• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبر نبوی اور دیگر صالحین وبزرگوں کی قبروں سے فیض اور تبرک حاصل کرنے کی شرعی حیثیت

شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
قبر نبوی سے تبرک


نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک ہے،کیونکہ اس میں آپ صلی الله علیه وسلم کا جسدِ اطہر مدفون ہے،لیکن اسے متبرک قرار نہیں دیا جا سکتا،کیونکہ کسی صحابی رسول، کسی تابعی یا تبع تابعی سے با سند ِ صحیح آپ صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں۔یہ دین میں غلوّ ہے اور غلوّ اسلام میں ممنوع ہے۔ اسی طرح قبرِ نبی کو مَس کرنا اور بوسہ دینا بھی ثابت نہیں۔
حق دین صرف وہ ہے،جو سلف صالحین نے اپنایا۔ شریعت میں ایسی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں،جن سے سلف صالحین ناواقف تھے۔

(1) سیّدنا انس بن مالک رضی الله عنه سے روایت ہے :

إِنَّهُمْ لَمَّا فَتَحُوا تُسْتَرَ، قَالَ : فَوَجَدَ رَجُلًا أَنْفُهٗ ذِرَاعٌ فِي التَّابُوتِ، کَانُوا یَسْتَظْهرُونَ وَیَسْتَمْطِرُونَ بِه، فَکَتَبَ أَبُو مُوسٰی إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِذٰلِکَ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنَّ هذَا نَبِيٌّ مِّنَ الْْأَنْبِیَائِ، وَالنَّارُ لَا تَأْکُلُ الْْأَنْبِیَائَ، وَالْـأَرْضُ لَا تَأْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ، فَکَتَبَ أَنِ انْظُرْ أَنْتَ وَأَصْحَابُکَ، یَعْنِي أَصْحَابَ أَبِي مُوسٰی، فَادْفِنُوہُ فِي مَکَانٍ لَّا یَعْلَمُه أَحَدٌ غَیْرُکُمَا، قَالَ : فَذَهبْتُ أَنَا وَأَبُو مُوسٰی، فَدَفَنَّاہُ ۔

’’جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا، تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا، ان کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھ کر سارا واقعہ بیان کیا۔سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں اور سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما گئے اور انہیں (ایک گم نام جگہ میں)دفن کر دیا۔‘‘
[مصنّف ابن أبي شيبة: 27/13]-وسندہ صحیح

اگر نبی کی قبر سے تبرک لینا جائز ہوتا، تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کبھی یہ نہ فرماتے:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو اور وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔صحابہ کرام کبھی ایسا نہ کرتے۔
حکمت کی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ کسی نبی کی قبر کا علم ہمیں نہیں دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ہر قسم کے غلوّ سے بچا کر بھی رکھا گیا۔ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین اعلام کی قبروں کا ہمیں علم نہیں، کیونکہ قبروں سے تبرک اور وسیلہ جائز نہیں، ورنہ انبیائے کرام کی قبریں ہم پر ظاہر کر دی جاتیں۔

(2) سیّدنا عبدالله بن عمر رضی الله عنہما (سفر سے واپسی کے موقع پر)نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی قبر کی زیارت کرتے، تو آپ صلی الله علیه وسلم اور ابو بکر و عمر رضی الله عنہما کے لیے رحمت کی دُعا کرتے۔
[الموطأ للإمام مالک : 166/1، ح : 68]-وسندہٗ صحیحٌ

(3) نافع تابعی رحمه الله اپنے استاذ،صحابی جلیل کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَکْرَہُ مَسَّ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ ۔
’’سیّدنا عبد الله بن عمر رضی الله عنہما ،نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘
[جزء محمّد بن عاصم الثقفيّ، ص : 106، ح : 27، سیر أعلام النبلاء للذھبي : 378/12]-وسنده صحيح

(4) مشہور تابعی،ابو العالیہ رحمه الله بیان کرتے ہیں:

لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ؛ وَجَدْنَا فِي بَیْتِ مَالِ الْهرْمُزَانِ سَرِیرًا عَلَیْه رَجُلٌ مَیِّتٌ، عِنْدَ رَأْسِه مُصْحَفٌ لَّه، فَأَخَذْنَا الْمُصْحَفَ، فَحَمَلْنَاہُ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰه عَنهُ، فَدَعَا لهٗ کَعْبًا، فَنَسَخه بِالْعَرَبِیَّةِ، أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ مِّنَ الْعَرَبِ قَرَأَہٗ، قَرَأْتُه مِثْلَ مَا أَقْرَأُ الْقُرْآنَ هٰذَا، فَقُلْتُ لِأَبِي الْعَالِیةِ : مَا کَانَ فِیهِ؟ فَقَالَ : سِیرَتُکُمْ، وَأُمُورُکُمْ، وَدِینُکُمْ، وَلُحُونُ کَلَامِکُمْ، وَمَا هوَ کَائِنٌ بَعْدُ، قُلْتُ : فَمَا صَنَعْتُمْ بِالرَّجُلِ؟ قَالَ : حَفَرْنَا بِالنّهَارِ ثَلَاثَةَ عَشَرَ قَبْرًا مُتَفَرِّقَةً، فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّیْلِ دَفَنَّاہُ وَسَوَّیْنَا الْقُبُورَ کُلّهَا، لِنُعَمِّیَه عَلَی النَّاسِ لَا یَنْبُشُونَه، فَقُلْتُ : وَمَا تَرْجُونَ مِنْهُ؟ قَالَ : کَانَتِ السَّمَائُ إِذَا حُبِسَتْ عَلَیْهِمْ بَرَزُوا بِسَرِیرِہٖ، فَیُمْطَرُونَ، قُلْتُ : مَنْ کُنْتُمْ تَظُنُّونَ الرَّجُلَ؟ قَالَ : رَجُلٌ یُّقَالُ لَهٗ : دَانْیَالُ، فَقُلْتُ : مُذْ کَمْ وَجَدْتُمُوہُ مَاتَ؟ قَالَ : مُذْ ثَلَاثِمِائَة سَنَة، فَقُلْتُ : مَا کَانَ تَغَیَّرَ شَيْئٌ؟ قَالَ : لَا، إِلَّا شُعَیْرَاتٌ مِّنْ قَفَاہُ، إِنَّ لُحُومَ الْـأَنْبِیَائِ لَا تُبْلِیهَا الْـأَرْضُ، وَلَا تَأْکُلُهَا السِّبَاعُ ۔

’’ہم نے جب تستر شہر کو فتح کیا،تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی،جس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔اس کے سر کے پاس ایک کتاب پڑی تھی۔ہم نے وہ کتاب اٹھالی اور اسے سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا، جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔میں عربوں میں پہلا شخص تھا،جس نے اس کتاب کو پڑھا۔میں اس کتاب کو یوں پڑھ رہا تھا گویا کہ قرآن کو پڑھ رہا ہوں۔
ابو العالیہ رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں:میں نے ان سے پوچھا:اس کتاب میں کیا لکھاتھا؟انہوں نے فرمایا:اس میں امت ِمحمدیہ کی سیرت،معاملات،دین، تمہارے لہجے اور بعد کے حالات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
میں نے عرض کیا:آپ نے اس فوت شدہ شخص کا کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا:ہم نے دن کے وقت مختلف جگہوں پر تیرہ(13)قبریں کھودیں،پھر رات کے وقت ان میں سے ایک میں انہیں دفن کر دیا اور سب قبریں زمین کے برابر کر دیں۔ اس طرح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح قبر کا علم نہ ہو اور قبر کشائی نہ کر سکیں۔میں نے عرض کیا:وہ لوگ اس فوت شدہ سے کیا امید رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:ان کا خیال یہ تھا کہ جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی چارپائی کو باہر نکالنے سے بارش برسائی جاتی ہے۔میں نے پوچھا:آپ کے خیال میں وہ شخص کون ہو سکتا تھا؟انہوں نے کہا:ایک آدمی تھا،جسے دانیال کہا جاتا تھا۔میں نے پوچھا:آپ کے خیال کے مطابق وہ کتنے عرصے سے فوت ہو چکے تھے؟ انہوں نے فرمایا:تین سو(300)سال سے(لگتا ہے کہ تین ہزار سال کے الفاظ تین سو سال میں تبدیل ہو گئے ہیں)۔ میں نے کہا:کیا ان کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی؟ انہوں نے فرمایا:بس گدی سے چند بال گرے تھے،کیونکہ انبیاء ِ کرام کے اجسام میں نہ زمین تصرف کرتی ہے، نہ درندے اسے کھاتے ہیں۔‘‘
[السیرۃ لابن إسحاق : 66، 67، طبع دار الفکر، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 382/1]-وسندہ حسن

ان آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ،انبیاء ِ کرام کی قبروں سے تبرک اور توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔اسی لئے انہوں نے بڑے اہتمام سے ایک نبی کی قبر کو چھپا دیا تا کہ نہ لوگوں کو ان کی قبر کا علم ہو، نہ وہ اس سے تبرک اور توسل حاصل کر سکیں۔

(5) اسی بارے میں شیخ الاسلام، امام ابن تیمیه رحمه الله (661۔728ھ)فرماتے ہیں :

فَفِي هٰذِہِ الْقِصَّة مَا فَعَلَه الْمُهَاجِرُونَ وَالْـاَنْصَارُ، مِنْ تَعْمِیَة قَبْرِہٖ، لِئَلَّا یَفْتَتِنَ بِه النَّاسُ، وَهُوَ إِنْکَارٌ مِّنْهُمْ لِذٰلِکَ ۔
’’اس واقعے میں مہاجرین اور انصار صحابہ کرام yنے دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپایا تاکہ لوگ اس کی وجہ سے شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام انبیا و صلحا کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔‘‘
[ماقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم:200/2]

(6) شیخ الاسلام ثانی، عالِمِ ربانی، علامہ ابن قیم رحمه الله (751-691ھ) لکھتے ہیں:

فَفِي هذِہِ الْقِصَّةِ مَا فَعَلَه الْمُهاجِرُوْنَ وَالْـأَنْصَارُ مِنْ تَعْمِیَة قَبْرِہٖ، لِئَلَّا یَفْتَتِنَ بِهِ النَّاسُ، وَلَمْ یُبْرِزُوْہُ لِلدُّعَائِ عِنْدَہٗ وَالتَّبَرُّکِ بِه، وَلَوْ ظَفِرَ بِه الْمُتَأَخِّرُوْنَ لَجَادَلُوْا عَلَیْهِ بِالسُّیُوْفِ، وَلَعَبَدُوْہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ، فَهُمْ قَدِ اتَّخَذُوْا مِنَ الْقُبُوْرِ أَوْثَاناً مَّنْ لَّا یُدَانِي هذَا وَلَا یُقَارِبُهٗ، وَأَقاَمُوْا لَها سَدَنَةً، وَجَعَلُوْها مَعَابِدَ أَعْظَمَ مِنَ الْمَسَاجِدِ ۔
فَلَوْ کَانَ الدُّعَائُ عِنْدَ الْقُبُوْرِ وَالصَّلاَۃُ عِنْدَهَا وَالتَّبَرُّکُ بِهَا فَضِیْلَةً أَوْ سُنَّة أَوْ مُبَاحاً؛ لَنَصَبَ الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْـأَنْصَارُ هٰذَا الْقَبْرَ عِلْمًا لِّذٰلِکَ، وَدَعَوْا عِنْدَہٗ، وَسَنُّوْا ذٰلِکَ لِمَنْ بَّعْدَهمْ، وَلٰکِنْ کَانُوْا أَعْلَمَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِهٖ وَدِیْنِهٖ مِنَ الْخُلُوْفِ الَّتِي خَلَفَتْ بَعْدَهمْ، وَکَذٰلِکَ التَّابِعُوْنَ لَهُمْ بِإِحْسَانِ رَّاحُوْا عَلٰی هٰذَا السَّبِیْلِ، وَقَدْ کَانَ عِنْدَهمْ مِّنْ قُبُوْرِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰه صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ بِالْـأَمْصَارِ عَدَدٌ کَثِیْرٌ، وَهمْ مُّتَوَافِرُوْنَ، فَمَا مِنْهمْ مَنِ اسْتَغَاثَ عِنْدَ قَبْرِ صَاحِبٍ، وَلَا دَعَاہُ، وَلاَ دَعَا بِهٖ، وَلاَ دَعَا عِنْدَہٗ، وَلاَ اسْتَشْفٰی بِهٖ، وَلَا اسْتَسْقٰی بِهٖ، وَلَا اسْتَنْصَرَ بِهٖ، وَمِنَ الْمَعْلُوْمِ أَنَّ مِثْلَ هٰذَا مِمَّا تَتَوَفَّرُ الْهِمَمُ وَالدَّوَاعِي عَلٰی نَقْلِه، بَلْ عَلٰی نَقْلِ مَا هوْ دُوْنَه ۔
وَحِیْنَئِذٍ، فَلَا یَخْلُوْ، إِمَّا أَنْ یَّکُوْنَ الدُّعَائُ عِنْدَها وَالدُّعَائُ بِأَرْبَابِهَا أَفْضَلَ مِنْهُ فِي غَیْرِ تِلْکَ الْبُقْعَة، أَوْ لَا یَکُوْنَ، فَإِنْ کَانَ أَفْضَلَ، فَکَیْفَ خَفِيَ عِلْمًا وَّعَمَلاً عَلَی الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِیْنَ وَتَابِعِیْهمْ؟ فَتَکُوْنُ الْقُرُوْنُ الثَّلَاثَة الْفَاضِلَة جَاهلَةً بِهٰذَا الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ، وَتَظْفَرُ بِهِ الْخُلُوْفُ عِلْمًا وَّعَمَلاً؟ وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَّعْلَمُوْہُ وَیَزْهَدُوْا فِیْه، مَعَ حِرْصِهمْ عَلٰی کُلِّ خَیْرٍ لَّا سِیَّمَا الدُّعَائُ، فَإِنَّ الْمُضْطَرَّ یَتَشَبَّثُ بِکُلِّ سَبَبٍ، وَإِنْ کَانَ فِیْه کَرَاهَۃٌ مَّا، فَکَیْفَ یَکُوْنُوْنَ مُضْطَرِّیْنَ فِي کَثِیْرٍ مِّنَ الدُّعَائِ، وَهمْ یَعْلَمُوْنَ فَضْلَ الدُّعَائِ عِنْدَ الْقُبُوْرِ، ثُمَّ لَا یَقْصُدُوْنَه؟ هذَا مَحَالٌ طَبَعاً وَّشَرْعاً ۔
فَتَعَیَّنَ الْقِسْمُ الآخَرُ، وَهوَ أَنَّهٗ لاَ فَضْلَ لِلدُّعَائِ عِنْدَها، وَلَا هوَ مَشْرُوْعٌ، وَلَا مَأْذُوْنٌ فِیهِ بِقَصْدِ الْخُصُوْصِ، بَلْ تَخْصِیْصُهَا بِالدُّعَائِ عِنْدَهَا ذَرِیْعَةٌ إِلٰی مَا تَقَدَّمَ مِنَ الْمَفَاسِدِ، وَمِثْلُ هٰذَا مِمَّا لَا یَشْرَعُهُ اللّٰه وَرَسُوْلُهُ الْبَتَّةَ، بَلِ اسْتِحْبَابُ الدُّعَائِ عِنْدَها شَرْعُ عِبَادَۃٍ لَّمْ یَشْرَعْها اللّٰهُ، وَلَمْ یُنَزِّلْ بِها سُلْطَاناً ۔

’’اس واقعہ میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام نے سیّدنا دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپا دیا تاکہ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں۔ انہوں نے دعا اور تبرک کی خاطر قبر کو ظاہر نہیں کیا۔اگر بعد والے مشرک وہاں ہوتے،تو تلواریں لے کر ٹوٹ پڑتے،اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کی عبادت کرتے،ان کی قبروں کو بت خانہ بنا لیتے،وہاں ایک قبہ بنا دیتے،اس پر مجاور بن بیٹھتے،اسے مساجد سے بھی بڑی عبادت گاہ بنا ڈالتے،کیونکہ وہ ان لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا چکے ہیں، جو ان سے کم درجہ ہیں۔
اگر قبروں کے پاس دعا مانگنا اور وہاں نماز پڑھنا اور فیض روحانی حاصل کرنا فضیلت والا کام یا سنت،بلکہ مباح بھی ہوتا، تو مہاجرین وانصار اس قبرپر جھنڈا گاڑ دیتے،وہاں اپنے لیے دعا کرتے اور بعدوالوں کے لیے ایک طریقہ جاری کر دیتے،لیکن وہ بعد والوں کی نسبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زیادہ جاننے والے تھے۔یہی حال تابعین عظام کا تھا کہ وہ بھی انہی کے راستے پر چلتے رہے،حالانکہ ان کے پاس مختلف شہروں میں صحابہ کرام کی بے شما ر قبریں تھیں، لیکن انہوں نے کسی صحابی کی قبر سے فریاد نہیں کی،نہ اسے پکارا،نہ اس کے ذریعے دعا کی،نہ اس کے پاس جا کر دعاکی،نہ اس کے واسطے سے شفا طلب کی،نہ اس کے واسطے سے بارش طلب کی،نہ اس کے ذریعے سے مدد طلب کی اور یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ان کے پاس ایسی باتوں کو نقل کرنے کی استطاعت اور وافر اسباب موجود تھے،بلکہ انہوں نے اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نقل کی ہوئی ہیں۔
یوں یہ صورتِ حال دوباتوں سے خالی نہیں ہے ؛یا تو قبر کے پاس دعا کرنا اور اس کے وسیلے سے مانگنا دوسری جگہوں سے افضل ہے یا نہیں۔اگر افضل ہے، تو اس کا علم اور عمل صحابہ کرام ، تابعین اورتبع تابعین سے کیسے مخفی رہا؟ کیا پھر تین افضل ادوار اس فضل عظیم سے لا علم رہے اور برے جانشینوں نے اسے ڈھونڈ لیا؟
کیونکہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ انہیں پتہ بھی چل جائے، مگر وہ اس سے صرف ِنظر کر جائیں،حالانکہ وہ ہر نیکی بالخصوص دعا کے حریص تھے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مجبورآدمی تو ہر ذریعہ استعمال کرتا ہے،اگرچہ اس میں کراہت ہی ہو؟ توکیسے ہو سکتا ہے کہ وہ دعائوں کی قبولیت کے سلسلے میں مجبور بھی ہوں اور وہ قبروں کے پاس دعا کی فضیلت جانتے ہوئے بھی اس کا قصد نہ کرتے ہوں،یہ بات طبعاً اور شرعاً نا ممکن ہے؟
اب دوسری قسم کا تعین ہو گیاکہ ان قبروں کے پاس دعا کرنے میں فضیلت اور مشروعیت نہیں ہے،نہ خصوصی طور پر وہاں جانے کی اجازت ہے،بلکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ دعا کرنا ان خرابیوں کا سبب بنتا ہے،جو شروع کتاب میں بیان ہو چکی ہیں۔وہاں اپنے لیے دعا مانگنے کو جائز اور افضل جاننا ایسی عبادت ہے،جس کی شرع میں اجازت نہیں،نہ ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز رکھا اور نہ ہی اس کے حق میں کوئی دلیل نازل کی ہے۔ ‘‘
[إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 203/1۔204]

(7) من و عن یہی عبارت علامه برکوی حنفی رحمه الله (المتوفى 981ھ) نے اپنی کتاب زیارۃ القبور (ص:39۔40) میں ذکر کی ہے۔

قبروں کو چھونا اور بوسہ دینا علماء اسلام کی نظر میں :


قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں علماء ِاسلام کی آرا ملاحظہ ہوں:

(8) ابو حامد محمد بن محمد طوسی، المعروف به علامه غزالی (المتوفى 450۔505ھ) قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں :
إِنَّه عَادَۃُ النَّصَارٰی وَالْیَھُودِ ۔
’’ایسا کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔‘‘[إحیاء علوم الدین : 244/1]

(9) امام نووی رحمه الله (المتوفى 631۔676ھ) نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبرمبارک کو چومنے اور اس پر ماتھا وغیرہ ٹیکنے کے بارے میں فرماتے ہیں :

لاَ یَجُوزُ أَنْ یُّطَافَ بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیُکْرَہُ إِلْصَاقُ الْبَطْنِ وَالظَّهرِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ، قَالَه الْحَلِیمیُّ وَغَیْرُہٗ، وَیُکْرَہُ مَسْحُه بِالْیَدِ وَتَقْبِیلُهٗ، بَلِ الْـاَدَبُ أَنْ یَّبْعُدَ مِنْه کَمَا یَبْعُدُ مِنْه لَوْ حَضَرَ فِي حَیَاتِهٖ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ، هٰذَا هُوَ الصَّوَابُ، وَهُوَ الَّذِي قَالَه الْعُلَمَائُ وَأَطْبَقُوا عَلَیْه، وَیَنْبَغِي أَنْ لاَّ یَغْتَرَّ بِکَثِیرٍ مِّنَ الْعَوَامِّ فِي مُخَالَفَتِهِمْ ذٰلِکَ، فَإِنَّ الِاقْتِدَائَ وَالْعَمَلَ؛ إِنَّمَا یَکُونُ بِأَقْوَالِ الْعُلمائِ، وَلاَ یُلْتَفَتُ إِلٰی مُحْدَثَاتِ الْعَوَّامِ وَجَهَالَاتِهِمْ، وَلَقَدْ أَحْسَنَ السَّیِّدُ الْجَلِیلُ أَبُو عَلِيٍّ الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ رَّحِمَهُ اللّٰه تَعَالٰی فِي قَوْله مَا مَعْنَاہُ : اِتَّبِعْ طُرُقَ الْهدٰی وَلاَ یَضُرُّکَ قِلَّة السَّالِکِینَ، وَإِیَّاکَ وَطُرُقَ الضَّلاَلَة، وَلاَ تَغْتَرَّ بِکَثْرَۃِ الْهَالِکِینَ، وَمَنْ خَطَرَ بِبَالِه أَنَّ الْمَسْحَ بِالْیَدِ وَنَحْوِہٖ أَبْلَغُ فِي الْبَرَکَةِ، فَهوَ مِنْ جَہَالَتِه وَغَفْلَتِهٖ، لِأَنَّ الْبَرَکَةَ إِنَّمَا هيَ فِیمَا وَافَقَ الشَّرْعَ وَأَقْوَالَ الْعُلَمَائِ، وَکَیْفَ یُبْتَغَی الْفَضْلُ فِي مُخَالَفَة الصَّوَابِ ؟

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا طواف کرنا جائز نہیں۔اسی طرح قبر مبارک کی دیوار سے اپنا پیٹ اور اپنی پشت چمٹانا بھی مکروہ ہے،علامہ حلیمی وغیرہ نے یہ بات فرمائی ہے۔ قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانااور اسے بوسہ دینا بھی مکروہ عمل ہے۔قبر مبارک کا اصل ادب تو یہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آپ کے پاس حاضر ہونے والے کے لیے ادب دور رہنا ہی تھا۔یہی بات درست ہے اور علماء ِ کرام نے اسی بات کی صراحت کی ہے اور اس پر اتفاق بھی کیا ہے۔کوئی مسلمان اس بات سے دھوکا نہ کھا جائے کہ عام لوگ ان ہدایات کے برعکس عمل کرتے ہیں،کیونکہ اقتدا تو علمائِ کرام کے (اتفاقی)اقوال کی ہوتی ہے ،نہ کہ عوام کی بدعات اور جہالتوں کی۔ سید جلیل،ابوعلی فضیل بن عیاض رحمه الله نے کیا خوب فرمایا ہے:راہِ ہدایت کی پیروی کرو،اس راہ پر چلنے والوں کی قلت نقصان دہ نہیں۔گمراہیوں سے بچواور گمراہوں کی کثرت ِافراد سے دھوکا نہ کھاؤ(ہم اس قول کی سند پر مطلع نہیں ہو سکے)۔جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قبرمبارک کو ہاتھ لگانے اور اس طرح کے دوسرے بدعی کاموں سے زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے، وہ اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر ایسا سوچتا ہے،کیونکہ برکت تو شریعت کی موافقت اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ملتی ہے۔خلاف ِشریعت کاموں میں برکت کا حصول کیسے ممکن ہے؟۔‘‘
[الإیضاح في مناسک الحجّ والعمرۃ، ص : 456]

(10) شیخ الاسلام، ابن تیمیه رحمه الله (المتوفى 661۔728ھ) فرماتے ہیں :

وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ أَوِ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، أَوْ قَصْدُہٗ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہٗ، مُعْتَقِدًا أَنَّ الدُّعَائَ هُنَاکَ أَفْضَلُ مِنَ الدُّعَائِ فِي غَیْرِہٖ، أَوِ النَّذْرُ لَه وَنَحْوُ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ هٰذَا مِنْ دِینِ الْمُسْلِمِینَ، بَلْ هوَ مِمَّا اُحْدِثَ مِنَ الْبِدَعِ الْقَبِیحَةِ الَّتِي هيَ مِنْ شُعَبِ الشِّرْکِ، وَاللّٰه أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ ۔

’’قبر کو (تبرک کی نیت سے) ہاتھ لگانا، اس کے پاس نماز پڑھنا، دُعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا، یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دُعا کرنا عام جگہوں پر دُعا کرنے سے افضل ہے اور قبر پر نذر و نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں، جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں۔ والله اعلم واحکم۔‘‘[مجموع الفتاوٰی لابن تيمية : 321/24]

نیز فرماتے ہیں :

وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ، اَيَّ قَبْرٍ کَانَ، وَتَقْبِیلُه وَتَمْرِیغُ الْخَدِّ عَلَیْهِ، فَمَنْهيٌّ عَنْه بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِینَ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ قُبُورِ الْـاَنْبِیَائِ، وَلَمْ یَفْعَلْ هذَا أَحَدٌ مِّنْ سَلَفِ الْـأُمَّة وَأَئِمَّتِها، بَلْ هذَا مِنَ الشِّرْکِ، قَالَ اللّٰه تَعَالٰی : {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا}(نوح71:24-23)، وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ هٰؤُلَائِ أَسْمَائُ قَوْمٍ صَالِحِینَ، کَانُوا مِنْ قَوْمِ نُوحٍ، وَأَنَّهمْ عَکَفُوا عَلٰی قُبُورِهِمْ مُّدَّۃً، ثُمَّ طَالَ عَلَیْهِمُ الْـاَمَدُ، فَصَوَّرُوا تَمَاثِیلَهمْ، لَاسِیَّمَا إِذَا اقْتَرَنَ بِذٰلِکَ دُعَائُ الْمَیِّتِ وَالِاسْتِغَاثَة بِه -

’’قبر کسی کی بھی ہو، اس کو (تبرک کی نیت سے) چھونا، بوسہ دینا اور اس پر اپنے رخسار ملنا منع ہے اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ یہ کام انبیاء ِ کرام کی قبور ِمبارکہ کے ساتھ بھی کیا جائے، تو اس کا یہی حکم ہے۔ اسلافِ امت اور ائمہ دین میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا، بلکہ یہ کام شرک ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا}(نوح 71 : 24-23)
کہ
"وہ (قوم نوح کے مشرکین) کہنے لگے: تم کسی بھی صورت وَد، سُوَاع، یَغُوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہ چھوڑو،(یوں) انہوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کر دیا".
یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ یہ سب قومِ نوح کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ایک عرصہ تک یہ (مشرکین قومِ نوح) لوگ ان کی قبروں پر ماتھے ٹیکتے رہے، پھر جب لمبی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان نیک ہستیوں کی مورتیاں گھڑ لیں۔ قبروں کی یہ تعظیم اس وقت خصوصاً شرک بن جاتی ہے جب اس کے ساتھ ساتھ میت کو پکارا جانے لگے اور اس سے مدد طلب کی جانے لگے۔‘‘
[مجموع الفتاوٰی لابن تيمية: 91/27۔92]

شیخ موصوف ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

اِتَّفَقَ السَّلَفُ عَلٰی أَنَّه لَا یَسْتَلِمُ قَبْرًا مِّنْ قُبُورِ الْـاَنْبِیَائِ وَغَیْرِهمْ، وَلَا یَتَمَسَّحُ بِه، وَلَا یُسْتَحَبُّ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، وَلَا قَصْدُہٗ لِلدُّعَائِ عِنْدَہٗ، أَوْ بِهٖ، لِأَنَّ هذِہِ الْـاُمُورَ کَانَتْ مِنْ أَسْبَابِ الشِّرْکِ وَعِبَادَۃِ الْـأَوْثَانِ ۔

’’سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبریں انبیاء ِ کرام کی ہوں یا عام لوگوں کی، ان کو نہ بوسہ دینا جائز ہے ،نہ ان کو (تبرک کی نیت سے) چھونا۔قبروں کے پاس نماز کی ادائیگی اور دعا کی قبولیت کی غرض سے جانا یا ان قبروں کے وسیلے سے دُعا کرنا مستحسن نہیں۔ یہ سارے کام شرک اور بت پرستی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
[مجموع الفتاوٰی لابن تيمية: 31/27]

(11) علامہ ابن الحاج رحمه الله (المتوفى:737ھ) قبرنبوی کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فَتَرٰی مَنْ لَّا عِلْمَ عِنْدَہٗ یَطُوفُ بِالْقَبْرِ الشَّرِیفِ، کَمَا یَطُوفُ بِالْکَعْبَة الْحَرَامِ، وَیَتَمَسَّحُ بِه وَیُقَبِّلُه، وَیُلْقُونَ عَلَیْهِ مَنَادِیلَهُمْ وَثِیَابَهمْ، یَقْصِدُونَ بِه التَّبَرُّکَ، وَذٰلِکَ کُلُّه مِنَ الْبِدَعِ، لِأَنَّ التَّبَرُّکَ إِنَّمَا یَکُونُ بِالِاتِّبَاعِ لَهٗ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَمَا کَانَ سَبَبُ عِبَادَۃِ الْجَاہِلِیَّة لِلْـاَصْنَامِ؛ إِلَّا مِنْ هذَا الْبَابِ ۔

’’آپ جاہلوں کو دیکھیں گے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک کا کعبہ کی طرح طواف کرتے ہیں، اور تبرک کی نیت سے اس کو چھوتے ہیں ،بوسہ دیتے ہیں، اس پر اپنے رومال اور کپڑے ڈالتے ہیں۔ یہ سارے کام بدعت ہیں، کیونکہ برکت تو صرف اور صرف آپ علیه السلام کے اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔ دور ِجاہلیت میں بتوں کی عبادت کا سبب یہی چیزیں بنی تھیں۔ ‘‘
[المدخل : 263/1]

(12) احمدونشریسی (المتوفى :914ھ) لکھتے ہیں:

وَمِنْھَا تَقْبِیلُ قَبْرِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ أَوِ الْعَالِمِ، فِإِنَّ ھٰذَا کُلَّه بِدْعَة ۔
’’ان کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی نیک شخص یا عالم کی قبر کو چوما جائے، یہ سب کام بدعت ہیں۔‘‘
[المعیار المعرب : 490/2]

(13) علامہ، عبد الرؤف، مناوی رحمه الله حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

’فَزُورُوا الْقُبُورَ‘، أَي بِشَرْطِ أَنْ لَّا یَقْتَرِنَ بِذٰلِکَ تَمَسُّحٌ بِالْقَبْرِ، أَوْ تَقْبِیلٌ، أَوْ سُجُودٌ عَلَیهِ، أَوْ نَحْوُ ذٰلِکَ، فَإِنَّه کَمَا قَالَ السُّبْکِيُّ : بِدْعَة مُّنْکَرَۃٌ، إِنَّمَا یَفْعَلُها الْجُهَّالُ ۔

’’تم قبروں کی زیارت کرو، یعنی اس شرط پر کہ زیارت کے ساتھ قبر کو چھونے یا چومنے یا اس پر سجدہ وغیرہ کرنے کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ بقول علامہ سبکی منکر بدعت اور جاہلوں کا کام ہے۔‘‘
[فیض القدیر : 55/5، شفاء السقام للسبکي، ص : 313]

اس سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین انبیاء ِکرام کی قبروں سے تبرک حاصل نہیں کرتے تھے، لیکن جو لوگ سلف صالحین کی مخالفت اور بدعت کو بھی جائز سمجھتے ہوں، ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:

® علامہ ابن عابدین، شامی حنفی لکھتے ہیں :
وَضْعُ السُّتُورِ، وَالْعَمَائِمِ، وَالثِّیَابِ عَلٰی قُبُورِ الصَّالِحِینَ الْـأَوْلِیَائِ کَرِهَهُ الْفُقَهَائُ، حَتّٰی قَالَ فِي فَتَاوَی الْحُجَّةِ : وَتُکْرَہُ السُّتُورُ عَلَی الْقُبُورِ، وَلٰکِنْ نَّحْنُ الْآنَ نَقُولُ : إِنْ کَانَ الْقَصْدُ بِذٰلِکَ التَّعْظِیمَ فِي أَعْیُنِ الْعَامَّةِ، حَتّٰی لَا یَحْتَقِرُوا صَاحِبَ هذَا الْقَبْرِ۔۔۔، فَهُوَ أَمْرٌ جَائِزٌ لَّا یَنْبَغِي النَّهيُ عَنْهُ، لِأَنَّ الْـأَعْمَالَ بِالنِّیَّاتِ، وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّا نَوٰی، فَإِنَّهٗ وَإِنْ کَانَ بِدْعَة عَلٰی خِلَافِ مَا کَانَ عَلَیْه السَّلَفُ ۔۔۔ ۔

’’نیک اولیا کی قبروں پر چادریں، پگڑیاں اور کپڑے رکھنے کو ہمارے (حنفی) فقہا نے مکروہ قرار دیا ہے، حتی کہ فتاوی الحجہ میں لکھا ہے : قبروں پر چادریں ڈالنا مکروہ ہے۔
لیکن ہم اب کہتے ہیں کہ اگر اس سے عام لوگوں کی نظروں میں صاحب ِقبر کی تعظیم پیدا کرنا مقصود ہو تاکہ وہ صاحب ِقبر کو حقیر نہ سمجھیں۔۔۔،تو یہ جائز ہے، اس سے روکنا درست نہیں، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی کچھ ملتا ہے، جس کی وہ نیت کرتا ہے۔ یہ عمل اگرچہ بدعت ہے اور اس طریقے کے خلاف ہے، جس پر سلف صالحین کاربند تھے۔۔۔‘‘
[العقود الدریّة في تنقیح الفتاوی الحامدیّة : 325/2، فتاوی الشامي : 363/6]

✔ ملاحظہ فرمائیں کہ اسے بدعت بھی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ بھی اقرار کیا جا رہا ہے کہ سلف صالحین اس عمل پر کاربند نہیں تھے، اور یہ عمل سلف صالحین کے عمل ومنھج کے خلاف ہے، لیکن پھر بھی اسے جائز کہا جا رہا ہے۔ کیا اس سے یہ بات بخوبی معلوم نہیں ہو جاتی کہ بعض لوگ اپنا دین کتاب وسنت اور سلف صالحین سے نہیں، بلکہ اپنے نفس کی آراء خواہشات سے اخذ کرتے ہیں؟؟ ان لوگوں کا قبروں کی جعلی اور خود ساختہ تعظیم سے شرک کی راہ ہموار کرنا مقصود ہے۔ اگر شریعت میں اس کا کوئی تصور ہوتا، تو سلف صالحین اسے ضرور اپناتے۔ صحابہ کرام نے قبر نبوی اور تابعین عظام نے قبور ِصحابہ کے ساتھ اور تبع تابعین اعلام نے قبور ِ تابعین کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں کیا۔

جبکہ فقه حنفي كی مستند کتاب میں لکھا ہے :
وَلَا یَمْسَحُ الْقَبْرَ وَلَا یُقَبِّلُه، فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَادَۃِ النَّصَارٰی، وَلَا بَأْسَ بِتَقْبِیلِ قَبْرِ وَالِدَیْه ۔

’’قبرستان جانے والا قبر کو نہ چھوئے، نہ بوسہ دے، کیونکہ یہ نصاریٰ کی عادت ہے، البتہ اپنے والدین کی قبر کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
[الفتاوی الهندیّة المعروف به فتاویٰ عالمگیري : 351/5]

قبروں کو بوسہ دینا جب نصاریٰ کی عادت ہے تو یہ عادت والدین کی قبر پر کیسے سند ِجواز حاصل کر لے گی؟


صحابہ کرام اور قبر رسول صلى الله عليه وسلم سے تبرک
:

بعض لوگ نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں، ان کے مزعومہ دلائل کا انتہائی مختصر اور جامع تبصرہ پیش خدمت ہے:

سیدنا عمر رضی الله عنه اور قبر نبوی سے تبرک


(1) جب سیّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی الله عنه کے خط پر سیّدنا عمر رضی الله عنه نے لوگوں کو شام کی طرف کوچ کرنے کے لئے شہر سے باہر نکلے کو کہا، تو سیّدنا عمر بن خطاب رضی الله عنه نے سب سے پہلے مسجد ِنبوی میں حاضر ہو کر چار رکعت نماز ادا کی، پھر قبر رسول کی زیارت کی اور سلام کیا۔
[فتوح الشام للواقدي : 306/1۔307]

تبصرہ :
یہ بے سند کہانی محمد بن عمرواقدی کی گھڑنتل ہے۔
امام اسحاق بن راهویه رحمه الله فرماتے ہیں:
عِنْدِي مِمَّنْ یَّضَعُ الْحَدِیْثَ ۔
’’میرے نزدیک اس کا شمار حدیث گھڑنے والوں میں ہوتا ہے۔‘‘ [الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 21/8]-وسندہ صحیح

© اس (واقدی) کو ، امام ابو حاتم رازی رحمه الله، امام بخاری رحمه الله، امام مسلم رحمه الله، امام نسائی رحمه الله اور حافظ ابن حجر رحمه الله نے ’’متروک الحدیث‘‘کہا ہے۔
[الجرح والتعدیل : 21/8، الضعفاء الکبیر للعقیلي : 107/4، الکنٰی والأسماء : 1952، الضعفاء : 557، تقریب التهذیب : 6175]

© امام بندار بن بشار رحمه الله کہتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ أَکْذَبَ شَفَتَیْنِ مِنَ الْوَاقِدِيِّ ۔
’’میں نے واقدی سے بڑھ کر جھوٹے ہونٹوں والا راوی نہیں دیکھا۔‘‘
[تاریخ بغداد للخطیب : 14/3]-وسندہ صحیح

© اسے امام ابو زرعہ رازی رحمه الله، اور امام دارقطنی رحمه الله نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
[الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 21/8، سنن الدارقطني : 164/2]

© امام ابن عدی رحمه الله فرماتے ہیں:
یَرْوِي أَحَادِیثَ غَیْرَ مَحْفُوظَةٍ، وَّالْبَلَائُ مِنْهُ، وَمُتُونُ أَخْبَارِ الْوَاقِدِيِّ غَیْرُ مَحْفُوظَةٍ، وَھُوَ بَیِّنُ الضَّعْفِ ۔
’’یہ شخص غیر محفوظ احادیث بیان کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی اپنی طرف سے ہے۔ نیز اس کی روایات کے متون غیر محفوظ ہیں اور وہ خود واضح ضعیف ہے۔‘‘
[الکامل في ضعفاء الرجال : 243/6]

© امام خطیب بغدادی رحمه الله فرماتے ہیں:
وَالْوَاقِدِيُّ عِنْدَ أَئِمَّةِ أَھْلِ النَّقْلِ؛ ذَاھِبُ الْحَدِیْثِ ۔
’’واقدی ائمہ محدثین کرام کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔‘‘[تاریخ بغداد للخطيب: 37/1]

© علامه هيثمی رحمه الله کہتے ہیں:
ضَعَّفَه الْجُمْهُوْرُ ۔
’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف کہا ہے۔‘‘[مجمع الزوائد : 255/3]

© علامه ابن الملقن رحمه الله کہتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَه الْجُمْهُوْرُ ۔
’’یقینا اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔‘‘[البدر المنیر لابن الملقن: 324/5]

© حافظ ذهبی رحمه الله لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ الْوَاقِدِيَّ ضَعِیْفٌ ۔
’’یہ بات مسلَّم ہے کہ واقدی ضعیف راوی ہے۔‘‘[سیر أعلام النبلاء للذهبي : 454/9]


(2) کعب احبار رحمه الله کے قبولِ اسلام کے بعد سیّدنا عمر فاروق رضی الله عنه نے انہیں فرمایا: کیا آپ قبرِ رسول کی زیارت کے لئے میرے ساتھ چلو گے؟ انہوں نے کہا: امیر المومنین، جی ہاں! پھر جب کعب احبار رحمه الله اور سیّدنا عمر رضی الله عنه مدینہ آئے، تو سب سے پہلے قبر رسول کی زیارت کی اور سلام کہا، پھر سیّدنا ابو بکر رضی الله عنه کی قبر پر کھڑے ہو کر سلام کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔
[فتوح الشام للواقدي : 318/1]

تبصرہ :
یہ بے سند روایت بھی محمد بن عمر واقدی کی کارستانی ہے، اور اس واقدی کی حقیقت اوپر بیان کی جاچکی ہے


سیدہ عائشه رضی الله عنہا اور قبر نبی سے تبرک
:

ابو الجوزا، اوس بن عبدالله تابعی رحمه الله سے مروی ہے :

قُحِطَ أَهلُ الْمَدِینَةِ قَحْطًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلٰی عَائِشَة، فَقَالَتْ : اُنْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاجْعَلُوا مِنْه کِوًی إِلَی السَّمَائِ، حَتّٰی لَا یَکُونَ بَیْنَه وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ، حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ ۔

’’ایک مرتبہ اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے (اس کیفیت کے بارے میں ) شکایت کی۔ سیدہ رضی الله عنہا نے فرمایا: نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے اسی طرح کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی، یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ ایسے ہوگئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اس سال کا نام عام الفتق(پیٹ پھٹنے والا سال)رکھ دیا گیا۔‘‘
[سنن الدارمي : 58/1،ح : 93، مشکاۃ المصابیح : 5950]-وسنده ضعيف

تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ہے ،کیونکہ اس کے راوی عمرو بن مالک نکری (ثقہ وحسن الحدیث) كی حدیث، ابوالجوزا سے غیر محفوظ ہوتی ہے۔ اور یہ روایت بھی ایسی ہی ہے ۔

© علامه ابنِ حجر رحمه الله لکھتے ہیں :
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ : حَدَّثَ عَنْه عَمْرُو بْنُ مَالِکٍ قَدْرَ عَشْرَۃِ أَحَادِیثَ غَیْرِ مَحْفُوظَة۔
’’امام ابن عدی رحمه الله نے فرمایا ہے کہ ابوالجوزا سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔‘‘ [تهذیب التھذیب : 336/1]
یہ جرح مفسر ہے۔ اور یہ اثر بھی عمرو بن مالک نکری نے اپنے استاذ ابو الجوزا سے روایت کیا ہے، لہٰذا یہ غیر محفوظ، یعنی ’’منکر‘‘ہے ۔

اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام، ابن تیمیة رحمه الله (المتوفى 661۔728ھ) فرماتے ہیں:

وَمَا رُوِيَ عَنْ عَائِشَة رَضِيَ اللّٰه عَنْهَا مِنْ فَتْحِ الْکَوَّۃِ مِنْ قَبْرِہٖ إِلَی السَّمَائِ، لِیَنْزِلَ الْمَطَرُ، فَلَیْسَ بِصَحِیحٍ، وَلَا یَثْبُتُ إِسْنَادُہٗ، وَمِمَّا یُبَیِّنُ کِذْبَ هذَا أَنَّهٗ فِي مُدَّۃِ حَیَاۃِ عَائِشَۃَ لَمْ یَکُنْ لِلْبَیْتِ کَوَّۃٌ، بَلْ کَانَ بَاقِیاً کَمَا کَانَ عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ بَعْضُه مَسْقُوفٌ وَّبَعْضُه مَکْشُوفٌ، وَکَانَتِ الشَّمْسُ تَنْزِلُ فِیه، کَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیحَیْنِ عَنْ عَائِشَة أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَآلهٖ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِها، لَمْ یَظْهَرِ الْفَيْئُ بَعْدُ، وَلَمْ تَزَلِ الْحُجْرَۃُ النَّبَوِیَّةُ کَذٰلِکَ فِي مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَآلِه وَسَلَّمَ، وَمِنْ حِینَئِذٍ دَخَلَتِ الْحُجْرَۃُ النَّبَوِیّةُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ إِنَّه بُنِيَ حَوْلَ حُجْرَۃِ عَائِشَة الَّتِي فِیها الْقَبْرُ؛ جِدَارٌ عَالٍ، وَبَعْدَ ذٰلِکَ جُعِلَتِ الْکَوَّۃُ لِیَنْزِلَ مِنْها مَنْ یَّنْزِلُ إِذَا احْتِیجَ إِلٰی ذٰلِکَ لِاَجْلِ کَنْسٍ أَوْ تَنْظِیفٍ، وَأَمَّا وُجُودُ الْکَوَّۃِ فِي حَیَاۃِ عَائِشَةَ؛ فَکَذِبٌ بَیِّنٌ".

’’سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے جو بارش کے لیے قبرنبوی پر سے کھڑکی کھولنے کی روایت مروی ہے، وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے۔ اس کے خلاف ِواقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کی حیات ِمبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا، جس طرح نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کے عہد مبارک میں تھا. کہ اس کا بعض حصہ چھت والا اور بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ [صحیح بخاری:522 و صحيح مسلم:611] میں ثابت ہے۔ كہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا ہی بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی الله علیه وسلم جب عصر کی نماز ادا فرماتے، تو ابھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور ابھی تک سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد ِنبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔(پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر حجرہ عائشہ ،جس میں نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبرمبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جا سکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کی حیات ِمبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی بات ہے تو یہ واضح طور پر جھوٹ ہے۔‘‘[الردّ علی البکري، ص : 68-74]

اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے، تو اس سے توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ،نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔

© شیخ الاسلام، ابن تیمیه رحمه الله ہی فرماتے ہیں :
لَوْ صَحَّ ذٰلِکَ لَکَانَ حُجَّةً وَّدَلِیلًا عَلٰی أَنَّ الْقَوْمَ لَمْ یَکُونُوا یُقْسِمُونَ عَلَی اللّٰهِ بِمَخْلُوقٍ، وَّلَا یَتَوَسَّلُونَ فِي دُعَائِهمْ بِمَیِّتٍ، وَلَا یَسْاَلُونَ اللّٰہَ بِهٖ، وَإِنَّمَا فَتَحُوا عَلَی الْقَبْرِ لِتَنْزِلَ الرَّحْمَةُ عَلَیْهِ، وَلَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ دُعَاء ٌ یُّقْسِمُونَ بِه عَلَیْهِ، فَأَیْنَ هذَا مِنْ هٰذَا ۔

’’اگر یہ روایت صحیح ہو، تو بھی اس بات پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرام نہ تو الله تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ الله تعالیٰ سے اس کے وسیلے سے مانگتے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو۔انہوں نے وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی، جس میں وہ کوئی وسیلہ پکڑتے۔ لہٰذا اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟‘‘
[الردّ علی البکري، ص : 74]

یعنی یہ روایت فوت شدگان سے توسل لینے والوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔

® ایک الزامی جواب :

اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں:
وَمَنْ حَدَّثَکَ أَنَّه یَعْلَمُ الْغَیْبَ، فَقَدْ کَذَبَ، وَهوَ یَقُولُ : لاَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰه ۔
’’جوکوئی تمہیں بتائے کہ سیّدنا محمد صلی الله علیه وسلم غیب جانتے ہیں، وہ جھوٹا ہے، الله تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ غیب کی باتوں کو الله کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘
[صحیح البخاري : 7380، صحیح مسلم : 177]

سیّدہ عائشہ رضی الله عنہا کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے خلاف ہے، اس لیے اس کے جواب میں بعض الناس نے لکھا ہے:
’’آپ رضی الله عنہا کا یہ قول اپنی رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث ِمرفوع پیش نہیں فرماتیں، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں۔‘‘[جاء الحق‘‘ : 124/1]

ہم پوچھتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی الله عنہا کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں، تو ان کا نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر کے متعلق یہ قول کیوں قبول ہے؟جبکہ وہ اس پر بھی کوئی آیت و حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ اس پر سہاگہ یہ کہ یہ قول ثابت بھی نہیں ہے۔


(4)
سیدنا جابر بن عبداللّٰه رضی الله عنہما اور قبر نبی سے تبرک :


© محمد بن منکدر تابعی رحمه الله کی طرف منسوب ہے

رَأَیْتُ جَابِرًا رَّضِيَ اللّٰه عَنْه، وَھُوَ یَبْکِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰه صَلَّی اللّهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ، وَھُوَ یَقُولُ : ھٰھُنَا تُسْکَبُ الْعَبَرَاتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّة‘ ".

’’میں نے سیّدنا جابر رضی الله عنه کو نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک کے پاس روتے دیکھا۔ وہ فرما رہے تھے: آنسو بہانے کی جگہ یہی ہے۔ میں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔ ‘‘[شعب الإیمان للبیهقي : 3866]-وسنده ضعيف


© تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
√ اس سند میں امام بیهقی رحمه الله کا استاذ "محمد بن حسین ابوعبد الرحمن سلمی" ’’ضعیف‘‘ ہے۔

√ اس کے بارے میں امام ذهبی رحمه الله فرماتے ہیں :
تَکَلَّمُوا فِیهِ، وَلَیْسَ بِعُمْدَۃٍ ۔
’’محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے، یہ قابل اعتماد شخص نہیں تھا۔‘‘
[میزان الاعتدال في نقد الرجال : 523/3]

√ امام ذهبي نے ایک اور مقام پر ’’ضعیف‘‘ بھی کہا ہے۔[تذکرۃ الحفّاظ : 166/3]

√ امام ابن حجر رحمه الله نے بھی اس پر جرح کی ہے۔
[الإصابة في تمییز الصحابة : 252/2]

√ امام محمد بن یوسف قطان، نیشاپوری رحمه الله فرماتے ہیں :
غَیْرُ ثِقَة، وَکَانَ یَضَعُ لِلصُّوفِیَة الْـأَحَادِیثَ ۔
’’یہ قابل اعتبار شخص نہیں تھا اوریہ صوفیوں کے لیے روایات گھڑتا تھا۔‘‘
[تاریخ بغداد للخطیب : 247/2]-وسندہ صحیح

2 اس روایت کے مرکزی راوی "محمد بن یونس بن موسیٰ کُدَیمی" کے بارے میں :

√ امام ابن عدی رحمه الله فرماتے ہیں :
اُتُّھِمَ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ وَبِسَرِقَتِه
۔
’’محدثین کرام اس پر حدیث گھڑنے اور چوری کرنے جرح کرتے ہیں۔‘‘
[الکامل في ضعفاء الرجال : 292/6]

√ امام ابن حبان رحمه الله فرماتے ہیں :
وَکَانَ یَضَعُ عَلَی الثِّقَاتِ الْحَدِیثَ وَضْعًا، وَلَعَلّهٗ قَدْ وَضَعَ أَکْثَرَ مِنْ أَلْفِ حَدِیثٍ ۔
’’یہ شخص ثقة راویوں سے منسوب کر کے خود حدیث گھڑ لیتا تھا۔ شاید اس نے ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں۔‘‘[کتاب المجروحین لابن حبان : 313/2]

√ امام دارقطنی رحمه الله نے اسے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔
[سؤالات الحاکم للدارقطني : 173]

√ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
کَانَ الْکُدَیْمِيُّ یُتَّھَمُ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ ۔
’’کُدَیمی پر حدیث گھڑنے کا الزام تھا۔ ‘‘[سؤالات السھمي للدارقطني : 74]

√ امام ابوحاتم رازی رحمه الله کے سامنے اس کی ایک روایت پیش کی گئی، تو انہوں نے فرمایا:
لَیْسَ ھٰذَا حَدِیثٌ مِّنْ أَھْلِ الصِّدْقِ ۔
’’یہ سچے آدمی کی بیان کردہ حدیث نہیں۔ ‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 122/8]

√ امام ذهبی رحمه الله فرماتے ہیں :
أَحَدُ الْمَتْرُوکِینَ ۔
’’یہ ایک متروک راوی ہے۔ ‘‘
[میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذهبي :74/4، ت :8353]

√ امام ابن حجر رحمه الله نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے".
[تقریب التھذیب : 6419]


(5)
سیدنا بلال رضی الله عنه اور قبر نبی سے تبرک :


قَالَ ابْنُ عَسَاکِرٍ : أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ الْـأَکْفَانِيِّ : نَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَحْمَدَ : أَنَا تَمَّامُ بْنُ مُحَمَّدٍ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَیْضِ : نَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالِ بْنِ أَبِي الدَّرْدَائِ : حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیهِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، قَالَ : إِنَّ بِلَالًا رَاٰی فِي مَنَامِهِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ، وَهُوَ یَقُولُ لَه : مَا هذِہِ الْجَفْوَۃُ یَا بِلَالُ، أَمَا اٰنَ لَکَ أَنْ تَزُورَنِي یَا بِلَالُ ؟ فَانْتَبَه حَزِینًا وَّجِلًا خَائِفًا، فَرَکِبَ رَاحِلَتَه وَقَصَدَ الْمَدِینَةَ، فَاَتٰی قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ یَبْکِي عِنْدَہٗ، وَیُمَرِّغُ وَجْهه عَلَیْه، وَأَقْبَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ، فَجَعَلَ یَضُمُّهمَا وَیُقَبِّلُهمَا، فَقَالَا لَهٗ : یَا بِلَالُ، نَشْتَهي نَسْمَعُ أَذَانَکَ الَّذِي کُنْتَ تُؤَذِّنُهٗ لِرَسُولِ اللّٰه صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ فِي السَّحَرِ، فَفَعَلَ، فَعَلَا سَطْحَ الْمَسْجِدِ، فَوَقَفَ مَوْقِفَه الَّذِي کَانَ یَقِفُ فِیهِ، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : اللّٰهُ أَکْبَرُ، اللّٰه أَکْبَرُ، ارْتَجَّتِ الْمَدِینَة، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : أَشْهدُ أَنْ لَّا إِلٰه إِلَّا اللّٰه، زَادَ تَعَاجِیجُها، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : أَشْهدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰه، خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنْ خُدُورِہِنَّ، فَقَالُوا : أَبُعِثَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رُئِيَ یَوْمٌ أَکْثَرَ بَاکِیًا وَّلَا بَاکِیَة بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ ۔

’’سیّدنا ابو دردا رضی الله عنه سے منسوب ہے کہ سیّدنا بلال رضی الله عنه نے خواب میں الله کے رسول صلی الله عليه وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے ان سے فرمایا: اے بلال! یہ کیا بے رُخی ہے؟ کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کرو؟ اس پر سیّدنا بلال رضی الله عنه گھبرائے ہوئے بیدار ہوئے۔ انہوں نے اپنی سواری کا رخ مدینہ منورہ کی طرف کرلیا۔ نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک پر پہنچے اور اس کے پاس رونا شروع کر دیا۔ اپنا چہرہ اس پر ملنے لگے۔ سیّدنا حسن و حسین رضی الله عنہما ادھر آئے، تو سیّدنا بلال رضی الله عنہ نے انہیں سینے سے لگایا اور ان کو بوسہ دیا۔ ان دونوں نے سیّدنا بلال رضی الله عنه سے کہا: ہم آپ کی وہ اذان سننا چاہتے ہیں، جو آپ مسجد میں رسول الله صلی الله علیه وسلم کے لیے کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ہاں کر دی۔ مسجد کی چھت پر چڑھے اور اپنی اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں دورِ نبوی میں کھڑے ہوتے تھے۔ جب انہوں نے اَللّٰه أَکْبَرُ، اللّٰه أَکْبَرُکہا، تو مدینہ (رونے کی آواز سے) گونج اٹھا۔پھر جب انہوں نے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰه إِلَّا اللّٰهُ کہا، تو آوازیں اور زیادہ ہو گئیں۔ جب وہ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰهِ پر پہنچے، تو دوشیزائیں اپنے پردوں سے نکل آئیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے: کیا رسول الله صلی الله علیه وسلم دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں؟ رسول الله صلی الله علیه وسلم کے بعد کسی نے مدینہ میں مَردوں اور عورتوں کے رونے والا اس سے بڑا دن کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
[تاریخ دمشق لابن عساکر : 137/7]

® تبصرہ :
یہ گھڑنتل ہے، جیسا کہ :
√ امام ابن حجر رحمه الله فرماتے ہیں:
وَھِيَ قِصة بَیِّنَة الْوَضْعِ ۔
’’یہ داستان واضح طور پر کسی کی گھڑنتل ہے۔‘‘[لسان المیزان : 108/1]

علامه ابن عبد الهادی رحمه الله فرماتے ہیں:
ھٰذَا الْـأَثَرُ الْمَذْکُورُ عَنْ بِلَالٍ؛ لَیْسَ بِصَحِیحٍ ۔
’’سیّدنا بلال رضی الله عنه سے منسوب مذکورہ روایت ثابت نہیں۔‘‘
[الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314]

امام ذهبی رحمه الله فرماتے ہیں:
إِسْنَادُہ لَیِّنٌ، وَھُوَ مُنْکَرٌ ۔
’’اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔‘‘[سیر أعلام النبلاء : 358/1]

امام ابن عراق کنانی رحمه الله کہتے ہیں :
وَھِيَ قِصَّة بَیِّنةُ الْوَضْعِ ۔
’’یہ قصہ مبینہ طور پر گھڑا ہواہے۔‘‘[تنزیه الشریعة : 59]

اس روایت کی سند میں کئی خرابیاں هیں۔تفصیل یہ ہے :

(1) ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال کے بارے میں حافظ ذهبی رحمه الله لکھتے ہیں کہ یہ ’’مجہول‘‘(نامعلوم) ہے۔[تاریخ الإسلام : 67/17]

اور فرماتے ہیں :
فِیه جَھَالَة۔
’’یہ نامعلوم راوی ہے۔‘‘[میزان الاعتدال : 64/1، ت : 205]

حافظ ابن عبد الهادی رحمه الله کہتے ہیں:
ھٰذَا شَیْخٌ لَّمْ یُعْرَفْ بِثِقَةٍ وَّأَمَانَةٍ، وَلَا ضَبْطٍ وَّعَدَالَة، بَلْ ھُوَ مَجْھُولٌ غَیْرُ مَعْرُوفٍ بِالنَّقْلِ، وَلَا مَشْھُورٍ بِالرِّوَایَةِ، وَلَمْ یَرْوِ عَنْه غَیْرُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَیْضِ، رَوٰی عَنْهُ ھٰذَا الْـأَثَرَ الْمُنْکَرَ ۔
’’یہ ایسا راوی ہے، جس کی امانت و دیانت اور ضبط و عدالت معلوم نہیں۔ یہ مجہول ہے اور نقل روایت میں غیرمعروف ہے۔ یہ روایت میں بھی مشہور نہیں۔ اس (نامعلوم مجہول راوی) سے محمدبن فیض کے علاوہ کسی نے (کوئی) روایت (بیان) نہیں کی اور اس نے بھی یہ منکر قصہ اسی (نامعلوم) سے (ہی) روایت کیا ہے۔‘‘[الصارم المنکي، ص : 314]

(2) اس روایت کے دوسرے راوی سلیمان بن بلال بن ابو دردا کے بارے میں حافظ ابن عبد الهادی رحمه الله فرماتے ہیں:
بَلْ ھُوَ مَجْھُولُ الْحَالِ، وَلَمْ یُوَثِّقْه أَحَدٌ مِّنَ الْعُلَمَائِ، فِیمَا عَلِمْنَاہُ ۔
’’یہ مجہول الحال شخص ہے۔ہمارے علم کے مطابق اسے کسی ایک بھی عالم نے معتبر قرار نہیں دیا۔‘‘[لصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314]

(3) سلیمان بن بلال کا سیّدہ ام دردا رضی الله عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں، یوں یہ روایت ’’منقطع‘‘ بھی ہے، جیسا کہ :

علامه ابن عبد الهادی رحمه الله فرماتے ہیں:
وَلَا یُعْرَفُ لَه سَمَاعٌ مِّنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ۔
’’اس کا سیّدہ ام دردا رضی الله عنہا سے سماع بھی معلوم نہیں ہو سکا۔‘‘
[الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314]

علامه ابن عبد الہادی رحمه الله اس روایت کے بارے میں آخری فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَھُوَ أَثَرٌ غَرِیبٌ مُّنْکَرٌ، وَإِسْنَادُہٗ مَجْھُولٌ، وَفِيهِ انْقِطَاعٌ ۔
’’یہ روایت غریب اور منکر ہے۔اس کی سند مجہول ہے اور اس میں انقطاع بھی ہے۔‘‘[الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314]

تنبیہ :
√ حافظ ذهبی رحمه الله لکھتے ہیں :
إِسْنَادُہٗ جَیِّدٌ، مَا فِیهِ ضَعِیفٌ، لٰکِنْ إِبْرَاھِیمُ ھٰذَا مَجْھُولٌ ۔
’’اس کی سند جید ہے۔اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں، البتہ یہ ابراہیم نامی راوی مجہول ہے۔‘‘[تاریخ الإسلام : 373/5، بتحقیق بشّار، وفي نسخة : 67/17]

یہ علامہ ذهبی رحمه الله کا علمی تسامح ہے۔ جس روایت کی سند میں دو راوی ’’مجہول‘‘ هوں اور اس کے ساتھ ساتھ ’’انقطاع‘‘ بھی ہو، وہ جید کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر خود انہوں نے اپنی دوسری کتاب [سیر أعلام النبلاء : 358/1] میں اسى روایت کی سند کو کمزور اور اس روایت کو ’’منکر‘‘ بھی قرار دے رکھا ہے، جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔

اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمه الله وغیرہ کی بات درست ہے کہ یہ قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ یہ ان ’’مجہول‘‘ راویوں میں سے کسی کی کارروائی ہے۔


(6)
سیدنا ابو ایوب رضی الله عنه اور قبر نبی سے تبرک :



دائود بن ابي صالح الحجازی (مجهول العين) کا بیان ہے :
أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا، فَوَجَدَ رَجُلًا وَّاضِعًا وَجْهه عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَیْهِ، فَإِذَا هوَ أَبُو اَیُّوبَ، فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰه صَلَّی اللّٰه عَلَیهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لَا تَبْکُوا عَلَی الدِّینِ إِذَا وَلِیهٗ أَهلُهٗ، وَلٰکِنِ ابْکُوا عَلَیْه إِذَا وَلِیَه غَیْرُ أَهلِه ۔

’’ایک دن مروان آیا، تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے تھا۔ مروان نے کہا:تمہیں معلوم ہے کہ کیا کر رہے ہو؟ اس شخص نے مروان کی طرف اپنا چہرہ موڑا،تو وہ سیّدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ تھے۔انہوں نے فرمایا:ہاں!مجھے خوب معلوم ہے۔میں رسولِ اکرم صلی الله علیه وسلم کے پاس آیا ہوں، پتھر پر نہیں۔میں نے آپ صلی الله علیه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جب دین کا والی کوئی دین دار شخص بن جائے، تو اس پر نہ رونا۔ اس پر اس وقت رونا جب اس کے والی نا اہل لوگ بن جائیں۔‘‘
[مسند الإمام أحمد : 422/5، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 515/4]

© تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ اس کے راوی داؤد بن ابی صالح حجازی کے بارے میں:

علامه ذهبی رحمه الله لکھتے ہیں :
لَا یُعْرَفُ ۔
’’میں اسے نہیں جانتا۔‘‘[میزان الاعتدال : 9/2]

امام ابن حجر رحمه الله اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
مَقْبُولٌ ۔
’’یہ مجهول الحال شخص ہے۔‘‘[تقریب التہذیب : 1792]

تنبیہ: "مقبول کا ترجمعہ مجھول اسی لیئے کیا ھے کیونکہ امام ابن حجر مجھول راویوں کے بارے میں اكثر "مقبول" کے ریمارکس دیتے ہیں۔ اور امام ابن حجر کی نزدیک ایسے (نامعلوم عدالت) راوی کی روایت کچھ شرائط کے ساتھ مقبول ھوتی ھے".

آئیے ہم آپ کو "مقبول" کی اصطلاح امام ابن حجر ہی سے سمجھا دیتے ہیں۔

مقبول یہ حافظ ابن حجررحمه الله کی اپنی اصلاح ہے اور اس سے کیا مراد ہے یہ خود حافظ ابن حجر رحمه الله نے بیان کردیاہے چنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
السادسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بلفظ: مقبول، حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم ص 1]۔
یعنی حافظ موصوف اُس راوی کو مقبول کہتے ہیں جس کی حدیث بہت کم ہو اور اس کی جرح ثابت نہ ہو ، اورمقبول سے مراد ایک مشروط مقبولیت ہے اوروہ یہ کہ اس طرح کے راوی کی اگر متابعت مل گئی تو یہ راوی مقبول ہے ورنہ لین الحدیث شمار ہوگا۔
معلوم ہواکہ ’’مقبول‘‘ یہ حافظ ابن حجر رحمه الله کی نظر میں توثیق کا صیغہ نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمه الله کی اپنی اصلاح سے متعلق خود اپنی وضاحت سامنے آنے کے بعد عصر حاضر کے ان مقالات کی کوئی حیثیت نہیں ہے جن میں مقبول کو ثقة کے معنی میں لیا گیا ہے ، اصولی طور پر کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کے قائل کی مراد کے خلاف اس کے قول کی تشریح کرے اہل علم میں یہ قاعدہ عام ہے لایجوز تفسیرالقول بما لایرضی به القائل.



اسی روایت کا دوسرا راوی "کثیر بن زید" ھے جو قولِ راجح میں ضعیف ہے۔ اگر اسے ضعیف تسلیم نہ بھی کیا جائے۔ تب بھی یہ صرف صدوق اور کثیر الخطاء رہے گا۔ اور اس کی منفرد روایت رد کی جائے گی۔

امام نسائی فرماتے ہیں:
٥٠٥ -
كثير بن زيد ضعيف
یہ ضعیف ہے".
[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص89]

امام ذھبی فرماتے ہیں:
٣٤٧١ - كثير بن زيد الأسلمي المدني: ضعفه النسائي وغيره. -ق-
کثیر بن زید کو امام نسائی اور دیگر ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے".
[ديوان الضعفاء للذهبي: ص330]

امام ابن حجر فرماتے ہیں:
٥٦١١-
كثير ابن زيد الأسلمي صدوق يخطىء
یہ صدوق ہے اور خطاء کرتا ہے".
[تقريب التهذيب: ص459]

امام ابو زرعة الرازی فرماتے ہیں:
٥٨٩-
(زدت ق) كثير بن زيد الأسلمي : "صدوق فيه لين"
یہ صدوق ہے لیکن اس میں کمزوری ہے".
[الضعفاء لأبي زرعة الرازي: ج3، ص925]

امام ابن حبان فرماتے ہیں:
٨٩٤ -
كثير بن زيد____كان كثير الخطأ على قلة روايته لا يعجبني الاحتجاج به إذا انفرد".
کثیر بن زید اپنی تھوڑی روایات کے باوجود بہت زیادہ خطائیں کرنے والا تھا اور جب یہ راوی کسی روایت کو بیان کرنے میں اکیلا ہو تو اسے حجت بنانا درست نہیں".
[المجروحين لابن حبان: 2، ص222]

امام ابن حبان نے مزید فرمایا:
سمعت الحنبلي يقول سمعت أحمد بن زهير يقول سئل يحيى بن معين عن كثير بن زيد فقال ليس بذاك القوي وكان قال لا شيء ثم ضرب عليه
امام یحیی ابن معین سے کثیر بن زید کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
یہ قوی نہیں، اور کہا کہ یہ کوئی چیز نہیں (حدیث میں) پھر اس کی مثال دی".
[المجروحين لابن حبان: 2، ص222]

امام ابن أبي حاتم فرماتے ہیں:

نا عبد الرحمن قال سئل ابى عن كثير بن زيد فقال
صالح (ليس بالقوى - ١) يكتب حديثه،
یہ کثیر بن زید صالح ہے لیکن قوی راوی نہیں ہے۔ اس کی حدیث (صرف) لکھی جائے گی".
[الجرح وتعديل لابن أبي حاتم: ج7، ص151]



کچھ لوگوں کا کہنا ھے کہ۔ امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے


عرض یہ ھے کہ امام حاکم کا کسی روایت کو صحیح کہنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ علم الحدیث کو بچوں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ امام حاکم متساہل ہیں۔

اس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

(1) سب سے پہلی مثال تو یہ ہے کہ، امام حاکم کی اسی کتاب "المستدرك" پر امام الذھبی نے "تلخیص المستدرك" لکھی، تا کہ امام حاکم کی اس کتاب سے صحیح و موضوع (من گھڑت) روایات کو الگ کردیا جائے۔ جن کو امام حاکم نے اپنے تساہل کی وجہ سے صحیح کہہ رکھا تھا۔

(2) امام حاکم نے ایک اپنی کتاب المستدرك میں ایک روایت نقل کرنے کے بعد کہا: ھذا حدیث صحیح الأسناد۔ یعنی یہ حدیث صحیح الاسناد ہے".

لیکن تعجب کی بات یہ ھے کہ، اسی روایت میں موجود، ایک راوی "عبدالرحمن بن زید بن اسلم” کے متعلق خود امام حاکم نے اپنی دوسری کتاب میں لکھا:
عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة__
کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا".
[المدخل للحاکم: 1/154]

اور جس روایت کو امام حاکم نے صحیح کہا تھا۔ وہ روایت بھی "عبد الرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت کی تھی۔

اب ایک طرف تو اس کی “عن ابیه” سے مروی روایات کو خود امام حاکم موضوع قرار دیں۔ اور پھر خود ہی اس روایت کو صحیح السند کہہ دیں۔ یہ صریح تساہل نہیں تو اور کیا ہے؟

(3) امام حاکم کے اسی تساہل کی نشاندہی امام ذھبی نے ان الفاظ میں کی ہے:

ان في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه__
[تذکرۃ الحفاظ : 3/1042]
”بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جو صحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔”


(4) امام ابن حجر نے، امام حاکم کی تصیح پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:


ومن العجيب ما وقع للحاكم أنه أخرج لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم. وقال بعد روايته:
“هذا صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن”. مع أنه قال في كتابه الذي جمعه في الضعفاء:
“عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه”. فكان هذا من عجائب ما وقع له من التساهل والغفلة.


“اور یہ عجیب بات ہے کہ امام حاکم نے عبد الرحمٰن بن زید کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا :
کہ"یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور یہ عبد الرحمٰن کی ذکر کردہ پہلی روایت ہے۔ باوجود اس کے، کہ اپنی کتاب، جس میں حاکم نے الضعفاء کو جمع کیا ، میں کہا: کہ"یہ راوی اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ لہذا غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے".
پھر امام ابن حجر کہتے ہیں : یہ امام حاکم کے ان عجائب میں سے ہے جو اُن سے تساہل اور غفلت کی بنا پر ہوا “۔
[النکت 1/318-319]


امام ذھبی نے فرمایا:
امام صدوق لکنه يصحح في المستدركة أحاديث ساقطه__
امام حاکم صدوق امام تھے لیکن وہ اپنی کتاب "المستدرك" میں ساقط روایات کو صحیح کہہ دیتے تھے".
[میزان الاعتدال: ج3، ص207]


سیوطی فرماتے ہیں:
امام حاکم کی غفلت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے کتاب کا مسود تیار کیا اور نظر ثانی سے پہلے انکا انتقال ہو گیا ۔ یعنی اسے دوبارہ پڑھ کر اغلاط کا سد باب نہ کر سکے۔ایک اور وجہ امام حاکم کا تاہل بھی ہے ۔ یونی وہ روایات پر حکم صحت نافذ کرنے میں تساہل سے کام لیا کرتے تھے یعنی جو روایت صحیح نہ ہوتی اس کو بھی صحیح قرار دے دیتے تھے.
[تدريب الراوي: ص26]

ثابت ھوا کہ امام حاکم حدیث پر حکم لگانے کے سلسلے میں متساہل تھے۔


© بعض لوگ ایک اعتراض اور کرتے ہیں۔ کہ ابو ایوب انصاری رضی الله عنه والی، المستدرک کی اِسی روایت کو امام ذھبی نے تلخیص المستدرک میں صحیح کہا ہے۔


الجواب: عرض ھے کہ یہ امام ذھبی کا وھم ھے۔ یا پھر خطاء ہے۔ جس کی دلیلیں پیشِ خدمت ہیں۔

(1) امام ذھبی نے میزان الاعتدال میں اسی روایت کے (مجھول العین) روای "داود بن ابی صالح کے ترجمے میں کہا:
٢٦١٧ - داود بن أبي صالح، حجازى. لا يعرف، له عن أبي أيوب الأنصاري، روى عنه الوليد بن كثير فقط
داؤد بن ابی صالح حجازی، میں نہیں جانتا (کہ یہ کون ہے؟) ابو ایوب انصاری سے روایت کی ہے، اور اِس داؤد سے صرف "الولید بن کثیر" نے روایت کی ہے"
[ميزان الاعتدال: ج2، ص9]

ثابت ھوا کہ امام ذھبی نے اس روایت کے راوی کو خود ہی مجھول (یعنی نامعلوم) کہہ رکھا ھے۔

امام ذھبی کے وھم کی دلیل
★ امام ذھبی نے کہا: کہ داؤد بن ابی صالح (مجھول العین) سے صرف "الولید بن کثیر" ہی نے روایت کی ھے۔

جبکہ داؤد بن ابی صالح سے کسی بھی "الولید بن کثیر" نے کبھی کوئی روایت کی ہی نہیں ہے۔

اور حقیقی بات یہ ھے کہ، داؤد بن ابی صالح، سے صرف اور صرف "کثیر بن زید" نے یہی ایک اکلوتی روایت کر رکھی ہے۔
یعنی یہ امام ذھبی کا وھم تھا، کہ کثیر بن زید کو ولید بن کثیر سمجھ لیا". اور غالباً اسی وھم کی بناء پر روایت کی تصحیح کردی۔

پھر مزے کی بات یہ ہے۔ کہ داؤد بن ابی صالح بلکل ہی مجھول العین راوی ہے۔ اسکے بارے میں اسماء الرجال کی کتابوں میں نہ کوئی جرح ملتی ہے نہ تعدیل ملتی ہے۔
اور سوائے "کثیر بن زید" کے کسی بھی راوی نے داؤد بن ابی صالح سے کوئی روایت بیان نہیں کی،
اور خود، کثیر بن زید نے بھی صرف اور صرف یہی ایک ہی روایت بیان کی ہے اسی داؤد بن ابی صالح سے۔
اور یہ بات اوپر وضاحت کے ساتھ ثابت کی جاچکی ہے۔ کہ کثیر بن زید خود بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔

تنبیہ: خود امام ذھبی رحمه الله نے بھی "کثیر بن زید" کو اپنی کتاب الضعفاء میں درج کرکے محدثین سے تضعیف نقل کی ہے۔ اور کوئی دفاع نہیں کیا اس کا۔ ملاحظہ ہو۔
٣٤٧١ - كثير بن زيد الأسلمي المدني: ضعفه النسائي وغيره. -ق-
کثیر بن زید، امام نسائی اور دیگر ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ھے".
[ديوان الضعفاء للذهبي: ص330]

لہذا ثابت ھوا کہ اسی روایت کے دونوں راویوں پر ، دیگر ائمہ کے ساتھ ساتھ ، خود امام ذھبی کی بھی جرح موجود ھے۔ تو امام ذھبی کا اس روایت کو صحیح کہہ دینا اُنکا وھم ھے۔ یا پھر خطا ہے۔



ایک اہم بات:

√ داود بن ابی صالح (نامعلوم عدالت) کی مروان بن الحکم اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی الله عنه سے لقاء وسماع کی بھی کوئی دلیل نہیں۔

یوں یہ روایت کثیر بن زید، کثیر الخطاء کی خطاء اور داؤد بن ابی صالح (نامعلوم مجھول) کی جہالت کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے

جاری ھے
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
فائدہ :

یہی روایت قبر کے ذکر کے بغیر [معجم کبیر طبرانی :189/4، ح :3999] اور [معجم اوسط طبرانی 94/1، ح :284] میں بھی موجود ہے، لیکن اس کی سند بھی درج ذیل وجوہات کی بناء پر ’’ضعیف‘‘ ہے :

(1) سفیان بن بشر کوفی راوی نامعلوم اور غیرمعروف ہے۔

√ امام ھیثمی رحمه الله اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَلَمْ أَعْرِفهُ ۔
’’میں اسے نہیں پہچانتا۔‘‘[مجمع الزوائد : 130/9]

(2) مطلب بن عبد الله بن حنطب راوی ’’مدلس‘‘ ہے اور وہ بصیغہ ’’عن‘‘ روایت کر رہا ہے.

(3) مطلب بن عبد الله بن حنطب کے سماع کی تصریح کہیں موجود نہیں۔

(4) مطلب بن عبد الله بن حنطب کا ابو ایوب انصاری رضی الله عنه سے لقاء وسماع کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں۔


(5) اس روایت میں امام طبرانی رحمه الله کے دو استاذ ہیں، ایک هارون بن سلیمان ابوذر ہے اور وہ بهى ’’مجهول‘‘ ہے

(6) جبکہ دوسرا استاد احمد بن محمد بن حجاج بن رشدین ہے اور وہ ’’ضعیف‘‘ ہے۔

√ اس کے بارے میں امام ابن ابی حاتم رازی رحمه الله فرماتے ہیں:
سَمِعْتُ مِنهُ بِمِصْرَ، وَلَمْ أُحَدِّثْ عَنهُ، لِمَا تَکَلَّمُوا فِیهِ ۔
’’میں نے اس سے مصر میں احادیث سنی تھیں، لیکن میں وہ احادیث بیان نہیں کرتا، کیونکہ محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے۔‘‘
[الجرح والتعدیل : 75/2]

√ امام ابن عدی رحمه الله فرماتے ہیں:
صَاحِبُ حَدِیثٍ کَثِیرٍ، أُنْکِرَتْ عَلَیْه أَشْیَائُ، وَھُوَ مِمَّنْ یُّکْتَبُ حَدِیثُه مَعَ ضُعْفهٖ ۔
’’اس کے پاس بہت سی احادیث تھیں، ان میں سے کئی ایک روایات کو محدثین کرام نے منکر قرار دیا ہے، اس کے ضعیف ہونے کے باوجود اس کی حدیث (متابعات و شواہد میں) لکھی جائے گی۔‘‘ [الکامل في ضعفاء الرجال : 198/1]

√ امام هیثمی رحمه الله نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
[مجمع الزوائد : 25/2، 694/6]

فائدہ :
اس کی تیسری سند ابو الحسین یحییٰ بن حسن بن جعفر بن عبیدالله حسینی کی کتاب أخبار المدینة میں آتی ہے۔
[شفاء السقام للسبکي، ص : 343]

√ اس میں "عمر بن خالد" راوی نامعلوم ہے، باقی وہی مطلب بن عبدالله کی ’’تدلیس‘‘ اور ان کا سیدنا ابو ایوب انصاری رضی الله عنه سے عدم سماع کا مسئلہ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
الغرض ابو ایوب انصاری رضی الله عنه والی یہ روایت اپنے تمام تر متابعات وشواھد کے کے ساتھ ضعیف، منکر ہے۔

(7)
دورِ (عمرِ) فاروقی میں ایک شخص کا قبر نبی سے تبرک :


عَنْ مَّالِکِ نِ الدَّارِ، قَالَ : وَکَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَی الطَّعَامِ، قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰه، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ، فَإِنَّهمْ قَدْ هَلَکُوا، فَاُتِيَ الرَّجُلُ فِي الْمَنَامِ، فَقِیلَ لهٗ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْه السَّلَامَ، وَأَخْبِرْہُ أَنَّکُمْ مُّسْتَقِیمُونَ، وَقُلْ لّهٗ : عَلَیْکَ الْکَیْسُ، عَلَیْکَ الْکَیْسُ، فَاَتٰی عُمَرَ، فَأَخْبَرَہٗ، فَبَکٰی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ، لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْه۔

’’مالک دار،جو کہ غلے پر سیدنا عمر رضی الله عنه کی طرف سے خزانچی مقررتھے، ان سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنه کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے۔ ایک شخص نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی:الله کے رسول!آپ (الله تعالیٰ سے)اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) تباہ ہو گئی ہے۔ پھر خواب میں نبی کریم صلی الله علیه وسلم اُس شخص کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: عمر کے پاس جاکر میرا سلام کہو۔ اور انہیں بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو کہ عقلمندی سے کام لیں۔ وہ شخص سیدنا عمر رضی الله عنه کے پاس آيا اور انہیں خبر دی، تو سیدنا عمر رضی الله عنه رو پڑے اور فرمایا: اے الله!میں کوتاہی نہیں کرتا ، مگر یہ کہ عاجز آجاؤں ۔‘‘
[مصنّف ابن أبي شیبة : 356/6، تاریخ ابن أبي خیثمة : 70/2، الرقم : 1818، دلائل النبوّۃ للبیهقي :47/7، الاستیعاب لابن عبد البرّ : 1149/11، تاریخ دمشق لابن عساکر: 345/44، 489/56]

تبصره:
یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔ اس روایت کی سند کچھ یوں ہے:
حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار

چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔

√ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
’ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔‘‘
[الرساله: ص۵۳]

√ اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
’’حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔‘‘
[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]

√ فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
’’اور عنعنہ، مدلس (كا) جمہور محدثین کے مذهب ، مختار و معتمد، میں مردود و نا مستند ہے۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵]

√ فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
’’مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقة متابع موجود ہو۔‘‘
[خزائن السنن:ج۱ص۱]

امام یحییٰ بن معین رحمه الله فرماتے ہیں :
لا يكون حجة فيما دلس.
”مدلس راوی کی تدلیس والی روایت قابل حجت نہیں ہوتی۔“ [الكامل لابن عدي:34/1]-وسنده حسن

اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے [میزان الاعتدال:ج2ص224، التمهید:ج10، ص227] جو عن سے روایت کر رہا ہے۔

√ عباس رضوی بریلوی (فاضل محدث) ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔‘‘
[آپ زندہ ہیں والله:ص۲۵۱]

√ عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:
’وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵]

جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟

© سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر ہے
۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر نہیں کیونکہ یہ دوسرے طبقہ کا مدلس ہے حالانکہ یہ بات ہرگز بھی درست نہیں اور ان تمام آئمہ و محدثین کے خلاف ہے جنہوں نے الاعمش کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دے رکھا ہے۔
دوسری بات یہ کہ مدلسین کے طبقات کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے الاعمش کو طبقات المدلسین (ص۶۷) میں دوسرے درجہ کا مدلس بیان کیا ہے اور پھر خود اس کی عن والی روایت کے صحیح ہونے کا انکار بھی کیا ہے۔ [تلخیص الحبیر:ج۳ص۱۹]

معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک خود بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف ہے چاہے اسے طبقہ ثانیہ کا مدلس کہا جائے۔ علاوہ ازیں آئمہ و محدثین کی ایک کثیر تعداد ہے جواعمش کی معنعن روایت کو ضعیف قرار دیتی ہے۔

حافظ ابن عبدالبر رحمه الله (۳۶۸۔۴۶۳ ھ) فرماتے ہیں :
وقالوا: لا يقبل تدليس لأعمش.
”اہل علم کہتے ہیں کہ اعمش كی تدلیس قبول نہیں ہوتی۔“ [التمھيد لابن عبد البر:30/1]

√ امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:
’’وہ مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیں ہم ان کی صرف ان روایات سے دليل پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریں جیسے سفیان ثوری، الاعمش اور ابواسحاق وغیرہ جو کہ زبردست ثقہ امام تھے۔‘‘
[صحیح ابن حبان: ج1، ص90]


√ امام ابن عبدالبر ؒ نے فرمایا:
’’اور انہوں (محدثین) نے کہا: اعمش کی تدلیس غیر مقبول ہے کیونکہ انہیں جب (معنعن روایات میں) پوچھا جاتا تو غیر ثقة کا حوالہ دیتے تھے۔‘‘
[التمهید لابن عبد البر: ج1، ص30]


سلیمان الاعمش کی ابو صالح سے معنعن روایات


یہ بات تو دلائل سے بالکل واضح اور روشن ہے کہ سلیمان الاعمش مدلس راوی ہیں اور ان کی معنعن روایات ضعیف ہیں ۔ جب ان اصولی دلائل کے سامنے مخالفین بے بس ہو جاتے ہیں تو امام نوویؒ کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’سوائے ان اساتذہ کے جن سے انہوں (الاعمش) نے کثرت سے روایت بیان کی ہے جیسے ابراہیم (النخعی)،ابو وائل(شقیق بن سلمه)اور ابو صالح السمان تو اس قسم والوں سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہیں۔‘‘
[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]

اس حوالے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابراہیم نخعی، ابو وائل شقیق بن سلمہ اور ابوصالح سے اعمش کی معنعن روایات صحیح ہیں حالانکہ یہ بات اصولِ حدیث اور دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی واضح تصریحات کے خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

۱)امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
’’اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث،میں نہیں سمجھتاکہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔‘‘
[الجرح و التعدیل:ص۸۲]

امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔[دیکھئے السنن الکبریٰ للبیهقی ج۳ص۱۲۷]

۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:
’’اعمش نے یہ حدیث ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘
[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]

۳) اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:
’’اور یہ حدیث اعمش نے یقینا ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘
[السنن الکبریٰ للبيهقي:ج1، ص430]

۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:
’’اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیر ثقہ سے روایت لیتے تھے۔‘‘
[علل الاحادیث فی کتاب الصحیح مسلم : 137]

۵)حافظ ابن القطان الفاسیؒ نے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:
’’اور اعمش کی عن والی روایت انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ مدلس تھے۔‘‘
[بیان الوہم و الایهام:ج2، ص435]

۶)اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:
’’یہ حدیث صحیح نہیں۔‘‘
[العلل المتناهیه:ج1، ص437]

۷)مشہور محدث بزارؒ نے اعمش عن ابی صالح کی سندوالی روایت کے بارے میں فرمایا:
’’اور ہو سکتا ہے کہ اعمش نے اسے غیر ثقہ سے لے کر تدلیس کر دی ہو تو سند بظاہر صحیح بن گئی اور میرے نزدیک اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔‘‘
[فتح الباری:ج۸ص۴۶۲]

معلوم ہوا کہ دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی طرح محدث بزارؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف و بے اصل ہی ہے چاہے وہ ابی صالح وغیرہ ہی سے کیوں نہ ہو؟ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے محدث بزارؒ کی اس جرح شدہ روایت میں اعمش کے سماع کی تصریح ثابت کر دی لیکن محدث بزارؒ کے اس قاعدے کو غلط نہیں کہا۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک بھی اعمش کی ابی صالح سے معنعن روایت ضعیف ہی ہوتی ہے جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ کر دی جائے۔
ان تمام دلائل سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہے کہ جمہور آئمہ و محدثین اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کوبھی ضعیف اور غیر ثابت ہی قرار دیتے ہیں۔اس کے علاوہ اور دلائل بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں آئمہ و محدثین نے اعمش کی ابراہیم نخعی اور ابو وائل(شقیق بن سلمہ) سے معنعن روایات کو بھی تدلیس اعمش کی وجہ سے ضعیف کہہ رکھا ہے۔معلوم ہوا کہ جمہور آئمہ و محدثین امام نوویؒ کے اس قاعدے کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے کہ اعمش کی ابراہیم نخعی، ابو وائل اور ابو صالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے ۔خود امام نوویؒ بھی اپنے اس قاعدے پر کلی اعتماد نہیں کرتے۔ چنانچہ اعمش کی ابو صالح سے معنعن ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"اور اعمش مدلس تھے اور مدلس اگر عن سے روایت کرے تو اس سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی الا یہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔‘‘
[شرح صحیح مسلم:ج۱ص۷۲ح۱۰۹]

علامہ عینی حنفی (۷۶۲۔۸۵۵ھ) لکھتے ہیں :
إن الأعمش مدلس، وعنعنة المدلس لا تعتبر إلا إذا علم سماعه.
”بلاشبہ (سلیمان بن مہران) اعمش مدلس ہیں اور مدلس راوی کی عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے جب اس کے سماع کی تصریح مل جائے۔“ [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، تحت الحديث : 219]

ان تمام دلائل کے باوجود جو ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کو پیش کرے اس کی خدمت میں عرض ہے :


© كہ ایک روایت میں ہے :
حدثني ابن نمير حدثني أبي عن الأعمش عن شقيق قال: كنا مع حذيفة جلوسا، فدخل عبد الله وأبو موسى المسجد فقال: أحدهما منافق_____الخ

يعنى سیدنا حذیفهؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو منافق قرار دیا ۔ [المعرفة والتاريخ للفسوي: ج۲ص۷۷۱]

سیدنا حذیفهؓ کو منافقین کے نام نبی ﷺ نے بتا رکھے تھے یہ بات عام طالب علموں کو بھی پتا ہے۔

ہم تو کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں اعمش ہیں جو مدلس ہیں اور شقیق (ابو وائل) سے معنعن روایت کر رہے ہیں لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
مگر جو حضرات جمہور محدثین کے خلاف امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کے مطابق اعمش کی ابو وائل یا ابو صالح سے معنعن روایت کو سماع پر محمول کرتے ہوئے صحیح سمجھتے ہیں. وہ اس روایت کے مطابق صحابی رسول سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ پر کیا حکم لگاتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ
© ٦٧٤٤ - أخبرنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن يحيى، ومحمد بن محمد بن يعقوب الحافظ، قالا: ثنا محمد بن إسحاق الثقفي، ثنا قتيبة بن سعيد، ثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن مسروق، قال: قالت لي عائشة، رضي الله عنها_______«لعن الله عمرو بن العاص، فإنه زعم لي أنه قتله بمصر»

سیدنا عائشہ ؓ نے مشہور صحابی رسول عمرو بن العاصؓ کی شدید تکذیب اور ان پر شدید جرح کی۔ دیکھئے [المستدرك للحاكم : ج4، ص14]

ہم تو کہتے ہیں کہ یہ بات ناقابل تسلیم ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی ابو وائل سے معنعن ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مگر جو لوگ جمہور محدثین کے خلاف اعمش کی ابو وائل وغیرہ سے روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق سیدنا عمرو بن العاص ؓ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔۔۔؟

چنانچہ خود مخالفین کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی امام نوویؒ کے اس قاعدے کو تسلیم نہیں کرتے اور اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کو ضعیف اور نا قابل حجت ہی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ روایت اعمش کی ابو صالح سے ہی معنعن ہے جس پر جرح کرتے ہوئے عباس رضوی بریلوی لکھتے ہیں:
’’ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔‘‘
[آپ زندہ ہیں والله:ص۲۵۱]


© محدثین کا کسی روایت کو صحیح قرار دینایا اس پر اعتماد کرنا


احمد رضا خان بریلوی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’اجلہ علماء نے اس پر اعتماد (کیا)۔۔۔۔مگر تحقیق یہ ہے کہ وہ حدیث ثابت نہیں۔‘‘
[ملفوظات،حصہ دوم:ص222]

اس سے معلوم ہوا کہ کچھ علماء کا سہواً کسی حدیث کو صحیح قرار دے دینا یا اس پر اعتماد کر لینا اس حدیث کو صحیح نہیں بنا دیتا اگر تحقیق سے وہ حدیث ضعیف ثابت ہو جائے تو اسے غیر ثابت ہی کہا جائے گا۔ چنانچہ اگر امام ابن کثیرؒ یا حافظ ابن حجر عسقلانیؒ وغیرہ نے مالک الدار والی روایت کو صحیح قرار بھی دیا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اصول حدیث اور دلائل کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف اور غیر ثابت ہی ہے۔ خود حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ ہو جائے ضعیف ہی ہوتی ہے۔ اور یہی جمہور آئمہ و محدثین کا اصول و قاعدہ ہے، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا یہ مالک الدار والی روایت بھی ضعیف ہی ہے۔

√ بریلویوں کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’کسی کے ضعیف حدیث کو صحیح اور صحیح کو ضعیف حدیث کہہ دینے سے سے وہ ضعیف صحیح نہیں ہو جاتی۔‘‘
[مناظرے ہی مناظرے:ص۲۹۲]

علاوہ ازیں خود بریلوی حضرات کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی کی مشہور کتاب ’’جاء الحق‘‘ سے ایک لمبی فہرست ان روایات کی پیش کی جا سکتی ہے جن کو ایک دو نہیں بلکہ جمہور آئمہ و محدثین نے صحیح قرار دے رکھا ہے مگر بریلوی حکیم الامت ان روایات پر اصول حدیث کے زریعے جرح کرتے ہیں۔ لہٰذا اصول و دلائل کے سامنے بلا دلیل اقوال و آراء پیش کرنا سوائے دھوکہ دہی کے کچھ نہیں۔


شیخ ابن باز رحمه نے فتح الباری پر تعلیق 2؍575 میں حافظ ابن حجر رحمه الله کے اس کلام پر تعاقب کرتے ہوئے فرمایا:


هذا الأثر على فرض صحته كما قال الشارح ليس بحجة على جواز الاستسقاء بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته لأن السائل مجهول ولأن عمل الصحابة رضي الله عنهم على خلافه وهم أعلم الناس بالشرع ولم يأت أحد منهم إلى قبره يسأله السقيا ولا غيرها بل عدل عمر عنه لما وقع الجدب إلى الاستسقاء بالعباس ولم يُنكر ذلك عليه أحد من الصحابة فعُلم أن ذلك هو الحق وأن ما فعله هذا الرجل منكر ووسيلة إلى الشرك بل قد جعله بعض أهل العلم من أنواع الشرك .
وأما تسمية السائل في رواية سيف المذكور بلال بن الحارث ففي صحة ذلك نظر ، ولم يذكر الشارح سند سيف ، وعلى تقدير صحته عنه لا حجة فيه ، لأن عمل كبار الصحابة يخالفه وهم أعلم بالرسول وشريعته من غيرهم والله أعلم .ا.هـ.


کہ اس روایت کو ابن حجر کے کہنے کے مطابق اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس میں نبی کریمﷺ سے وفات کے بعد بارش کی دُعا کا تقاضا کرنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ نبی کریمﷺ کی قبر پر آکر سوال کرنے والا شخص مجہول ہے، اور صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کا عمل بھی اس کے بالکل مخالف ہے، اور وہ سب سے زیادہ شریعت کو جاننے والے تھے، اور ان میں کبھی کوئی نہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر استسقاء کیلئے آیا نہ کسی اور کی قبر پر، بلکہ قحط کے موقع پر سیدنا عمر رضي الله عنه نے تو اس کے اُلٹ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضى الله عنه سے دُعا کرائی تھی اور اس کی مخالفت کسی صحابی نے نہیں کی، پس ثابت ہوا کہ یہی حق ہے، اور اس مجہول شخص کا عمل منکر اور وسیلۂ شرک ہے، بلکہ بعض علماء تو اسے شرک کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔

جہاں تک سیف مذکور کی روایت ميں ہے (کہ جس شخص کے خواب میں نبی علیه السلام تشریف لائے تھے) وہ بلال بن حارث (صحابی) ہیں۔ تو یہ صحیح نہیں، نہ ہی ابن حجر رحمه الله نے ’سیف‘ کی سند ذکر کی ہے، اور اگر بالفرض اسے بھی صحیح تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس روایت سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی کیونکہ کبار صحابہ (سیدنا عمر، ومعاویه بن ابی سفیان رضوان الله تعالى عليهم اجمعين وغيرهما) کا عمل اس کے مخالف ہے اور وہ نبی کریمﷺ اور ان کی شریعت کو دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر جانتے تھے۔ واللہ اعلم!

4. اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابن حجر رحمه الله نے مالک الدار کے متعلّق کہا ہے کہ (له إدراك) کہ ’’انہوں نے نبی کریمﷺ کا زمانہ پایا ہے۔‘‘ تو واضح رہے کہ ابن حجر نے الاصابه فی تمییز الصحابه میں مالک الدار کو تیسری قسم میں شمار کیا ہے، اور یہ قسم مخضرمین (جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں کا زمانہ پایا، لیکن انہوں نے نبی کریمﷺ کو نہیں دیکھا، خواہ وہ آپ کے زمانے میں مسلمان ہوگئے ہوں یا بعد میں مسلمان ہوئے ہوں) کے ساتھ خاص ہے۔ اور مخضرم حضرات اصول حدیث کے مطابق بالاتفاق صحابہ میں شمار نہیں کیے جاتے۔

5. اس روایت کے متن میں نکارت ہے۔

  • 6.
    اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک بڑی علت یہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک خلافتِ عمر میں ، ام المؤمنین سیدہ عائشه رضی الله عنہا کے حجرہ مبارک میں تھی، حتیٰ کہ بعد میں یزید بن الولید (المتوفى 86-120ھ) نے اسے مسجد نبوی میں شامل کر دیا تھا، تو خلافتِ عمر میں ایک غیر محرم شخص سیدۃ عائشه کے حجرہ میں کیسے داخل ہو سکتا تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟

لہذا اس آخری اعتراض سے تو بات بالکل واضح ھوگئی کہ یہ روایات من گھڑت بے بنیاد ھے۔

√ امام البانی رحمه الله کہتے ہیں:
لا حجة فيها ، لأن مدارها على رجل لم يسمَّ فهو مجهول أيضا ، وتسميته بلالا في رواية سيف لا يساوي شيئا ، لأن سيفا هذا هو ابن عمر التميمي ، متفق على ضعفه عند المحدثين بل قال ابن حبان فيه : يروي الموضوعات عن الأثبات وقالوا : إنه كان يضع الحديث ، فمن كان هذا شأنه لا تُقبل روايته ولا كرامة لاسيما عند المخالفة .ا.هـ.
کہ ’’اس روایت سے حجت نہیں لی جا سکتی، کیونکہ اس کا دار ومدار ایک ایسے آدمی پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا اور وہ مجہول بھی ہے، اور ’سیف‘ کی روایت میں اس کا نام بلال ہونے کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ یہ سیف بن عمر تمیمی ہے جس کے باتفاق المحدثین ضعیف راوی ہے، بلکہ ابن حبان نے تو اس متعلّق کہا ہے کہ ’’یہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا، اور محدثین کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔‘‘ ایسے شخص کی تو عام روایت ہی قبول نہیں، کجا یہ ہے کہ صحیح حدیثوں کے بالمقابل اس کی روایت قبول کی جائے۔‘‘
[التوسل: ص132]

© اگر بالفرض ’مالک الدار‘ (مجهول) کو مقبول فرض کر بهي لیا جائے تب بھی مالک الدار اسے ایک (مجہول) شخص سے روایت کرتے ہیں جو نبی کریمﷺ کی قبر پر آیا، اور علم اصول حدیث کے مطابق اس طرح بھی یہ حدیث منقطع بنتی ہے، کیونکہ اس میں قبر پر آنے والا شخص مجہول ہے۔


© خود اس واقعہ کے اندر دلیل موجود ہے کہ مالک الدار نے اس واقعے کو خود نہیں دیکھا بلکہ ان کو سنایا گیا ہے ۔ کیونکہ اس واقعے کے اندر خواب کا ذکر ہےکہ اس مجہول (نامعلوم) آدمی کے پاس نبی کریم صلی الله علیه وسلم خواب میں آئے اور آکر کہا ۔۔۔۔۔۔

لہذا حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کی دیگر علتیں ایک طرف کرکے یہی ایک علت ہی کافی ہے کہ اس سارے واقعے کو بیان کرنے والا ایک مجہول شخص ہے ۔ اور حضرت عمر کے پاس جانا اور پھر حضرت عمر کا اس کو کچھ نہ کہنا ۔۔۔ یہ ساری کہانی اس رجل مجہول (نامعلوم آدمی) کی اپنی طرف سے بنائی ہوئی ہے۔ ۔۔۔ لہذا ضروری ہے کہ اس رجل مجہول کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں اور اس کو عادل ضابط حافظ، ثابت کیا جائے ۔۔۔ ورنہ اس کے اس بیان کردہ قصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
یقینا اگر یہ واقعہ درست ہوتا اور یہ حقیقتا حضرت عمر رضی الله عنه کے پاس گیاہوتا تو تاریخ کی کتابوں میں موجود ہوتا کہ اس آدمی کی حضرت عمر رضی الله عنه نے اس کی اس طریقہ سے اصلاح کی ہے ۔
کیونکہ حضرت عمر رضی الله عنه سے صحیح بخاری کے اندر موجود ہے کہ آپ حضور صلی الله عليه وسلم سے آپ کی زندگی میں بطور وسیلہ دعا کرواتے رہے اور آپ کی وفات کے بعد آپ نے آپ صلی الله علیه وسلم کی قبر پر جانے کی بجائے آپ کے چچا کو جو زندہ تھے بطور وسیلہ کے پیش کیا ۔

اب ’’ اصح کتاب بعد کتاب الله ‘‘ (يعني صحيح البخاري) کی بات کو چھوڑ کر ادھر ادھر کیوں بھاگتے ہیں ۔ عمر رضی الله عنه کا عقیدہ اور فعل اس سلسلہ میں وہی ہے جو ’’ اصح کتاب بعد کتاب الله‘‘ میں بیان ہوچکا ہے ۔ اس کو چھوڑ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات پر اعتماد کرنا یہ کوئی تعمیری کام نہیں بلکہ تخریب کاری کا واضح ثبوت ہے.

جاري ہے
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
مالک الدار کی اس ضعیف روایت کے بالکل خلاف، صحیح البخاری میں حضرت عمر رضی الله عنه کا عمل اس طرح سے بیان ہوا ہے۔


زندہ نیک شخص کی دعا کے وسیلے کا جواز

❀ سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه سے روایت ہے:
أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا. قال: فيسقون .

سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنه کا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنه (کی دعا) کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرتے تھے (اور عباس رضی الله عنه زنده اور موجود ہوتے تھے)۔ دعا یوں کرتے تھے: اے الله ! بے شک ہم تجھے اپنے نبی صلی الله علیه وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا) کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے تو تو ہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی الله علیه وسلم (کی وفات کے بعد ان) کے چچا (کی دعا) کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں)، لہٰذا اب بھی تو ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا ہو جاتی تھی۔ [صحيح البخاري:137/1،ح:1010]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله (م : ۶۶۱۔۷۲۸ھ) اس حدیث کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں :
وذلك أن التوسل به في حياته، ھو أنھم كانو يتوسلون به، أي يسألون أن يدعو الله، فيدعو لھم، ويدعون فيتوسلون بشفاعته ودعائه
وسیلہ کی یہ صورت نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی زندگی مبارکہ میں اس طرح تھی کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم آپ سے دعا کی درخواست کرتے اور پھر خود بھی دعا کرتے۔ یوں اس طریقہ سے وہ نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی سفارش اور وسیلہ حاصل کرتے تھے۔ [مختصر الفتاوي المصرية، ص:194]

◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمه الله (م : ۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
ويستفاد من قصة العباس رضي الله عنه من استحباب الاستشفاع بأھل الخير وأھل بيت النبوة
سیدنا عباس رضی الله عنه کے قصہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی والے لوگوں، اہل صلاح و تقویٰ اور اہل بیت (زنده) سے سفارش کروانا مستحب ہے۔ [فتح الباري:497/2]

بعض حضرات اس حدیث سے وسیلے کی ایک ناجائز قسم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے، کیونکہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا مشروع وسیلہ ہے۔ اگر فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہه علیه وسلم کی ذات بابرکات کو چھوڑ کر صحابہ کرام کبھی ایک امتی کی ذات کو الله تعالیٰ کے دربار میں پیش کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ یوں معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صرف زندہ نیک لوگوں کی دعا کے وسیلے کا اثبات ہوتا ہے۔


© صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی الله عنه نے اپنے زندگی میں بارش کے لیے ایک بہت ہی نیک تابعی یزید بن الاسود رحمه الله کا وسیلہ پکڑا تھا۔


ایک روایت کے الفاظ ہیں :

إن الناس قحطو ابد مشق، فخرج معاوية يستسقي بيزيد بن الأسود…
”دمشق میں لوگ قحط زدہ ہو گئے تو سیدنا معاویہ رضی الله عنه یزید بن الاسود رحمه الله کے وسیلے سے بارش طلب کرنے کے لیے نکلے۔۔۔“ [تاريخ أبي زرعةالدمشقي:602/1،تاريخ دمشق:112،111/65]-وسنده صحيح


یہاں پر قارئین کرام غور فرمائیں کہ یہ بالکل وہی الفاظ ہیں، جو صحیح بخاری کی حديث (عمر رضى الله عنه والى روایت جو ابهى اوپر بیان ہوئی ہے) میں ہیں کہ اس میں استسقي بالعباس بن عبدالمطلب کے لفظ ہیں اور اس روایت میں يستسقي بيزيد بن الأسود کے الفاظ ہیں۔

√ اب دیکھیں کہ سیدنا معاویہ رضی الله عنه نے الله تعالیٰ کو جو یزید بن الاسود رحمه الله (زنده اور موجود) کا واسطہ دیا تھا، اس سے کیا مراد تھی ؟

ایک دوسری روایت میں اس کی تفصيل موجود ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :

إن السماء قحطت، فخرج معاوية بن أبي سفيان و أهل دمشق يستسقون، فلما قعد معاوية على المنبر، قال : أين يزيد بن الأسود الجُرشي ؟ فناداه الناس، فأقبل يتخطى الناس، فأمره معاوية فصعد المنبر، فقعد عند رجليه، فقال معاوية : اللهم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا و أفضلنا، اللهم ! إنا نستشفع إليك اليوم بيزيد بن الأسود الجرشي، يا يزيد ! إرفع يديك إلى الله، فرفع يديه، ورفع الناس أيديهم، فما كان أوشك أن ثارت سحابة في الغرب، كأنها ترسٌ، وهبَّت لها ريحٌ، فسقتـنا حتى كاد الناس أن لا يبلغوا منازلهم.

”ایک دفعہ قحط پڑا۔ سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی الله عنه اور دمشق کے لوگ بارش طلب کرنے کے لیے نکلے۔ جب سیدنا معاویہ رضی الله عنه منبر پر بیٹھ گئے تو فرمایا: یزید بن الاسود جرشی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے ان کو آواز دی۔ وہ لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے۔ سیدنا معاویہ رضی الله عنه نے ان کو حکم دیا تو وہ منبر پر چڑھ گئے اور آپ کے قدموں کے پاس بیٹھ گئے۔ سیدنا معاویہ رضی الله عنه نے یوں دعا کی : اے الله ! ہم تیری طرف اپنے میں سے سب سے بہتر اور افضل شخص کی سفارش لے کر آئے ہیں، اے الله ! ہم تیرے پاس یزید بن الاسود جرشی کی سفارش لے کر آئے ہیں۔ (پھرفرمایا) یزید! الله تعالیٰ کی طرف ہاتھ اٹھائیے (اور دُعا فرمائیے) ، یزید نے ہاتھ اٹھائے، لوگوں نے بھی ہاتھ اٹھائے۔ جلد ہی افق کی مغربی جانب میں ایک ڈھال نما بادل کا ٹکڑا نمودار ہوا، ہوا چلی اور بارش شروع ہو گئی، حتی کہ محسوس ہوا کہ لوگ اپنے گھروں تک بھی نہ پہنچ پائیں گے۔“
[المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي:219/2، تاريخ دمشق:112/65]-وسنده صحيح


حافظ ابن حجر رحمه الله نے اس اثر کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ [الإصابة في تميز الصحابة:697/6]

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم زندہ نیک لوگوں سے دعا کرا کے اس کا حوالہ الله تعالیٰ کو دیتے تھے۔ یہی ان کا نیک لوگوں سے توسل لینے کا طریقہ تھا۔ جو جائز توسل هے۔


سیدنا معاویہ رضی الله عنه کے علاوہ صحابی رسول سیدنا ضحاک بن قیس رضی الله عنه نے بھی اِسی نیک زندہ تابعی کی دعا کا وسیلہ پکڑا تھا


اس روایت کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں :

إن الضحاك بن قيس خرج يستسقي، فقال ليزيد بن الأسود: قم يا بكاء!

”ضحاک بن قیس رضی الله عنه بارش طلب کرنے کے لیے (کھلے میدان میں) نکلے تو یزید بن اسود رحمہ الله سے کہا: اے (الله کے سامنے) بہت زیادہ رونے والے! کھڑے ہو جائیے (اور بارش کے لیے دعا کیجیے) ۔“

[المعرفةوالتاريخ:220/2، تاريخ أبي زرعة الدمشقي:602/1، تاريخ دمشق:220/65]-وسنده صحيح


√ شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله (م : ۶۶۱۔۷۲۸ ھ) لکھتے ہیں :

ثم سلف الأمة، وأئمتها، وعلماؤها إلى هذا التاريخ، سلكوا سبيل الصحابة في التوسل في الاستسقاء بالأحياء الصالحين الحاضرين، ولم يذكر عن أحد منهم في ذلك التوسل بالأموات، لا من الرسل، ولا من الأنبياء، ولا من الصالحين. فمن ادعى أنه علم هذه التسوية التي جهلها علماء الإسلام، وسلف الأمة، وخيار الأمم، وكفّر من أنكرها، وضلله: فالله تعالى هو الذي يجازيه على ما قاله وفعله

”پھر امت کے اسلاف و ائمہ اور آج تک کے علمائے کرام بارش طلب کرنے کے حوالے سے نیک زندہ لوگوں کا وسیلہ لینے میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کے طریقے پر چلے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے فوت شدگان کا وسیلہ پیش کیا ہو، انہوں نے نہ رسولوں کا وسیلہ پکڑا، نہ انبیاء کا اور نہ عام نیک لوگوں کا۔ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ زندہ اور فوت شدہ دونوں کا وسیلہ برابر ہے، حالانکہ علمائے اسلام، اسلاف امت اور امت کے بہترین لوگوں اس برابری کے قائل نہ تھے، پھر وہ اس بدعی وسیلے سے بیزار ہونے والوں کو کافر اور گمراہ قرار دے تو اللہ تعالیٰ ہی اس کے قول و فعل پر اس سے نمٹ لے۔“ [الرد علي البكري لابن تيمية،ص:127،126]
 
Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
آثار سے تبرک حاصل کرنا خاصہ نبوی ہے



آثار سے تبرک ہمارے نبی پاک صلی الله عليه وسلم كا خاصه ہے
کسی اور شخصیت کو ہمارے نبی پاک صلی الله عليه وسلم کی ذاتِ گرامی پر قیاس کرکے اُس کے آثار سے تبرک کا جواز پیش کرنا کسی بھی صورت درست نہیں۔ کیونکہ مخلوق میں آپ صلی الله عليه وسلم کے جیسا کوئی بھی نہیں۔
اگر آپ صلی الله عليه وسلم کی ذاتِ گرامی پر کسی ولی یا صالح شخص کو قیاس کرکے اُس کے آثار سے تبرک لینا جائز ھوتا۔ تو سلف صالحین۔ یعنی صحابہ اکرام تابعین عظام اور ائمہ دین ضرور ایسا کرتے۔ کیونکہ وہ قرآن وحدیث کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرتے تھے۔ اور قرآن وحدیث کے مفاہیم ومعانی اور مطالب کو سب سے بڑھ کر جانتے والے تھے۔

علامه شاطبي رحمه الله المتوفى 780ھ فرماتے ہیں:

إن الصحابة بعد موته لم يقع أحد منمهم من شئ من ذلك بالنسبة إلى من خلفه، إذا لم يترك النبي صلى الله عليو وسلم بعد في الامة أفضل من أبي بكر رضي الله تعالي عنه فهو كان خليفته، ولم يفعل به شئ من ذلك، ولا عمر رضي الله تعالي عنه، وهو كان أفضل الامة بعده، ثم كذلك عثمان، ثم علي، ثم سائر الصحابة الذين لا أحد أفضل منهم في الامة، ثم لم يثبت لواحد منهم من طريق صحيح أن متبركا تبرك به على أحد تلك الوجوه أو نحوها، بل أقتصرو فيهم على الإقتداء بالأفعال والأقوال والسير الذي اتبعوا فيها النبي صلي الله عليه وسلم، فهو إذا إجماع منهم على ترك تلك الأشياء.

ترجمہ: صحابہ اکرام نے آپ صلي الله عليه وسلم کے بعد کسی کے لیئے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا۔ اور آپ صلي الله عليه وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل ابوبکر صدیق رضی الله عنه تھے۔ اور آپ رضی الله عنه خلیفہ بھی تھے۔ اُن کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا۔ نہ ہی سیدنا عمر رضی الله عنه سے اس طرح کا کوئی تبرک لیا گیا۔ اور وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنه کے بعد امت میں سب سے افضل بھی تھے۔ پھر سیدنا عثمان وعلی رضوان الله تعالى أجمعين اور دوسرے صحابہ تھے۔ کسی صحابی کے بارے میں باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی صحابی یا تابعی نے اُن سے تبرک والا ایسا کوئی سلسلہ جاری کیا ھو۔ بلکہ انہوں (صحابہ اکرام وتابعین) نے تو نبی کریم صلي الله عليه وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال واقعال اور طریقہ کار میں پہلوں کی پیروی پر اکتفاء کیا۔ لہذا یہ اُن (صحابہ اکرام وتابعین) کی طرف سے تبرک بالآثار کو ترک کرنے پر اجماع ھے".
[الاعتصام للشاطبي: ج2، ص8/9]


علامه ابن رجب حنبلي المتوفی 736-795ھ فرماتے ہیں

وكذلك التبرك بالآثار، فإنما كان يفعله الصحابه رضي الله عنهم مع النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يكون يفعلونه مع بعضهم ببعض، ولا يفعله التابعون مع الصحابة مع علو قدرهم".

ترجمہ: اسی طرح آثار کے ساتھ تبرک کا معاملہ ہے۔ صحابہ اکرام نبی علیہ السلام کے ساتھ آثار کے ساتھ تبرک لیا کرتے تھے۔ لیکن آپس میں وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ نہ ہی تابعین اکرام صحابہ اکرام کے آثار کے ساتھ تبرک لیتے تھے۔ حالانکہ ان کی قدرومنزلت بہت زیادہ تھی".
[الحکم الجدیدة با لإذاعة من قول النبي صلى الله عليه وسلم بعثت بالسيف بين يدي الساعة: 55]
 
Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
علامه عبد الرحمن بن حسن رحمه الله المتوفى 1193-1285ھ فرماتے ہیں:

فالاعتقاد أن القبر ينفع أو يضر مع الله سبحانه من الكفر بالله، ومن الشرك الأكبر الذي يخرج صاحبه من الملة، فلا يجوز لأحد أن يتوسل بقبر أو يطلب من القبر شيئا، أو يتبرك به.
ولكن الكثير من الناس يجهل هذا الشيء

ترجمہ: یہ اعتقاد رکھنا کہ الله کے ساتھ ساتھ قبر (والے) بھی نفع ونقصان دیتے ہیں۔ یہ اللہ کے ساتھ کفر ھے۔ اور شرک اکبر میں سے ھے۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص ملت سے خارج ہے۔ کسی ایک کے لیئے بھی جائز نہیں۔ کہ قبر کا توسل لے۔ یا قبر (یاقبروالے) سے کوئی شے طلب کرنے کا عقیدہ رکھے۔ یا قبر سے تبرک حاصل کرے۔
لیکن لوگوں کی اکثریت جہالت میں یہ سب امور انجام دیتے ہیں۔
[فتح المجید شرح کتاب التوحید: ص5]


علامه عبد الرحمن بن حسن رحمه الله مزيد فرماتے ہیں:

إن ما ادعاه بعض المتأخرين من أنه يجوز التبرك بآثار الصالحين فممنوع من وجوه. منها أن السابقين الأولين من الصحابة ومن بعدهم لم يكونوا يفعلون ذلك مع غير النبي صلى الله عليه وسلم لا في حياته ولا بعد موته، ولو كان خيرا لسبقونا إليه، وأفضل الصحابة أبوبكر وعمر وعثمان وعلي، رضي الله عنهم، وقد شهد لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيمن شهد له بالجنة، وما فعله أحد من الصحابة والتابعين مع أحد من هولاء السادة".

ترجمہ: بعض متاخرین جو صالحین کے آثار سے تبرک لینے (کے جواز) کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تو یہ کئی وجہ سے ممنوع ہے۔ ایک تو یہ کہ سلف صالحین صحابہ وتابعین، نبی اکرم صلی الله عليه وسلم کے علاوہ کسی کے آثار سے تبرک نہیں لیتے تھے۔ نہ آپ صلی الله عليه وسلم کی زندگی اور نہ ہی آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات کے بعد، اگر یہ نیکی کا کام ھوتا تو سلف صالحین ہم سے پہلے اس کام کو کرچکے ھوتے۔ صحابہ اکرام میں سے بزرگ ترین ھستیاں ، سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی رضوان الله تعالى عليهم أجمعين، جو ان صحابہ میں شامل تھے جن کو آپ صلی الله عليه وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی۔ ان بزرگ ھستیوں کے آثار سے بھی کسی نے تبرک نہیں لیا۔".
[فتح المجید شرح کتاب التوحید: ص142]
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
علامه هند علامه نواب حسن صديق خان 1248-1307ھ لکھتے ہیں

ولا يجوز أن يقاس أحد من الامة على رسول الله صلي الله عليه وسلم، ومن ذلك الذي يبلغ شأنه؟ قد كان له صلي الله عليه وسلم في حال حياته خصائص كثيرة لا يصلح أن يشاركه فيها غيره".

ترجمہ: امت میں کسی کو رسول الله صلى الله عليه وسلم پر قیاس کرنا جائز نہیں۔ کون ہے جو آپ علیه السلام کی شان کو پہنچ سکے؟ حیات مبارکہ میں آپ صلى الله عليه وسلم کو بہت سے خصائص حاصل تھے۔ جن میں آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہوسکتا".
[الدین الخالص: 250/2]


مفتی اعظم سعودیه عرب، الشیخ عبد العزیز بن عبدالله بن باز رحمه الله المتوفی 1330-1420ھ فرماتے ہیں


وأما التبرك بشعره صلى الله عليه وسلم وعرقه ووضوئه، فلا حرج في ذلك كما تقدم لأنه عليه الصلاة والسلام أقر الصحابة عليه ولما جعل الله فيه من البركة، وهي من الله سبحانه، وهكذا ما جعل الله في ماء زمزم من البركة حيث قال صلى الله عليه وسلم عن زمزم: «إنها مباركة وإنها طعام طعم وشفاء سقم » . [رواه البيهقي في سننه ٥\ ١٤٧]
والواجب على المسلمين الاتباع والتقيد بالشرع، والحذر من البدع القولية والعملية ولهذا لم يتبرك الصحابة رضي الله عنهم بشعر الصديق رضي الله عنه، أو عرقه أو وضوئه ولا بشعر عمر أو عثمان أو علي أو عرقهم أو وضوئهم. ولا بعرق غيرهم من الصحابة وشعره ووضوئه لعلمهم بأن هذا أمر خاص بالنبي صلى الله عليه وسلم ولا يقاس عليه غيره في ذلك، وقد قال الله عز وجل: {والسابقون الأولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ورضوا عنه وأعد لهم جنات تجري تحتها الأنهار خالدين فيها أبدا ذلك الفوز العظيم} سورة التوبة الآية ١٠٠

ترجمہ: آپ صلى الله عليه وسلم کے بالوں پسینے اور وضو کے پانی سے تبرک لینے میں کوئی حرج نہیں۔ جیساکہ بیان ھوچکا ھے۔ کیونکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کے اس عمل پر رضامندی ظاہر فرمائی۔ اور اس میں برکت موجود ھے۔ جوکہ الله کی طرف سے ھے۔ اسی طرح وہ برکت جو آبِ زم زم میں الله تعالیٰ نے رکھی ہے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: یہ بابرکت پانی ہے۔ بھوک کے لیئے کھانا اور بیماری کے لیئے شفا ھے۔ مسلمانوں کے لیئے ضروری ھے کہ وہ شریعت کی پیروی وپابندی کریں۔ اور قولی وعملی بدعات سے اجتناب کریں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ اکرام رضی الله عنهم نے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے بالوں پسینے اور وضو کے پانی سے تبرک حاصل نہیں کیا۔ نہ ہی سیدنا عمر ، سیدنا عثمان، اور سیدنا علی رضوان الله تعالى أجمعين ، اور نہ دوسرے صحابہ کے ساتھ ایسا معاملہ کیا گیا۔ کیونکہ اُنہیں معلوم تھا یہ تبرک نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ خاص ھے۔ اور اس سلسلے میں کسی کو بھی آپ صلى الله عليه وسلم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔حالانکہ الله تعالى نے صحابہ اکرام رضی الله عنهم کے بارے میں فرمایا:
القرآن :
ترجمہ: "اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں الله ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور الله نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے". {سورہ التوبة آية 100}
[مجموع الفتاوي ابن باز: 121/9]
 
Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
شاہ ولی الله محدث دهلوي الحنفي المتوفیٰ 1114-1176ھ لکھتے ہیں

كان أهل الجاهلية يقصدون مواضع معظمة بزعمهم يزورونها، ويتبركون بها، وفيه من التحريف والفساد ما لا يخفى، فسد النبي صلى الله عليه وسلم الفساد لئلا يلتحق غير الشعائر بالشعائر، ولئلا يصير ذريعة لعبادة غير الله، والحق عندي أن القبر ومحل عبادة ولي من أولياء الله والطور كل ذلك سواء في النهي___

ترجمہ: زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسے مقامات کی طرف جاتے تھے جو اُن کے خیال میں قابلِ احترام ھوتے تھے۔ وہ اُن سے برکت حاصل کرتے تھے۔ اس عمل میں چونکہ واضح طور پر تحریف اور فساد موجود تھا۔ اسی لیئے نبی اکرم صلی الله عليه وسلم نے بگاڑ کے اس دروازے کو بند کردیا تاکہ جو چیزیں شعائر اسلام میں سے نہیں ہیں۔ وہ شعائر اسلام میں شامل نہ ہوجائیں۔ اور غیر الله کی عبادت کا زریعہ نہ بن جائیں۔ میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ قبر، کسی ولی کی عبادت گاہ، حتیٰ کہ کوہِ طور، سب اس حکمِ ممانعت میں برابر ھیں". ( ان سب کی طرف تقرب وتبرک کی نیت سے سفر منع ہے)
[حجة الله البالغة، من أبواب الصلاة: 192/1]


ممنوع تبرک کے شرک میں داخل ھونے کی دلیل :


سیدنا أبو واقد حارث بن عوف الليثي رضي الله عنه المتوفىٰ 68ھ بیان کرتے ہیں:

٢١٨٠ - حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سنان بن أبي سنان، عن أبي واقد الليثي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما خرج إلى حنين مر بشجرة للمشركين يقال لها: ذات أنواط يعلقون عليها أسلحتهم، فقالوا: يا رسول الله، اجعل لنا ذات أنواط كما لهم ذات أنواط، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: سبحان الله هذا كما قال قوم موسى {اجعل لنا إلها كما لهم آلهة} والذي نفسي بيده لتركبن سنة من كان قبلكم.
هذا حديث حسن صحيح
وأبو واقد الليثي اسمه الحارث بن عوف

ترجمہ:
ابوواقدلیثی ؓ کہتے ہیں: جب رسول اللهﷺ حنین کے لیے نکلے توآپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے ہوا جسے ذات انواط کہاجاتا تھا، اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیارلٹکاتے تھے؎ ، صحابہ نے عرض کیا: الله کے رسول ! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے. جیساکہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: 'سبحان الله! یہ توو ہی بات ہے جو موسیٰ علیه السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنادیجئے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کروگے؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابوواقدلیثی کانام حارث بن عوف ہے".
[السنن الترمذي: ج4، ص45، مسند امام أحمد بن حنبل: 21897، 21900، مسند حمیدی: 820، مسند أبي يعلي الموصلي:1435]-وسنده صحيح


علامه طرطوشي المتوفىٰ (451-520ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

فانظروا - رحمكم الله - أينما وجدتم سدرة أو شجرة يقصدها الناس ويعظمون من شأنها ويرجون البرء والشفاء من قبلها وينوطون بها المسامير والخرق؛ فهي ذات أنواط؛ فاقطعوها.
ترجمہ: الله آپ پر رحم کرے۔ آپ جہاں بھی ایسی کوئی بیری یا درخت دیکھیں۔ جس کی زیارت کو لوگ آتے ہوں۔ اس کی تعظیم کرتے ہوں۔ اس سے شفایابی کی امید رکھتے ہوں۔ اور اس کے ساتھ کیل یا کپڑے لٹکاتے ہوں۔ تو وہ ذاتِ انواط ھے۔ اُسے کاٹ دیں۔ [الحوادث والبدع: ص39]


علامه أبو شامه رحمه الله المتوفى (599-655ھ) لکھتے ہیں:
ومن هذا القسم أيضا ما قد عم الإبتلاء به من تزيين الشيطان للعامة تخليق الحيطان والعمد وسرح مواضع مخصومة في كل بلد يحكى لهم حاك أنه رأى في منامه بها أحدا ممن اشتهر بالصلاح والولاية فيفعلون ذلك ويحافظون عليه مع تضييعهم فرائض الله تعالى وسننه ويظنون أنهم متقربون بذلك ثم يتجاوزون هذا الى أن يعظم وقع تلك الأماكن في قلوبهم فيعظمونها ويرجون الشفاء لمرضاهم وقضاء حوائجهم بالنذر لهم وهي من بين عيون وشجر وحائط وحجر____

ترجمہ: اسی قبیل سے وہ خرافات ہیں جن میں آج کل بہت سے لوگ مبتلاء ہوچکے ہیں۔ شیطان عوام کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ دیواریں اور مینار بنائیں۔ نیز ہر علاقے میں مخصوص طور پر دیواریں کھڑی کریں۔ ایک بیان کرنے والا بیان کرتا ہے کہ اُس نے خواب میں فلاں مشہور نیک ولی کو دیکھا ھے۔ اس پر لوگ قبوں کی تعمیر شروع کردیتے ہیں۔ اور الله تعالى کے فرائض وسنن کو ضائع کرکے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ وہ اس کام کے زریعے الله تعالیٰ کا تقرب حاصل کر رہے ہیں۔ پھر وہ اس سے آگے بڑھتے ہیں۔ اور شیطان ان کے دلوں میں اُن جگہوں کی تعظیم بٹھا دیتا ہے۔ اور وہ اُن کی تعظیم شروع کردیتے ہیں۔ نیز وہ اُن جگہوں پر نظر مان کر اپنے مریضوں کی شفا اور اپنی ضرورتوں کے پورا ھونے کا یقین رکھنے لگتے ہیں۔ یہ جگہیں، چشموں درختوں، دیواروں اور پتھروں کے درمیان ھیں".
[الباعث علیٰ إنکار البدع والحوادث: ص25/26]


الشیخ الإسلام علامه ابن تيمية رحمه الله المتوفى (661-728ھ) فرماتے ہیں:

فأنكر النبي صلى الله عليه وسلم مجرد مشابهتهم للكفار في اتخاذ شجرة يعكفون عليها، معلقين عليها سلاحهم. فكيف بما هو أعظم من ذلك من مشابهتهم المشركين، أو هو الشرك بعينه؟

ترجمہ: نبی اکرم صلی الله عليه وسلم نے کافروں کے ساتھ محض اس مشابہت سے سختی سے رد فرمایا کہ (صرف) ایک درخت مقرر کیا جائے جس کے اردگرد وہ بیٹھا کریں۔ اور اس پر اپنا اسلحہ لٹکائیں۔ تو ایسی صورت میں وہ کام کیسے جائز ھوسکتا ہے جو اس سے بڑھ کر مشرکین سے مشابہت کا باعث ہو یا بعینہ شرک ہو؟
[اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحيم: 2/158]
 
Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
بدعی تبرك


آثارِ صالحین آثارِ اولیاء سے تبرک حاصل کرنا بدعت ہے، کیونکہ آثار سے تبرک نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ قبر نبوی یا قبورِ صالحین سے تبرک غیر مشروع ہے۔ اور اس پر کوئی دلیلِ شرعی نہیں۔ بلکہ بہت سی احادیثِ نبویہ صریح طور پر اس فعل کی قباحت وشناعت بیان کرتی ہیں۔
مقام ابراھیم کو بطور تبرک بوسہ دینا، کعبة الله کی دیوارں کو بطور تبرک چومنا، غلافِ کعبه کو پکڑ کر دعائیں کرنا۔ کعبہ کے پرنالے کے نیچے کھڑے ہوجانا۔ صالحین کے آثار کو چومنا۔ بطورِ تبرک صالحین کے پاؤں کو بوسہ دینا۔ اور برکت حاصل کرنے کے لیئے حجر اسود کو چومنا۔ انبیاء اکرام اور اولیاء عظام کے مقام ولادت ووفات سے تبرک حاصل کرنا۔ شب براءت، شب میلا النبی ، اور شب معراج (جو ازخود بدعت ہیں) کو عبادت کے ساتھ خاص کرکے تبرک حاصل کرنا۔ جمعرات یا کسی بھی دن کو خاص کرکے اس نظریے سے نکاح کرنا کہ برکت پیدا ھوگی۔ نعلین پاک (جوکہ فرضی ہوتی ہے) بناکر اُس سے تبرک حاصل کرنا۔ کعبة الله کی شبیہ بناکر تبرک حاصل کرنا۔ صالحین کی قبروں کی مٹی کو متبرک سمجھنا۔ صالحین کی نشست گاہوں اقامت گاہوں کو متبرک خیال کرنا۔ خاص نیت سے ان کی قبروں کی طرف سفر کرنا۔ اور وہاں نماز پڑھنا۔ صالحین کی قبروں پر مساجد بنانا۔ وہاں صدقات وخیرات تقسیم کرنا۔ ننگے پیر چل کر قبروں پر حاضری دینا۔ نذرونیاز دینا۔ اور ان کی اشیاء وآثار کے وسیلے سے الله کی بارگاہ میں دعا کرکے تبرک حاصل کرنا۔ وغیرہ۔
یہ سب امور بدعات ھیں۔ جن کا اوپر واضح بطلان ثابت کیا جاچکا ہے۔ الحمدلله.

اور آئندہ بھی مرحلہ وار میں بالترتیب اس موضوع پر اسی تھریڈ میں پوسٹ کرتی رہوں گی۔ تو آپ میں سے کوئی بھی یہاں کوئی کمنٹ نہ کرے جب تک کہ مضمون مکمل نہ ہوجائے۔ شکریہ۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
علامه ڈاکٹر شمس الدین افغانی رحمه الله المتوفى 1372-1420ھ فرماتے ہیں :

تبرك بدعي: وهو ما لم يكن فيه طلب الخير والنماء من غير الله تعالى فيما لا يقدر عليه إلا الله؛ بل كان فيه طلب الخير والنماء من الله تعالى، ولكن بواسطة شيء لم يرد الشرع به: كطلب البركة من الله تعالى بواسطة غلاف الكعبة أو طلب البركة من الله تعالى بواسطة استلام الحجرة النبوية أو طلب البركة من الله تعالى بواسطة تمر المدينة النبوية، ونحوها مما لم يرد به الكتاب والسنة، وقد ذكرت عدة أمثلة للتبركات البدعية التي يرتكبها القبورية (يعني البريلوية) عامة والديوبندية خاصة. [جھود علماء الحنفیة في إبطال عقائد القبورية: 3/1579]

ترجمہ: بدعتی تبرک وہ ہے۔ جس میں غیر الله سے ایسی خیر وبھلائی کی طلب تو نہ ہو۔ جس پر صرف الله قادر ہے۔ البتہ اس (بدعی تبرک) میں الله تعالى سے کسی ایسی چیز کے واسطے سے خیر وبھلائی طلب کی جائے۔ جس کا جواز شریعت میں موجود نہیں۔ جیسے الله تعالى سے غلافِ کعبة یا استلامِ حجرہ نبویہ یا مدینہ منورہ کی کھجور، جیسی چیزوں کے واسطے سے برکت طلب کرنا۔ جن کا کتاب وسنت سے کوئی ثبوت نہیں۔ میں نے بدعی تبرکات کی بہت سی مثالیں زکر کی ہیں۔ جن کا ارتکاب قبر پرست (بریلوی) عموماً اور دیوبندی خصوصاً کرتے ہیں۔

فقه حنفی کی معتبر ترین کتاب میں لکھا ہے:
ولا يجوز أخذ شيء من طيب الكعبة لا للتبرك ولا لغيره ومن أخذ شيئا منه لزمه رده إليها فإن أراد التبرك أتى بطيب من عنده فمسحه بها ثم أخذه، كذا في السراج الوهاج____ [الفتاوي الهندية المعروف به الفتاوي عالمگيري: 1/265]

ترجمہ: کعبہ کی کوئی خوشبو لینا جائز نہیں۔ نہ تبرک کے لیئے نہ کسی اور مقصد کے لیئے۔ جو شخص وہاں سے کوئی چیز لے اُسے لوٹانا لازم ہے۔ ہاں اگر اس کا ارادہ تبرک کا ہو تو وہ اپنی خوشبو لے آئے۔ اور کعبہ سے مس کر کے ساتھ لے جائے۔ اسی طرح السراج الوھاج میں لکھا ہے".

تبصرہ:
ایک طرف تو کعبہ کی خوشبو سے تبرک کی خاص طور سے نفی کی گئی ہے۔ پھر اُس تبرک کے علاوہ بھی کسی بھی مقصد سے خوشبو کو لینا ناجائز لکھا گیا۔
لیکن اُس کے فوراً ہی بعد، اسی تبرک کو ایک نئے زاویے سے حلال پاجامہ پہنا دیا؟؟؟؟
قارئین یہ فتویٰ پڑھ کر حیرت زدہ بلکل نہ ہوں۔ اس کمپنی سے اس قسم کے مضحکہ خیز فتاوی برآمد ھوتے ہی رہتے ہیں۔
درحقیقت یہ حصولِ تبرک کا نیا طریقہ ہے۔ اس کے بدعت ھونے کے لیئے بس اتنی بات ہی کافی ہے۔ کہ اسے صحابہ وتابعین وائمہ اکرام نہیں جانتے تھے۔


جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں:
"غلاف کعبہ زادھا الله تنویراً کے تبرک ھونے اور اس کی تقبیل تبرک کے جواز میں کوئی کلام نہیں۔ اگر بوسہ دینے میں اسی قدر اعتقاد ہو۔ اور کسی کو ایذاء بھی نہ ہو۔ تو کچھ مضائقہ نہیں۔ موجبِ ثواب وبرکت ہے". [فتاوي أشرفيه: ص65]

تبصرہ: یہ غلو پر مبنی بدعی نظریہ ہے۔ حجرہ اسود کو بھی بطور تبرک چومنا جائز نہیں۔

علامه العيني الحنفي لکھتے ہیں :
وفيه كراهية تقبيل ما لم يرد الشرع بتقبيله من الاحجار وغيرها___[عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 9/241]

ترجمہ: اس ( سیدنا عمر رضی الله عنه کے فرمان ) سے ثابت ہوتا ہے کہ جن پتھروں وغیرہ کے چومنے کا زکر شریعت میں موجود نہیں۔ انہیں چومنا مکروہ ہے".

غلافِ کعبہ پر کون سی شرعی دلیل ہے؟؟؟؟؟؟؟
 
Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
کیا عمر رضی الله عنه نے حصولِ تبرك کے لیئے قبر رسول صلی الله عليه وسلم کے پاس دفن ہونے کی خواہش کی تھی؟؟



تبرک کے لیئے رسول الله صلی الله عليه وسلم کے قرب میں دفن ہونے کی خواہش کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ سیدہ عائشه رضى الله عنہا کی خواہش تھی کہ وہ اپنے حجرہ میں، رسول الله صلی الله عليه وسلم، اور اپنے والد گرامی ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے پہلو میں دفن ہوں۔ دوسری طرف سیدنا عمر رضی الله عنه نے بھی خواہش ظاہر کی کہ وہاں مجھے دفن ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ اس پر سیدہ رضی الله عنہا نے اجازت دے دی۔ سیدنا عمر رضی الله عنه نے الله تعالیٰ کی تعریف وستائش کی۔ اور بوقت وفات فرمایا۔ کہ میری میت کو اُٹھا کر لے جانا اور سیدہ عائشه رضی الله عنہا سے دوبارہ اجازت طلب کرنا۔ اگر وہ اجازت دے دیں۔ تو مجھے نبی کریم صلی الله عليه وسلم اور ابوبکر صدیق کے ساتھ دفن کردینا۔
جب اجازت مل گئی تو سیدنا عمر رضی الله عنه نے جو فرمایا اُس کے الفاظ یہ ہیں:
مَا كَانَ شَىْءٌ أَهَمَّ إِلَىَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ، فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمُوا ثُمَّ قُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ‏.‏ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي، وَإِلاَّ فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي لاَ أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْ هَؤُلاَءِ النَّفَرِ الَّذِينَ____[صحيح البخاري: 1392]
ترجمہ: اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی ۔ لیکن جب میری روح قبض ہو جائے تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے ۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کر دینا ‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا".

سیدنا عمر رضی الله عنه نے نبی کریم صلی الله عليه وسلم اور ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے ساتھ دفن ہونے کی خواھش کا اظہار، حصولِ تبرک کے لیئے نہیں کیا تھا۔ بلکہ شرف وعزت کے لیئے کیا تھا۔ کہ انہیں نبی کریم صلی الله عليه وسلم اور ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے ساتھ دفن ھونے کا شرف حاصل ہوجائے۔ یہ بڑی عزت کی بات ہے۔ سیدہ عائشه رضى الله عنہا کا بھی یہی ارادہ تھا۔ روایت کے الفاظ بھی یہی بتاتے ہیں۔
ملاحظہ ہو:

فأذنت له حيث أكرمه الله مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومع أبي بكر____[مصنف ابن أبي شيبة: 14/576]-وسنده صحيح

ترجمعہ: اجازت مل گئی۔ یوں الله تعالى نے سیدنا عمر رضی الله عنه کو، رسول الله صلى الله عليه وسلم اور ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے ساتھ (دفن ہونے) کا شرف نصیب فرمایا".

لہذا یہ کہنا کہ نبی کریم صلی الله عليه وسلم اور ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے ساتھ دفن ھونے کی خواھش کرنا، حصولِ تبرک کے لیئے تھا۔ بے اصل ھے۔ اور یہ فہم سلف صالحین کے بھی خلاف ہے۔

تنبیہ:

اس سلسلے میں بعض لوگ ایک روایت پیش کرتے ہیں۔ اس کا علمی وتحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے

امام ابن عساکر المتوفیٰ (499-571ھ) نے کہا:
أَنْبَأَنَا أَنْبَأَنَا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الْمَهْدِيِّ . وَأَخْبَرَنَا عَنْهُ أَبُو طَاهِرٍ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ طَاهِرٍ الْحَمَوِيُّ عَنْهُ ، أنا أَبُو الْحَسَنِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْعَتِيقِيُّ ، سَنَةَ سَبْعٍ وَثَلاثِينَ وَأَرْبَعِ مَائَةٍ ، نا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ الزَّيَّاتُ ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّقْرِ ، نا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّحَّانِ ، حَدَّثَنِي أَبُو طَاهِرٍ الْمَقْدِسِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْجَلِيلِ الْمُزْنِيِّ ، عَنْ حَبَّةَ الْعُرْنِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ ابْن أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ : لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَكْرٍ الْوَفَاةُ ، أَقْعَدَنِي عِنْدَ رَأْسِهِ ، وَقَالَ لِي : يَا عَلِيُّ ، إِذَا أَنَا مِتُّ ، فَغَسِّلْنِي بِالْكَفِّ الَّذِي غَسَّلْتَ بِهِ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَحَنِّطُونِي ، وَاذْهَبُوا بِي إِلَى الْبَيْتِ الَّذِي فِيهِ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَأْذِنُوا ، فَإِنْ رَأَيْتُمُ الْبَابَ قَدْ يُفْتَحَ ، فَادْخُلُوا بِي ، وَإِلا فَرُدُّونَي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى يَحْكُمُ اللَّه بَيْنَ عِبَادِهِ ، قَالَ : فَغُسِّلَ ، وَكُفِّنَ ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ يَأْذَنُ إِلَى الْبَابَ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّه ، هَذَا أَبُو بَكْرٍ مُسْتَأْذِنٌ ، فَرَأَيْتُ الْبَابَ قَدْ تُفْتَحُ ، وَسَمِعْتُ قَائِلا يَقُولُ : ادْخَلِوا الْحَبِيبَ إِلَى حَبِيبِهِ ، فَإِنَّ الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ مُشْتَاقٌ ___. هَذَا مُنْكَرٌ ، وَرَاوِيهِ أَبُو الطَّاهِرِ مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَاءٍ الْمَقْدِسِيُّ ، وَعَبْدُ الْجَلِيلِ مَجْهُولٌ . والمحفوظ : أَن الَّذِي غسل أَبَا بَكْر امرأته أسماء بِنْت عميس . .[تاریخ دمشق لابن عساکر:30/436]-وسندہ موضوع

ترجمہ: سیدنا على رضی الله عنه کہتے ہیں۔ جب سیدنا ابو بکر صديق رضی الله عنه كى وفات کا وقت قریب آیا۔ تو انہوں نے مجھے اپنے سر کی جانب بٹھایا۔ فرمایا: علی جب میں فوت ہوجاؤں۔ تو علی مجھے اُس ہتھیلی سے غسل دینا جس سے آپ نے رسول الله صلی الله عليه وسلم کو غسل دیا تھا۔ پھر مجھے خوشبو لگا کر اس گھر کی طرف لے جانا جہاں رسول الله صلی الله عليه وسلم آرام فرمارہے ہیں۔ جاکر اجازت طلب کرنا۔ اگر آپ دیکھیں کہ دروازہ کھل رہا ہے۔ تو مجھے اندر لے جانا۔ ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جانا۔ یہاں تک کہ الله تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ سیدنا علی رضی الله عنه کہتے ہیں انہیں غسل وکفن دیا گیا۔ سب سے پہلے میں نے ہی دروازے کے پاس جاکر اجازت طلب کرتے ہوئے کہا: یا رسول الله صلی الله عليه وسلم یہ سیدنا ابوبکر صدیق ہیں۔ جو آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دروازہ کھلنا شروع ہوگیا۔ میں نے سنا کوئی کہہ رہا تھا۔ دوست کو دوست کے پاس لے چلو۔ کیونکہ محبوب اپنے حبیب کی چاہت رکھتا ہے".

تبصرہ:


یہ روایت جھوٹی ہے۔ اسے زکر کرنے کے بعد خود امام ابن عساکر نے کہا:
ھَذَا مُنْكَرٌ ، وَرَاوِيهِ أَبُو الطَّاهِرِ مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَاءٍ الْمَقْدِسِيُّ ، وَعَبْدُ الْجَلِيلِ مَجْهُولٌ . والمحفوظ : أَن الَّذِي غسل أَبَا بَكْر امرأته أسماء بِنْت عميس۔ [تاریخ دمشق لابن عساکر:30/436]
یہ جھوٹی روایت ہے۔ اس کے دونوں راوی ابو طاہر موسی بن محمد بن عطاء المقدسی اور عبد الجلیل مجھول ہیں۔ اور یہ بات محفوظ ہے کہ ابوبکر رضی الله عنه کو غسل آپ کی زوجہ اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا نے دیا تھا".


امام ابن حجر اور حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
وفي إسناده أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي ، كذاب، عن عبد الجليل ألمزني وهو مجهول___
ابو طاہر موسی بن محمد کذاب ھے اور عبد الجلیل مجھول سے بیان کر رہا ہے".
[لسان المیزان : 391/3، الخصائص الكبرى: 492/2]

ابن حجر مزید کہتے ہیں:
خبر باطل__
یہ روایت باطل ہے۔ [لسان المیزان: 391/3]

علامه خطیب البغدادی کہتے ہیں:
غریب جدًا
یہ روایت انتہائی کمزور ہے". [الخصائص الکبریٰ للسیوطي: 492/2]
 
Last edited:
Top