• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قادیانی دجال کی تحریری گستاخیاں

شمولیت
اگست 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
عنوان :قادیانی دجال کی تحریری گستاخیاں ( پارٹ 1)
تحریر:۔عبیداللہ لطیف فیصل آباد
توہینِ رب العالمین:
محترم قارئین! ا س سے قبل آپ مرزا قادیانی کے دعووں کی تفصیل ملاحظہ کر چکے ہیں ، آئیے اب اس کی مزید گستاخیاں بھی ملاحظہ کریں۔ مرزا قادیانی رب کائنات کے وجود مقدس کا نقشہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’قیوم العالمین‘‘ ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لیے بے شمار ہاتھ ، بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہا عرض و طول رکھتا ہے اور تندوی(تیندوے) کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں۔
(توضیح المرام صفحہ 75، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 90)
’’وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 396)
’’کیا کوئی عقل مند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں ، پھر بعداس کے یہ سوال ہوا کہ کیوں نہیں بولتا، کیا (اس کی) زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گیا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 144 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 312)
محترم قارئین! ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اﷲ رب العزت کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ اﷲ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی والدین اور نہ ہی بیوی کیونکہ رب کائنات نے قرآن مجید میں اپنے آخری نبی سیدنا محمد رسول اﷲ aکو مخاطب کرکے فرمایا :
(قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌO اللّٰہُ الصَّمَدُ O لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ)
’’اے میرے نبی ! کہہ دیجیے اﷲ ایک ہے، اﷲ بے نیاز ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی باپ ہے اور نہ ہی بیٹا۔(الاخلاص3-1)
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے سورہ انعام کی آیت 100اور101 میں فرمایا ہے:
(وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَھُمْ وَخَرَقُوْا لَہ‘ بَنِیْنَ وَبَنٰتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ سُبْحٰنَہ‘ وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ O بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہ‘ وَلَدٌ وَّلَمْ یَکُنْ لَّہ‘ صَاحِبَۃٌ وَّخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَّھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٍ )
ترجمہ:ا ور لوگوں نے شیاطین کو اﷲ تعالیٰ کے شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان لوگوں کو اﷲ ہی نے پیدا کیا ہے اور ان لوگوں نے اﷲ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں اور وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی اولاد کہا ں سے ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی بیوی تو ہے ہی نہیں اور اﷲ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔
جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے مخاطب کرکے فرمایا ہے :
’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِاَوْلَادِیْ‘‘
اے مرزا! تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔
مزید ایک جگہ فرمایا:
اَنْتَ مِنِّيْ وَاَنَا مِنْکَ
تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہو گیا۔
( دافع البلاء صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ227)
اَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃَ وَلَدِيْ
اے مرزا!تومجھ سے میرے بیٹے کی طرح ہے
(بحوالہ تذکرہ طبع چہارم صفحہ 442 از مرزا قادیانی)
اسی طرح مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے کہ:
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر4 صفحہ 19 (روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 452 ) میں بابوالٰہی بخش صاحب کی نسبت الہام ہے:
’’یریدون ان یرواطمعک واللہ یرید ان یریک انعامہ الانعمات المتواترۃ۔ انت مني بمنزلۃ اولادي واﷲ ولیک وربک فقلنا یانارکونی برداً‘‘
یعنی بابوالٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اورناپاکی پر اطلاع پائے۔ مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے ۔ ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اﷲ (اﷲ کے بچے کی مانند ) ہے۔
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 143 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ581)
’’درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو قابل بیان نہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، صفحہ 63، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ81)
اسی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے مرزاقادیانی کا ایک مرید قاضی یا ر محمد قادیانی اپنی کتاب اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر34پر رقم طراز ہے:
’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پراپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پراس طرح ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے والے کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔‘‘ (نعوذ باﷲ من ذلک)
(اسلامی قربانی صفحہ12ازیارمحمدقادیانی)
محترم قارئین! مرزا قادیانی اوراس کی ذریت کی طرف سے اس سے بڑھ کر بھی کوئی رقیق حملہ اﷲ رب العزت کی ذات پر ہو سکتا ہے۔ آئیے ذرا مزید دیکھیے کس طرح یہ کذاب قادیانی رب ذوالجلال کے بارے میں مزید بکواس کرتا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ:
’’جیسا کہ عاجز کو اپنے الہامات میں خدا تعالیٰ مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں اور زمین وآسمان تیرے ساتھ ہیں، جیسا کہ میرے ساتھ ہیں اور تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ خشکی سے ۔۔۔۔۔۔۔لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم خداسے پیارکرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے چلو تاخدا بھی تم سے پیار کرے۔ میری سچائی پر خدا گواہی دیتا ہے ۔ پھر کیوں تم ایمان نہیں لاتے۔ تو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا۔ خدا عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔۔۔۔۔۔جس طرف تیرا منہ اس طرف خدا کا منہ ۔۔۔۔۔۔۔میں نے ارادہ کیا کہ اپنا جانشین بناؤں تو میں نے آدم کو یعنی تجھے پیدا کیا۔ آواہن (خدا تیرے اندر اتر آیا) خدا تجھے ترک نہیں کرے گا اور نہ چھوڑے گا۔ جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرے۔میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو مجھ میں اور تمام مخلوقات میں واسطہ ہے۔۔۔۔۔۔تیرا بھید میرا بھید ہے۔‘‘
(کتاب البریۃ صفحہ 85-82، مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ103-100)
’’ خدا نکلنے کو ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو مجھ سے ایسا ہے جیساکہ میں ہی ظاہر ہو گیا یعنی تیرا ظہور بعینہ میرا ظہور ہوگا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ از مرزا قادیانی صفحہ 93مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ404)
محترم قارئین ! مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ کھانے ، پینے، سونے اور غلطی کرنے سے مبرا ہے۔ لیکن مرزا قادیانی رب کائنات پر افتراء کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اے مرزا:
افطرواصوم میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔
(بحوالہ دافع البلاء صفحہ 578 روحانی خزائن ، جلد 18، صفحہ 100)
اُخْطِي وَاُصِیْب میں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی۔
(حقیقۃ الوحی، صفحہ 103 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106)
اُصَلِّیَ وَاَصُوْم اَسھَرُوا وَاَنَام
’’ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں ، میں جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔‘‘
(بحوالہ تذکرہ صفحہ 379 طبع چہارم )
محترم قارئین ! ان کے علاوہ بھی مرزا قادیانی کی کتب توہین باری تعالیٰ سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن یہاں پر مختصراً بیان کردی گئی ہیں کسی جگہ پر تو آپ کو مرزا قادیانی رب ذوالجلال کے ساتھ ایک ہی پلنگ پر بیٹھا ہوا نظر آئے گا۔
(سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ 74، روایت نمبر100)
تو کبھی مرزا قادیانی کے ساتھ اس کے باپ کی تعزیت کرتا ہوا دیکھیں گے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 219، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 219)
تو کبھی قادیانی پروردگار عالم سے قضا وقدر کے کاموں پر دستخط کرواتا نظر آئے گا، اورپھر ساتھ یہ دعویٰ بھی کہ جب اﷲ تعالیٰ نے اپنے قلم کی سیاہی کو چھڑکا تواس کے چھینٹے مرزا کے کپڑوں پر پڑے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 225مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 267)
الغرض مرزا قادیانی کی کتب ایسی ہی خرافات وبکواسات سے بھری ہوئی ہیں۔
-2توہین انبیاء:۔
-i مرزا قادیانی توہین یوسف علیہ السلام کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
’’ پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ عاجز قید کی دعا کرکے بھی قید سے بچایا گیا مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 99، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 99)
-ii
انبیاء گرچہ بودہ اندبسے

من بعرفان نہ کمترم زکسے
آنچہ داد است ہر نبی راجام

داد آن جام را مرا بتمام
زندہ شد ہر نبی بآمدنم

ہر رسولے نہاں برپرہنم
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین

ہر کہ گوید دروغ ہست لعین
(نزول المسیح ص 100مندرجہ روحانی خزائن ج 18 ص 478,477)
1۔ اگرچہ دنیا میں بہت سے نبی ہوئے ہیں میں عرفان میں ان نبیوں میں سے کسی سے کم نہیں ہوں۔
2۔ وہ خداکہ جس نے ہرنبی کو پیالہ دیا۔اس نے وہ پیالہ پورے کاپورادے دیا ۔
3۔ میری آمد کی وجہ سے ہر نبی زندہ ہو گیا ہے ۔ہر رسول میری قمیص میں چھپا ہوا ہے۔
4۔ میں ان سب سے یقین کے لحاظ سے کم نہیں ہوں۔ جو جھوٹ کہتا ہے وہ لعین ہے۔
-iii عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
* ’’آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔‘‘
(انجام آتھم ص 7 مندرجہ روحانی خزائن ج 11ص 291)
* ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تویہ تھاکہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیاکرتے تھے ۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔‘‘
(کشتی نوح ص 73، مندرجہ روحانی خزائن ج 19 ص 71)
* ’’پھرشراب کو دیکھوکہ تمام گناہوں کی جڑ ہے، اس کی تخم ریزی مسیح نے کی۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ 423طبع چہارم )
* ’’لیکن مسیح کی راستبازی اپنے زمانہ میں دوسرے راستبازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام ’’حصور ‘‘رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 220)
* ’’مسیح تو خود کنجریوں سے تیل ملواتا رہا۔ اگر استغفار کرتے تویہ حالت نہ ہوتی۔۔۔۔۔مفتی محمد صادق جو کتاب سنایا کرتے ہیں جس میں مشیعہ عورت کا اور مشیع یہودی عاشق سلومی کا ذکر ہے کہ وہ عورت سلومی مشیع کو چھوڑ کر یسوع کے شاگردوں میں جاملی۔ اس لیے اس مشیع نے یہ سارا منصوبہ صلیب کا بنایا ۔ گویا ایک عورت کے واقعہ نے ان کی صلیب تک نوبت پہنچائی۔۔۔۔۔ان کے نزدیک زیادہ شادیاں کرنا گناہ ہے مگر ایک بازاری عورت عطر ملتی ہے، تیل بالوں کو لگاتی ہے، بالوں کو کنگھی کرتی ہے اور یہ مہنت کی طرح بیٹھے ہوئے مزے سے سب کرواتے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ان کو کنجریوں سے کیا تعلق تھا۔ اور اگر کہو کہ اس کنجری نے توبہ کی تھی تو کنجری کی توبہ کا کیا اعتبار۔۔۔۔۔ایک طرف توبہ کرتی ہیں اور ایک طرف پھر موڑھے پر بازار میں جا بیٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔پھر شراب کو دیکھو کہ تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ اس کی تخم ریزی مسیح نے کی۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 422طبع چہارم)
* ’’یورپ جو زناکاری سے بھر گیا اس کا کیا سبب ہے۔ یہی تو ہے کہ نامحرم عورتوں کو بے تکلف دیکھناعادت ہو گیا اول تو نظر کی بدکاریاں ہوئیں ۔ پھر معانقہ بھی ایک معمولی امر ہو گیا۔ پھرا س سے ترقی ہو کر بوسہ لینے کی بھی عادت پڑی، یہاں تک کہ استاد جوان لڑکیوں کو اپنے گھروں میں لے جا کر یورپ میں بوسہ بازی کرتے ہیں اور کوئی منع نہیں کرتا ہے۔شیرینیوں پر فسق و فجور کی باتیں لکھی جاتی ہیں۔ تصویروں میں نہایت درجہ کی بدکاری کا نقشہ دکھایا جاتا ہے۔ عورتیں خود چھپواتی ہیں کہ میں ایسی خوبصورت ہوں اور میری ناک ایسی ہے اور آنکھ ایسی ہے اور ان کے عاشقوں کے ناول لکھے جاتے ہیں اور بدکاری کا ایسا دریا بہہ رہا ہے کہ نہ تو کانوں کو بچا سکتے ہیں اور نہ آنکھوں کو ، نہ ہاتھوں کو ، نہ منہ کو ۔ یہ یسوع صاحب کی تعلیم ہے۔ کاش ! ایسا شخص دنیا میں نہ آیا ہوتا۔‘‘
(نور الانوار صفحہ 42 مندرجہ روحانی خزائن جلد 9صفحہ417)
* ’’ایک کنجری خوب صورت ایسی قریب بیٹھی ہے گویا بغل میں ہے۔ کبھی ہاتھ لمبا کرکے سر پر عطر مل رہی ہے ، کبھی پیروں کو پکڑتی ہے، اور کبھی اپنے خوشنما اور سیاہ بالوں کو پیروں پر رکھ دیتی ہے اور گود میں تماشہ کر رہی ہے۔ یسوع صاحب اس حالت میں وجد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور کوئی اعتراض کرنے لگے تواس کو جھڑک دیتے ہیں۔ اور طرفہ یہ کہ عمر جوان اور شراب پینے کی عادت اور پھر مجرد۔ اور ایک خوب صورت کسبی عورت سامنے پڑی ہے۔ جس کے ساتھ جسم لگا رہی ہے۔ کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے۔ اور اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی۔ افسوس کہ یسوع کو یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کر لیتا۔ کم بخت زانیہ کے چھونے سے اور نازواداکرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور شہوت کے جوش نے پورے طور پر کام کیا ہوگا۔ اسی وجہ سے یسوع کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ اے حرام کار عورت! مجھ سے دو ررہ۔ا ور یہ بات انجیل سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ عورت طوائف میں سے تھی اور زناکاری میں سارے شہر میں مشہور تھی۔‘‘
(نور القرآن صفحہ 74، مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 449)
محترم قارئین! ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس انداز سے توہین ہے تو دوسری طرف معجزات مسیح سے بھی مکمل طور پرانکار کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف انکار کیا جارہا ہے بلکہ وہ معجزات جو قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام کے بیا ن کیے گئے ان معجزات کو مسمریزم قرار دے کر قرآن مقدس کی بھی توہین کاارتکاب کیا ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی دجال لکھتا ہے کہ:
* ’ ’آپ کے ہاتھوں سوائے مکر وفریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 291)
* ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ اوراس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا۔ اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔‘‘
(حاشیہ انجام آتھم صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 230)
محترم قارئین !اﷲ رب العزت قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کاذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(اِذْ قَالَتِ الْمَلٰءِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیِْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرِّبِیْنَO وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا وَّ مِنَ الصَّالِحِیْنَ O قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ اِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُo وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ O وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ اِنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ بِاَیَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ اِنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْءَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا تَأْکُلُوْنَ وَمَا تَدِّخُرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتمْ مُؤْمِنِیْنَ )
ترجمہ: جب فرشتوں نے کہا:اے مریم ! اﷲ تعالیٰ تجھے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح ابن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے اور وہ میرے مقربین میں سے ہے اور وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور بڑھاپے میں بھی اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا۔ کہنے لگیں : الٰہی!مجھے لڑکا کیسے ہوگا، حالانکہ مجھے توکسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا فرشتے نے کہا: اسی طرح ہوگااﷲ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب کبھی کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتاہے کہ ہو جاؤ تو وہ ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اسے لکھنا حکمت تورات اورانجیل سکھلائے گا اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا۔کہ میں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانیاں لایا ہوں۔ میں تمھارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اوراپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں بتا دیتا ہوں۔ اس میں تمھارے لیے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایماندار ہو۔
(سورہ آل عمران :49-45)
ان آیات مبارکہ میں درج ذیل باتیں بیان ہوئی ہیں:
-i جناب مریم علیہا السلام پاک دامن اور عفت مآب تھیں ، انھیں کسی بھی مرد نے نہیں چھوا تھا۔
-ii عیسیٰ علیہ السلام نے بچپن میں ہی ماں کی گود میں گفتگو کی اور اسی طرح قیامت کے قریب دوبارہ نازل ہونے کے بعد بڑھاپے میں بھی گفتگو کریں گے۔
-iii عیسیٰ علیہ السلام صالح اور نیک لوگوں میں سے تھے۔
-iv عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے لکھنا سکھلایا اور توراۃ و انجیل کا علم دیا۔
-v مٹی کا پرندہ بنا کر پھونک مار کر حقیقی پرندہ بن جانا، مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، خوراک اور گھروں میں ذخیرہ شدہ چیزوں کا بتانا یہ سب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے ہیں اور یہ ساری چیزیں اﷲ رب العزت کے حکم سے رونما ہوئیں۔
محترم قارئین ! ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر مرزا قادیانی کی درج ذیل تحریروں کا مطالعہ کریں کہ کس طرح اس کذاب نے قرآن مقدس کی واضح اور بین آیات کا انکار کیا ہے۔
* ’’سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کاکام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے۔ اور جیسے انسان میں قویٰ موجود ہوں انہی کے موافق اعجاز کے طور پربھی مدد ملتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 155,154مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 254,255)
* ’’یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر انھیں سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا۔ نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہو گیا تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 322 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 حاشیہ صفحہ 263)
* ’’ ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل الترب یعنی مسمریزی طریق سے بطور لہو ولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آ سکیں کیونکہ عمل الترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں، ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ155,156مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 256,255)
* ’’مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں ۔ اگریہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 158، مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 258)
* ’’آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی ۔ ادنیٰ ادنیٰ بات پر غصہ میں آجاتا تھا اور اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں کیونکہ آپ توگالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
( انجام آتھم حاشیہ صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 289)
* ’’نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔ ‘‘
(حاشیہ انجام آتھم مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 290)
* ’’مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا: ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( مرزا قادیانی ) کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی اﷲ تعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے اس پر حضور علیہ السلام (مرزا قادیانی) نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت توڑنے کے لیے ماں کا ذکر کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں ’’بھرجائی کانیے تینوں سلام آکھناواں‘‘ جس سے مقصود کانا ثابت کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلام کہنا ۔ اسی طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیت ہے نہ کہ مریم کی صدیقیت کا اظہار‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول، صفحہ 732 روایت 801)
* ’’ یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں ۔ یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں ۔ یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھیں ۔‘‘
(کشی نوح صفحہ 20، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
* ’’پانچواں قرینہ ان کے وہ رسوم ہیں جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں۔ مثلاً ان کے بعض قبائل ناطہ اور نکاح میں کچھ چنداں فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلا تکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں۔ حضرت مریم کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے مگر خوانین سرحدی کے بعض قبائل میں مماثلت عورتوں کی اپنے منسوبوں سے حد سے زیادہ ہوتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے بھی حمل ہو جاتا ہے جس کو برا نہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات کو ٹال دیتے ہیں کیونکہ یہود کی طرح یہ لوگ ناطہ کو ایک قسم کا نکاح ہی جانتے ہیں جس میں پہلے مہر بھی مقرر ہو جاتا ہے ۔‘‘
(ایام الصلح صفحہ 74، مندرجہ روحانی خزائن جلد 14، صفحہ 300)
* ’’مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیا تاکہ وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو اور تمام عمر خاوند نہ کرے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایاں ہو گیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام کے ایک نجار سے نکاح کر دیا اوراس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا، وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا ۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 24، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20، صفحہ356,355)
* ’’اور مریم کی وہ شان ہے کہ جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا ، پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا ، گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں کیوں کر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیادڈالی گئی ۔ یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میںآوے ۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے ،نہ قابل اعتراض۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ 20، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
محترم قارئین! آپ نے قرآن مقدس کی آیات کے تناظر میں قادیانی دجال کی ان تحریروں کو مطالعہ کر لیا جب قادیانی ذریت کے سامنے مرز ا قادیانی کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی گستاخی پر مبنی یہ تحریر یں پیش کی جاتی ہیں تو جواب ملتا ہے کہ اس دور میں عیسائی نبی کریم علیہ السلام کے خلاف الزامات لگاتے تھے اور انہی کی انجیل کی عبارتوں کی مرزا صاحب نے تشریح کی ہے اور یہ الزامی جواب ہے جس کے بارے میں مرزا قادیانی خود لکھتا ہے:
’’ ہمارے قلم سے حضرت عیسیٰ d کی نسبت جو کچھ خلاف شان ان کے نکلا ہے ، وہ الزامی جواب کے رنگ میں اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کیے ہیں۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 326)
محترم قارئین ! یہی اصول اپنا کر جب عیسائیوں نے نبی کریم dکی گستاخی کی تو مرزا قادیانی نے ان کے اس انداز کو بدطریق قرار دیا، لیکن خوداس بدطریق پر عمل کیا۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’جس طرح یہود محض تعصب سے حضرت عیسیٰ اور ان کی انجیل پرحملے کرتے ہیں ، اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت aپر کرتے ہیں عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اس بدطریق میں یہودیوں کی پیروی کرتے۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 4، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 337)
محترم قارئین ! حقیقت تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے گستاخان رسول ﷺ عیسائیوں کو غیر ت مند مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے یہ خیانت کی جس کے بارے میں خود لکھتا ہے:
’’میں اس بات کا اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی بالخصوص پرچہ نورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور مؤلفین نے ہمارے نبی ﷺکی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زنا کار تھاا ور صدہا پرچوں میں شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں یہ جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا قدرے سختی سے جواب دیا جائے تاسریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو ۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنش نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ وغضب بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہو گا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی۔ ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزار ہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے یک طرفہ ان کے اشتعال فرو ہو گئے۔۔۔۔۔۔سو مجھ سے پادریوں کے مقابل جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اول درجہ خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ ‘‘
(تریاق القلوب صفحہ ب ج ،مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 491-490)
محترم قارئین ! یہ تھا مرزا قادیانی کا عیسیٰ اور مریم e کی توہین کرنے کا اصل مقصد کہ عیسائیوں کو بچانا اور اپنے آقا انگریز کو خوش رکھنا۔ اب آتے ہیں مرزا قادیانی کے اس گھناؤنے کردار کی طرف کہ اس ملعون نے کس طرح نبی آخر الزمان جناب محمدرسول اﷲ aکی توہین کی۔
ٍ * ’’ جو شخص مجھ میں اور مصطفی a میں فرق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد16صفحہ 259)
* ’’ جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی dکی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی، پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت aکی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ و اکمل اوراشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ272-271)
ٍ * ’’ اس (نبی کریمa) کے لیے چاند کے خسوف کانشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا ،اب کیا تو انکار کرے گا؟‘‘
(اعجاز احمدی صفحہ 71 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 183)
* نبی کریم کے تین ہزار معجزات اور مرزا قادیانی کے دس لاکھ۔
’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبی سے ظہور پذیر ہوئے اور حدیبیہ کی پیش گوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت اندازہ کردہ پر پوری نہیں ہوئی۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد17 صفحہ 157)
’’ان چند سطروں میں جو پیش گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 72، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 72)
ٍ * ’’ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصوصیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہر ایک پہلو سے ہمارے نبی aکی توہین ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کچھ حد وحساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً آنحضرت aکی سو برس تک بھی عمر نہ پہنچی۔مگر حضرت مسیح اب قریباً دو ہزار برس سے زندہ ہیں اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت کے چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ و تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلا لیا۔ اب بتاؤ محبت کس سے زیادہ کی۔ عزت کس کی زیادہ کی۔ قرب کا مقام کس کو دیا اور پھر دوبارہ آنے کا شرف کس کو بخشا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ 112مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 205)
محترم قارئین ! ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم dنے اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دی ۔ یہ حدیث اسی کتاب کے باب سوئم میں ’’عقیدہ ختم نبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں‘‘ عنوان کے تحت درج ہے۔ مرزا قادیانی بھی اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دیتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’ پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیش گوئی کو پور اکرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچادے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 178، مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178) (جاری ہے )
 
شمولیت
اگست 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
عنوان :قادیانی دجال کی تحریری گستاخیاں ( پارٹ 1)
تحریر:۔عبیداللہ لطیف فیصل آباد
توہینِ رب العالمین:
محترم قارئین! ا س سے قبل آپ مرزا قادیانی کے دعووں کی تفصیل ملاحظہ کر چکے ہیں ، آئیے اب اس کی مزید گستاخیاں بھی ملاحظہ کریں۔ مرزا قادیانی رب کائنات کے وجود مقدس کا نقشہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’قیوم العالمین‘‘ ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لیے بے شمار ہاتھ ، بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہا عرض و طول رکھتا ہے اور تندوی(تیندوے) کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں۔
(توضیح المرام صفحہ 75، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 90)
’’وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 396)
’’کیا کوئی عقل مند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں ، پھر بعداس کے یہ سوال ہوا کہ کیوں نہیں بولتا، کیا (اس کی) زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گیا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 144 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 312)
محترم قارئین! ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اﷲ رب العزت کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ اﷲ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی والدین اور نہ ہی بیوی کیونکہ رب کائنات نے قرآن مجید میں اپنے آخری نبی سیدنا محمد رسول اﷲ aکو مخاطب کرکے فرمایا :
(قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌO اللّٰہُ الصَّمَدُ O لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ)
’’اے میرے نبی ! کہہ دیجیے اﷲ ایک ہے، اﷲ بے نیاز ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی باپ ہے اور نہ ہی بیٹا۔(الاخلاص3-1)
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے سورہ انعام کی آیت 100اور101 میں فرمایا ہے:
(وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَھُمْ وَخَرَقُوْا لَہ‘ بَنِیْنَ وَبَنٰتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ سُبْحٰنَہ‘ وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ O بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہ‘ وَلَدٌ وَّلَمْ یَکُنْ لَّہ‘ صَاحِبَۃٌ وَّخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَّھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٍ )
ترجمہ:ا ور لوگوں نے شیاطین کو اﷲ تعالیٰ کے شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان لوگوں کو اﷲ ہی نے پیدا کیا ہے اور ان لوگوں نے اﷲ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں اور وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی اولاد کہا ں سے ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی بیوی تو ہے ہی نہیں اور اﷲ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔
جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے مخاطب کرکے فرمایا ہے :
’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِاَوْلَادِیْ‘‘
اے مرزا! تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔
مزید ایک جگہ فرمایا:
اَنْتَ مِنِّيْ وَاَنَا مِنْکَ
تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہو گیا۔
( دافع البلاء صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ227)
اَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃَ وَلَدِيْ
اے مرزا!تومجھ سے میرے بیٹے کی طرح ہے
(بحوالہ تذکرہ طبع چہارم صفحہ 442 از مرزا قادیانی)
اسی طرح مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے کہ:
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر4 صفحہ 19 (روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 452 ) میں بابوالٰہی بخش صاحب کی نسبت الہام ہے:
’’یریدون ان یرواطمعک واللہ یرید ان یریک انعامہ الانعمات المتواترۃ۔ انت مني بمنزلۃ اولادي واﷲ ولیک وربک فقلنا یانارکونی برداً‘‘
یعنی بابوالٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اورناپاکی پر اطلاع پائے۔ مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے ۔ ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اﷲ (اﷲ کے بچے کی مانند ) ہے۔
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 143 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ581)
’’درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو قابل بیان نہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، صفحہ 63، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ81)
اسی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے مرزاقادیانی کا ایک مرید قاضی یا ر محمد قادیانی اپنی کتاب اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر34پر رقم طراز ہے:
’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پراپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پراس طرح ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے والے کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔‘‘ (نعوذ باﷲ من ذلک)
(اسلامی قربانی صفحہ12ازیارمحمدقادیانی)
محترم قارئین! مرزا قادیانی اوراس کی ذریت کی طرف سے اس سے بڑھ کر بھی کوئی رقیق حملہ اﷲ رب العزت کی ذات پر ہو سکتا ہے۔ آئیے ذرا مزید دیکھیے کس طرح یہ کذاب قادیانی رب ذوالجلال کے بارے میں مزید بکواس کرتا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ:
’’جیسا کہ عاجز کو اپنے الہامات میں خدا تعالیٰ مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں اور زمین وآسمان تیرے ساتھ ہیں، جیسا کہ میرے ساتھ ہیں اور تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ خشکی سے ۔۔۔۔۔۔۔لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم خداسے پیارکرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے چلو تاخدا بھی تم سے پیار کرے۔ میری سچائی پر خدا گواہی دیتا ہے ۔ پھر کیوں تم ایمان نہیں لاتے۔ تو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا۔ خدا عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔۔۔۔۔۔جس طرف تیرا منہ اس طرف خدا کا منہ ۔۔۔۔۔۔۔میں نے ارادہ کیا کہ اپنا جانشین بناؤں تو میں نے آدم کو یعنی تجھے پیدا کیا۔ آواہن (خدا تیرے اندر اتر آیا) خدا تجھے ترک نہیں کرے گا اور نہ چھوڑے گا۔ جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرے۔میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو مجھ میں اور تمام مخلوقات میں واسطہ ہے۔۔۔۔۔۔تیرا بھید میرا بھید ہے۔‘‘
(کتاب البریۃ صفحہ 85-82، مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ103-100)
’’ خدا نکلنے کو ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو مجھ سے ایسا ہے جیساکہ میں ہی ظاہر ہو گیا یعنی تیرا ظہور بعینہ میرا ظہور ہوگا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ از مرزا قادیانی صفحہ 93مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ404)
محترم قارئین ! مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ کھانے ، پینے، سونے اور غلطی کرنے سے مبرا ہے۔ لیکن مرزا قادیانی رب کائنات پر افتراء کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اے مرزا:
افطرواصوم میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔
(بحوالہ دافع البلاء صفحہ 578 روحانی خزائن ، جلد 18، صفحہ 100)
اُخْطِي وَاُصِیْب میں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی۔
(حقیقۃ الوحی، صفحہ 103 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106)
اُصَلِّیَ وَاَصُوْم اَسھَرُوا وَاَنَام
’’ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں ، میں جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔‘‘
(بحوالہ تذکرہ صفحہ 379 طبع چہارم )
محترم قارئین ! ان کے علاوہ بھی مرزا قادیانی کی کتب توہین باری تعالیٰ سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن یہاں پر مختصراً بیان کردی گئی ہیں کسی جگہ پر تو آپ کو مرزا قادیانی رب ذوالجلال کے ساتھ ایک ہی پلنگ پر بیٹھا ہوا نظر آئے گا۔
(سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ 74، روایت نمبر100)
تو کبھی مرزا قادیانی کے ساتھ اس کے باپ کی تعزیت کرتا ہوا دیکھیں گے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 219، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 219)
تو کبھی قادیانی پروردگار عالم سے قضا وقدر کے کاموں پر دستخط کرواتا نظر آئے گا، اورپھر ساتھ یہ دعویٰ بھی کہ جب اﷲ تعالیٰ نے اپنے قلم کی سیاہی کو چھڑکا تواس کے چھینٹے مرزا کے کپڑوں پر پڑے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 225مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 267)
الغرض مرزا قادیانی کی کتب ایسی ہی خرافات وبکواسات سے بھری ہوئی ہیں۔
-2توہین انبیاء:۔
-i مرزا قادیانی توہین یوسف علیہ السلام کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
’’ پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ عاجز قید کی دعا کرکے بھی قید سے بچایا گیا مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 99، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 99)
-ii
انبیاء گرچہ بودہ اندبسے

من بعرفان نہ کمترم زکسے
آنچہ داد است ہر نبی راجام

داد آن جام را مرا بتمام
زندہ شد ہر نبی بآمدنم

ہر رسولے نہاں برپرہنم
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین

ہر کہ گوید دروغ ہست لعین
(نزول المسیح ص 100مندرجہ روحانی خزائن ج 18 ص 478,477)
1۔ اگرچہ دنیا میں بہت سے نبی ہوئے ہیں میں عرفان میں ان نبیوں میں سے کسی سے کم نہیں ہوں۔
2۔ وہ خداکہ جس نے ہرنبی کو پیالہ دیا۔اس نے وہ پیالہ پورے کاپورادے دیا ۔
3۔ میری آمد کی وجہ سے ہر نبی زندہ ہو گیا ہے ۔ہر رسول میری قمیص میں چھپا ہوا ہے۔
4۔ میں ان سب سے یقین کے لحاظ سے کم نہیں ہوں۔ جو جھوٹ کہتا ہے وہ لعین ہے۔
-iii عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
* ’’آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔‘‘
(انجام آتھم ص 7 مندرجہ روحانی خزائن ج 11ص 291)
* ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تویہ تھاکہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیاکرتے تھے ۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔‘‘
(کشتی نوح ص 73، مندرجہ روحانی خزائن ج 19 ص 71)
* ’’پھرشراب کو دیکھوکہ تمام گناہوں کی جڑ ہے، اس کی تخم ریزی مسیح نے کی۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ 423طبع چہارم )
* ’’لیکن مسیح کی راستبازی اپنے زمانہ میں دوسرے راستبازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام ’’حصور ‘‘رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 220)
* ’’مسیح تو خود کنجریوں سے تیل ملواتا رہا۔ اگر استغفار کرتے تویہ حالت نہ ہوتی۔۔۔۔۔مفتی محمد صادق جو کتاب سنایا کرتے ہیں جس میں مشیعہ عورت کا اور مشیع یہودی عاشق سلومی کا ذکر ہے کہ وہ عورت سلومی مشیع کو چھوڑ کر یسوع کے شاگردوں میں جاملی۔ اس لیے اس مشیع نے یہ سارا منصوبہ صلیب کا بنایا ۔ گویا ایک عورت کے واقعہ نے ان کی صلیب تک نوبت پہنچائی۔۔۔۔۔ان کے نزدیک زیادہ شادیاں کرنا گناہ ہے مگر ایک بازاری عورت عطر ملتی ہے، تیل بالوں کو لگاتی ہے، بالوں کو کنگھی کرتی ہے اور یہ مہنت کی طرح بیٹھے ہوئے مزے سے سب کرواتے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ان کو کنجریوں سے کیا تعلق تھا۔ اور اگر کہو کہ اس کنجری نے توبہ کی تھی تو کنجری کی توبہ کا کیا اعتبار۔۔۔۔۔ایک طرف توبہ کرتی ہیں اور ایک طرف پھر موڑھے پر بازار میں جا بیٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔پھر شراب کو دیکھو کہ تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ اس کی تخم ریزی مسیح نے کی۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 422طبع چہارم)
* ’’یورپ جو زناکاری سے بھر گیا اس کا کیا سبب ہے۔ یہی تو ہے کہ نامحرم عورتوں کو بے تکلف دیکھناعادت ہو گیا اول تو نظر کی بدکاریاں ہوئیں ۔ پھر معانقہ بھی ایک معمولی امر ہو گیا۔ پھرا س سے ترقی ہو کر بوسہ لینے کی بھی عادت پڑی، یہاں تک کہ استاد جوان لڑکیوں کو اپنے گھروں میں لے جا کر یورپ میں بوسہ بازی کرتے ہیں اور کوئی منع نہیں کرتا ہے۔شیرینیوں پر فسق و فجور کی باتیں لکھی جاتی ہیں۔ تصویروں میں نہایت درجہ کی بدکاری کا نقشہ دکھایا جاتا ہے۔ عورتیں خود چھپواتی ہیں کہ میں ایسی خوبصورت ہوں اور میری ناک ایسی ہے اور آنکھ ایسی ہے اور ان کے عاشقوں کے ناول لکھے جاتے ہیں اور بدکاری کا ایسا دریا بہہ رہا ہے کہ نہ تو کانوں کو بچا سکتے ہیں اور نہ آنکھوں کو ، نہ ہاتھوں کو ، نہ منہ کو ۔ یہ یسوع صاحب کی تعلیم ہے۔ کاش ! ایسا شخص دنیا میں نہ آیا ہوتا۔‘‘
(نور الانوار صفحہ 42 مندرجہ روحانی خزائن جلد 9صفحہ417)
* ’’ایک کنجری خوب صورت ایسی قریب بیٹھی ہے گویا بغل میں ہے۔ کبھی ہاتھ لمبا کرکے سر پر عطر مل رہی ہے ، کبھی پیروں کو پکڑتی ہے، اور کبھی اپنے خوشنما اور سیاہ بالوں کو پیروں پر رکھ دیتی ہے اور گود میں تماشہ کر رہی ہے۔ یسوع صاحب اس حالت میں وجد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور کوئی اعتراض کرنے لگے تواس کو جھڑک دیتے ہیں۔ اور طرفہ یہ کہ عمر جوان اور شراب پینے کی عادت اور پھر مجرد۔ اور ایک خوب صورت کسبی عورت سامنے پڑی ہے۔ جس کے ساتھ جسم لگا رہی ہے۔ کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے۔ اور اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی۔ افسوس کہ یسوع کو یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کر لیتا۔ کم بخت زانیہ کے چھونے سے اور نازواداکرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور شہوت کے جوش نے پورے طور پر کام کیا ہوگا۔ اسی وجہ سے یسوع کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ اے حرام کار عورت! مجھ سے دو ررہ۔ا ور یہ بات انجیل سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ عورت طوائف میں سے تھی اور زناکاری میں سارے شہر میں مشہور تھی۔‘‘
(نور القرآن صفحہ 74، مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 449)
محترم قارئین! ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس انداز سے توہین ہے تو دوسری طرف معجزات مسیح سے بھی مکمل طور پرانکار کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف انکار کیا جارہا ہے بلکہ وہ معجزات جو قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام کے بیا ن کیے گئے ان معجزات کو مسمریزم قرار دے کر قرآن مقدس کی بھی توہین کاارتکاب کیا ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی دجال لکھتا ہے کہ:
* ’ ’آپ کے ہاتھوں سوائے مکر وفریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 291)
* ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ اوراس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا۔ اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔‘‘
(حاشیہ انجام آتھم صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 230)
محترم قارئین !اﷲ رب العزت قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کاذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(اِذْ قَالَتِ الْمَلٰءِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیِْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرِّبِیْنَO وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا وَّ مِنَ الصَّالِحِیْنَ O قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ اِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُo وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ O وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ اِنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ بِاَیَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ اِنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْءَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا تَأْکُلُوْنَ وَمَا تَدِّخُرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتمْ مُؤْمِنِیْنَ )
ترجمہ: جب فرشتوں نے کہا:اے مریم ! اﷲ تعالیٰ تجھے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح ابن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے اور وہ میرے مقربین میں سے ہے اور وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور بڑھاپے میں بھی اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا۔ کہنے لگیں : الٰہی!مجھے لڑکا کیسے ہوگا، حالانکہ مجھے توکسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا فرشتے نے کہا: اسی طرح ہوگااﷲ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب کبھی کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتاہے کہ ہو جاؤ تو وہ ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اسے لکھنا حکمت تورات اورانجیل سکھلائے گا اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا۔کہ میں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانیاں لایا ہوں۔ میں تمھارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اوراپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں بتا دیتا ہوں۔ اس میں تمھارے لیے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایماندار ہو۔
(سورہ آل عمران :49-45)
ان آیات مبارکہ میں درج ذیل باتیں بیان ہوئی ہیں:
-i جناب مریم علیہا السلام پاک دامن اور عفت مآب تھیں ، انھیں کسی بھی مرد نے نہیں چھوا تھا۔
-ii عیسیٰ علیہ السلام نے بچپن میں ہی ماں کی گود میں گفتگو کی اور اسی طرح قیامت کے قریب دوبارہ نازل ہونے کے بعد بڑھاپے میں بھی گفتگو کریں گے۔
-iii عیسیٰ علیہ السلام صالح اور نیک لوگوں میں سے تھے۔
-iv عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے لکھنا سکھلایا اور توراۃ و انجیل کا علم دیا۔
-v مٹی کا پرندہ بنا کر پھونک مار کر حقیقی پرندہ بن جانا، مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، خوراک اور گھروں میں ذخیرہ شدہ چیزوں کا بتانا یہ سب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے ہیں اور یہ ساری چیزیں اﷲ رب العزت کے حکم سے رونما ہوئیں۔
محترم قارئین ! ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر مرزا قادیانی کی درج ذیل تحریروں کا مطالعہ کریں کہ کس طرح اس کذاب نے قرآن مقدس کی واضح اور بین آیات کا انکار کیا ہے۔
* ’’سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کاکام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے۔ اور جیسے انسان میں قویٰ موجود ہوں انہی کے موافق اعجاز کے طور پربھی مدد ملتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 155,154مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 254,255)
* ’’یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر انھیں سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا۔ نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہو گیا تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 322 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 حاشیہ صفحہ 263)
* ’’ ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل الترب یعنی مسمریزی طریق سے بطور لہو ولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آ سکیں کیونکہ عمل الترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں، ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ155,156مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 256,255)
* ’’مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں ۔ اگریہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 158، مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 258)
* ’’آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی ۔ ادنیٰ ادنیٰ بات پر غصہ میں آجاتا تھا اور اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں کیونکہ آپ توگالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
( انجام آتھم حاشیہ صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 289)
* ’’نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔ ‘‘
(حاشیہ انجام آتھم مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 290)
* ’’مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا: ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( مرزا قادیانی ) کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی اﷲ تعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے اس پر حضور علیہ السلام (مرزا قادیانی) نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت توڑنے کے لیے ماں کا ذکر کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں ’’بھرجائی کانیے تینوں سلام آکھناواں‘‘ جس سے مقصود کانا ثابت کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلام کہنا ۔ اسی طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیت ہے نہ کہ مریم کی صدیقیت کا اظہار‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول، صفحہ 732 روایت 801)
* ’’ یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں ۔ یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں ۔ یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھیں ۔‘‘
(کشی نوح صفحہ 20، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
* ’’پانچواں قرینہ ان کے وہ رسوم ہیں جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں۔ مثلاً ان کے بعض قبائل ناطہ اور نکاح میں کچھ چنداں فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلا تکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں۔ حضرت مریم کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے مگر خوانین سرحدی کے بعض قبائل میں مماثلت عورتوں کی اپنے منسوبوں سے حد سے زیادہ ہوتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے بھی حمل ہو جاتا ہے جس کو برا نہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات کو ٹال دیتے ہیں کیونکہ یہود کی طرح یہ لوگ ناطہ کو ایک قسم کا نکاح ہی جانتے ہیں جس میں پہلے مہر بھی مقرر ہو جاتا ہے ۔‘‘
(ایام الصلح صفحہ 74، مندرجہ روحانی خزائن جلد 14، صفحہ 300)
* ’’مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیا تاکہ وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو اور تمام عمر خاوند نہ کرے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایاں ہو گیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام کے ایک نجار سے نکاح کر دیا اوراس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا، وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا ۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 24، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20، صفحہ356,355)
* ’’اور مریم کی وہ شان ہے کہ جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا ، پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا ، گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں کیوں کر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیادڈالی گئی ۔ یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میںآوے ۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے ،نہ قابل اعتراض۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ 20، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
محترم قارئین! آپ نے قرآن مقدس کی آیات کے تناظر میں قادیانی دجال کی ان تحریروں کو مطالعہ کر لیا جب قادیانی ذریت کے سامنے مرز ا قادیانی کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی گستاخی پر مبنی یہ تحریر یں پیش کی جاتی ہیں تو جواب ملتا ہے کہ اس دور میں عیسائی نبی کریم علیہ السلام کے خلاف الزامات لگاتے تھے اور انہی کی انجیل کی عبارتوں کی مرزا صاحب نے تشریح کی ہے اور یہ الزامی جواب ہے جس کے بارے میں مرزا قادیانی خود لکھتا ہے:
’’ ہمارے قلم سے حضرت عیسیٰ d کی نسبت جو کچھ خلاف شان ان کے نکلا ہے ، وہ الزامی جواب کے رنگ میں اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کیے ہیں۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 326)
محترم قارئین ! یہی اصول اپنا کر جب عیسائیوں نے نبی کریم dکی گستاخی کی تو مرزا قادیانی نے ان کے اس انداز کو بدطریق قرار دیا، لیکن خوداس بدطریق پر عمل کیا۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’جس طرح یہود محض تعصب سے حضرت عیسیٰ اور ان کی انجیل پرحملے کرتے ہیں ، اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت aپر کرتے ہیں عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اس بدطریق میں یہودیوں کی پیروی کرتے۔‘‘
(چشمہ مسیحی صفحہ 4، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 337)
محترم قارئین ! حقیقت تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے گستاخان رسول ﷺ عیسائیوں کو غیر ت مند مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لیے یہ خیانت کی جس کے بارے میں خود لکھتا ہے:
’’میں اس بات کا اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی بالخصوص پرچہ نورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور مؤلفین نے ہمارے نبی ﷺکی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زنا کار تھاا ور صدہا پرچوں میں شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں یہ جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا قدرے سختی سے جواب دیا جائے تاسریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو ۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنش نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ وغضب بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہو گا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی۔ ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزار ہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے یک طرفہ ان کے اشتعال فرو ہو گئے۔۔۔۔۔۔سو مجھ سے پادریوں کے مقابل جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اول درجہ خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ ‘‘
(تریاق القلوب صفحہ ب ج ،مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 491-490)
محترم قارئین ! یہ تھا مرزا قادیانی کا عیسیٰ اور مریم e کی توہین کرنے کا اصل مقصد کہ عیسائیوں کو بچانا اور اپنے آقا انگریز کو خوش رکھنا۔ اب آتے ہیں مرزا قادیانی کے اس گھناؤنے کردار کی طرف کہ اس ملعون نے کس طرح نبی آخر الزمان جناب محمدرسول اﷲ aکی توہین کی۔
ٍ * ’’ جو شخص مجھ میں اور مصطفی a میں فرق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد16صفحہ 259)
* ’’ جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی dکی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی، پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت aکی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ و اکمل اوراشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ272-271)
ٍ * ’’ اس (نبی کریمa) کے لیے چاند کے خسوف کانشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا ،اب کیا تو انکار کرے گا؟‘‘
(اعجاز احمدی صفحہ 71 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 183)
* نبی کریم کے تین ہزار معجزات اور مرزا قادیانی کے دس لاکھ۔
’’مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبی سے ظہور پذیر ہوئے اور حدیبیہ کی پیش گوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت اندازہ کردہ پر پوری نہیں ہوئی۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد17 صفحہ 157)
’’ان چند سطروں میں جو پیش گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 72، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 72)
ٍ * ’’ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصوصیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہر ایک پہلو سے ہمارے نبی aکی توہین ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کچھ حد وحساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً آنحضرت aکی سو برس تک بھی عمر نہ پہنچی۔مگر حضرت مسیح اب قریباً دو ہزار برس سے زندہ ہیں اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت کے چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ و تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلا لیا۔ اب بتاؤ محبت کس سے زیادہ کی۔ عزت کس کی زیادہ کی۔ قرب کا مقام کس کو دیا اور پھر دوبارہ آنے کا شرف کس کو بخشا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ 112مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 205)
محترم قارئین ! ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم dنے اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دی ۔ یہ حدیث اسی کتاب کے باب سوئم میں ’’عقیدہ ختم نبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں‘‘ عنوان کے تحت درج ہے۔ مرزا قادیانی بھی اپنے آپ کو آخری اینٹ سے تشبیہ دیتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’ پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیش گوئی کو پور اکرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچادے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 178، مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178) (جاری ہے )
تحریر:۔عبیداللہ لطیف
عنوان :قادیانی دجال کی تحریری گستاخیاں ( پارٹ 2)
توہین قرآن وحدیث:۔
مرزا قادیانی قرآن مقدس کے متعلق اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے:
* ’’قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘
(بحوالہ تذکرہ صفحہ 77، طبع چہارم )
* ’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اس طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے۔ خدا کاکلام یقین کرتا ہوں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 220، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 220)
* مرزا قادیانی قرآن مجید میں تحریف کرتے ہوئے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں رقم طراز ہے:
’’ جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیاں میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا اس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انھوں نے ان فقرات کو پڑھا انا انزلناہ قریبا من القادیان تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کانام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے۔ تب انھوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے۔ تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہ الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ واقع طور پر قادیان کانام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزا زکے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے مکہ ، مدینہ اور قادیان۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 77,76 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 140)
اسی طرح اپنی کتاب ’’نور الحق‘‘ حصہ اول مندرجہ روحانی خزائن جلد 8صفحہ63 پر مرزا رقم طراز ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وَجَادِلْھُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ یہ عربی درج کرنے کے بعد حاشیہ میں سورہ النحل آیت نمبر126کا حوالہ دیا گیا ہے، جب کہ پورے قرآن پا ک میں یہ عبارت کہیں پر بھی موجود نہیں۔
* ’’اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اوروہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی ۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘
(اعجاز احمدی صفحہ 36، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 ،صفحہ 140)
* ’’اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہو اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار سے چاہے خدا سے علم پاکر قبول کر لے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کر دے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 15، مندرجہ روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 51)
* محترم قارئین!یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے نہ کہ ا للہ تعالیٰ کی مخلوق۔تاریخ گواہ ہے کہ اسی ایک مسئلہ کی وجہ سے امام احمدابن حنبل رحمۃاللہ علیہ کونہ صرف قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرناپڑیں بلکہ شدیدترین ظلم وتشددکاشکاربھی ہوناپڑالیکن اُن کے پایہ استقلال میں کمی نہ آئی اور وہ قرآن مجید کے کلام الہٰی ہونے کے مؤقف پرڈٹے رہے جبکہ مخالفین قرآن مجید کو مخلوق ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی ٹھوس دلیل پیش نہ کرسکے ۔
محترم قارئین!یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ مرزاقادیانی بھی ایسا انسان تھا جس کے دوسرے انسانوں کی طرح ماں با پ اوردوسرے عزیزرشتہ دار تھے ۔ اوربحثیت انسان وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق تھا۔مرزاقادیانی اس کے برعکس اپنے آپ کو قرآن مجید کی مانندقرقردیتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’مَآنَااِلَّاکَالْقُرْاٰنِ وَسَیَظْھَرُعَلٰی یَدَیَّ مَاظَھَرَمِنَ الْفُرْقَانِ
میں توبس قرآن ہی کی طرح ہوں اورعنقریب میرے ہاتھ پرظاہرہوگاجوکچھ فرقان سے ظاہرہوا۔‘‘
(بحوالہ تذکرہ صفحہ570طبع چہارم ازمرزاقادیانی)
توہین صحابہ j:۔
محترم قارئین ! جہاں پررب کائنات اور انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس اور پاکباز ہستیاں مرزا قادیانی کے قلم کے شرکا شکار ہوئیں وہیں پر صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی بابرکات ذاتیں بھی اس ملعون کے شر سے نہیں بچ سکیں۔ آئیے! میں آپ کو مرزا کذاب کی طرف سے توہین صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے چند نمونے بھی دکھاتا چلوں۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے :
* مرزا قادیانی اپنی جماعت کے بارے میں لکھتا ہے:
’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت aکا بروز ہوگا۔ اس لیے اس کے اصحاب آنحضرت aکے اصحاب کہلائیں گے۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 68مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ502)
’’ پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 71 مندرجہ روحانی خزائن جلد16، صفحہ 258)
* مرزاقادیانی کا فرزندمرزابشیراحمداپنی کتاب سیرت المہدی میں رقمطرازہے کہ
’’میاں امام دین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریرمجھ سے بیان کیاکہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے تین سوتیرہ اصحاب کی فہرست تیارکی توبعض دوستوں نے خطوط لکھے کہ حضورہمارانام بھی اس فہرست میں درج کیاجائے یہ دیکھ کرہم کوبھی خیال پیداہواکہ حضورعلیہ السلام سے دریافت کریں کہ آیاہمارانام درج ہوگیاہے کہ نہیں؟تب ہم تینوں برادران مع منشی عبدالعزیزصاحب حضورکی خدمت میں حاضرہوئے اوردریافت کیا۔اس پرحضورنے فرمایاکہ میں نے آپ کے نام پہلے ہی درج کیے ہوئے ہیں مگر ہمارے ناموں کے آگے ’’مع اہل بیت‘‘کے الفاظ بھی زائدکیے تھے ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ فہرست حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے 1896-97ء میں تیارکی تھی اوراسے ضمیمہ انجام آتھم میں درج کیاتھا۔احادیث سے پتہ لگتاہے کہ آنحضرت ﷺنے بھی ایک دفعہ اسی طرح اپنے اصحاب کی فہرست تیار کروائی تھی ۔نیزخاکسارعرض کرتاہے کہ تین سوتیرہ کاعدداصحاب بدرکی نسبت سے چناگیاتھا۔کیونکہ ایک حدیث میں ذکرآیاہے کہ مہدی کے ساتھ اصحاب بدرکی تعدادکے مطابق 313اصحاب ہوں گے جن کے اسماء ایک مطبوعہ کتاب میں درج ہوں گے۔
( دیکھو ضمیمہ انجام آتھم صفحہ40تا45)*
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ633روایت نمبر692طبع چہارم)
ّّ* محترم قارئین !اصحاب بدرکی عظمت اورشان توکسی سے پوشیدہ نہیں کیونکہ نبی کریمﷺکا فرمان اقدس ومقدس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کودیکھ کرفرمایا
((اِعْمَلُوْامَاشِءْتُمْ فَقَدْوَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃاَوْفَقَدْغَفَرْتَ لَکُمْ))
یعنی تم جیسے چاہو کام کروتمہارے لیے توجنت واجب ہوگئی یامیں نے تم کوبخش دیا
(صحیح بخاری کتاب المغازی )
محترم قارئین!مرزاقادیانی نے انجام آتھم میں اصحاب بدر کے مقابل جو313افراد کی فہرست ترتیب دی ہے اس کے آغازمیٍں مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’اب ظاہرہے کہ کسی شخص کوپہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہواکہ وہ مہدی موعو د ہونے کا دعویٰ کرے اوراس کے پاس چھپی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘میں تین سو تیرہ نام درج کرچکاہوں اوراب دوبارہ اتمام حجت کے لیے ۳۱۳تین سوتیرہ نام ذیل میں درج کرتاہوں تاہرایک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اوربموجب منشاء حدیث کے یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفا رکھتے ہیں اورحسب مراتب جس کواللہ تعالیٰ بہترجانتاہے بعض بعض سے محبت انقطاع الی اللہ اورسرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کواپنی رضاکی راہوں میں ثابت قدم کرے ۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ41مندرجہ روحانی خزائن جلد11صفحہ325)
* ’’میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر کے درجے پر ہے توانھوں نے جواب دیا کہ ابوبکر تو کیا بعض انبیاء سے بہتر ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ396طبع چہارم)
مندرجہ بالاتحریرمیں مرزاقادیانی نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کابھی ذکرکیاہے کہ ان 313 افراد کے نام اس کتاب میں بھی شامل ہیں اس کتاب کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے اس کتاب کے آخر میں ایک اشتہاردیاہے جس میں مرزاقادیانی لکھتاہے کہ
’’اخیرمیںیہ بات بھی لکھناچاہتاہوں کہ اس کتاب کی تحریرکے وقت دودفعہ جناب رسول اللہﷺکی زیارت مجھ کوہوئی اور آپ ﷺنے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آوازسے لوگوں کیدلوں کواس کتاب کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے ھٰذاکتاب مبارک فقومواللاجلال والاکرام یعنی یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ652مندرجہ روحانی خزائن جلد5صفحہ652)
محترم قارئین !آنجہانی مرزاقادیانی نے اصحاب بدر کے مقابل جو 313افراد کی فہرست مرتب کی ہے اس فہرست میں159ویں نمبرپرایک نام ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کا بھی ہے جومرزاقادیانی کے نزدیک صاحب صدک وصفاہے اور اس کانام اس کتاب(آئینہ کمالات اسلام)میں بھی درج ہے جسے بقول مرزاقادیانی تحریرکرتے ہوئے نبی کریمﷺ کی دومرتبہ زیارت ہوئی ہے اوراس کتاب کے اکرام وعزت میں فرشتوں کو قیام کرنے کاحکم ملا ہے ۔یہی ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی قادیانیت سے تائب ہو کرمسلمان ہواتومرزاقادیانی نے اس کے بارے میں لکھاکہ
’’ایک شخص (عبدالحکیم)ہے جوبیس برس تک میرامریدرہاہے اورہرطرح سے میری تائید کرتارہاہے اورمیری سچائی پراپنی خوابیں سناتارہاہے ۔اب
* ’’پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو ۔ اب نئی خلافت لو ، ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلداوّل صفحہ400طبع چہارم)
مرتدہوکراس نے ایک کتاب لکھی ہے جس کانام اس نے میری طرف منسوب کر کے کانادجال رکھاہے۔‘‘
(ملفوظات جلد5صفحہ397طبع چہارم)
مذیدآنجہانی مرزاقادیانی ایک اشتہار بعنوان ’’خداسچے کاحامی ہو‘‘میں لکھتاہے کہ
’’ڈاکٹرعبدالحکیم صاحب جوتخمیناًبیس برس تک میرے مریدوں میں داخل رہے ‘چنددنوں سے مجھ سے برگشتہ ہوکرسخت مخالف ہوگئے ہیں اوراپنے رسالہ مسیح الدجال میں میرانام کذاب‘مکار‘شیطان ‘دجال‘شریر‘حرام خوررکھاہے اورمجھے خائن اورشکم پرست اوراورنفس پرست اورمفسداورمفتری اورخداپرافتراء کرنے والاقراردیاہے اورکوئی ایساعیب نہیں جو میریذمہ نہیں لگایا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ672طبع چہارم ازمرزاقادیانی)
مذیدایک مقام پر مرزاقادیانی لکھتاہے کہ
’’عبدالحکیم نامی ایک شخص جو پٹیالہ کی ریاست میں اسسٹنٹ سرجن ہے جوپہلے اس سے ہمارے سلسلہ بیعت میں داخل تھامگربباعث کمی ملاقات اورقلت صحبت دینی حقائق سے محضبے خبراورمحروم تھااورتکبراورجہل مرکب اوررعونت اوربدظنی کی مرض میں مبتلاء تھا۔(یادرہے کہ انہی عبدالحکیم پٹیالوی کومرزاقادیانی اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم میں صاحب صدق وصفابھی قراردے چکا ہے اور ان کے لیے ثابت قدمی کی دعاکرچکاہے مذیداپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں بھی ان کا نام درج کرچکاہے اوریہ وہی کتاب ہے جسے تحریر کرتے وقت بقول آنجہانی مرزاقادیانی دومرتبہ نبی کریم ﷺکی زیارت ہوئی اورآپﷺنے اس کتاب کی تحریر پر مشرت کااظہارفرمایا)اپنی بدقسمتی سے مرتدہوکراس سلسلہ کادشمن ہوگیاہے۔‘‘
* عزیز مسلمان ساتھیو! قادیانی گروہ مرزا قادیانی کی بیوی نصرت بیگم کو ام المومنین کہتا ہے چنانچہ مرزاقادیانی کے ملفوظات پرمشتمل کتاب میں لکھاہے :
’’ام المومنین کالفظ جومسیح موعودکی بیوی کی نسبت استعمال کیاجاتاہے اس پربعض لوگ اعتراض کرتے ہیں۔حضرت اقدس علیہ السلام نے سن کرفرمایا:
اگرامہات المومنین نہیں ہوتی ہیں توکیاہوتی ہیں؟خداتعالیٰ کی سنت اورقانونِ قدرت کے اس تعامل سے بھی پتہ لگتاہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی ہم کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے جواعتراض کرتے ہیں کہ ام المومنین کیوں کہتے ہو؟ پوچھنا چاہیے کہ تم بتاؤجومسیح موعود تمہارے ذہن میں اورجسے تم سمجھتے ہوکہ وہ آکرنکاح بھی کرے گا۔کیااس کی بیوی کوام المومنین کہوگے کہ نہیں؟‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ555طبع چہارم)
(حقیقت الوحی صفحہ112مندرجہ روحانی خزائن جلد22صفحہ112)
مندرجہ بالا تحریروں اوربحث کے بعدسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا اصحاب بدر میں بھی کوئی ایسی شخصیت تھی جومرتدہوگئی ہو اگرایسانہیں ہوااوریقیناًنہیں ہواتو پھرمرزاقادیانی نبی کریم ﷺکاظل اوربروزکیونکرہوسکتاہے؟جبکہ اس نے جن لوگوں کواصحاب بدر کے مقابل کھڑاکیا تھااورجن کوصاحب صدق وصفاقراردیاتھا انہی میں سے ایک شخص(ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی)کومرتدقراردے رہاہے۔
دوسرے نمبر پریہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کے کے لیے دعابھی کی تھی کہ ’’ اللہ تعالیٰ ان سب (انجام آتھم میں شائع ہونے والی فہرست میں شامل افراد)کواپنی رضاکی راہوں میں ثابت قدم رکھے‘‘تواس کے باوجود ڈاکٹر پٹیالوی بقول مرزاقادیانی مرتد کیوں ہوگیاجبکہ دوسری طرف مرزاقادیانی اس بات کابھی دعویدار ہے کہ اس کی دعاردنہیں ہوتی چنانچہ مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’اوردعا کے بعد یہ الہام ہوا اجیب کلّ دعائک الافی شرکائک
* مرزاقادیانی نصرت بیگم کوسیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاسے تشبیہ دیتے ہوئے رقمطرازہے کہ
’’اشکرنعمتی رئیت خدیجتی۔ براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸ ترجمہ :۔ میراشکرکرکہ تونے میری خدیجہ کوپایا۔ یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی۔جوسادات کے گھرمیں دہلی میں ہواجس سے بفضلہ تعالیٰ چارلڑکے پیداہوئے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ146مندرجہ روحانی خزائن جلد18صفحہ 524ازمرزاقادیانی)
میں تمہاری ساری دعائیں قبول کروں گامگرشرکاء کے بارے میں نہیں۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ82مندرجہ روحانی خزائن جلد15صفحہ210)
سوال یہ پیداہوتاہے کہ ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کے حق میں مرزاقادیانی کی دعاقبول کیوں نہ ہوئی جبکہ وہ اس کا شریک بھی نہیں تھا؟کیاہم یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ مرزاقادیانی کامندرجہ بالا الہام جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میں تمہاری ساری دعائیں قبول کروں گامگرشرکاء کے بارے میں نہیں۔‘‘اﷲتعالیٰ کی ذات پرافتراء ہے ۔اگرافتراء نہیں توڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی مرزائیت سے تائب ہوکرمسلمان (بقول مرزامرتد) کیوں ہوا؟
محترم قارئین !ڈاکٹرپٹیالوی جب قادیانیت سے تائب ہواتواس نے بھی دعویٰ کیاکہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرزاقادیانی کے متعلق الہام ہواہے کہ مرزاقادیانی تین سال کے اندراندرہلاک ہوجائے گاقطع نظراس بات کے کہ ڈاکٹرپٹیالوی کایہ دعویٰ سچاتھایاباطل ‘اس سلسلہ میں ہم مرزاقادیانی کی مذیدتحریریں ملاحظہ کرتے ہیں۔
مرزاقادیانی نے 16اگست1906ء کوایک اشتہارشائع کیااس میں مرزاقادیانی نے لکھاکہ
’’میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی میری نسبت پیشگوئی جواخویم مولوی نورالدین صاحب کی طرف اپنے خط میں لکھتے ہیں ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں
* ’’حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سررکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ (حاشیہ) صفحہ 9 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ213)
’’مرزاکے خلاف 12جولائی 1906ء کویہ الہامات ہوئے ہیں۔مرزامسرف کذاب اورعیار ہے صادق کے سامنے شریر فناہوجائے گااوراس کی میعادتین سال بتائی گئی ہے۔‘‘
اس کے مقابل پروہ پیشگوئی ہے جوخداتعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی جس کے الفاظ یہ ہیں
’’خداکے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اوروہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں ان پرکوئی غالب نہیںآسکتا۔فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوارتیرے آگے ہے پرتونے وقت کو پہچانانہ دیکھانہ جانا۔رب فرق بین صادق وکاذب انت تریٰ کل مصلح صادق۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ673‘674طبع چہارم ازمرزاقادیانی)
اس کے کچھ عرصہ بعدڈاکٹرپٹیالوی صاحب نے پھردعویٰ کیا کہ اسے الہام ہواہے کہ مرزاقادیانی جولائی 1907ء سے چودہ ماہ تک مرجائے گاتومرزاقادیانی نے اس الہام پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسے بھی اﷲتعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ
’’میں تیری عمر کوبھی بڑھاؤں گایعنی دشمن جوکہتاہے کہ صرف جولائی 1907ء سے چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیںیاایساہی جودوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کوجھوٹاکروں گااورتیری عمر کوبڑھادوں گاتامعلوم ہوکہ میں خداہوں اورہرایک امرمیرے اختیارمیں ہے۔‘‘
یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں میری فتح اوردشمن کی شکست اورمیری عزت اوردشمن کی ذلت اورمیرااقبال اوردشمن کاادبار بیان فرمایاہے اوردشمن پرغضب اور عقوبت کاوعدہ کیا ہے مگرمیری نسبت لکھاہے کہ دنیامیں تیرانام بلندکیاجائے گااورنصرت
* کربلائے است سیرہر آنم صدحسین است درگریبانم
ترجمہ: میری سیر ہر وقت کربلا میں ہے سو (100) حسین ہر وقت میری جیب میں ہیں۔
(نزول المسیح صفحہ 99، مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 477)
اورفتح تیرے شامل حال ہوگی اوردشمن جومیری موت چاہتاہے خودمیری آنکھوں کے روبرواصحاب الفیل کی طرح نابوداورتباہ ہوگا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ720اشتہاربعنوان ’’تبصرہ‘‘طبع چہارم)
مذیدایک مقام پرمرزاقادیانی لکھتاہے کہ
’’ہاںآخری دشمن اب ایک اورپیداہواہے جس کانام عبدالحکیم خاں ہے اوروہ ڈاکٹرہے اورریاست پٹیالہ کارہنے والاہے جسکا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی 4اگست 1908ء تک ہلاک ہوجاؤں گااوریہ اس کی سچائی کے لیے ایک نشان ہوگا۔یہ شخص الہام کادعویٰ کرتاہے اورمجھے دجال اورکافراورکذاب قراردیتاہے پہلے اس نے بیعت کی اور برابربیس برس تک میرے مریدوں اورمیری جماعت میں داخل رہا۔۔۔۔۔۔۔۔آخر میں نے اسے اپنی جماعت سے خارج کردیاتب اس نے پیشگوئی کی میں اس کی زندگی میں ہی4۱گست 1908ء تک اس کے سامنے ہلاک ہوجاؤں گا۔مگرخدانے اسکی پیشگوئی کے مقابل پرمجھے خبردی کہ وہ خودعذاب میں مبتلاکیاجائے گا اورخدااس کوہلاک کرے گااورمیں اس کے شرسے محفوظ رہوں گا سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کافیصلہ خداکے ہاتھ میں ہے بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جوشخص خداتعالیٰ کی نظرمیں صادق ہے خدااس کی مددکرے گا۔‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ321‘322مندرجہ روحانی خزائن جلد23صفحہ336‘337)
اس چیلنج بازی کانتیجہ یہ نکلاکہ مرزاقادیانی 26مئی 1908ء کوہلاک ہوگیا چنانچہ مورخ مرزائیت دوست محمدشاہد تاریخ احمدیت میں رقمطرازہے کہ
* ’’ اور انھوں نے کہا کہ اس شخص (مرزاقادیانی) نے امام حسن اور حسین سے اپنے تئیں اچھا سمجھا میں کہتا ہوں کہ ہاں میرا خدا عنقریب ظاہر کر دے گا۔‘‘
(اعجاز احمدی، صفحہ 52مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 164)
’’وفات کے وقت حضورکی عمر سواتہترسال کے قریب تھی دن منگل کا تھااورشمسی تاریخ 26مئی1908ء تھی۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ472ازدوست محمد شاہد قادیانی)
ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کے متعلق دوست محمد شاہدقادیانی لکھتاہے کہ
’’وہ یکم جون 1920ء کی شب گمنامی کی حالت میں سل کی مرض میں چندمبتلارہ کراپنے الہامات کی صریح ناکامی اورسلسلہ احمدیہ کی کامیابی دیکھتا ہواچل بسا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ472)
آخرکارنتیجہ یہ نکلاکہ مرزاقادیانی کذاب تھابقول فاتح قادیاں مولاناثناء اللہ امرتسری رحمۃاللہ علیہ
لکھاتھاکاذب مرے گا پیشتر
کذب میں پکاتھاپہلے مرگیا
عموماًقادیانی حضرات ڈاکٹر پٹیالوی کو جھوٹاقراردیتے ہیں اورناکام کوشش کرتے ہوئے قادیانی مورخ دوست محمدشاہدلکھتاہے کہ
’’خدائے حکیم وخبیرنے جواپنے پیار ے مسیح سے یہ وعدہ کرچکا تھا کہ میں دشمنوں کوجھوٹا کروں گاعبدالحکیم کی پیشگوئی کے دونوں اجزاء کویوں باطل کردیاکہ حضوراپنے بعض گذشتہ الہامات کی بنا پر26مئی1908ء کوانتقال فرماگئے اورصاف طور واضح کر دیاکہ عبدالحکیم کاذب ومفتری انسان ہے حقیقت اتنیواضح اورنمایاں تھی کہ ’’پیسہ اخبار‘‘کے ایڈیٹرکے علاوہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی اس کااقرارکیاچنانچہ لکھا’’ہم خدالگتی کہنے سے رک نہیں سکتے کہ ڈاکٹرصاحب اگراسی پربس کرتے یعنی چودہ ماہیہ پیشگوئی کرکے مرزاکی موت کی تاریخ مقررنہ کردیتے جیساکہ انہوں نے کیاچنانچہ 15مئی 1908ء کے
* ’’بعض نادان صحابی جن کودرایت سے کچھ حصہ نہ تھا‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ285)
* ’’جیسا کہ ابوہریرہ جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔‘‘
(اعجاز احمدی صفحہ 18، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 127)
* جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے ، اسے چاہیے کہ ابوہریرہ کے قول کو ردی متاع کی طرح پھینک دے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 610، مندرجہ روحانی خزائن ج 21ص 41)
اہلحدیث میں ان کے الہامات درج ہیں کہ 21ساون یعنی 4اگست کو مرزامرے گا تو آجوہ اعتراض نہ ہوتا جومعزز ایڈیٹر’’پیسہ ‘‘اخبارنے ڈاکٹرصاحب کے اس الہام پرچبھتاہواکیاہے کہ 21ساون کوکی بجائے 21ساون تک ہوتاتوخوب ہوتا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ472)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کوسچاثابت کرنے کے لیے اﷲتعالیٰ نے کونساطریقہ اختیار کرناتھا مرزاقادیانی کی عمر کم کرنے کا یابڑھانے کا؟یہمعلوم کرنے کے لیے مرزاقادیانی کو ہونے والا الہام دوبارہ ملاحظہ فرمائیے اورخودفیصلہ کیجیے کہ مرزا قادیانی کیونکر سچاہوسکتاہے؟جبکہ مرزاقادیانی واضح طورپر مدعی مسیحیت‘نبوت ہے اوراس کے برعکس ڈاکٹر پٹیالوی تومحض الہامی ہونے کا دعوے دارتھانہ کہ مدعی مسیحیت یانبوت ۔‘اب مرزاقادیانی کا الہام دوبارہ ملاحظہ فرمائیں
’’میں تیری عمرکوبھی بڑھاؤ ں گایعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی 1907ء سے چودہ مہینے تک تیری عمرکے دن رہ گئے ہیںیاایساہی جودوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کو میں جھوٹاکروں گا اور تیری عمرکو بڑھا دوں گا تامعلوم ہوکہ میں خداہوں اورہرایک امرمیرے اختیار میں ہے۔‘‘
یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں میری فتح اور دشمن کی شکست اورمیری عزت اوردشمن کی ذلت اورمیرااقبال اوردشمن کاادباربیان فرمایاہے اوردشمن پرغضب
* ’’ بعض کم تدبر کرنے والے صحابہ جن کی درایت اچھی نہیں تھی (جیسے ابوہریرہ) ۔۔۔۔۔۔اکثر باتوں میں ابوہریرہ بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکوں میں پڑ جایا کرتا تھا ۔ چنانچہ ایک صحابی کے آگ میں پڑ جانے کی پیش گوئی میں بھی اس کو یہی دھوکا لگا تھا اور آیت وَاِنْ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ کے ایسے الٹے معنی کرتا ہے جس سے سننے و الے کو ہنسی آ تی تھی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 34روحانی خزائن جلد 22صفحہ 36)
توہین حرمین شریفین:۔
* مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔ مبارک، ومبارک کل امر مبارک یجمل فیہ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا ہے، قرآن شریف کی آیت بارکناحولہ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
(سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ‘)
(خطبہ الہامیہ حاشیہ صفحہ21مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 25)
اورعقوبت کاوعدہ کیاہے مگرمیری نسبت لکھاہے کہ دنیانیں تیرانام بلندکیاجائے گااورنصرت اورفتح تیرے شامل حال ہوگی اوردشمن جومیری موت چاہتا ہے خودمیری آنکھوں کے روبرو اصحاب الفیل کی طرح نابوداورتباہ ہوگا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ720اشتہار بعنوان’’تبصرہ‘‘طبع چہارم)
محترم قارئیں!مندرجہ بالاتحریروں کومدنظر رکھتے ہوئے خودفیصلہ کیجیے کہ کیا مرزاقادیانی کی عمر میں اضافہ ہوایاکمی ‘ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی مرزاقادیانی کی زندگی ہی اصحاب الفیل کی طرح نابوداورتباہ ہوایاکہ مرزاقادیانی خودعمر کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹرعبدالحکیم پٹیالوی کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا۔
* ’’ والمسجد الاقصی المسجد الذی بناہ المسیح الموعود فی القادیان۔‘‘
یعنی مسجد اقصیٰ سے مراد وہ مسجد ہے جسے قادیان میں مسیح موعود نے بنایا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ حاشیہ صفحہ 25مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 25)
ٍ* ’’معراج میں جو آنحضرت aمسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصیٰ وہی ہے، جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے۔ جس کانام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 22مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 22)
* اﷲ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر97 میں بیت اﷲ کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًاجو اس میں داخل ہو گیا، اس کے لیے امن ہے۔ مرزا قادیانی اس آیت کو قادیان کی مسجد پہ چسپاں کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
’’ ا س مسجد مبارک کے بار ے میں پانچ مرتبہ الہام ہوامنجملہ ان کے ایک عظیم الشّان الہام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فِیْہِ بَرَکَاتٌوَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًا۔‘‘
(تذکرہ صفحہ83، طبع چہارم)
* ’’لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ (قادیان میں آنا) نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 352مندرجہ خزائن جلد 5صفحہ 352)
* خداکاہم پہ بس لطف وکرم ہے وہ نعمت کون سی باقی جوکم ہے
زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
(درّثمین اردو صفحہ56ازمرزاقادیانی)
 
Top