عثمان بن خالد مرجالوی
مبتدی
- شمولیت
- جون 14، 2016
- پیغامات
- 5
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 10
عثمان بن خالد مرجالوی
===
قبروں پر نام لکھنا اور عمارتیں بنانا
سوال:
اکثر علما کا کہنا ہے کہ قبروں پر میت کا نام لکھنا اور قبروں کی عمارتیں بنانا منع ہے۔ لیکن تاریخ المدینہ میں روایت موجود ہے کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک پر ان کا نام بھی لکھا تھا اور قبر پر عمارت بھی بنی تھی۔ اس کی بابت رہنمائی مطلوب ہے۔(سائل: توصیف الرحمن، اسلام آباد)
جواب:
1- تاريخ المدينة والی روایت پیش خدمت ہے:
1. استنادی حیثیت :
اس راویت میں عبد العزیز بن عمران (المعروف ابن ابی ثابت) کے بارے محدثین کے اقول ملاحظہ فرمائیں:
2. یہ قول :قَالَ يَزِيدُ بْنُ السَّائِبِ: فَدَخَلْتُ ذَلِكَ الْبَيْتَ فَرَأَيْتُ فِيهِ ذَلِكَ الْقَبْرَ ۔
محل نظر ہے؛ کیونکہ جب عقیل بن ابی طالب نے اس کنویں کو بند ہی کر دیا تو انہوں نے قبر کیسے دیکھ لی!!!
3 . قبروں پر عمارتیں بنانے کی بابت واضح نص :
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
’’نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ‘‘۔
[صحیح مسلم، الکسوف،باب النهي عن تجصيص القبر والبناء عليه، رقم الحدیث: ۹۷۰]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پکا کرنے سے ، ان پر بیٹھنے سے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔
4. کتبہ کی ممانعت پر واضح نص :
مذکورہ مسلم کی روایت ابوداؤد میں بھی موجود ہے، اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے:
’’أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهِ‘‘۔
[سنن أبي داؤد، الجنائز، باب في البناء علی القبر، رقم الحدیث: ۳۲۲۶، قال الألباني: صحیح]
’’(اس بات سے بھی منع فرمایا کہ) اس (قبر) پر کچھ لکھا جائے‘‘۔
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر حجرہ میں کیوں تھی؟
اس میں دو اَقوال ہیں :
1- سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانبر نہ ہو سکے تھے:
’’لَعَنَ اللَّهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘۔
[صحیح البخاري، الجنائز، باب ما جائ في قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر رضي اللہ عنہما، رقم الحدیث: ۱۳۹۰، صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النھي عن بناء المساجدعلی القبور واتخاذ الصور فیھا والنھي عن التخاذ القبور مساجد، رقم الحدیث: ۵۲۹]
’’اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجدیں بنالیا‘‘۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’لَوْلاَ ذَلِكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَيْرَ أَنَّهُ خَشِيَ - أَوْ خُشِيَ - أَنَّ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا‘‘۔
’’اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنا لیں‘‘۔
2- سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کو دفن کرنے کی بابت اختلاف پیدا ہوگیا، چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی جو میں اب تک نہیں بھولا:
’’مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي المَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ‘‘۔
[جامع الترمذي، أبواب الجنائز، باب ما جاء في دفن النبي صلی اللہ علیہ وسلم حیث قبض، رقم الحدیث: ۱۰۱۸، قال الألباني: صحیح]
’’اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو فوت نہیں کیا مگر اسی جگہ میں جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتا ہو‘‘۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
’’ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ‘‘۔
’’آپ کو ان کے بستر کی جگہ ہی دفن کرو‘‘۔
وباللہ التوفیق
===
قبروں پر نام لکھنا اور عمارتیں بنانا
سوال:
اکثر علما کا کہنا ہے کہ قبروں پر میت کا نام لکھنا اور قبروں کی عمارتیں بنانا منع ہے۔ لیکن تاریخ المدینہ میں روایت موجود ہے کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک پر ان کا نام بھی لکھا تھا اور قبر پر عمارت بھی بنی تھی۔ اس کی بابت رہنمائی مطلوب ہے۔(سائل: توصیف الرحمن، اسلام آباد)
جواب:
1- تاريخ المدينة والی روایت پیش خدمت ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: أَخْبَرَنِي جَدِّي قَالَ: " لَمَّا حَفَرَ عَقِيلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فِي دَارِهِ بِئْرًا وَقَعَ عَلَى حَجَرٍ مَنْقُوشٍ مَكْتُوبٌ فِيهِ: قَبْرُ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ صَخْرِ بْنِ حَرْبٍ، فَدَفَنَ عَقِيلٌ الْبِئْرَ، وَبَنَى عَلَيْهِ بَيْتًا. قَالَ يَزِيدُ بْنُ السَّائِبِ: فَدَخَلْتُ ذَلِكَ الْبَيْتَ فَرَأَيْتُ فِيهِ ذَلِكَ الْقَبْرَ۔
[تاریخ المدینۃ جلد:1 ،صفحہ: 120]’’یزید بن سائب سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے دادا نے بیان کیا : جب عقیل بن ابی طالب نے اپنے گھر میں کنواں کھودا تو ایک پتھر کے قریب کھڑے تھے جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: ’’قَبْرُ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ صَخْرِ بْنِ حَرْبٍ‘‘ کہ یہ قبر ام حبیبہ بنت صخر بن حرب کی ہے۔ تو عقیل نے کنواں بند کردیا، اور اس پر ایک عمارت بنا دی۔ (راوی) یزید بن سائب فرماتے ہیں: میں اس گھر میں داخل ہوا ہوں اور میں نے وہ قبر دیکھی ہے‘‘۔
1. استنادی حیثیت :
اس راویت میں عبد العزیز بن عمران (المعروف ابن ابی ثابت) کے بارے محدثین کے اقول ملاحظہ فرمائیں:
- امام عثمان دارمی: ثقہ نہیں ہے۔
- امام حسین بن حبان: میں نے اسے بغداد میں لوگوں کو گالیاں بکتے ہوئے دیکھا ہے، لہٰذا اس کی بیان کردہ روایت کی کوئی حیثیت نہیں۔
- امام محمد بن یحییٰ ذہلی: اگر میں اس کی روایت بیان کروں تو مجھ پر ایک قربانی لازم اآجائے گی۔ یہ بہت زیادہ ضعیف راوی ہے۔
- امام بخاری: منکر الحدیث ہے۔ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔
- امام نسائی: متروک الحدیث۔ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔
- امام ترمذی: ضعیف راوی ہے۔
- تاریخ المدینہ کے مولف عمر بن شبہ: حدیث کے معاملہ میں کثیر الغلط ہے۔ اپنے حافظے سے روایت کرتا تھا۔
2. یہ قول :قَالَ يَزِيدُ بْنُ السَّائِبِ: فَدَخَلْتُ ذَلِكَ الْبَيْتَ فَرَأَيْتُ فِيهِ ذَلِكَ الْقَبْرَ ۔
محل نظر ہے؛ کیونکہ جب عقیل بن ابی طالب نے اس کنویں کو بند ہی کر دیا تو انہوں نے قبر کیسے دیکھ لی!!!
3 . قبروں پر عمارتیں بنانے کی بابت واضح نص :
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
’’نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ‘‘۔
[صحیح مسلم، الکسوف،باب النهي عن تجصيص القبر والبناء عليه، رقم الحدیث: ۹۷۰]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پکا کرنے سے ، ان پر بیٹھنے سے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔
4. کتبہ کی ممانعت پر واضح نص :
مذکورہ مسلم کی روایت ابوداؤد میں بھی موجود ہے، اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے:
’’أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهِ‘‘۔
[سنن أبي داؤد، الجنائز، باب في البناء علی القبر، رقم الحدیث: ۳۲۲۶، قال الألباني: صحیح]
’’(اس بات سے بھی منع فرمایا کہ) اس (قبر) پر کچھ لکھا جائے‘‘۔
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر حجرہ میں کیوں تھی؟
اس میں دو اَقوال ہیں :
1- سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانبر نہ ہو سکے تھے:
’’لَعَنَ اللَّهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘۔
[صحیح البخاري، الجنائز، باب ما جائ في قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر رضي اللہ عنہما، رقم الحدیث: ۱۳۹۰، صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النھي عن بناء المساجدعلی القبور واتخاذ الصور فیھا والنھي عن التخاذ القبور مساجد، رقم الحدیث: ۵۲۹]
’’اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجدیں بنالیا‘‘۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’لَوْلاَ ذَلِكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَيْرَ أَنَّهُ خَشِيَ - أَوْ خُشِيَ - أَنَّ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا‘‘۔
’’اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنا لیں‘‘۔
2- سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کو دفن کرنے کی بابت اختلاف پیدا ہوگیا، چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی جو میں اب تک نہیں بھولا:
’’مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي المَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ‘‘۔
[جامع الترمذي، أبواب الجنائز، باب ما جاء في دفن النبي صلی اللہ علیہ وسلم حیث قبض، رقم الحدیث: ۱۰۱۸، قال الألباني: صحیح]
’’اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو فوت نہیں کیا مگر اسی جگہ میں جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتا ہو‘‘۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
’’ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ‘‘۔
’’آپ کو ان کے بستر کی جگہ ہی دفن کرو‘‘۔
وباللہ التوفیق