• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبر کے پاس سورۃ البقرۃ کی تلاوت.!

شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
"حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنه بیان کرتے هیں جب کوئی فوت هوجائے تو میت کے سرهانے سورت البقرۃ کی ابتدائی اور اسکی قبر میں پاؤں کے پاس سورۃ بقره کی آخری آیات پڑهی جائیں."
(السنن الکبری للبیهقی ج ۴ ص ۵۶. الدعات الکبیر للبیهقی ص ۲۹۷ باب ۱۲۵ ماجاء فی قراءۃ القرآن عند القبر ح ۶۳۸. وقال بیهقی "موقوف حسن.")
.
تحقیق وتخریج:
.
علامه البانی نے اس روایت کو احکام الجنائز ص ۱۹۲ پر بیان کیا اور کها کے اسکی سند میں عبدالرحمن بن العلاء مجھول الحال هے.
اور اسهی طرح غلام مصطفی ظهیر امن پوری صاحب نے فضائل القرآن للنسائی کی تحقیق وتخریج میں اسکے متعلق مجھول الحال کا حکم لگایا دیکھے.
(فضائل القرآن مترجم معجزه مصطفے للنسائی ص ۱۱۷, ۱۱۸.)
.
قلت: رواته ثقات الا عبدالرحمن بن العلاء بن لجلاج وهو حسن الحدیث.
.
عبدالرحمن بن العلاء بن اللجلاج.
ذکر بخاری فی تاریخ ج ۵ ص ۳۳۶ ت ۱۰۶۸,

۱: وذکر ابن حبان فی ثقات ۹۱۴۴
۲: نووی "اسناد حسن" الاذکار ج ۱ ص ۶۲ ح ۴۷۰.
۳: هیثمی مجمع الزوائد ج ۳ ص ۴۴
۴:حافظ ابن حجر نے تقریب میں اسکو مقبول بتایا
(تقریب ۳۹۷۵.)
شیخ ارشاد الحق اثری صاحب نے لفظ مقبول کے متعلق بیان کرتے هوئے کهتے هیں کے باخبر رهنا چاهے کے هر مقبول لازم نهیں کے وه مستور هو بلکه ان کےتراجم دیکھنے چاهے کے راوی کے متعلق ائمه نے کیا کها. جیسے کے صحیح البخاری کا راوی شجاع بن الولید البخاری هے جسکو حافظ نے مقبول بتایا.
(تقریب ۲۷۵۱.)
اور فتح الباری میں ثقه بتایا.
(فتح الباری تحت حدیث ۴۱۸۶.)
اسلئے هر مقبول کو مستور نهیں سمجھنا چاهئے اسکے بارے میں باقی آراء واقوال دیکھ لینے چاهییں.
(ضوابط الجرح والتعدیل ارشاد الحق اثری جمع وترتیب حافظ محمد یونس اثری ص ۶۲.)
نیز حافظ کے لفظ مقبول کی کپھ تفصیل دیکھے انوار البدر للکفایت الله سنابلی ص ۲۲۷ ط جدید.
اس سے قطع نظر کے جناب کفایت الله صاحب نے جو انوار البدر میں بات کی هے صحیح هے یا نهیں کیونکه حافظ نے خود اسکے متعلق تقریب کے مقدمه میں بیان کیا هے. بهرحال حافظ نے اسکو "حسن" بهی بتایا هے.
(الفتوحات الربانیه ج ۴ ص ۱۹۴.)
۵: بیهقی فی الدعات الکبیر حسن
.
نیز حدیث کی تصحیح راویوں کی توثیق هوتی هے دیکھے
(احادیث صحیحه ج ۷ ص ۱۶,)
اس اصول کو جناب کفایت الله, زبیر علی زئی اور جناب ارشاد الحق اثری صاحب بهی اپنی اپنی کتب میں درجه کرتے هیں.
نیز طیوریات سلفی کے محقق نے اس روایت کو بطور قابل احتجاج بتایا. ج ۲ ص ۴۴۹.
یه راویت طبرانی میں مرفوع بهی آئی هے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
میت دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس سورۃ البقرۃ پڑھنا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے ایک دوست نے ایک حدیث میسیج (Message) کی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ "حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:جب تم میں سے کوئی مرجائے تو اس کو بند نہ رکھو بلکہ قبر کی طرف اسے جلدی لے جاؤ اور چاہیے کہ دفن کے بعد اُس کے سرہانے پڑھا جائے سورہ بقرۃ کااول بقرہ کا آخر پاؤں کی طرف پڑھاجائے۔مشکوٰۃ حدیث نمبر 1625 جلد1"
آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اس حدیث کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟آیایہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ (محمد یعقوب مہلو تحصیل فتح جنگ ،ضلع اٹک)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ روایت مشکوٰۃ کے ہمارے نسخے ہیں بحوالہ شعب الایمان للبیہقی مذکور ہے۔(ج1ص 559 ح1717)
شعب الایمان میں اسکی سند درج ذیل ہے:
"حدثنا أبو شعيب الحراني ، ثنا يحيى بن عبد الله البابلتي ، ثنا أيوب بن نهيك ، قال : سمعت عطاء بن أبي رباح ، يقول : سمعت ابن عمر ، يقول : سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول....."

(ح 9294 نسخہ جدیدہ محققہ،8854)
یہ روایت ابوشعیب کی سند کے ساتھ المعجم الکبیر للطبرانی (11/444 ح13613) اور القراءۃ عند القبور للخلال(ح2) میں بھی مذکور ہے۔
اس سند میں دوراوی مجروح ہیں:
1۔یحییٰ بن عبداللہ بن الضحاک البابلتی کے بارے میں حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ضعیف" (تقریب التہذیب:7585)
بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا:"ضعیف"(السنن الکبریٰ 4/295)
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا:"واہِ"یعنی ضعیف ہے"(المغنی فی الضعفاء ،2/521 ت7003)
ہثیمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"وھوضعیف"(مجمع الزوائد 3/44)
ان کے علاوہ متقدمین میں سے ابوحاتم الرازی اور ابن عدی وغیرہما نے بھی اس البابلتی پر جرح کی ہے۔
2۔ایوب بن نہیک الحلبی کے بارے میں ابوحاتم الرازی نے فرمایا:"ھو ضعیف الحدیث"
ابوزرعۃ الرازی نے فرمایا:"ھو منکر الحدیث"(کتاب الجرح والتعدیل 2/259ت 930)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"وهو منكر الحديث ليس بقوى . قال أبو زرعة....."(فتح الباری 2/409تحت ح930)
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ترکوہ" یعنی وہ متروک ہے۔
(دیوان الضعفاء 106 ت535 المغنی فی الضعفاء 151ت837)
ہثیمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"وفيه أيوب بن نهيك وهو متروك ضعفه جماعة وذكره ابن حبان في الثقات وقال : يخطئ " (مجمع الزوائد 2:184)
جمہور کی جرح کے بعد ایوب بن نہیک کا کسی کتاب الثقات میں مذکورہ ہوناشاذوغلط ہے اور جمہور کا فیصلہ ہی مقدم ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ کی مسئولہ ر وایت سخت ضعیف ومردود ہے،نیز اس باب میں موقوف روایت بھی عبدالرحمان بن العلاء بن اللجلاج کےمجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔(11/اگست 2012ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاوی علمیہ

جلد3۔نمازِ جنازه سے متعلق مسائل-صفحہ137
محدث فتویٰ
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
قلت: رواته ثقات الا عبدالرحمن بن العلاج وهو حسن الحدیث.
یه بقلم محمد عثمان رشید کے هے.
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
عمر اثری بهائی جو روایت میں نے پیش کی هے اس میں آپکا بیان کرده مجروح راوی موجود نهیں.
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
میری روایت کی سند یه هے.
.
"اخبرنا ابوعبدالله الحافظ حدثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب حدثنا العباس بن محمد قال سالت یحیی ابن معین عن القراءۃ عند القبر فقال حدثنا مبشر بن اسماعیل الحلبی عن عبدالرحمن بن العلاء بن اللجلاج عن ابیه انه قال...."
(بیهقی ج ۴ ص ۵۶, ۵۷, اور تاریخ ابن معین ج ۲ ص ۴۱۵ ت ۵۲۳۸.)
.
اور اسکی سند میں آپکا بیان کرده مجروح راوی نهیں هے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
میری روایت کی سند یه هے.
.
"اخبرنا ابوعبدالله الحافظ حدثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب حدثنا العباس بن محمد قال سالت یحیی ابن معین عن القراءۃ عند القبر فقال حدثنا مبشر بن اسماعیل الحلبی عن عبدالرحمن بن العلاء بن اللجلاج عن ابیه انه قال...."
(بیهقی ج ۴ ص ۵۶, ۵۷, اور تاریخ ابن معین ج ۲ ص ۴۱۵ ت ۵۲۳۸.)
.
اور اسکی سند میں آپکا بیان کرده مجروح راوی نهیں هے.
نیز اس باب میں موقوف روایت بھی عبدالرحمان بن العلاء بن اللجلاج کےمجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
عمر اثری بهائی اسکی توثیق پیش کر دی گئ هے.
ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا
هیثمی نے موثقون بتایا.
نووی نے اسناد حسن بتایا
بیهقی نے حسن بتایا
ابن حجر نے حسن بتایا.
اگر پهر بهی اسکو مجھول الحال بتایا جائے تو پهر مجھ کو یه بتائیں کے توثیق کس بلا کا نام هے.؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جناب من!
میں کوئی محقق نہیں ہوں. بطور فائدہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا فتوی پیش کر دیا تھا.
ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا
ابن حبان رحمہ اللہ منفرد ہیں ثقہ کہنے میں. اور انکا موقف اس تعلق سے غلط ہے. کئی محدثین نے ان پر تنقید کی ہے اس تعلق سے.
هیثمی نے موثقون بتایا.
علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ الضعیفہ (9/ 153) میں اس کا جواب دیا ہے.
نووی نے اسناد حسن بتایا
بیهقی نے حسن بتایا
کیا اس سے عبد الرحمان کی توثیق ہو جاتی ہے؟؟؟

امام ذھبی رحمہ اللہ کا قول واضح ہے جو کہ میزان میں درج ہے:
ما روى عنه سوى مبشر بن إسماعيل الحلبي
اس کے باوجود ثقہ قرار دینا چہ معنی دارد؟
 
Top