• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن اور شاعر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قرآن اور شاعر

قرآن مجید میں سورۃ الشعراء میں شعراء کے بارے ارشاد ہے:​
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ۔ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا۔
ترجمہ: اور شعراء تو ان کی پیروی کرنے والے لوگ بھٹکے ہوئے ہیں، کیا آپ نے نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اور وہ جو کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں ہیں۔ سوائے ان شعراء کے کہ جو ایمان لائے، جنہوں نے نیک عمل کیے، جنہوں نے کثرت سے اللہ کو یاد کیا، اور جنہوں نے ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیا۔
قرآن مجید کی ان آیات میں تمام شعراء کی مذمت کی گئی ہے البتہ چند کو ان سے مستثنی کر دیا گیا ہے۔ اب اہم ترین اور اصولی بات یہ ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ فنون لطیفہ موسیقی، مصوری، مجسمہ سازی، شعر وشاعری اور فن تعمیر میں اصل ممانعت ہے البتہ ان سب میں کچھ استثناءات (exceptions) موجود ہیں۔ اور اس ممانعت کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تمام فنون انسان کے مقصد زندگی یعنی بندگی رب میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اور اس پر تفصیل سے ہم اپنے مضمون "اسلام اور فنون لطیفہ" میں کلام کریں گے۔
قرآن مجید نے جن شعراء کی مذمت کی ہے، ان کی تین صفات بیان فرمائی ہیں۔ جن شعراء میں یہ تین صفات ہوں تو وہ قابل مذمت شعراء ہیں۔ وہ شعراء کہ جن کے پیروکار، ان کے شارحین اور انہیں سراہنے والے نقاد، بھٹکے ہوئے لوگ ہوں۔ اور وہ شعراء کہ جن کی شاعری بے مقصد کی ہو کہ فن برائے فن ہو، ادب برائے ادب ہو، اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جو تصورات اور تخیلات کی ہر وادی میں گھومتے پھرتے ہوں۔ تیسرا وہ شعراء جو بے عمل ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعمان بن عدی کو بصرہ میں امیر بنا کر بھیجا کہ انہوں نے کچھ اشعار ایسے کہے کہ جن میں شراب پینے پلانے کا ذکر تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انے صرف اسی بات پر معزول کر دیا۔
اور ان شعراء کو قرآن مجید نے مستثنی قرار دیا ہے کہ جن میں چار صفات ہوں۔ ان میں سے تین صفات تو شاعر کی ہیں اور دو اس کے کلام کی ہیں۔ شاعر کی تین صفات میں سے یہ ہیں کہ وہ شاعر ایمان والے ہوں، دوسرا عمل صالح کرنے والے ہوں، تیسرا اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوں۔ اور ان کے کلام کی دو صفات میں سے یہ ہیں کہ ان کے کلام میں اللہ کا ذکر کثرت سے موجود ہو اور ان کا کلام ظلم کے خلاف ہو۔ پس وہ شاعری مذموم نہیں ہے کہ جس میں توحید کا بیان ہو، رسالت کا ذکر ہوں، آخرت کا تذکرہ ہو، اور وہ شاعری کہ جس میں ظلم کا بدلہ لیا جائے، ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔
جہاں تک یہ دعوی ہے کہ شاعری انسانی جذبات میں لطافت اور نزاکت پیدا کرتی ہے کہ جس کی بنا پر ایک شاعر کو قرآن مجید کی آیات کو سمجھتے ہوئے جو احساسات حاصل ہوتے ہیں، وہ غیر شاعر کو نہیں ہوتے ہیں۔ یہ قطعی طور غلط دعوی ہے۔ ایک غیر شاعر کے احساسات اور جذبات، ایک شاعر سے بہت بہتر ہو سکتے ہیں کیونکہ شاعری میں جن جذبات اور احساسات کو مخاطب کیا جاتا ہے، وہ غیر حقیقی ہوتے ہیں کہ جھوٹے تخیلات اور تصورات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایک دوست نے کہا کہ فلاں مفسر نے دیوان غالب سے قرآن مجید کی تفسیر کی ہے کہ دیوان غالب ہر وقت ان کے سرہانے ہوتی تھی۔ تو میں نے کہا: اسی لیے تو غلط تفسیر کی ہے اور یہ صرف میں نہیں کہہ رہا اور بھی بہت سے علماء کہہ رہے ہیں کہ غلط تفسیر کی ہے۔
اس کے برعکس ہمارا دین، جو دین فطرت ہے، وہ انسانی جذبات اور احساسات کی تربیت اور نشوونما جس حقیقی اصول پر کرتا ہے، وہ صلہ رحمی، مسلم اخوت، باہمی الفت اور ہمدردی کا رشتہ ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے کونے میں موجود مسلمان بے چین ہو جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جہاں کا درد اگر کسی دل میں ہو سکتا ہے، وہ سچے مومن کا دل ہے کہ جو انسانوں اور مسلمانوں بلکہ جانوروں تک سے اپنے تعلق میں سچا ہے کہ ان کی تکلیف محسوس کرتا ہے نہ کہ جھوٹے شاعر کا کہ جس کا کلام اور نہ سہی تو کم از کم مبالغہ آمیز محبت یا نفرت کے اظہار کی وجہ سے ہی جھوٹا ہے۔
بشکریہ: محترم شیخ @ابوالحسن علوی صاحب​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
صدر اسلام میں شاعری


دو باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں، ایک یہ کہ صدر اسلام سے ہماری مراد خلفائے راشدین کا دور ہے اور دوسرا یہ کہ میرا شعر وشاعری کا ذوق نہ ہونے کی وجہ سے شعر وشاعری کا براہ راست مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن جو مطالعہ ہے، وہ بالواسطہ ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی زبان کے ادب اور لٹریچر کے نقادوں کا مطالعہ کروں اور یہی نقاد ہی کسی زبان کے ادب کے بارے میری معلومات کا بنیادی مصدر ہیں۔ عجیب بات ہے کہ شعر وشاعری سے جتنی وحشت ہے، اتنی ہی رغبت نقادوں کو پڑھنے میں ہے بلکہ غیر دینی کتابوں میں اپنے حاصل مطالعہ کی بہترین کتاب اگر کسی کو قرار دوں تو وہ "مجموعہ حسن عسکری" ہے۔
دور جاہلیت کی شاعری اور صدر اسلام کی شاعری کا اگر ہم تقابلی مطالعہ کریں تو واضح طور محسوس ہوتا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور کا شعر اس پائے کا نہیں ہے کہ جس پائے کا جاہلی شعر ہے بلکہ نقادوں کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا جاہلی شعر ان کے اسلامی شعر سے بہتر ہے کہ اس کے مضامین میں وسعت اور گہرائی بہت ہے۔ ابن سلام، ابن خلدون اور احمد الزیات رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ صدر اسلام میں شعری فن کمزور پڑ گیا تھا البتہ اس کے کمزور پڑنے کے اسباب وہ مختلف بیان کرتے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس کا ایک سبب یہ تھا کہ اسلام نے شعر جاہلی کے بنیادی مضامین کو حرام قرار دے کر اس پر شعر کہنے کے رستے بند کر دیے تھے جیسا کہ تشببیب، ہجو اور مبالغہ وغیرہ ہیں۔ اور دوسری بڑی وجہ قرآن مجید کی فصاحت اور بلاغت تھی کہ جس سے مرعوب ہو کر یا اس سے متاثر ہو کر بڑے بڑے شعراء نے شعر کہنے چھوڑ دیے۔ واضح رہے کہ اخطل، فرزدق اور جریر وغیرہ بنو امیہ کے دور کی بیماریاں ہیں۔
اسلام نے اگر شاعری کی سرپرستی کی ہوتی تو خلفائے راشدین کے دور میں شاعری اور شعراء کی حالت دور جاہلیت سے لازما بہتر ہوتی بلکہ یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ بہترین دور یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں شعر پڑھتے دیکھ کر ڈانٹتے ہیں تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی پڑھ لیتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کس کو ذوق نبوت حاصل ہو گا؟
لبید بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہ جو اصحاب معلقات میں سے ہیں، عربی زبان کے چوٹی کا شاعر، اسلام لانے کے بعد 55 سال زندہ رہے لیکن اس دوران صرف ایک شعر کہا۔ امیر کوفہ نے لبید رضی اللہ عنہ سے شعر کہنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے سورۃ البقرۃ کی تلاوت شروع کر دی اور جب ختم کر لی تو کہا کہ میرے پروردگار نے اسلام لانے پر مجھے میرے شعر کے بدلے میں یہ نعمت عطا کی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو ان کا وظیفہ بڑھا دیا۔ بھئی، میروغالب کی شاعری کی وکالت کرنے والوں سے صاف بات کہتا ہوں کہ جن پر قرآن مجید کا اثر ہوا، ان کی یا تو زبانیں بند ہو گئیں یا پھر شعر کے مضامین بدل گئے، تشببیب اور ہجو کی جگہ زہد اور ورع نے لے لی۔
صدر اسلام میں شعر کے کمزور پڑنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ذوق نبوت شعر کا نہیں بلکہ جوامع الکلم کا تھا کہ جس سے خطابت کے فن نے ترقی کی اور اسلام کی دعوت اور پھیلاؤ میں زیادہ مفید خطابت تھی نہ کہ شعر۔ اور دوسرا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مدح میں مبالغہ کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم دیا کہ جس سے امراء کی مبالغہ آمیز مدح کی بنیاد پر شاعروں کے بڑے بڑے وظیفوں کے جاری ہونے کے رستے بند ہو گئے اور ان کا کاروبار مانند پڑ گیا۔ علاوہ ازیں اور بھی اسباب ہیں لیکن ان کے بیان کا یہاں موقع نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ شاعری کہ جسے شعراء کے ہاں شاعری کہا جاتا ہے یعنی تشبیب، غزل، ہجو، مدح، وصف، فخر، مرثیہ، حماسہ وغیرہ کا اکثر ان لغویات کے قبیل سے ہے کہ جن سے اعراض کرنا مومنین صالحین اور عباد الرحمن کی صفات میں سے اہم صفت ہے۔ باقی اگر آپ شاعر ہیں یا میر وغالب جیسا شاعرانہ ذوق رکھتے ہیں تو میرا مقصود آپ کی تحقیر وتذلیل ہر گز نہیں اور میں آپ کو اپنے آپ سے دینی اور اخلاقی طور بہتر ہی سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ایک لغو کا ارتکاب کر رہے ہیں تو میری زندگی میں اس سے زیادہ لغویات ہوں گی لیکن مجھے دین کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہر چیز کے بارے خیر اور شر کے پہلو کا حکم لگانا ہے اور پھر اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنی ہے۔
بشکریہ: محترم شیخ [SIZE=6]@ابوالحسن علوی[/SIZE] صاحب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قرآن مجید شعر ہے یا نثر؟


ہمارے ایک فاضل دوست جناب ڈاکٹر شہباز احمد منہج صاحب کا کہنا ہے۔ "نفس شعر کے بارے میں قرآن کا مزاج اس سے ہی واضح ہے کہ وہ خود شاعرانہ اترا۔ قرآن کو اگر شعر سے کد ہوتی تو وہ خود ایسا " شعر" بن کر نہ آیا پوتا کہ شعرا بھی اس کے آہنگ، اثر انگیزی، لطافت اور معانی آفرینی پر مٹ مٹ جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے عام شاعری کے ردھم سے بڑھ کر ردھم و موسیقیت اور حسِ لطیف کو اپیل کرنے والے اندازِ کلام کا اہتمام کیا۔۔۔۔۔(بعض شعرا نے قرآن سے متاثر ہو کر جو شاعری چھوڑی تھی تو اسی وجہ سے کہ قرآن ان کو اپنے شعر سے بہت آگے کی شاعری نظر آیا تھا)۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ "قرآن نے فی الواقع ان آیات میں فضولیات شعری کی مذمت کی ہے، نہ کہ مطلق شعر کی۔"
سوال یہ ہے کہ آپ کے استدلال کی بنیاد کیا ہے، خود قرآن مجید؟ اگر ہاں تو کیا قواعد لغویہ عربیہ کے مطابق آپ قرآن مجید کی آیات کا فہم بیان کر رہے ہیں یا آپ ہوا میں تیر چلا رہے ہیں؟ قرآن مجید نے جہاں شعراء کی مذمت کی ہے، یعنی "والشعراء یتبعھم" میں لام، استغراق کا ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ بعد میں استثناء موجود ہے لہذا تمام شعراء اس میں شامل ہیں۔ اسی طرح عربی زبان کا مسلمہ قاعدہ یہ ہے کہ نکرہ کے سیاق میں جب نفی ہو تو وہ اپنے عموم میں نص ہوتی ہے لہذا "وما ھو بقول شاعر" میں ہر قسم کے شاعر کی نفی ہے، اور اس معنی میں یہ آیت نص ہے اور نص کہتے ہیں "ما سیق الکلام لاجلہ" کو۔
قرآن مجید نہ تو شعر ہے اور نہ ہی نثر ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ قرآن مجید ہے۔ یہی جواب قرآن مجید کے بارے میں ائمہ دین بلکہ سچے شعراء اور ادباء تک نے دیا ہے۔ سورہ فصلت کی آیات سنانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں میں سے عتبہ بن ربیعہ نے قرآن مجید کے شعر ہونے کا مطلقا انکار کیا تھا۔ انیس الغفاری رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میں نے قرآن مجید کو شاعری کی انواع پر پرکھا اور یہ جانا کہ قرآن مجید کا شاعری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ابو بکر الباقلانی، ابو العباس القرطبی اور عیسی بن علی الرمانی رحمہم اللہ نے بھی یہی بات کی ہے۔ طہ حسین مصری تک نے کہا ہے کہ قرآن مجید نہ تو شعر کی صورت ہے اور نہ ہی نثر کی، بس اسے قرآن مجید کہو۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ "شعر وسخن نا فہمی اور بد ذوقی قرآن میں بصیرت سے مانع ہے۔" اگر ایسا ہی ہے تو حضرت حسان بن ثابت، کعب بن مالک، عبد اللہ بن رواحۃ رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرت عمر بن خطاب، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے زیادہ قرآن فہمی میں ماہر ہوتے حالانکہ پہلے تین کا تو قرآن فہمی میں کچھ حصہ منقول نہیں ہے حالانکہ ان کے شعری دیوان موجود ہیں جبکہ آخری تین وہ ہیں کہ جنہیں دربار نبوت سے قرآن فہمی کی سند جاری ہو چکی ہے۔ بس لوگوں کو شعر وشاعری کا ذوق بہت ہے لیکن اس پر غور نہیں ہے کہ شعر وشاعری نے خیر کتنا پیدا کیا ہے اور شر کتنا؟
برصغیر پاک وہند میں تو شعر وشاعری نے لوگوں کو قرآن مجید سے دور ہی کیا ہے بلکہ آپ نقادوں کو پڑھ لیں تو صاف محسوس ہوتا ہے میر وغالب کا کلام معاذ اللہ، اللہ کے کلام پر بوجوہ فوقیت رکھتا ہے۔ ان میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مثنوی معنوی، فارسی زبان کا قرآن مجید ہے اور ان میں سے وہ بھی ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ اقبال سمندر تھا لیکن قرآن مجید کے دریا میں غرق ہو گیا۔ انہیں میر وغالب کے کلام میں جو خوبیاں نظر آتی ہیں، اس کا دس فی صد بھی یہ قرآن مجید سے نہیں بیان کر سکتے لیکن دعوی یہی ہے کہ شاعری سے قرآن فہمی کا ذوق بڑھتا ہے۔
بھائی، تم نے اپنے شاعرانہ ذوق سے جو قرآن فہمی کا ذوق پیدا کر کے دکھا دیا ہے، وہ سامنے رکھ دو تو تمہارا مخاطب لا جواب ہو جائے گا۔ لیکن تمہارے بوجھے میں سوائے قرآن فہمی کے دعوے کے اور ہے ہی کیا؟ جن میں قرآن فہمی کا حقیقی ذوق پیدا ہوا تھا، انہوں نے شاعری کی معراج پر پہنچ کر اس کو ترک کر دیا تھا جیسا کہ ہم لبید بن ربعیہ، جو اصحاب معلقات میں سے ہیں، کا واقعہ بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے اسلام لانے کے بعد پچپن سالہ زندگی میں صرف ایک شعر کہا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میرے رب نے مجھے شعر سے بہترین نعمت قرآن مجید کی صورت میں دے دی ہے۔
بشکریہ: محترم شیخ @ابوالحسن علوی صاحب​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
شاعری کیا ہے؟


شاعری کے بارے اپنے کچھ خیالات کا اظہار کیا ہے، اب سوچ رہا ہوں کہ ایک آخری پوسٹ کے ساتھ بات کو سمیٹ لیا جائے اور بحث کو ختم کر دیا جائے۔ اس ساری بحث میں کہ قرآن فہمی اور عالم دین بننے کے لیے شاعرانہ ذوق ہونا ضروری ہے، میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شاعری اور شاعرانہ ذوق ہے کیا؟ شاعری کی کسی فنی تعریف میں پڑے بغیر آسان الفاظ میں اس کا جوہر بیان کر دیتا ہوں کہ ہر زبان میں شاعری اس زبان کے معروف شعراء کے کلام کو کہتے ہیں۔ اردو شاعری کا کوئی تصور میر وغالب اور عربی شاعری کا کوئی تصور اصحاب معلقات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اگر تو شاعری سے آپ کی مراد یہ ہے کہ بات کہنے کا ایک خاص اسلوب کہ آپ اپنی بات کو ایک خاص ردیف، قافیے، ردھم اور غناء میں، متعین بحروں میں، بیان کر دیں تو اس شاعری کی اباحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ بات کرنے کا ایک انداز اور اسٹائل ہے جیسا کہ نثر بات کرنے کا ایک انداز اور اسٹائل ہے لیکن شاعری اپنے عرفی معنوں میں اس کو نہیں کہتے بلکہ شاعری معروف شعراء کے کلام کو کہتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید نے شعر سے زیادہ شعراء کی نفی کی ہے۔ اور یہی وہ شاعری ہے کہ جس کے بارے ہمارا کہنا ہے کہ اس میں اصل ممانعت ہے یعنی ہر زبان کے معروف شاعروں کی شاعری۔
صحابہ اور ائمہ دین کی شاعری کے بارے ہم بیان کر چکے کہ وہ زہد وورع کی شاعری ہے، توحید ورسالت کی شاعری ہے، جسے معروف نقاد تو شاعری میں شمار ہی نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک یہ شاعری جائز ہے۔ اور تو اور ہمارا ہر علم دین، شاعری میں مدون ہے۔ علم قراءات کو امام شاطبی نے "شاطبیہ" میں اور علم نحو کو امام ابن مالک نے "الفیہ" میں مدون کر دیا ہے لیکن کیا نقاد اس کو شاعری کہتے ہیں؟ بھئی، اگر قرآن فہمی میں آپ اس شاعری کی بات کر رہے ہیں کہ اس کو سیکھنا ضروری ہے، تو ہمیں آپ سے اتفاق ہے کہ یہ تو علوم دینیہ ہی ہیں نہ کہ شاعری۔
ہمارے دوست شاعرانہ ذوق کے حق میں ائمہ دین سے استدلال کرتے ہیں کہ وہ شاعر تھے، ان کے دیوان موجود ہیں مثلا امام شافعی۔ اب امام شافعی کیسے اشعار کہتے تھے، اس کی مثال عرض ہے: كل العلوم سوى القرآن مشغلة۔۔۔إلا الحديث وعلم الفقه في الدين۔۔۔العلم ما كان فيه قال حدثنا۔۔۔وما سوى ذاك وسواس الشياطين۔۔۔ قرآن مجید کے علاوہ تمام علوم لغو ہیں، سوائے حدیث اور فقہ کے علم کے۔۔۔ علم تو وہی ہے کہ جس میں حدثنا موجود ہو، اور جو حدثنا کے بغیر ہے، وہ شیاطین کے وساوس ہیں۔ اب نقادوں سے رائے لے لیں کہ یہ شاعری ہے؟ کہ جس میں قرآن، حدیث اور فقہ کے علاوہ سب کو شیطانی وساوس قرار دیا گیا ہے۔
چلیں، ایک سوال سے بحث کو نکھار لیتے ہیں کہ جسے آپ شاعرانہ ذوق کہتے ہیں، وہ آپ کے نزدیک میر وغالب میں بدرجہ اتم موجود ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو ہمارا اختلاف لفظی ہے اور اگر ہاں تو میر وغالب کی شاعری، قرآن فہمی میں مطلوب ہے یا نہیں؟ چلیں یوں بھی پوچھ لیتے ہیں کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں غالب میاں، مدینہ منورہ میں ہوتے اور وہی شاعری فرماتے کہ جو فرما گئے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں مدینہ سے نکال باہر کرتے یا ان کا وظیفہ جاری فرماتے؟
چلیں، یوں بھی سوال کرتے ہیں کہ معلقات کی شاعری، عربی شاعری کا عروج ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، صحابہ نے اس شاعری کو رواج دیا یا ختم کیا؟ چلیں یوں بھی سوال کر لیتے ہیں کہ امرء القیس جب اپنے معلقہ میں اپنی محبوبہ کو کنویں پر نہاتے دیکھتا ہے، اس کے کپڑے چھپا لیتا ہے، اور اس شرط پر واپس کرتا ہے کہ اس کی محبوبہ اس کے سامنے بے لباس ہو کر آئے، اور اس سارے واقعے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ وہ عربی شاعری کی معراج بن جاتی ہے اور تمام اصحاب معلقات میں امرء القیس کا مقام سب سے بڑھ جاتا ہے، اب کیا ایسے معلقات کا مطالعہ قرآن فہمی کے لیے ضروری ہے؟
بلکہ علامہ اقبال جیسے شعراء کہ جنہوں نے اپنی شاعری کو قرآنی مضامین کے لیے مخصوص کرنا چاہا تو نقادوں نے ان کا رتبہ گرا دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ اقبال سمندر تھا لیکن قرآن کے دریا میں غرق ہو گیا۔ معاذ اللہ، اقبال سمندر اور قرآن دریا؟ اب یہ شاعرانہ ذوق قرآن فہمی کی بنیاد بنے گا جو قرآن کی توہین میں مصروف ہے؟ شاعری ایک فن ہے، بطور ایک فن کے وہ مذہب اور خیر اور شر کے تصورات کی پابند نہ تو رہی ہے اور نہ ہی رہے گی تو یہ قرآن فہمی میں لازمی امر کی حیثیت کیسے رکھ سکتی ہے؟
بشکریہ: محترم شیخ @ابوالحسن علوی صاحب
 
Top