہاتھ میں لیکر فرمایا میرا اس حقیقت پر ایمان ہے کہ اس کتاب عظیم میں دنیا اور آخرت کی زندگیوں کے متعلق مکمل ضابطے اور آئین موجود ہے ۔مثال کے طور پر انہوں نے کہا قرآن حکیم میں کہا گیا ہے کہ جرم کی سزا جرم کی نوعیت کے مطابق دی جائے اس پر میں نے کہا آپ کے ذہن میں غالباً قرآن کریم کی وہ آیت ہے (ترجمہ جن میں لوگوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کا بدلہ تو اسی جیسا ہوتا ہے ) (سورہ یونس 27/10) اس پر انہوں نے قرآن حکیم کھولا اور اس آیت کو دیکھ کر فرمایا بے شک یہی آیت میرے ذہن میں تھی۔ اس کے بعد کہا دیکھو یہ ایک اصولی حکم ہے اور ابدی ۔یہ دیکھنا اسلامی مملکت کا کام ہو گا کہ معاشرہ کے حالات کی روشنی میں کس جرم کی سزا کتنی ہونی چاہئے جو قرآن کریم کے اصولوں کے مطابق ہو۔ میں نے سلسلہ کلام منقطع کرتے ہوئے عرض کیا حضور ؐ نے ایسا کچھ خود اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کیا تھا جس کی رو سے کہا گیا تھا (ترجمہ اور معاملات میں ان سے مشورے کر لیا کرو آل عمران 159/3) انہوں نے پھر قرآن مجید کھولا اور اس آیت کو نکال کر کہا کہ بات بالکل واضح ہے ۔
انہوں نے فرمایا حضور ؐ کے بعد امت کو بھی اس طرح تدوین قوانین کرنا ہوگی میں نے عرض کیا اس کے لئے خدا کا حکم موجود ہے (ترجمہ اور جن کے معاملات باہمی مشورے سے ہوتے ہیں سورۃ الشوریٰ 38/42پر انہوں نے پھر قرآن حکیم سے یہ آیت نکالی اور کہا خدا کی یہ ہدایت ہماری رہنمائی کے لئے کس قدر واضح ہے اسلامی مملکت جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں اس کے آئین کی بنیاد یہی ہو گی ۔وہ اس گفتگو کو زیادہ وقت دینا چاہتے تھے لیکن مسلم لیگ کے اراکین کے اصرار پر مختصر کرنا پڑا ۔ میں اٹھا تو فرمایا دو بنیادی اور ناقابل معافی جرم ہیں ایک شرک دوسرا تفرقہ، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ایک مومن دوسرا کافر اسی کا نام دو قومی نظریہ ہے ۔ اس نکتے کو ذہن میں رکھنا ۔جائو خدا حافظ، میں رخصت ہو کر آیا تو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ یہ شخص جسے عام طور پر بیرسٹر سمجھا جاتا ہے اسلام کے بنیادی اصولوں پر کتنی گہری نگاہ رکھتا ہے ۔
میں مختلف مکتبوں اور دارالعلوموں میں تعلیم حاصل کرتا رہا بڑی بڑی نامور ہستیوں سے شرف تلمندحاصل رہا سیاسی لیڈروں مذہبی رہنمائوں کو بھی دیکھا لیکن مجھے پوری زندگی میں قائد اعظم سے بڑھ کر کوئی شخصیت متاثر نہ کرسکی۔ میں نے ہر ایک کو ان سے کم تر پایا بلندی کردار کے اعتبار سے بھی اور قرآنی بصیرت کے نہج سے بھی اس قسم کے انسان صدیوں میں جاکر پیدا ہوتے ہیں '' روزنامہ نوائے وقت 24ستمبر 2008بحوالہ حنیف شاہد ص 86۔81)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم نے قرآن حکیم ، اسوہ حسنہ ؐ اسلامی قوانین وغیرہ کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور ان کا تصور پاکستان بھی انہی سے ماخوذ تھا جس کا ذکر بار بار ان کی تقریروں میں ملتا ہے اس حوالے سے ان کے الفاظ کسی سیاسی مقصد کےلئے نہیں بلکہ ان کی قلب و روح سے نکلتے تھے اور وہ ان پر مکمل ایمان رکھتے تھے ۔