- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
قاضیوں(ججوں) کی تین قسمیں
ورنہ سنن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
القضاة ثلاثةقاضیان فی النار و قاض فی الجنة رجل علم الحق و قضی بہ فھو فی الجنة و رجل قضی للناس علی جہل فھو فی النار و رجل علم الحق تقضی بغیرہ فھو فی النار
''قاضیوں کی تین قسمیں ہیں۔ ان میں سے دو دوزخی ہیں اور ایک جنتی۔ جس آدمی کو حق معلوم ہوگیا اور اس نے حق ہی پر فیصلہ دے دیا وہ جنتی ہے۔ جس آدمی نے جہالت میں فیصلہ کر دیا وہ دوزخی ہے اور جس کو حق معلوم ہوگیا اور فیصلہ اس کے خلاف دے دیا۔ وہ بھی دوزخی ہے۔''
(ابوداؤد، کتاب الاقضیة، باب القاضی، یخطی ، رقم : ۳۵۷۳، ترمذی کتاب الاحکام، باب ماجاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی القاضی، رقم: ۱۳۲۲، ابن ماجہ، کتاب الحکام، باب الحاکم یجتھد فیصیب الحق رقم: ۲۳۱۵۔)
عالم و عادل قاضیوں میں سب سے افضل سردار بنی آدم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
صحیحین میں ان سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو اور ممکن ہے تم میں سے بعض دوسرے کی بہ نسبت حجت پیش کرنے میں زیادہ ہوشیار ہوں۔ بہرحال میں تو فیصلہ اس کے مطابق دیتا ہوں جو کہ میں سن لوں۔ اس لیے جس شخص کے حق میں یہ فیصلہ دے دیا جائے کہ اسے اپنے بھائی کے حق میں سے کچھ ناجائز طور پر مل گیا ہو تو وہ نہ لے کیونکہ وہ آگ کا ٹکڑا ہے
(بخاری ، کتاب المظالم، باب اثم من خاصم فی باطل وھو یعلم۔ رقم: ۲۴۵۸، مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب بیان ان حکم الحاکم لایغیر الباطن، رقم: ۴۴۷۳، مؤطا کتاب الاقضیۃ۔)
سیدالانام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کے حق میں اس کا بیان سن کر کچھ فیصلہ ہوجائے اور حقیقت میں اس شخص کا حق نہ ہو تو اس کے لیے لینا جائز نہیں۔ کیونکہ اس سے اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ مطلق املاک کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ جب اپنے خیال میں شہادت و اقرار کی مثل شرعی حجت کی بناء پر کوئی فیصلہ کر دے اور حقیقت، ظاہر کے خلاف ہو تو جس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے اس فیصلے کے مطابق چیز لے لینا حرام ہے۔ اگر عقود مثلاً نکاح اور فسخ نکاح کے بارے میں بھی ایسا فیصلہ صادر ہوجائے تو اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ جس شخص کے حق میں فیصلہ ہو جائے وہ فیصلہ سے فائدہ نہ اٹھائے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل کا یہی مذہب ہے اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے دو قسموں میں فرق کیا ہے۔
اس لئے جب لفظ شرع و شریعت سے مراد کتاب و سنت ہو تو اولیاء اللہ میں سے کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے اور نہ کسی اور کو اس کا اختیار ہے کہ اس سے خروج کرے اور جس کا خیال ہو کہ اولیاء اللہ میں سے کسی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری و باطنی متابعت کئے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا رستہ معلوم ہے جو ظاہری باطنی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے علاوہ ہے اور وہ ظاہراً و باطناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کرے تو وہ کافر ہے۔جو شخص اس مسئلے میں موسیٰ و خضر علیہما السلام کے قصہ سے استدلال کرتا ہے۔ وہ دو وجوہ سے غلطی پر ہے۔
ایک یہ کہ نہ تو سیدناموسیٰ علیہ السلام، خضر علیہ السلام کی طرف مبعوث تھے اور نہ خضر علیہ السلام پر ان کی پیروی واجب تھی۔ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام جن و انسان کے لیے ہے۔
اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہء رسالت کو کوئی ایسی شخصیت بھی پالے جو خضر علیہ السلام سے بھی افضل ہو مثلاً سیدناابراہیم، سیدناموسیٰ اور سیدناعیسیٰ علیہم السلام تو اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع واجب ہوگا تو خضر علیہ السلام خواہ نبی ہوں یا ولی کیوں کر اتباع نہ کریں گے، یہی وجہ ہے کہ خضر علیہ السلام نے سیدناموسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا:
انا علی علم من علم الہ علمنیہ اللہ لا تعلمہ و انت علی علم من علمہ اللہ علمکہ اللہ لا اعلمہ
کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں سے کچھ مجھے سکھا دیا ہے جو آپ کو معلوم نہیں ، اور اسی نے اپنے علم سے کچھ آپ کوسکھا دیا ہے، جس سے میں آگاہ نہیں۔
(بخاری کتاب العلم باب ماذکر فی ذہاب موسیٰ فی البحر رقم: ۷۳، مسلم کتاب الفضائل، باب فضائل خضر رقم: ۶۱۶۳۔)
جن و انسان میں سے جس کسی تک بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پہنچ چکی ہو تو اسے اس طرح کی بات کرنا روا نہیں۔