- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
قرآن اور شاعر
قرآن مجید میں سورۃ الشعراء میں شعراء کے بارے ارشاد ہے:
ترجمہ: اور شعراء تو ان کی پیروی کرنے والے لوگ بھٹکے ہوئے ہیں، کیا آپ نے نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اور وہ جو کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں ہیں۔ سوائے ان شعراء کے کہ جو ایمان لائے، جنہوں نے نیک عمل کیے، جنہوں نے کثرت سے اللہ کو یاد کیا، اور جنہوں نے ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیا۔
قرآن مجید کی ان آیات میں تمام شعراء کی مذمت کی گئی ہے البتہ چند کو ان سے مستثنی کر دیا گیا ہے۔ اب اہم ترین اور اصولی بات یہ ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ فنون لطیفہ موسیقی، مصوری، مجسمہ سازی، شعر وشاعری اور فن تعمیر میں اصل ممانعت ہے البتہ ان سب میں کچھ استثناءات (exceptions) موجود ہیں۔ اور اس ممانعت کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تمام فنون انسان کے مقصد زندگی یعنی بندگی رب میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اور اس پر تفصیل سے ہم اپنے مضمون "اسلام اور فنون لطیفہ" میں کلام کریں گے۔
قرآن مجید نے جن شعراء کی مذمت کی ہے، ان کی تین صفات بیان فرمائی ہیں۔ جن شعراء میں یہ تین صفات ہوں تو وہ قابل مذمت شعراء ہیں۔ وہ شعراء کہ جن کے پیروکار، ان کے شارحین اور انہیں سراہنے والے نقاد، بھٹکے ہوئے لوگ ہوں۔ اور وہ شعراء کہ جن کی شاعری بے مقصد کی ہو کہ فن برائے فن ہو، ادب برائے ادب ہو، اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جو تصورات اور تخیلات کی ہر وادی میں گھومتے پھرتے ہوں۔ تیسرا وہ شعراء جو بے عمل ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعمان بن عدی کو بصرہ میں امیر بنا کر بھیجا کہ انہوں نے کچھ اشعار ایسے کہے کہ جن میں شراب پینے پلانے کا ذکر تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انے صرف اسی بات پر معزول کر دیا۔
اور ان شعراء کو قرآن مجید نے مستثنی قرار دیا ہے کہ جن میں چار صفات ہوں۔ ان میں سے تین صفات تو شاعر کی ہیں اور دو اس کے کلام کی ہیں۔ شاعر کی تین صفات میں سے یہ ہیں کہ وہ شاعر ایمان والے ہوں، دوسرا عمل صالح کرنے والے ہوں، تیسرا اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوں۔ اور ان کے کلام کی دو صفات میں سے یہ ہیں کہ ان کے کلام میں اللہ کا ذکر کثرت سے موجود ہو اور ان کا کلام ظلم کے خلاف ہو۔ پس وہ شاعری مذموم نہیں ہے کہ جس میں توحید کا بیان ہو، رسالت کا ذکر ہوں، آخرت کا تذکرہ ہو، اور وہ شاعری کہ جس میں ظلم کا بدلہ لیا جائے، ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔
جہاں تک یہ دعوی ہے کہ شاعری انسانی جذبات میں لطافت اور نزاکت پیدا کرتی ہے کہ جس کی بنا پر ایک شاعر کو قرآن مجید کی آیات کو سمجھتے ہوئے جو احساسات حاصل ہوتے ہیں، وہ غیر شاعر کو نہیں ہوتے ہیں۔ یہ قطعی طور غلط دعوی ہے۔ ایک غیر شاعر کے احساسات اور جذبات، ایک شاعر سے بہت بہتر ہو سکتے ہیں کیونکہ شاعری میں جن جذبات اور احساسات کو مخاطب کیا جاتا ہے، وہ غیر حقیقی ہوتے ہیں کہ جھوٹے تخیلات اور تصورات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایک دوست نے کہا کہ فلاں مفسر نے دیوان غالب سے قرآن مجید کی تفسیر کی ہے کہ دیوان غالب ہر وقت ان کے سرہانے ہوتی تھی۔ تو میں نے کہا: اسی لیے تو غلط تفسیر کی ہے اور یہ صرف میں نہیں کہہ رہا اور بھی بہت سے علماء کہہ رہے ہیں کہ غلط تفسیر کی ہے۔
اس کے برعکس ہمارا دین، جو دین فطرت ہے، وہ انسانی جذبات اور احساسات کی تربیت اور نشوونما جس حقیقی اصول پر کرتا ہے، وہ صلہ رحمی، مسلم اخوت، باہمی الفت اور ہمدردی کا رشتہ ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے کونے میں موجود مسلمان بے چین ہو جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جہاں کا درد اگر کسی دل میں ہو سکتا ہے، وہ سچے مومن کا دل ہے کہ جو انسانوں اور مسلمانوں بلکہ جانوروں تک سے اپنے تعلق میں سچا ہے کہ ان کی تکلیف محسوس کرتا ہے نہ کہ جھوٹے شاعر کا کہ جس کا کلام اور نہ سہی تو کم از کم مبالغہ آمیز محبت یا نفرت کے اظہار کی وجہ سے ہی جھوٹا ہے۔
بشکریہ: محترم شیخ @ابوالحسن علوی صاحب
قرآن مجید کی ان آیات میں تمام شعراء کی مذمت کی گئی ہے البتہ چند کو ان سے مستثنی کر دیا گیا ہے۔ اب اہم ترین اور اصولی بات یہ ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ فنون لطیفہ موسیقی، مصوری، مجسمہ سازی، شعر وشاعری اور فن تعمیر میں اصل ممانعت ہے البتہ ان سب میں کچھ استثناءات (exceptions) موجود ہیں۔ اور اس ممانعت کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تمام فنون انسان کے مقصد زندگی یعنی بندگی رب میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اور اس پر تفصیل سے ہم اپنے مضمون "اسلام اور فنون لطیفہ" میں کلام کریں گے۔
قرآن مجید نے جن شعراء کی مذمت کی ہے، ان کی تین صفات بیان فرمائی ہیں۔ جن شعراء میں یہ تین صفات ہوں تو وہ قابل مذمت شعراء ہیں۔ وہ شعراء کہ جن کے پیروکار، ان کے شارحین اور انہیں سراہنے والے نقاد، بھٹکے ہوئے لوگ ہوں۔ اور وہ شعراء کہ جن کی شاعری بے مقصد کی ہو کہ فن برائے فن ہو، ادب برائے ادب ہو، اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جو تصورات اور تخیلات کی ہر وادی میں گھومتے پھرتے ہوں۔ تیسرا وہ شعراء جو بے عمل ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعمان بن عدی کو بصرہ میں امیر بنا کر بھیجا کہ انہوں نے کچھ اشعار ایسے کہے کہ جن میں شراب پینے پلانے کا ذکر تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انے صرف اسی بات پر معزول کر دیا۔
اور ان شعراء کو قرآن مجید نے مستثنی قرار دیا ہے کہ جن میں چار صفات ہوں۔ ان میں سے تین صفات تو شاعر کی ہیں اور دو اس کے کلام کی ہیں۔ شاعر کی تین صفات میں سے یہ ہیں کہ وہ شاعر ایمان والے ہوں، دوسرا عمل صالح کرنے والے ہوں، تیسرا اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوں۔ اور ان کے کلام کی دو صفات میں سے یہ ہیں کہ ان کے کلام میں اللہ کا ذکر کثرت سے موجود ہو اور ان کا کلام ظلم کے خلاف ہو۔ پس وہ شاعری مذموم نہیں ہے کہ جس میں توحید کا بیان ہو، رسالت کا ذکر ہوں، آخرت کا تذکرہ ہو، اور وہ شاعری کہ جس میں ظلم کا بدلہ لیا جائے، ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔
جہاں تک یہ دعوی ہے کہ شاعری انسانی جذبات میں لطافت اور نزاکت پیدا کرتی ہے کہ جس کی بنا پر ایک شاعر کو قرآن مجید کی آیات کو سمجھتے ہوئے جو احساسات حاصل ہوتے ہیں، وہ غیر شاعر کو نہیں ہوتے ہیں۔ یہ قطعی طور غلط دعوی ہے۔ ایک غیر شاعر کے احساسات اور جذبات، ایک شاعر سے بہت بہتر ہو سکتے ہیں کیونکہ شاعری میں جن جذبات اور احساسات کو مخاطب کیا جاتا ہے، وہ غیر حقیقی ہوتے ہیں کہ جھوٹے تخیلات اور تصورات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایک دوست نے کہا کہ فلاں مفسر نے دیوان غالب سے قرآن مجید کی تفسیر کی ہے کہ دیوان غالب ہر وقت ان کے سرہانے ہوتی تھی۔ تو میں نے کہا: اسی لیے تو غلط تفسیر کی ہے اور یہ صرف میں نہیں کہہ رہا اور بھی بہت سے علماء کہہ رہے ہیں کہ غلط تفسیر کی ہے۔
اس کے برعکس ہمارا دین، جو دین فطرت ہے، وہ انسانی جذبات اور احساسات کی تربیت اور نشوونما جس حقیقی اصول پر کرتا ہے، وہ صلہ رحمی، مسلم اخوت، باہمی الفت اور ہمدردی کا رشتہ ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے کونے میں موجود مسلمان بے چین ہو جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جہاں کا درد اگر کسی دل میں ہو سکتا ہے، وہ سچے مومن کا دل ہے کہ جو انسانوں اور مسلمانوں بلکہ جانوروں تک سے اپنے تعلق میں سچا ہے کہ ان کی تکلیف محسوس کرتا ہے نہ کہ جھوٹے شاعر کا کہ جس کا کلام اور نہ سہی تو کم از کم مبالغہ آمیز محبت یا نفرت کے اظہار کی وجہ سے ہی جھوٹا ہے۔
بشکریہ: محترم شیخ @ابوالحسن علوی صاحب