• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآنِ مجید سے محفل میلاد کے سعیدی دلائل اور ان کے جوابات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآنِ مجید سے محفل میلاد کے سعیدی دلائل اور ان کے جوابات

سعیدی: قرآنِ مجید اور محفل میلاد:
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے محفل میلاد منعقد فرمائی تھی۔ ثبوت کیلئے یہ آیت ملاحظہ ہو۔
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ۔(العمران آیت:۸۱)
ترجمہ ’’اور اے محبوب یاد کیجئے جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں گا پھر تمہارے پاس (عظمت والا) رسول تشریف لائے گا ‘‘۔
علماء اسلام فرماتے ہیں یہ جلسہ میلاد عالم بالا میں منعقد ہوا جس میں تمام انبیاء مرسلین جلوہ فرما تھے۔(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۳)

محمدی : جواب اول:
اگر اس آیت سے بقول سعیدی بریلوی جلسہ میلاد عالم بالا میں منعقد ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر آیت مذکورہ کے جملہ:
لما اٰتیتکم من کتاب وحکمۃٍ۔
سے محفل ، جلسہ اور کانفرنس کتاب و سنت بھی منعقد کرنا عالم بالا میں ثابت ہوتی ہے حالانکہ آج تک کسی میلادی نے کتاب و سنت کانفرنس منعقد نہیں کی چونکہ کتاب و سنت کانفرنس منعقد کرنے سے اہل بدعات کو گزند پہنچتی تھی اور میٹھی میٹھی بدعات کے مقابلہ میں یہ کانفرنس کڑوی تھی اس لئے بدعتیوں نے کتاب و سنت کانفرنس کبھی بھی منعقد نہیں کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جواب دوم:
بالفرض اگر اس آیت سے بقول سعیدی میلاد نبوی ثابت ہوتا ہے تو پھر اس آیت سے دیگر انبیاء کرام کا میلاد بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب یہ دنیا میں آئیں گے تو پہلے ان کا بھی میلاد ہو گا پھر ان کو کتاب و حکمت ملے گی تو گویا بیچوں بیچ ان کا میلاد منانا بھی ثابت ہو گیا۔ اگر عالم بالا میں میلاد نبوی منانے سے تم میلاد مناتے ہو تو پھر عالم بالا میں میلاد انبیاء منائے جانے کی وجہ سے تمہیں بھی میلاد انبیاء کرام دنیا میں منانا چاہئے کیونکہ دونوں میلاد اللہ تعالیٰ نے منائے ہیں تو تم بھی دنیا میں دونوں میلاد مناؤ یعنی ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کا میلاد اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین کا میلاد۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جواب سوم:
بالفرض اگر’’ جا ء کم‘‘ کے جملہ سے کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو وہ بعثت نبوی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی کیلئے ولادت کا لفظ نہیں بولا بلکہ کتاب و حکمت (سنت)کے ملنے کےوقت کا تذکرہ فرمایا ہے کہ
’’ اے میرے نبیو! رسولو! جب میں تمہیں کتاب و سنت اور حکمت عطا فرما دوں (اور یہ وقت بعثت کا ہے) اسی وقت (آخری) رسول آ جائے جو تمہاری رسالتوں اور نبوتوں کی تصدیق کرے اور اپنی رسالت کا اعلان کرے (اور یہ بھی اس آخری رسول کی بعثت کا وقت ہے) تو تم نے اس رسول کی رسالت پر ایمان لانا ہے‘‘
یہ ایمان لانا بعثت کے بعد کا وقت ہے، میلاد کے وقت ایمان لانا کسی مفسر محدث اور فقیہ نے نہیں سمجھا تو پھر میلاد کی محفل کے انعقاد کی کشید صرف میلادیوں کی ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جواب چہارم:
اگر بالفرض آیت کریمہ سے مروجہ جلسہ میلاد کا ثبوت مل رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جلسہ میلاد منعقدکیوں نہیں کیا؟ جس کا معنی تو یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت سے یہ بات نہیں سمجھی ، کیوں کہ اگر سمجھی ہوتی تو لازماً عمل کرتے تو جس آیت سے خود صاحب قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے محفل میلاد منانا نہیں سمجھا چودھویں صدی والے کو کس نے الہام کیا اور اس کو کیسے سمجھ آ گیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منزل من اللہ آیات کی تفسیر کرنے کیلئے مقرر فرمایا ہے اور فرمایا:
لتبین للناس ما نزل الیھم (پ:۱۴‘ نحل:۴۴)
کہ ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن) اتارا ہے تا کہ آپ لوگوں پرمنزل آیات کی تفسیر اور توضیح بیان فرمائیں۔

تو جنہیں اللہ تعالیٰ نے آیات قرآنی کی تبیین و تفسیر بیان کرنے کی اتھارٹی عطا فرمائی ہے انہوں نے تو اس آیت سے محفل میلاد منعقد کرنے کو نہ سمجھا اور نہ آگے بتایا تو پھر تم چودھویں صدی والے کون ہو جو اپنی طرف سے تفسیر بالرائے کر کے محفل میلاد کو ثابت کرو اور کون تمہاری اس تفسیر کو سنتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جواب پنجم:
اگر اس آیت سے محفل میلاد کا ثبوت ہوتا تو سب سے پہلے خود صاحب میلاد اس کو مناتے اور اپنے صحابہ کرام کو اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس آیت پر عمل کرنے کیلئے حکم دیتے اور خلفاء راشدین اپنی اپنی خلافت کے وقتوں میں اس محفل کو روایتی انداز میں منعقد کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جواب ششم:
کون سے علماء اسلام فرماتے ہیں کہ جلسہ میلاد عالم بالا میں منعقد ہوا؟ ذرا ان علماء اسلام کا نام تو لو کس صحابی نے کس تابعی‘ کس تبع تابعی‘ کس امام ،کس محدث، کس مفسر نے ایسا لکھا ہے اور یہ فرمایا ہے؟ حالانکہ ان میں سے کسی نے اس آیت کی یہ توضیح نہیں فرمائی۔ باقی رہے تمہارے نام نہاد علماء اسلام جن کاکام ہی ہر بدعت کو جواز فراہم کرنا ہے ،تو ان کی رائے کی حیثیت ہی کیاہے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جواب ہفتم:
بقول سعیدی میلادی‘ اگر اس آیت سے محفل میلاد عالم بالا میں منعقد ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر دوسری آیت میں جلسہ توحید رب العالمین بھی عالم بالا میں منعقد ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظھورہم ذریتہم واشھدھم علی انفسہم الست بربکم قالوا بلی الخ (الاعراف آیت:۱۷۲‘ پ:۹)
اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا کہا :کیا میں تمہارا رب نہیں؟ سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے الخ (ترجمہ احمد رضا بریلوی)
اس محفل میں بشمول انبیاء و رُسل علیہم السلام سب بنی آدم شامل و شریک ہوئے اور یہ محفل بھی عالم ارواح میں اور عالم بالا میں منعقد ہوئی اور یہ محفل بھی اللہ تعالیٰ نے منعقد فرمائی اگر عالم ارواح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تذکرہ کانام جلسہ میلاد ہے اور اسی بناء پر تم آج جلسہ میلاد منعقدکرتے ہو تو عالم ارواح میں اللہ تعالی کی توحید کے تذکرہ کانام جلسہ توحید رب العالمین رکھ کر آج جلسہ توحید رب العالمین منعقد کیوں نہیں کرتے ؟؟؟
جیسے وہاں ’’واذ اخذ‘‘ ہے یہاں بھی واذ اخذ ہے ۔ مفتی نعیم الدین بریلوی اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے:
اور ان کیلئے ربوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم فرما کر اور عقل دے کر ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت طلب فرمائی ہے۔(تفسیر خزائن العرفان ۔ اعراف آیت:۱۷۱‘ حاشیہ:۲۳۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جواب ہشتم:
اگر کسی کے تذکرہ سے اس کا میلاد منانا کشید کیا جا سکتا ہے تو پھر اس آیت اعراف سے اللہ تعالیٰ کا عالم بالا میں ذریۃ آدم اور بنی آدم کا بھی میلاد کرنا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس آیت میں بھی تذکرہ ذریت آدم موجود ہے اور ذریت اولاد کو کہتے ہیں اور اولاد میلاد ایک چیز ہے مگر تم نے اے میلادیو آج تک میلادِ ذرّیت آدم نہیں منایا۔ عالم بالا میں جب دونوں محفلیں منعقد ہوئیں تو دوسری محفل کو تم نے منعقد کیوں نہیں کیا اور اس محفل کا نام آج تک کیوں نہیں لیا آخر کیوں؟؟ جبکہ اس میں بالوضاحت ان کی پیدائش کا ذکر موجود ہے۔ اور جبکہ حضرت آدم علیہ السلام نےمعراج کے موقعہ پر عالم بالا میں اپنی ذریت کا تذکرہ فرمایا جس کا بیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا:
فَلَمَّا فَتَحَ عَلَوْنَا السَّمَائَ الدُّنْیَا اِذَا رَجُلٌ قَاعِدٌ عَلٰی یَمِیْنِہٖ اَسْوِدَۃٌ وَّ عَلٰی یَسَارِہٖ اُسْوِدَۃٌ اِذَا نَظَرَ قِبَلَ یَمِیْنِہٖ ضَحِکَ وَاِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِہٖ بَکٰی فَقَالَ مَرْحَبَا بِالنَّبِیَّ الصَّالِحِ وَابْنِ الصَّالِحِ قُلْتُ لِجِبْرِئِیْلِ مَنْ ھٰذَا قَالَ ھٰذَا آدَمُ ۔ ھٰذِہِ الْاَسْوِدَۃُ عَن یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ نِسَمُ بَنِیْہِ فَاَھْلُ الْیَمِیْنِ اَھْلُ الْجَنَّۃِ وَالْاَسْوِدَۃُ الَّتِیْ مِنْ شِمَالِہٖ اَھْلُ النَّارُ فَاِذَا اَنْظَرَ عَنْ یَمِیْنِہٖ ضَحِکَ وَاِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِہٖ بَکٰی اَلْحَدِیْث ۔(متفق علیہ مشکوٰۃ ص:۵۲۹)
کہ جب دروازہ کھولا گیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے تو وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اس کے دائیں بائیں بہت ساری روحیں تھیں جب دائیں طرف دیکھتا تو ہنستا اور جب بائیں طرف دیکھتا تو روپڑتا۔ اس نے کہا صالح نبی اور صالح بیٹے کو مرحبا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہے جواب دیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ یہ دائیں بائیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ دائیں طرف والے جنتی ہیں اور بائیں طرف والے دوزخی جب یہ دائیں طرف دیکھتا ہے تو ہنستا ہے اور جب بائیں طرف دیکھتا ہے تو روتا ہے۔

اس حدیث سے تین باتیں واضح ہوئیں۔ اول یہ کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا کہ یہ آدمی کون بیٹھا ہے ؟ معلوم کرنے کیلئے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں۔ دوم یہ معلوم ہوا کہ اس وقت آدم علیہ السلام اپنی دوزخی اولاد کا میلاد (بطرز کشید سعیدی)منا رہے تھے اور اپنی بہشتی اولاد کا بھی۔ سوم اس میلاد بنی آدم کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے سنا لہٰذا دوزخیوں کا میلاد منانا بھی سنت انبیاء اور سننا بھی سنت مصطفیٰ (یہ بطرز سعیدی میلادی) ہے اگر کسی کے تذکرہ سے میلاد منانا ثابت ہوتا ہے تو یہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تذکرہ آدم علیہ السلام فرمایا اور ان کی جنتی و دوزخی اولاد کا بھی تذکرہ فرمایا تو گویا بقول سعیدی بریلوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا میلاد منایا اور خود آدم علیہ السلام سے اولاد آدم کا میلاد سنا۔ لہٰذا میلادیوں کو چاہئیے کہ روزانہ دوزخیوں کا میلاد، جنتیوں کا میلاد منایا کریں ۔اور رجب کی ۲۷تاریخ کو ضرور ان کا میلاد منایا کریں کہ اس تاریخ کو معراج ہونا مشہور ہےاور اسی تاریخ میں آدم علیہ السلام سے یہ سنا تھا تاکہ سنت آدم علیہ السلام اور سنت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل ہو جائے۔

نیز آیت
فلما اٰتاھما صالحا جعلا لہ شرکاء (اعراف:آیت ۱۹)
سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بقول نعیم الدین بریلوی، عبدمناف عبدالعزی عبد قصی اور عبدالدار کا بھی میلاد منایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے صالح اولاد کا ذکر کیا ہے اور ذکر کرنے سے اس کا میلاد ہوتا ہے اور اس صالح اولاد سے مراد یہ چاروں ہیں جیسا کہ تفسیر نعیمی مع ترجمہ احمد رضا میں ہے۔ ف۳۷۳۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں قریش کو خطاب ہے جو قصی کی اولاد ہیں ان سے فرمایا کہ تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا جب تندرست بچہ عنایت کیا تو انہوں نے دوسروں کو شریک بنا لیا اور اپنے چاروں بیٹوں کا نام عبدمناف، عبدالعزی، عبدقصی اور عبدالدار رکھا۔

ہم میلاد کیوں نہیں مناتے؟
 
Top