• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے !!!



فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا :


قبروں پر تعمیرات قائم کرنا حرام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس طرح قبر میں دفن اشخاص کی تعظیم ہوتی ہے، اور اسی طرح یہ عمل غیر اللہ کی عبادت یعنی قبروں کی پوجا کا بھی ذریعہ ہے ، جیسے کہ یہ بات قبروں پر بنائی گئی بہت سی تعمیرات میں ہو رہا ہے، کہ لوگ ان قبروں میں مدفون لوگوں کو اللہ کے برابر شریک بنانے لگے ہیں، اور ان سے اپنی حاجت روائی طلب کرتے ہیں ۔

حالانکہ قبروں میں مدفون لوگوں سے دعا مانگنا، اپنی مشکل کشائی کیلئے ان سے مدد طلب کرنا، شرک اکبر ہے، اور اسلام سے مرتد ہونے کا موجب ہے۔ اللہ ہی ہماری مدد فر مائے" انتہی


قبروں پر قبے اور گنبد اور مزار تعمير كرنا ممنوع ہے، اور يہ قبروں كى تعظيم اور شرك كا ذريعہ ہيں اور اسى طرح تقريبا ايك بالشت سے قبر اونچى كرنا بھى ممنوع ہے.

شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور قبروں پر قبے اور گنبد اور مزار بنانا بھى اس حديث ( مندرجہ بالا حديث ) كے تحت بالاولى شامل ہوتے ہيں، اور قبروں كو مساجد بنانا بھى يہى ہے، اور ايسا كرنے والے پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے ....

قبروں كو پكا كرنا اور انہيں اچھى اور بناسنوار كر تعمير كرنے سے كتنى ہى خرابياں پيدا ہو چكى ہيں اور سرايت كر چكى ہيں جس سے آج اسلام رو رہا ہے؛ ان خرابيوں ميں جاہل قسم كے افراد كا وہى اعتقاد ہے جو كفار اپنے بتوں سے ركھتے ہيں، اور يہ اتنى عظمت اختيار كر گيا ہے كہ لوگ يہ گمان كرنے لگے ہيں كہ يہ قبر نفع دينے اور نقصان دور كرنے پر قادر ہے، تو اس طرح انہوں نے ان قبروں كو اپنى حاجات و ضروريات پورى كرنے اور نجات و كاميابى اور مطلب پورے ہونے كى جگہ بنا ليا ہے، اور وہاں سے وہ كچھ مانگنے لگے ہيں جو انہيں اپنے رب اور پروردگار سے مانگنا چاہيے، اور ان قبروں كى طرف سفر كر كے جانے لگے ہيں، اور انہيں تبركا چھو كر اس سے مدد مانگتے ہيں؛ اجمالى طور پر يہ كہ انہوں نے كوئى ايسا كام نہيں چھوڑا جو جاہليت ميں بتوں كے ساتھ نہ ہوتا ہو آج يہ بھى اس پر عمل پيرا ہيں، انا للہ و انا اليہ راجعون!!

اس شنيع اور قبيح برائى اور فظيع كفر كے باوجود ہم كوئى ايسا شخص نہيں پاتے جو اللہ كے ليے غصہ ركھے اور دين حنيف كى حميت ميں غيرت كھائے، نہ تو كوئى عالم دين، اور نہ ہى كوئى طالب علم، اور نہ ہى كوئى افسر اور حكمران اور نہ ہى كوئى وزير و مشير اور نہ ہى كوئى بادشاہ ؟!!

ہميں بہت سى ايسى خبريں ملى ہيں جن ميں كوئى شك وشبہ كى گنجائش ہى نہيں كہ بہت سے قبر پرست لوگ يا پھر ان ميں سے اكثر كو جب اپنے مخالف كى جانب سے قسم اٹھانے كا كہا جائے تو وہ جھوٹى قسم اٹھا ليتے ہيں، ليكن جب اس كے بعد انہيں يہ كہا جائے كہ تم اپنے پير اور اعتقاد، يا فلاں ولى كى قسم اٹھاؤ تو وہ ہكلانا شروع كر ديتا ہے، اور ليت و لعل سے كام ليتا اور انكار كرتا ہوا حق كا اعتراف كر ليتا ہے؟!!

يہ ان كے شرك كى سب سے بڑى اور واضح دليل ہے كہ ان كا شرك تو ان لوگوں سے بھى بڑھ چكا ہے جو اللہ تعالى كو دو ميں دوسرا، يا پھر تين ميں تيسرا مانتے ہيں؛ تو اے علماء دين، اور اے مسلمان حكمرانو اسلام كے ليے كفر سے زيادہ بڑى مصيبت اور كيا ہے، اور اس دين اسلام كے ليے غير اللہ كى عبادت سے زيادہ كونسى آزمائش و ابتلاء ہے، اور مسلمانوں كو كونسى ايسى مصيبت پہنچى ہے جو اس مصيبت كے برابر ہو، اور كونسى ايسى برائى ہے جس كا انكار واجب ہو اگر اس واضح اور واجب شرك كا انكار كرنا واجب نہيں ؟:

اگر تم كسى زندہ كو آواز دو تو تم اسے سنا سكتے ہو، ليكن جسے تم پكار ر ہے اس ميں تو زندگى كى رمق ہى نہيں.

اور اگر كسى آگ ميں پھونك مارو تو روشنى بھى ہو، ليكن تم تو راكھ ميں پھونكيں مار رہے ہو" انتہى.

ماخوذ از: نيل الاوطار ( 4 / 83 - 84 ).

اس سے آپ كو يہ معلوم ہو گيا ہوگا كہ آپ نے جو سنگ مرمر اكھاڑے اور منہدم كيے ہيں اور قبر كا اوپر والا حصہ گرايا ہے ايك اچھا عمل تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے موافق بھى ہے جس كا آپ نے حكم بھى ديا تھا، اور اس ميں قبر يا قبر والے كى اہانت و توہين نہيں، بلكہ اس ميں قبر اور قبر والے كى عزت و اكرام ہے كہ وہ سنت كے مطابق ہو.

آپ نے جو يہ بيان كيا ہے كہ جو كچھ آپ نے كيا ہے اس پر آپ كو بڑے اور بوڑھے لعنت ملامت كرنے لگے ہيں تو يہ ان كى زيادتى اور آپ پر ظلم ہے آپ اس پر صبر كريں كيونكہ آپ نے ايك اطاعت و فرمانبردارى كا كام كيا ہے، اور پھر جو كوئى بھى لوگوں كو نيكى اور بھلائى كا حكم ديتا ہے يا پھر انہيں برائى سے منع كرتا ہے اس كے ساتھ يہى كچھ ہوتا ہے.

سورۃ لقمان ميں لقمان كى وصيت ميں اللہ تعالى نے ہميں يہ بيان كيا ہے كہ:

﴿ اے ميرے بيٹے نماز كى پابندى كرتے رہنا، اور نيكى و بھلائى كا حكم ديتے رہو، اور برائى سے روكتے رہو، اور جو كچھ تجھے پہنچے اس پر صبر كرو، يقينا يہ پرعزم اور تاكيدى امور ميں سے ہے ﴾لقمان ( 17 ).

ليكن اس ميں عظيم خرابى پيدا نہ ہونے كا خيال ركھنا ضرورى ہے؛ كيونكہ برائى كو روكنے كى شرط ميں يہ شامل ہے كہ اسے روكنے سے اس سے بھى بڑى برائى اور خرابى پيدا نہ ہوتى ہو.

اسى ليے جب كسى انسان كے گمان ميں يہ غالب ہو كہ اگر اس نے قبر كو منہدم كر كے برابر كر ديا تو اس سے اس كے علاقے يا اس كى قوم ميں فتنہ و فساد بپا ہو جائيگا، يا پھر اسے اس كى بنا پر جيل جانا پڑيگا يا پھر اسے زدكوب كيا جائيگا، تو پھر اس حالت ميں اسے خاموشى اختيار كر لينى چاہيے، اور جب خرابى بڑھ جائے يا پھر اس كے بھائى يا كسى قريبى عزيز كو گزند پہنچنے كا خدشہ ہو تو پھر برائى ہاتھ سے روكنا حرام بھى ہو سكتا ہے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/83133
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
الحمد للہ:

اول:

مسلم : (969) میں ہے کہ ابو ہیّاج اسدی کہتے ہیں کہ :

مجھے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا میں تمہیں ایسے کام کیلئے ارسال نہ کروں جس کام کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارسال کیا تھا؟[مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:](کسی بھی مورتی کو مٹائے بغیر اور کسی بھی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر مت چھوڑنا)"

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث میں یہ بات ہے کہ: قبر بناتے ہوئے سنت یہ ہے کہ زمین سے زیادہ اونچی نہ کی جائے، اور نہ ہی اسکی کوہان بنائی جائے، بلکہ ایک بالشت کے برابر اونچی کی جائے اور [کوہان کی بجائے]برابر ہو، یہی امام شافعی رحمہ اللہ اور انکی موافقت کرنے والے علمائے کرام کا موقف ہے، جبکہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اکثر علمائے کرام سے یہ نقل کیا ہے کہ قبر کی کوہان بنانا افضل ہے، اور یہ موقف امام مالک رحمہ اللہ کا ہے" انتہی

" شرح نووی على مسلم " (7/ 36)

اور ملّا علی قاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: ایک بالشت تک قبر کو بلند کرنا مستحب ہے، اور اس سے زیادہ بلند کرنا مکروہ ہے، جبکہ زیادہ بلند کو ڈھانا مستحب ہے، لیکن اسے کتنی مقدار میں ڈھانا ہے؟ اس بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ کچھ سختی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : "زمین کے برابر کر دیا جائے" اور انکا یہ کہنا حدیث کے الفاظ کے [یعنی علی رضی اللہ عنہ کی گزشتہ روایت کے]زیادہ قریب ہے۔

اور ابن ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

اس حدیث کو لوگوں کے اس عمل پر محمول کیا جائے گا، جس میں وہ قبروں پر بلند تعمیرات کرتے تھے، اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ قبر کی کوہان بنائی جائے، بلکہ زمین سے اتنی بلند ہو کہ نظر آئے [کہ یہ قبر ہے] اور زمین کے دیگر حصوں سے امتیاز ہوسکے" انتہی

" مرقاة المفاتيح " (3/ 1216)

اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"حدیث کے الفاظ" برابر کر دینا" کا مطلب یہ ہے کہ تم [قبر پر بنی عمارت کو] توڑ کر منہدم کر دینا، اور زمین کے برابر کر دینا، چنانچہ صرف قبر کی علامت کے طور پر صرف ایک بالشت اونچی رہنے دینا، اللہ تعالی نے اسی طرح قبریں بنانے کی اجازت دی ہے، کہ زمین سے ایک بالشت کے برابر ہی بلند کی جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہاں قبر ہے، اور قبر کو قدموں سے روندنے اور اہانت سے بچایا جاسکے، اور ان پر کچھ تعمیر نہ کیا جائے" انتہی

" فتاوى نور على الدرب " (2/ 369)

یہ دعوی کرنا کہ قبروں کو برابر کرنے کا حکم یہود ونصاری کی قبروں کیساتھ مختص تھا، یہ دعوی ہی باطل ہے، اسکی درج ذیل وجوہات ہیں:

1- سب سے پہلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام تھا، اور تخصیص کیلئے دلیل کی ضرورت ہے، جبکہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس تخصیص سے متصادم دلیل ملتی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
(لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ) میں " تِمْثَالًا " اور " قَبْرًا " نکرہ ہیں جو کہ نہی کے سیاق میں آئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ حکم ہر قبر کیلئے ہے، کیونکہ نکرہ اگر نفی یا نہی کے سیاق میں آئے تو عموم کا فائدہ دیتا ہے، جیسے کہ فرمان باری تعالی میں ہے:

(وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا * إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ) [الكهف: 23- 24]

[اس آیت میں " لِشَيْءٍ " نکرہ نفی کے سیاق میں ہے جو کہ عموم کا تقاضا کرتا ہے۔ مترجم]

اور ایسے ہی
(وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ) [القصص: 88]

[یہاں پر بھی " إِلَهًا " کا لفظ نکرہ نفی کے سیاق میں ہے جو کہ عموم کا تقاضا کرتا ہے۔مترجم]

اور قرافی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"نہی کے سیاق میں نکرہ ایسے ہی ہے جیسے نفی کے سیاق میں ہوتا ہے، یعنی عموم کا فائدہ دیتا ہے "انتہی
" الفروق " (1/ 191)

2- مسلم : (968) میں اس حدیث سے بالکل متصل پہلے یہ ہے کہ: ثمامہ بن شُفَی کہتے ہیں کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ رومی علاقے "ردوس" میں تھے، تو ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا، تو ہمیں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے اسکی قبر برابر کرنے کا حکم دیا، اور پھر کہا کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آپ قبروں کو برابر کرنے کا حکم دے رہے تھے"

تو یہ ایک صحابی کا فعل ہے ، جو انہوں نے ایک مسلمان کی قبر کیساتھ کیا ہے، جسکی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تمام قبروں کو برابر کرنے کا مطلب ہی سمجھا تھا۔

3- اگر یہ حکم صرف یہود ونصاری کی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کیساتھ مختص ہوتا تو کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ: تصاویر اور مورتیاں مٹانے کے متعلق حکم بھی انہیں کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ دونوں احکامات ایک ہی حدیث میں اکٹھے وارد ہوئے ہیں، اور یہ بات بالکل باطل ہے، اہل علم میں سے کسی کا بھی یہ موقف نہیں ہے۔

دوم:

قبر پر تعمیراتی کام چاہے قبر کے ارد گرد ہو یا قبر کے اوپر ہر دو صورت میں حرام ہے، کیونکہ یہ قبروں کی تعظیم میں شامل ہے، اور یہ شرک کیلئے راہ ہموار کرتا ہے۔

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے قبروں پر تعمیر کا حکم دیا ہو، اور ان پر مزار یا عمارتیں بنانے کا حکم بھی نہیں دیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے اس چیز کی ممانعت ثابت ہے، آج بھی بقیع میں صحابہ کرام کی قبریں سب لوگوں کیلئے عیاں ہے، کوئی قبر بھی اونچی نہیں ہے، اور ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مزار وغیرہ بھی نہیں ہے۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر پرکھتے ہیں، چنانچہ مخالفین کو کہا جائے گا:

اگر قبر نبوی پر تعمیراتی کام سنت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے خلفائے راشدین اسکا حکم ضرور کرتے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دو ساتھیوں کی قبر پر اس لئے تعمیر کی کہ انہوں نے مسجد کی توسیع کیلئے قبر پر ایک دیوار بنائی، تا کہ عوام الناس قبر نبوی کو سجدہ گاہ نہ بنا لیں، اور جاہل لوگوں کیلئے فتنہ نہ بنے۔

چنانچہ بخاری: (1390) اور مسلم : (529) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا تھا:

(اللہ تعالی یہود ونصاری پر لعنت فر مائے جنہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا)، اگر اس چیز کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی سب کیلئے عیاں ہوتی، لیکن اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔

اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

"علمائے کرام کہتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی یا کسی اور کی قبر کو بھی سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا تھا، اس لئے کہ کہیں لوگ تعظیم نبوی میں غلو سے کام لیں اور فتنے میں نہ پڑ جائیں، جو کہ بسا اوقات انسان کو کفر تک بھی پہنچا سکتا ہے، جیسے کہ گزشتہ اقوام کیساتھ ایسا ہو بھی چکا ہے۔

اور جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اور تابعین کرام کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث مسجد نبوی میں توسیع کی ضرورت پیش آئی ، اور توسیع امہات المؤمنین کے گھروں تک پہنچ گئی ، جن میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ بھی تھا، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دو ساتھیوں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا مدفن بھی ہے، تو انہوں نے قبر کے ارد گرد چاروں طرف دیوار بنا دی تا کہ مسجد سے قبر نظر نہ آئے، اور کہیں عوام اسی طرف متوجہ ہو کر نمازیں نہ پڑھنے لگیں، اور حرام کام کا ارتکاب نہ کریں، پھر اسکے بعد انہوں نے شمالی جانب کے دونوں کناروں سے دیوار کو تھوڑا سا موڑ دیا، اور انہیں اتنا بڑھایا کہ دونوں شمالی کناروں سے آنیوالی دیواریں آپس میں مل گئیں، یہ انہوں نے اس لئے کیا کہ کوئی بھی قبر کی طرف قبلہ رخ نہ ہو، اسی لئے حدیث کے آخر میں کہا:" اگر اس چیز کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھول دی جاتی، لیکن اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے "انتہی
" شرح النووی على مسلم " (5/ 14)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کسی بھی نبی، یا ولی چاہے اہل بیت میں سے ہو یا کسی اور میں سے کسی بھی فرد کی قبر پر تعمیراتی کام کی اجازت نہیں دی، نہ مسجد بنانے کی اور نہ ہی مزار بنانے کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اسلام میں کسی بھی قبر پر مزار نہیں بنا ہوا تھا، ایسے ہی خلفائے راشدین اور انکے ساتھ ساتھ علی بن ابی طالب، اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی کوئی مزار نہیں تھا، اس زمانے میں کسی نبی یا غیر نبی ؛کسی کی قبر پر بھی مزار نہیں بنا ہوا تھا، ابراہیم علیہ السلام کی قبر پر بھی مزار نہیں تھا" انتہی
" منهاج السنة النبوية " (1/ 479)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی قبریں نہ تو اونچی تھی اور نہ ہی زمین کیساتھ چپکی ہوئی، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دونوں صحابہ کی قبریں کوہان والی ہیں، جن پر سرخ رنگ کی باریک کنکریاں ڈالی گئیں ہیں، قبروں پر کوئی عمارت نہیں ہے، اور نہ ہی مٹی کی لیپائی کی گئی، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں کی قبریں ہیں" انتہی
" زاد المعاد " (1/ 505)

اور ابو داود نے "المراسيل " (421) میں نقل کیا ہے کہ صالح بن اخضر کہتے ہیں: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی جو تقریبا ایک بالشت کے قریب [اونچی] تھی"

http://islamqa.info/ur/215154
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شرک ظلم عظیم ہے !!!

قبر پرستی کے بارے تہلکہ خیز بیان (عبدالرحمن مکی حفظہ اللہ) ۔

(ضرور سنیں اور آگے شئیر کریں)


لنک



 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105

إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا ۖ رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا

اس وقت لوگ ان (اصحاب کہف )کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ان (کے غار) پر عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ان (کے حال) سے خوب واقف ہے۔ جو لوگ ان کے معاملے میں غلبہ رکھتے تھے وہ کہنے لگے کہ ہم ان (کے غار) پر مسجد بنائیں گے

سورہ کہف18: 21
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا ۖ رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا

اس وقت لوگ ان (اصحاب کہف )کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ان (کے غار) پر عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ان (کے حال) سے خوب واقف ہے۔ جو لوگ ان کے معاملے میں غلبہ رکھتے تھے وہ کہنے لگے کہ ہم ان (کے غار) پر مسجد بنائیں گے

سورہ کہف18: 21
@اسحاق سلفی بھائی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جواب:
اس اعتراض کے تین جواب ہیں :
پہلا جواب یہ ہے کہ اصول میں یہ بات متحقق اور ثابت ہوچکی ہے کہ سابقہ امتوں کی شریعت ہمارے لئے نہیں ہے ۔اسلام کی آمد سے جملہ آسمانی کتب اور نبی اسے پہلے کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات منسوخ ہوچکی ہیں اس لئے کہ
ایک مرتبہ اﷲ کے نبی ﷺکی موجودگی میں عمر رضی اللہ عنہ توریت پڑھ رہے تھے ،اسے دیکھ کر نبی اسخت غضب ناک ہوگئے تھے ۱؂
اور صحیحین کی ایک حدیث ہے:
نبی ﷺ نےفرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں جن میں ا یک یہ بھی ہے کہ
،،کان الانبیاء لیبعث الی قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ ،،۲؂
ہر نبی کسی خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔،،
۱؂سنن دارمی بحوالہ مشکوۃج ۱ تفسیر ابن کثیر عربی ۱؍۳۷۸۲؂ صحیح بخاری :کتاب الصلوۃ باب ،۔نسائی : کتاب الغسل
اس واسطے اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ کہنے والے عیسیٰ علیہ السلام کے
پیروکار تھے تو بھی قبر پر مسجد بنانے کے لئے استدلال درست نہیں ،کیوں کہ اسلام کی آمد سے گزشتہ تمام صحیفے اورا نبیاء کی تعلیمات منسوخ
{Out Of Date}ہوچکی ہیں.
دوسرا جواب یہ ہے کہ بالفرض اگرہم گزشتہ امتوں کی شریعت اپنے لئے باقی تسلیم بھی کر لیتے ہیں تو چونکہ متواتر احادیث سے قبروں پر مساجد بنانے کی حرمت ثابت ہے اس لئے اس مسئلہ میں ہمارا تو موقف تو یہی ہے کہ سورۂ کہف کی یہ آیت میں موجود عمل ہمارے لئے نہیں ہے نہ ہی ہماری شریعت میں اس کی اجازت ہے ۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ سورۂ کہف کی اس آیت سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اصحابِ کہف کی قبور پر تعمیرِ مساجد کے خیالات کا صرف اظہار کیا تھا اس میںیہ صراحت نہیں ہے کہ وہ مومن تھے ۔پھر اگران کا مومن ہونا مان بھی لیا جائے تو یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ پابندِشریعت ،موحد اور دین دار تھے۔ہوسکتا ہے کہ آج کے بدعتیوں کی طرح وہ بھی رہے ہوں۔جیسا کہ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ حدیث:
،،لعن اﷲالیہود والنصاریٰ اتخذواقبور انبیاۂم مساجد،،۱؂
کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انبیاء کی قبروں پر مسجد بنانے کی حرمت وممانعت احادیث کے علاوہ قرآن سے بھی آئی ہے۔
۱؂صحیح البخاری مع الفتح:کتاب الصلوۃ ۱؍۴۲۲،و ا لمغازی باب مرض النبی ﷺ ووفاتہ ،وا للباس باب الاکسیۃ والخمائص،
کیونکہ اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
،،قال الذین غلبوا علیٰ امرہم لنتخذن علیہم مسجدا؂
اس آیت میں قبروں پرمساجد ومعابد تعمیر کرنے کو اہل اقتدار کا واہل غلبہ وکرسیوں کے مالک افراد کا فعل قراردیا گیاہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس قسم کے اقدام کاتعلق کسی شریعت سے نہیں تھا بلکہ صاحب اقتدار وصاحب ثروت ودولت واقتدار کے نشے میں آکر اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق ایسا کرنا چاہتے تھے ۲؂
پھر یہ بات بھی خوب واضح ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں پہلی جماعت مومنوں کی تھی جو قبروں کو عبادت گاہ بنانے کی حرمت سے واقف تھی ،اس لئے اس نے غار کے دروازے پر دیوار چن دینے اور دروازہ بند کر دینے کے ساتھ اصحاب کہف سے کوئی تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا مگر دوسری جماعت جو امراء وروساء پر مشتمل تھی ،اس نے اس مشورہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی دولت کے زعم میں آکر قسمیں کھا کر یہ کہنے لگی کہ ہم اصحابِ کہف کی قبروں پر ضرور مسجد تعمیر کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال ابن كثيرٍ رحمه الله بعد ما حكى عن ابن جريرٍ القولين: «والظاهر أنَّ الذين قالوا ذلك هم أصحاب الكلمة والنفوذ، ولكنْ هل هم محمودون أم لا ؟ فيه نظرٌ؛ لأنَّ النبيَّ صلَّى الله عليه وسلَّم قال: «لَعَنَ اللهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ» يحذِّر ما فعلوا، وقد روينا عن أمير المؤمنين عمر بن الخطَّاب رضي الله عنه أنه لَمَّا وُجد قبر دانيال في زمانه بالعراق؛ أمر أنْ يُخفى عن الناس، وأن تُدفن تلك الرقعة التي وجدوها عنده، فيها شيءٌ من الملاحم وغيرها»(١٨)
قال ابن تيمية رحمه الله: «فإنَّ الله تعالى قد أخبر عن سجود إخوة يوسف وأبويه وأخبر عن الذين غلبوا على أهل الكهف أنهم قالوا: ﴿لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا﴾ ونحن قد نُهينا عن بناء المساجد على القبور»(٢٠)
گزشتہ اقوام کے اعمال کی حیثیت سمجھنے کےلئے سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعہ ان کے بھائیوں کا سجدہ قرآن نے بیان کیا اور سب کو معلوم ہی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا
کسی صورت جائز نہیں ، نہ قبر کو نہ زندہ کو ،حتی کہ نبی اکرم ﷺکو بھی سجدہ روا نہیں ۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ (دیکھیئے تھریڈ )
اصحاب کہف کا واقعہ: ارشاد باری تعالی ہے : إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا (21)
اس وقت کو یاد کرو جبکہ وہ اپنے امر میں باہم اختلاف کر رہے تھے ، کہنے لگے انکی غار پر ایک عمارت تعمیر کردو ۔ انکا رب ہی انکے حال کو زیادہ جانتا ہے، جن لوگوں نے انکے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے کہ ہم تو انکے آس پاس مسجد بنا لیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ نصاری تھے ، انکے انتقال کے بعد لوگوں کا باہمی اختلاف ہوا ، ان میں سے کچھ لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اس غار یا اسکے قریب کوئی عمارت تعمیر کردی جائے جس سے انکی یادگار باقی رہے اور نشان مٹنے نہ پائے ، لیکن ان میں جو صاحب ثروت اور زبردست قسم کے لوگ تھے انہوں نے کہا کہ ہم انکا مزار تو نہیں بناتے البتہ یہاں ایک مسجد تعمیر کردیتے ہیں ۔
بعض لوگوں کو یہاں یہ شبہہ ہوتا ہے کہ اس قصے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولیوں اور بزرگوں کی قبروں پر مسجد و عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے،
لیکن متعدد وجوہ سے یہ قصہ دلیل نہیں بن سکتا، جسکی تفصیل درج ذیل ہے۔
اولا- یہ عمل پہلی شریعت کا ہے اور پرانی شریعت ہمارے لئے حجت نہیں ہے ، اور جو اہل علم پچھلی شریعت کو حجت تسلیم کرتے ہیں انکے نزدیک شرط ہے کہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو ، اور جب ہماری شریعت میں واضح طور پر قبروں پر مسجد اور کسی قسم کی عمارت تعمیر کرنے سے روک دیا گیا حتی کہ قبروں کو قبلہ بنانے کو حرام ٹھہرایا گیا تو اہل کہف کا واقعہ ہمارے لئے کس طرح دلیل بن سکتا ہے؟ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِناً عَلَيْهِ، الآية، المائدة: 48.
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کر نے والی ہے اور انکی محافظ ہے ۔
اس آیت میں وارد لفظ " مہیمن" کا معنی محافظ ، امین ، شاہد اور حاکم وغیرہ کیا جاتا ہے ، جسکا مفہوم علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں کوئی حکم ایسا ہے جو پچھلی کتابوں کے خلاف ہے تو فیصلہ اس کتاب کا مانا جائے گا، کیونکہ پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف وتغییر بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا ، جسکو یہ صحیح قرار دے وہی صحیح ہے باقی باطل ہے۔
ثانیا – انکا مزار بنانے واالے لوگ صاحب علم و تقوی نہ تھے اور نہ ہی مسجد بنانے والے لوگ ہی متقی و پرہیزگار تھے کہ انکا عمل ہمارے لئے حجت بنے ،بلکہ قرآن کے ظاہر سے پتا چلتا ہے کہ عام لوگوں کے خلاف اپنی طاقت ونفوذ کے زور پر وہاں مسجد بنا لی گئی ، اور ایسا اس دنیا میں بہت ہوتا ہے ، ۔
ثالثا-- مفسرین کا اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ اس مسجد کو تعمیر کرنے والے لوگ آیا مسلمان تھے یا کافر ، اگر مسلمان تھے تو کیا دلیل ہے کہ انکے پاس صحیح علم بھی تھا ؟ اور اگر کافر تھے تو انکا کام ہی بتوں کی پوجا اور شخصیت پرستی تھی پھر انکا عمل ہمارے لئے کسطرح دلیل بن سکتا ہے؟
رابعا—نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان سے بتواتر یہ ثابت ہے کہ یہود ونصاری نے دین قویم اور صراط مستقیم سےانحراف کرکے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مساجد ومزارات کی شکل دے دی تھی اور اسی بنیاد پر وہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان پر ملعون ٹھہرے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ النَّجْرَانِىِّ قَالَ حَدَّثَنِى جُنْدَبٌ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ وَهُوَ يَقُولُ ........... « أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّى أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ ».صحيح مسلم وغيره.
حضرت عبداللہ بن حارث النجرانی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ نے یہ حدیث بیان کی کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے صرف پانچ دن قبل سنا آپ فرما رہے تھے کہ یاد رکھنا تم سے پہلے لوگوں [یہود ونصاری] نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ، دیکھو تم لوگ قبروں کو مسجد یں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہو ں۔
نیز فرمایا: ( لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مسجدا ) . صحيح بخاري وصحيح مسلم وغيره بروايت عائشة.
اللہ تعالی کی لعنت ہو یہود ونصاری پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا ۔
لہذا اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ انکی ان گمراہیوں میں سے ایک گمراہی تھی جسکی بنیادپر وہ قابل ملامت ٹھہرے ، نہ یہ کہ ان کا عمل ہمارے لئے حجت بنے۔
 
Top