ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 177
- پوائنٹ
- 77
قاتلِ عثمان، گستاخِ امہات المومنین، سردار المنافقین مالک اشتر لعین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مالک بن حارث الاشتر النخعی نامی منافقین کا سردار، خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل، ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی توہین کرنے والا، امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا اسکے مومن ہونے کا انکار کرنا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسکو مسلمانوں کیلئے سخت فتنہ کا حدشہ ظاہر کرنا۔امام اہلسنت امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کا اسکو خوارج کے سردار کی طرح مترک قرار دینا۔ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی زاتی مفاد کیلئے نتئی ہوگیا تھا۔
❐ امی عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ایک دن عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا:
وَقَالَ: يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي، يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللهَ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي " ثَلَاثًا
اے عثمان عنقریب اللہ تمہیں ایک قمیص پہنائیگا، اگر منافقین اسے اتارنا چاہیں تو تم اُسے نہ اتارنا یہاں تک کہ مجھے آملو (یعنی شہید کردئے جاوں) یہ بات تین مرتبہ بیان فرمائی تھی۔
[مسند أحمد، رقم الحديث: ٢٤٥٦٦، ط الرسالة، قال الشیخ شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح]
رجال ثقہ :
01-الشهرة : عبد القدوس بن الحجاج الخولاني , الكنيه: أبو المغيرة(ثقة)
02-الشهرة : الوليد بن سليمان القرشي(ثقة)
03-الشهرة : ربيعة بن يزيد الإيادي(ثقة)
04-الشهرة : عبد الله بن عامر اليحصبي(ثقة)
05-النعمان بن بشير الأنصاري (متوفی 65)(صحابي صغير)
(اس روایت سے ثابت ہوگیا کہ عثمان کے قاتل مسلمان یا صحابہ نہیں بلکہ منافقین تھے)
❐ مالک بن حارث منافقین کا سردار تھا، محمد بن سعد رحمہ اللہ نے طبقات میں عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ نقل فرمایا:
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مالک الاشتر کو بلایا، اور فرمایا قَالَ: يَا أَشْتَرُ، مَا يُرِيدُ النَّاسُ مِنِّي؟
اے اشتر تیرے گماشتے مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟
الاشتر نے جواب دیا:
قَالَ: ثَلَاثٌ، لَيْسَ لَكَ مِنْ إِحْدَاهُنَّ بُدٌّ، قَالَ: مَا هُنَّ؟ قَالَ: يُخَيِّرُونَكَ بَيْنَ أَنْ تَخْلَعَ لَهُمْ أَمَرَهُمْ فَتَقُولَ: هَذَا أَمْرُكُمْ فَاخْتَارُوا لَهُ مَنْ شِئْتُمْ، وَبَيْنَ أَنْ تَقُصَّ مِنْ نَفْسِكِ , فَإِنْ أَبَيتَ هَاتَيْنِ فَإِنَّ الْقَوْمَ قَاتِلُوكَ
تین باتوں جن میں سے ایک کے بغیر اپ کیلئے چارہ نہیں فرمایا وہ کیا ہیں؟ الاشتر نے کہا وہ لوگ اپ کو اختیار دیتے ہیں کہ یا آپ ان کے حق میں حکومت سے دست بردار ہوجائیں اور کہہ دیں کہ یہ تہماری حکومت ہے، تم جسے چاہو امیر بناو، یا اپ اپنی جان سے ان لوگوں کو قصاص لینے دیں، اگر آپ کو ان دونوں سے انکار ہے تو یہ لوگ اپ سے جنگ کرینگے۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
قَالَ: أَمَّا أَنْ أَخْلَعَ لَهُمْ أَمَرَهُمْ فَمَا كُنْتُ لِأَخْلَعَ سِرْبَالًا سَرْبَلَنِيهُ اللَّهُ، قَالَ: وَقَالَ غَيْرُهُ: وَاللَّهِ لِأَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَخْلَعَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ
یہ ممکن نہیں کہ میں حکومت سے دست بردار ہوجاوں، میں اس کرتے کو اتارنے والا نہیں جو اللہ نے مجھے پہنایا ہے واللہ اگر مجھے آگے کر کے گردن مار دی جائے تو یہ زیادہ پسند ہے بہ نسبت اسکے کہ امت محمد کو بعض پر بعض کو چھوڑ دو۔
[الطبقات الكبرى - ط الخانجي، ج: ٣، ص: ٦٩]
رجال ثقہ :
00-محمد بن سعد بن منيع الهاشمي (ثقة )
01- إسماعيل بن علية الأسدي , الكنيه: أبو بشر(ثقة حجة حافظ)
02-عبد الله بن عون المزني , الكنيه: أبو عون(ثقة )
03-الحسن البصري , الكنيه: أبو سعيد(ثقة)
04- وَثَّابٌ مولی عثمان( حافظ ابن حجر نے لکھا:وقال ابن أبي خيثمة في تاريخه سمعت ابن معين يقول: "إذا روى الحسن البصري عن رجل فسماه فهو ثقة يحتج بحديثه" وذكره ابن حبان في الثقات،تهذيب التهذيب)
❐ امام ابو بکر ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے مصنف میں کلیب بن شھاب الجرمی سے نقل فرمایا:
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا عامل مقرر کیا۔ تو مالک اشتر النخعی کا ساتھی عتاب التغلبی اشتر کے پاس آیا اسکے گلے میں تلوار لٹک رہی تھی، اور اس نے کہا:
قَالَ: فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عَتَّابٌ التَّغْلِبِيُّ وَالسَّيْفُ يَخْطِرُ أَوْ يَضْطَرِبُ فِي عُنُقِهِ فَقَالَ: هَذَا أَمِيرُ مُؤْمِنِيكُمْ قَدِ اسْتَوْلَى ابْنُ عَمِّهِ عَلَى الْبَصْرَةِ
یہ تمہارے مومنین کے امیر نے اپنے چاچے کے بیٹے کو بصرہ کی حکومت دے دی۔
تو الاشتر غصہ سے مسکرایا اور بولا:
فَتَبَسَّمَ تَبَسُّمًا فِيهِ كُشُورٌ , قَالَ: فَقَالَ: فَلَا نَدْرِي إِذًا عَلَامَ قَتَلْنَا الشَّيْخَ بِالْمَدِينَةِ؟
اگر ایسا ہوا تو ہم نہیں جانتے کہ ہم نے شیخ(امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ عنہ) کو مدینہ میں کیوں قتل کیا؟
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت، رقم الحديث: ٣٧٧٥٧]
00-ابن أبي شيبة العبسي , الكنيه: أبو بكر( ثقة حافظ )
01-حماد بن أسامة القرشي , الكنيه: أبو أسامة( ثقة ثبت)
02-العلاء بن منهال الغنوي(ثقة، أبو زرعة و عجلی، و ابن حبان)
03- عاصم بن كليب الجرمي(ثقة)
04-كليب بن شهاب الجرمي (ثقة)
❐ محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ نے اپنی سند سے یہی واقعہ اس طرح نقل کیا:
الاشتر کو جب معلوم ہوا کہ علی نے عبداللہ بن عباس کو بصرہ کا عامل بنا دیا تو غصہ میں بولا:
وأتاه الخبر باستعمال عَلِيّ ابن عباس فغضب وقال: علام قتلنا الشيخ! إذ اليمن لعبيد اللَّه، والحجاز لقثم، والبصرة لعبد اللَّه، والكوفة لعلي
کیا اسی لئے ہم نے اس بوڑھے (عثمان رضی اللہ عنہ) کو قتل کیا تھا کہ یمن عبید اللہ بن عباس کو دے دیا جائے، حجاز قثم بن عباس کو دے دیا جائے، بصرہ عبداللہ بن عباس کو اور کوفہ خود علی اپنے لئے رکھ لیں!
[تاريخ الطبري، تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري ، ج:٤، ص:٤٩٢]
00- محمد بن جرير بن يزيد (ثقة )
01-زياد بن أيوب الطوسي (ثقة حافظ)
02-مصعب بن سلام التميمي(الصدق)
03-محمد بن سوقة الغنوي (ثقة )
04-عاصم بن كليب الجرمي (ثقة )
05-كليب بن شهاب الجرمي (ثقة )
❐ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مالک بن الحارث الاشتر کے ترجمہ میں لکھا:
الأَشْتَرُ مَالِكُ بنُ الحَارِثِ النَّخَعِيُّ------زَعِراً أَلَبَّ عَلَى عُثْمَانَ، وَقَاتَلَهُ، وَكَانَ ذَا فَصَاحَةٍ وَبَلاَغَةٍ.شَهِدَ صِفِّيْنَ مَعَ عَلِيٍّ
بہتان لگا کر اسنے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا تھا، اور فصیح اور بلیغ تھا اور صفین میں علی کا ساتھی تھا۔
[سير أعلام النبلاء - ط الرسالة، ج:٤، ص:٣٤]
❐ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن حبان رحمہ اللہ کی کتاب الثقات سے نقل فرمایا:
وذكره بن حبان في الثقات قال شهد اليرموك فذهبت عينه يومئذ وكان رئيس قومه وكان ممن يسعى في الفتنة والب على عثمان وشهد حصره
یعنی ابن حبان نے اسکا ذکر الثقات میں کرکے لکھا کہ یرموک میں یہ موجود تھا، اور اپنی قوم کے سرداروں میں سے تھا اور یہ وہ شخص تھا جس نے فتنہ کی سب سے زیادہ کوشش کی، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ اور شرا نگیزی پھیلانے والا میں شامل تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرنے والا میں یہ آدمی شامل تھا۔
[تهذيب التهذيب، ج: ١٠، ص: ١٢]
❐ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تاریخ البداية والنهاية میں لکھا:
ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنِّي مُرْتَحِلٌ غَدًا فَارْتَحِلُوا، وَلَا يَرْتَحِلُ مَعِي أَحَدٌ أَعَانَ عَلَى عُثْمَانَ بِشَيْءٍ مِنْ أُمُورِ النَّاسِ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کل میں کوچ کرنے والا ہوں، اور ہمارے ساتھ کوئی ایسا شخص کوچ نہ کرے جس نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں لوگوں کی کچھ بھی مدد کی ہو۔
تو ابن کثیر نے لکھا:
هَذَا اجْتَمَعَ مِنْ رُءُوسِهِمْ جَمَاعَةٌ ; كَالْأَشْتَرِ النَّخَعِيِّ، وَشُرَيْحِ بْنِ أَوْفَى، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَبَأٍ، الْمَعْرُوفِ بِابْنِ السَّوْدَاءِ، وَسَالِمِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، وَعِلْبَاءَ بْنِ الْهَيْثَمِ، وَغَيْرِهِمْ فِي أَلْفَيْنِ وَخَمْسِمِائَةٍ وَلَيْسَ فِيهِمْ صَحَابِيٌّ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.
روساء کی ایک جماعت جس میں اشتر النخعی، شریح بن اوفی، عبداللہ بن سبا، بابن السوداء، سالم بن ثعلبہ، غلاب بن الہیثم، اور اڑھائی ہزار آدمی جمع ہوگئے اوران میں ایک بھی صحابہ نہیں تھا۔
اس کے بعد مالک اشتر نے کہا:
فَقَالَ الْأَشْتَرُ: قَدْ عَرَفْنَا رَأْيَ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ فِينَا، وَأَمَّا رَأْيُ عَلِيٍّ فَلَمْ نَعْرِفُهُ إِلَى الْيَوْمِ، فَإِنْ كَانَ قَدِ اصْطَلَحَ مَعَهُمْ فَإِنَّمَا اصْطَلَحُوا عَلَى دِمَائِنَا،
طلحہ اور زبیر کی رائے تو معلوم ہے، علی کی ہمارے بارے میں رائے کا پتہ نہیں چلا، اگر انہوں نے اُن کے ساتھ صلح کرلی ہے تو انہوں نے ہمارے خون پر صلح کی ہے۔
فَإِنْ كَانَ الْأَمْرُ هَكَذَا أَلْحَقْنَا عَلِيًّا بِعُثْمَانَ، فَرَضِيَ الْقَوْمُ مِنَّا بِالسُّكُوتِ.
اگر بات ایسی ہی ہے تو ہم حضرت علی کو بھی حضرت عثمان کے پاس پہنچا دیں گے (یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح علی رضی اللہ عنہ کو بھی قتل کر دیں گے) اور لوگ ہمارے ساتھ خاموشی اختیار کرکے راضی ہو جائیں گے۔
[البداية والنهاية ط السعادة، ج:٧، ص: ٢٣٨]
❐ امی عائشہؓ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو بددعا دیتے ہوئے اس میں مالک اشتر کا بھی ذکر فرمایا:
امام طبرانی رحمہ اللہ نے طلیق بن خشاف بن بکر سے نقل فرمایا کہ امی عائشہؓ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں پوچھا گیا: تو جواب دیا:
: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، فِيمَ قُتِلَ عُثْمَانُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ؟ قَالَتْ: «قُتِلَ وَاللهِ مَظْلُومًا، لَعَنَ اللهُ قَتَلَتَهُ،
اللہ کی قسم انہیں قتل کیا گیا جبکہ وہ مظلوم تھے اللہ کی لعنت تو انہیں قتل کرنے والے پر۔
پھر امی عائشہؓ نے فرمایا:
وَسَاقَ اللهُ إِلَى الْأَشْتَرِ سَهْمًا مِنْ سِهَامِهِ
اللہ مالک الاشتر کی طرف اپنے تیروں میں سے ایک تیر بھیج یعنی اسکے ہلاک کردے۔
اور طلیق نے فرمایا:
فَوَاللهِ مَا مِنَ الْقَوْمِ رَجُلٌ إِلَّا أَصَابَتْهُ دَعْوَتُهَا
اللہ کی قسم لوگوں میں سے کوئی ایسا آدمی نہیں جس پر امی عائشہؓ کی بددعا نہیں پہنچی ہو۔
[المعجم الكبير للطبراني، رقم الحديث: ۱۳۳]
(علامہ ہیثمی نے لکھا: رجال رجال الصحیح غیر طلق وھو ثقہ)
00-سليمان بن أحمد، الطبراني (حافظ ثبت)
01-الفضل بن الحباب الجمحي،أبو خليفة ( ثقة ثبت)
02-عبد الله بن عبد الوهاب الحجبي (ثقة)
03-حزم بن أبي حزم القطعي (صدوق حسن الحديث)
04-ظالم بن عمرو ،أبو الأسود الدؤلي (ثقة)
05-طلق،طَلِيقَ بن خشاف بن بكر(ہیثمی نے کہا ثقہ، ذہبی نے اور ابن سعد نے انکو صحابی رسول قرار دیا ہے۔)
❐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور مالک اشتر نخعی
علامہ قرطبی نے سورہ الحجرایت ۷۵ کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی:
«اِتَّقُوْافِرَاسَة الْمُؤْمِنِ فَاِنَّهُ یَنُُْرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ»
یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
علامہ ہیثمی نے اسکو حسن قرار دیا ہے۔ اور قرطبی نے عمر بن خطاب کا اثر نقل کیا جسکی سند العلل ابن حنبل میں موجود ہے :
قَالَ أبي فِي حَدِيث يزِيد بن زُرَيْع عَن شُعْبَة قَالَ أنبأني عَمْرو بن مرّة عَن عبد الله بن سَلمَة قَالَ دَخَلنَا على عمر معاشر وَفد مذْحج وَكنت من أقربهم مِنْهُ مَجْلِسا فَجعل عمر نظر إِلَى الأشتر وَيصرف بَصَره فَقَالَ لي أمنكم هَذَا قلت نعم يَا أَمِير الْمُؤمنِينَ قَالَ مَا لَهُ قَاتله الله كفى الله أمة مُحَمَّد شَره وَالله أَنِّي لأحسب أَن للْمُسلمين مِنْهُ يَوْمًا عصيبا
یعنی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مذحج کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے ان میں مالک اشتر بھی تھا، پس آپ نے اس میں نظر جمادی اور خوب غور سے دیکھا اور فرمایا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ مالک بن حارث ہے۔ تو آپ نے فرمایا: اسے کیا ہے اللہ اسے قتل کرے! بے شک میں مسلمانوں کیلئے اسکی طرف سے انتہائی سخت (تکلیف دہ) دن دیکھ رہا ہوں۔
[العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله، ج:١، ص: ٣١٥، رقم الحديث: ٥٤٠]
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا:
فَكَانَ مِنْهُ فِي الْفِتْنَةِ مَا كَانَ
پھر اس کی طرف سے فتنہ میں وہی ہوا جو ہوا۔
[الجامع لأحكام القرآن، ج: ١٠، ص: ٤٤]
(سند صحیح)
00-أحمد بن حنبل الشيباني(ثقة حافظ فقيه حجة)
01- يزيد بن زريع العيشي( ثقة ثبت)
02-شعبة بن الحجاج العتكي( ثقة حافظ متقن عابد)
03-عمرو بن مرة المرادي(ثقة)
04-عبد الله بن سلمة المرادي(ثقة ،تغير في آخر عمره)
اس صحیح اثر کی سند پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ عبداللہ سلمہ اخری عمر میں تغیر کا شکار ہوگے تھے۔ اسکا جواب ہے کہ جب عمرو بن مرہ ان سے روایت کرتے ہیں تو وہ تغیر سے قبل ہوتی ہے، نیز عمرو بن مرۃ عن عبداللہ بن سلمہ سے مروی سند کی توثیق جمہور محدثین سے موجود ہے۔
❐ ام المومنین عائشہؓ کی طرف جنگ جمل میں زخمی ہونے کے بعد اشتر نخعی نے اونٹ کا تحفہ کلیب کے ہاتھوں بیھجا اور سلام عرض کروایا کہ اپکا بیٹا اپکو سلام کہتا ہے۔
قَالَ: يَا كُلَيْبُ , إِنَّكَ أَعْلَمُ بِالْبَصْرَةِ مِنَّا-- قَالَ: اذْهَبْ بِهِ إِلَى عَائِشَةَ وَقُلْ: يُقْرِئُكَ ابْنُكَ مَالِكٌ السَّلَامَ
مگر جواب میں امی عائشہؓ نے جواب دیا:
فَقَالَتْ: لَا سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , إِنَّهُ لَيْسَ بِابْنِي
اس پر سلامتی نہ ہو اور وہ میرا بیٹا نہیں ہے اور اونٹ لینے سے انکار کردیا۔
[المصنف في الأحاديث والآثار، ٣٧٧٥٧]
امی عائشہؓ کیونکہ مومنین کی ماں تھی پس ثابت ہوگیا کہ الاشتر النخعی ایک منافق انسان تھا۔ اس کیلئے دعا نہیں کی جائے گی۔
(نوٹ بعض جہلا منکر الحدیث نے یہاں بوکھلائٹ کا شکار ہوکر عبداللہ بن یونس پر جرح کرنے شروع کردی، جبکہ عبداللہ بن یونس اس روایت کا راوی نہیں بلکہ پوری کی پوری مصنف کا مرکزی راوی ہے۔ اور مصنف ایک مشہور معروف کتاب ہے اسلئے اسکی سند پر اعتراض کرنے والا جرح اور تعدیل کے علم سے نابلد ہے۔) پھر بھی اگر کسی کو تکلیف ہے تو اسی اثر کی دوسری سند محمدبن جریر طبری سے موجود ہے۔
❐ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کی توہین
کنانہ جو امی صفیہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے ان سے مروی ہے کہ:
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أَنَا زُهَيْرٌ، نَا كِنَانَةُ قَالَ: كُنْتُ أَقُودُ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ لِتَرُدَّ عَنْ عُثْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَلَقِيَهَا الْأَشْتَرُ فَضَرَبَ وَجْهَ بَغْلَتِهَا حَتَّى مَالَتْ، فَقَالَتْ: " رُدُّونِي لَا يَفْضَحُنِي هَذَا الْكَلْبُ قَالَ: فَوَضَعْتُ خَشَبًا بَيْنَ مَنْزِلِهَا وَبَيْنَ مَنْزِلِ عُثْمَانَ، يَنْقُلُ عَلَيْهِ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ "
عثمان کے دفاع میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ایک خچر پر سوار ہرکر نکلیں، میں اُنکے خچر کو ہانک رہا تھا، راستہ میں مالک اشتر ملا اس نے خچر کے منہ پر مارا یہاں تک کہ وہ مڑ گیا۔ اور امی صفیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
فَقَالَتْ: رُدُّونِي لَا يَفْضَحُنِي هَذَا الْكَلْبُ
مجھے واپس جانے دو تاکہ یہ کتا مجھے رسوا نہ کردے۔
پھر میں نے صفیہ رضی اللہ عنہا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے درمیان لکڑی رکھ دی جس پر کھانا پینا لایا جاتا تھا۔
[مسند ابن الجعد، ٢٦٦٦]
اس روایت کی سند بالکل صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔
00-علي بن الجعد الجوهري , الكنيه: أبو الحسن(ثقة )
01-زهير بن معاوية الجعفي , الكنيه: أبو خيثمة(ثقة ثبت)
02-كنانة مولى صفية بنت حيي(ثقة )
(نوٹ بعض جہلا نے کنانہ پر بلاوجہ جرح کرنی کی ناکام کوشش کی جبکہ اس کی توثیق کئی محدثین سے موجود ہے۔1حافظ ابن حجر نے اسکو چوتھے طبقہ کا مقبول راوی قرار دیا اور چوتھے طبقہ کے بارےمیں مقدمہ میں لکھا ہے کہ اسمیں شامل راوۃ ثقہ ہیں۔
2۔ امام عجلی نے اسکو ثقہ قرار دیا۔
3۔ نور الدین ہیثمی نے اسکو ثقہ قرار دیا۔
4۔ امام حاکم نے کنانہ عن صفیہ سے مروی ایک روایت پر صحیح الاسناد کا حکم لگایا اور
5-ذہبی نے تلخیص میں موافقت کی ہوئی ہے۔
❐ امام اہلسنت امام احمد ابن حنبل سے انکی ثقہ شاگرد مھنی بن یحییٰ الشامی نے انکے منہج کو سمجھتے ہوئے الاشتر النخعی اور عبداللہ بن الکواء دونوں کے بارے میں سوال کیا تو امام احمد ابن حنبل نے دونوں سے روایت حدیث لینے سے منع کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الاشتر النخعی کا درجہ عبداللہ بن الکواء کی طرح ہے جو خوارجیوں کا سردار تھا۔
وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا مُهَنَّى وَدَفَعَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ سَمِعَ مُهَنَّى، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنْ مَالِكٍ الْأَشْتَرِ، يُرْوَى عَنْهُ الْحَدِيثَ؟ قَالَ: لَا، وَسَأَلْتُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْكَوَّاءِ؟ قَالَ: كُوفِيُّ , قُلْتُ: يُرْوَى عَنْهُ الْحَدِيثُ؟ قَالَ: لَا "(السنة للخلال: ٨٣٧)
❐ امام ابو نعیم الاصبھانی متوفی ۴۳۰ھ نے لکھا:
بعده على اسْتِخْلَاف عُثْمَان بن عَفَّان رَضِي الله عَنهُ وأرضاه،----وَشهد لَهُ بهَا فِي غير مجْلِس مَعَ إخْبَاره أَنه وَأَصْحَابه عِنْد ظُهُور الْفِتْنَة على الْهدى---وَأَن مخالفيه على ضلال، وَذَلِكَ عِنْد ظُهُور من حرم صُحْبَة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ
اور اسکے بعد عثمان کی خلافت پر اللہ ان سے راضی اور خوش ہو۔ اور انکے ساتھی فتنہ کے وقت ہدایت پر تھے، اور انکے مخالفین گمراہ تھے۔
قائدهم الأشتر فِي إخوانه من أهل الْجَهْل والغي من أهل الْكُوفَة من قبائل عبس أول قوم أَحْدَثُوا وانتهكوا حُرْمَة الْمَدِينَة وأحدثوا فِيهَا فباءوا بلعنة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ -
اور ان گمراہ کا سردار مالک اشتر اور اسکے ساتھی جاہلوں میں سے اور کوفہ کے غلط لوگوں میں سے تھے یعنی قبائل عبس وہ پہلے لوگ تھے جنہونے مدینہ کی حرمت کو پامال کیا اور اس مین بدعت جاری کی پس رسول اللہ کی ان پر لعنت ہوں۔
[الإمامة والرد [الإمامة والرد على الرافضة، ص : ٣٥٠] الرافضة، ص : ٣٥٠]
❐ حضرت علی کا عثمان کے قاتلوں پر لعنت کرنا:
مصنف نے کلیب بن شھاب الجرمی ثقہ سے روایت نقل کی ہے۔ نہ انہونے فرمایا:
قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ وَكَانَ فِي نَاحِيَةِ الْقَوْمِ , قَالَ: مَا قَوْلُ صَاحِبِكَ فِي عُثْمَانَ؟ قَالَ: فَسَبَّهُ الَّذِينَ حَوْلَهُ , قَالَ: فَرَأَيْتُ جَبِينَ عَلِيٍّ يَرْشَحُ كَرَاهِيَةً لِمَا يَجِيئُونَ بِهِ
محمد بن حاطب الجمحی صحابی رسول نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میری قوم کے لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو علی رضی اللہ عنہ کے آس پاس کے لوگوں نے انہیں برا بھلا کہا تب علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی پر ناپسندیدگی کا اظہار ہورہا تھا۔
پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ: أَخْبِرْهُمْ أَنَّ قَوْلِي فِي عُثْمَانَ أَحْسَنُ الْقَوْلِ , إِنَّ عُثْمَانَ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
تم عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں میری سب سے اچھی بات ان لوگوں کو بتادینا کہ وہ اہل ایمان میں سے تھے، نیک اعمال کرنے والے تھے، اللہ سے ڈرنے والے تھے، اور حسن سلوک کرنے والے اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
[مصنف ابن أبي شيبة: ٣٧٧٥٧](وسند صحیح رجال ثقہَ)
يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ وَجَدَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ وَاقِفَةً فِي الْمِرْبَدِ تَلْعَنُ قَتَلَةَ عُثْمَانَ
محمد بن حنیفہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جنگ جمل کی شام مدینہ سے چیخ کی آواز سنی تو خبر آئی کہ ام المومنین عائشہؓ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر لعنت کر رہی ہیں۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فَقَالَ عَلِيٌّ: لَعَنَ اللَّهُ قَتَلَةَ عُثْمَانَ فِي السَّهْلِ وَالْجَبَلِ وَالْبَرِّ وَالْبَحْرِ
عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر لعنت ہو، وہ چاہئے نرم زمین میں ہوں، یا پہاڑوں میں خشکی میں ہوں یا تری میں۔
[مصنف ابن أبي شيبة: ۳۷۷۹۳]
00- أبو بكر بن أبي شيبة(ثقة )
01-يزيد بن هارون الواسطي (ثقة متقن)
02-: سعد بن طارق الأشجعي،أبو مالك (ثقة)
03-سالم بن أبي الجعد الأشجعي(ثقة)
04-محمد بن الحنفية الهاشمي / ولد في :8 / توفي في :73
پس ثابت ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مظلومانہ شہید کئے گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی بشارت کے مطابق ان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے منافقین تھے۔ اور صحیح سند سے ثابت ہوگیا کہ ان منافقین کا سردار مالک بن حارث اشتر نخعی تھا، اور وہی عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرنے والوں میں شامل تھا اور جب اس کو بصرہ کی حکومت نہیں ملی تو اس نے اپنے عمل کا خود اعتراف کرلیا کہ اسی کےلئے تو ہم (مالک اشتر اور اسکے شتونگڑوں) نے عثمان کا قتل کیا تھا۔
نوٹ : کس کو خیال گزرے کہ یہ تو علی رضی اللہ عنہ کا ساتھی تھا تو عرض ہے کہ یہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے علی کے ساتھ چپکا ہوا تھا، علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تو یہ عہدے کے لالچ میں اور موت کے خوف سے شامل تھا کہ کہیں اس کو عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص میں قتل نہ کردیا جائے۔ اندر سے یہ پکا منافق لعین اور عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا۔