• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن سمجھنا آسان ہے

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
لوگوں میں مشہور ہوگیا ہے کہ قرآن کا سمجھنا بہت مشکل ہے ، یہ عربی زبان میں ہے اسے صرف عربی داں ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اس کتاب کو سمجھنے کے لئے اٹھارہ علوم سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ العیاذ باللہ یہ بھی کہاجاتاہے کہ اگر عوام قرآن کا ترجمہ پڑھیں گے تو گمراہ ہوجائیں گے ۔
یہ بات دراصل پیٹ پرست، مطلب پرست اور شہرت پسند علمائے سوءکی طرف سے پھیلائی گئی ہےتاکہ ساری عوام ان نام نہاد علماءکے زندگی بھر غلام رہے اور یہ علمائے سوءان سے عزت،شہرت اور دولت بیجا حاصل کرتا رہے حالانکہ قرآن سمجھنا نہایت آسان ہے ۔ اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کے لئے نازل کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا ،اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ مومن کو سمجھ کر قرآن پڑھنا چاہئے تاکہ صحیح سے اس پر عمل کرے جس کا بدلہ اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کے تاج کی شکل میں ملے گا۔
قبرمیں جب مومن بندہ تین سوالات کا جواب دے دیگا تو منکر نکیر چوتھا سوال پوچھیں گے ۔
وما يُدريكَ ؟ فيقولُ: قرأتُ كتابَ اللَّهِ فآمنتُ بِهِ وصدَّقتُ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی تو وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پہ ایمان لایااور اس کی تصدیق کی ۔
یہ حدیث بھی ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد بتلاتی ہے کہ اسے سمجھ کرپڑھاجائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے ۔
ہمیں تو قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی بتلاتا ہے کہ علم حاصل کرو۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(سورة العلق:1)
ترجمہ: پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔
یہی وہ علم ہے جس کے بارے میں کل قیامت میں سوال بھی کیاجائے گا۔
لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يُسألَ عن أربعٍ : عن عُمرِهِ فيمَ أفناهُ ؟ وعن علمِهِ ماذا عمِلَ بهِ ؟ وعن مالِهِ مِن أينَ اكتسبَهُ ، وفيمَ أنفقَهُ ؟ وعن جسمِهِ فيمَ أبلاهُ ؟ (صحيح الترغيب:3592)
ترجمہ : قیامت میں مومن کا قدم اس وقت تک ٹل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے ۔ عمر کے بارے میں کہ تونے کہاں گذاری،علم کے بارے میں کہ تم نے کتنا اس پہ عمل کیا، مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایااور کہاں صرف کیا،جسم کے بارے میں کہ کہاں خرچ کیا۔
ان باتوں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عمل کرنے سے پہلے علم کا حصول ضروری ہے ، بایں سبب اسلام میں علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے ۔
طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ(صحيح الجامع:3914)
ترجمہ : علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔


قرآن سمجھنا آسان ہے اس کے منطقی دلائل :
اب چلتے ہیں اس طرف کہ قرآن سمجھنا کس قدر آسان ہے ؟۔ اس بات کو پہلے منطقی اور عقلی طورپہ ثابت کرتاہوں ۔
(1) ابھی میں نے بتلایاہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد سمجھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے اور یہ قرآن ساری کائنات کے لئے نازل کی گئی ہے ۔ ہندو،مسلم،سکھ ۔عیسائی۔خواہ اس کی زبان ہندی،اردو،انگریزی،فارسی کچھ بھی ہو۔اور وہ کسی بھی علاقے کا رہنے والاہو۔بھلا اللہ تعالی ایسی کتاب کیوں نازل فرمائے گا جو دنیاوالوں کی سمجھ سے باہر ہواور لوگ جس کے سمجھنے سے قاصرہوں؟۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کے نزول کا مقصد فوت ہوجائے گا اور آخرت میں علم وعمل کے متعلق سوال کرنا بندوں پہ ظلم ٹھہرے گاجبکہ ہمیں معلوم ہے کہ نہ تو قرآن کانزول بلامقصدہے اور نہ ہی اللہ بندہ پر ذرہ برابر ظلم کرنے والاہے ۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(سورة آل عمران : 191)
ترجمہ : اے ہمارے تونے (یہ کائنات) بلامقصد نہیں بنائی ۔
اسی طرح اللہ کافرمان ہے :
وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (سورة ق:29)
ترجمہ: اور ہم ذرہ برابر بھی بندوں پرظلم کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔
(2) دنیا میں ہزاروں غیرمسلم اسلام قبول کرتے ہیں ۔ یہ سب قرآن سے متاثرہوکراسلام قبول کرتے ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی قرآن ہی کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرتے ہیں تاکہ اسلام پہ مضبوطی کے ساتھ جم جائے ۔
بی بی سی کے سابقہ ڈاریکٹر جنرل جان بٹ کا بیٹا یحی بٹ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتاتھا اس نے اسلام قبول کرلیا۔اس کے پی ایچ ڈی کا موضوع تھا

" یورپ میں پچھلے دس سالوں میں ایسے کتنے لوگ مسلمان ہوئے جو یورپین نسل کے تھے اور کیوں ہوئے ؟ "
چنانچہ انہوں نےدوتین سال تک اس بات کی تحقیق کی اور پھر اس نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتلایاگیاتھاکہ پچھلے دس سالوں میں تیرہ ہزاریورپین نسل کے لوگوں نے اسلام قبول کیا جن میں سے اسی (80 ) فیصد لوگ قرآن سے متاثرہوکراسلام کو گلے لگایاتھا۔ ان نئے مسلموں میں ایک امریکی خاتون تھی جس کا نام ایم کے ہرمینسن تھا ۔ اس نے اپنے اسلام لانے کی وجہ بتلائی کہ میں اسپین میں تعلیم حاصل کرتی تھی ، ایک دن ہاسٹل میں ریڈیوکی سوئی گھماتے گھماتے ایک ایسی آواز پہ اٹک گئی جہاں سے ایسی آواز آرہی تھی جسے سن کا میں مبہوت ہوگئی ۔ لگاتار کئی دنوں تک اس آواز کوسنتی رہی ۔ مجھے لگایہ میرے دل کی آوازہے ۔ پھر کسی سے اس آواز کے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی آواز(تلاوت) ہے ۔
پس میں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ حاصل کیا اور مکمل پڑھ لیا ۔ پھر سوچا کیوں نہ اس کتاب کو اس کی اصل زبان عربی کے ذریعہ پڑھی جائے؟ چنانچہ مصر کی قاہرہ یونیورسٹی سے عربی میں دوسالہ ڈپلومہ کورس کیا۔ اس کےبعد اب اصل عربی قرآن کو سمجھ کرپڑھی تو قرآن نے مجھے مسلمان کردیا۔ سبحان اللہ
آج مسلمانوں میں شرک و بدعت کی گرم بارازی اور اختلاف وانتشارکے بادسموم کی بڑی وجہ عوام کا قرآنی تعلیمات سے دوری اور اسے سمجھ کر نہ پڑھناہے۔اگر لوگ اسے سمجھ کرپڑھنے لگ جائیں تو امت ایک پلیٹ فارم اور کتاب وسنت کے ایک ہی شاہ راہ پہ جمع ہوجائیں ۔ اے کاش ایسا ہوتا۔
(3) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جیسے دنیاوی علوم کے الگ الگ ماہرین ہیں ۔ طب کے اندر جسم کے الگ الگ حصے کے الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں اسی طرح قرآنی علوم کے بھی الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں کوئی قرات کا ماہر،کوئی علم نحووصرف کاماہر،کوئی لغت کاماہر تو تفسیرکاماہروغیرہ ۔
ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ میرے بھائی مولویوں کی ایسی باتوں پہ نہ جائیں ۔اگر وہ آپ کے خیرخواہ ہوتے توکہتے کہ قرآن کی تعلیم مجھ سے سیکھ لومگر وہ ایسانہیں کہتے بلکہ الٹاقرآن سے ڈراتے ہیں۔ یہ زمانہ سائنس وٹکنالوجی کاہے ۔ اس وقت اندھا،بہرااور گونگاسب کی تعلیم کا بندوبست ہے تو پھرمسلمانوں کے لئے قرآن سمجھنادشوارکیوں؟ آرٹ اور کمرس کے بالمقابل سائنسی علوم زیادہ سخت ہیں ۔باوجودسائنسی علوم سخت ومشکل ہونے کے اسی فیلڈ میں لوگوں کی بہتات ہے ۔اور یہاں مسلمانوں کے لئے قرآن سمجھنامشکل لگ رہاہے ،کیوں؟
نبی ﷺ نے تو قرآن کی مکمل تعلیم سے امت کو آراستہ کردیا ۔ قرآن کی آیت " لتبین للناس ما نزل الیھم" (آپ کی شان یہ ہے کہ جس بات کی آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اس کو کھول کھول کر بیان کردیں)۔ نبی ﷺ نے ہپ فریضہ بحسن وخوبی انجام دے دیا ۔ اب کس بات کی ضرورت ہے ؟ مزید برآں اہل علم نے سارے علوم کو یکجا کردیا ۔اب کس بات کی ضرورت ہے ؟
آپ کوئی تفسیر اٹھالیں ۔ آیت پڑھیں اس کا ترجمہ پڑھیں ۔آیت کا معنی معلوم ہوجائے گا۔اور آیت کے ساتھ تفسیر پڑھ لیں تو آپ کو آیت کا مکمل معنی ومفہوم معلوم ہوجائے گا۔
آپ سے میں سوال کرتاہوں کہ اس کام کے لئےآپ کو کن علوم کی ضرورت ہے ؟ بلاشبہ کسی علم کی ضرورت نہیں ۔صرف اس زبان کی ضرورت ہے جس زبان میں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں گے ۔
(4) اگر قرآن سمجھنا مشکل ہوتا تو اولا اس پہ عمل کرنا اس سے بھی مشکل ہوتا۔ ثانتا قرآن سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف پڑھنا مقصود ہوتا تو قرآن کی تعلیم ، نبی ﷺ كا اس کی تعلیم پہ ابھارنا، قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والےکو افضل قرار دینا لغوٹھہرتا۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ سورہ اخلاص ثلث قرآن ہے ۔اس کا مطلب یہ ہواکہ تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے سے قرآن پڑھنا حاصل ہوگیا۔مکمل قرآن پڑھنے کی کیاضرورت؟ اور احادیث میں ایسے ایسے اذکار مسنونہ بتلائے گئے ہیں جن کے پڑھنے سے لاکھوں کروڑوں ثواب قرآن پڑھے بغیر مل جائے گا ۔
ان باتوں سے حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کا مقصد سمجھ کر پڑھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے ۔


قرآن سمجھنا آسان ہے اس پہ قرآن وحدیث کے دلائل :
پہلی دلیل : اللہ کا فرمان ہے :
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ
ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت نہیں کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت میں تلاوت کی شرط "
حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کر پڑھاجائے ۔

دوسری دلیل : اللہ تعالی نے خود ہی واضح کردیا کہ قرآن نصیحت کے واسطے آسان ہے ۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ(سورة القمر:17)
ترجمہ : اور ہم نے قرآن کو آسان بنایاہے ، ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے ۔
یہ آیت سورہ قمر میں چارمقامات میں آئی ہے ۔وہ آیت17، آیت 22، آیت 32اور آیت 40 ہیں۔


تیسری دلیل : قرآن سمجھنے کی کتاب ہے اور جو کتاب سمجھنے کی ہو اسے ہرکوئی سمجھ سکتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ
ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورة الانبياء :10)
ترجمہ : تحقیق کے ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟


چوتھی دلیل : اللہ تعالی نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ اسے سمجھاجاسکے ۔اللہ نے فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سورة يوسف:2)
ترجمہ : ہم نے اس قرآن کوعربی زبان میں نازل کیاتاکہ تم سمجھ سکو۔


پانچویں دلیل : قرآن کے نزول کا مقصد تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاناہے اور یہ مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے اسے سمجھ کرپڑھاجائے تاکہ اس کی طرف دعوت دی جائے۔ فرمان رب ذوالجلال ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(سورة ابراهيم:1)
ترجمہ : یہ عالیشان کتاب ہم نے آپ پر نازل کیاکہ آپ لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لائیں ۔


چھٹی دلیل : یہ ہدایت کی کتاب ہے ، یہ کتاب اسی وقت ساری کائنات کے لئے ہدایت کا سبب بن سکتی ہے جب اس کا سمجھنا آسان ہو۔ اللہ کا فرمان ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ(سورة البقرة : 185)
ترجمہ : رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجولوگوں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے ۔


ساتویں دلیل : اللہ نے قرآن پاک اس لئے نازل کیاتاکہ اس میں غورکیاجائے ۔ فرمان احکم الحاکمین ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (سورة ص :29)
ترجمہ : یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کیاہے کہ لوگ اس کی آیتوں پہ غوروفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
دوسری جگہ اللہ کاارشاد ہے :
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (سورة محمد :24)
ترجمہ : کیایہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ؟


آٹھویں دلیل : اللہ تعالی نے قرآن کوپہاڑ پہ نازل نہیں کیاکیونکہ اس میں سمجھ نہیں ہے ، انسان کے اندر سمجھ بوجھ ہے اس لئے اللہ نے ان پہ نازل کیا۔
لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ(سورة الحشر:21)
ترجمہ : اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پہ اتارتے تو تودیکھتا کہ خوف الہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ۔


نویں دلیل : نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لاَ يفقَهُ من قرأَهُ في أقلَّ من ثلاثٍ(صحيح أبي داود:1390)
ترجمہ : جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن سمجھ کر پڑھنا چاہئے اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ قرآن تین دن میں بھی سمجھ کر ختم کیاجاسکتاہے ۔


دسویں دلیل : نبی ﷺ کا عام فرمان ہے :
إنَّ هذا الدينَ يسرٌ(صحيح النسائي:5049)
ترجمہ : بے شک یہ دین آسان ہے ۔

یوں تو اس پہ بے شماردلائل ہیں مگر میں نے قرآن وحدیث سے دس ادلہ پیش کردیاتاکہ اپنی حجت ان لوگوں پہ تمام کروں جو قرآن سمجھنے کو مشکل خیال کرتے ہیں۔
آپ تصور کریں کہ جس دین کی بنیاد آسانی پر ہو اور جس دین کی پہلی وحی کا آغاز لفظ "اقرا "سے ہوبھلا وہ کتاب کیسے مشکل ہوسکتی ہے ؟ عقل میں بھی یہ بات نہیں آتی اور کتاب وسنت کے دلائل بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔


چند علماء کے اقوال :
(1) مولوی انیس احمد دیوبندی انوارالقرآن صفحہ نمبر35 پر لکھتے ہیں کہ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ اس کو سمجھ سکتے ہیں اور جو لوگ عربی نہیں جانتے ان کے لئے بہترین ترجمے موجود ہیں وہ ان کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہم قرآن کوبالکل سمجھ نہیں سکتے ، اس کے سمجھنے کے لئے بہت سے علوم وفنون کی ضرورت ہے اور بڑے جیدعالم ہونے کی ضرورت ہے ۔

(2) شاہ اسماعیل شہیدؒ تقویۃ الایمان میں لکھتے ہیں کہ عوام الناس میں یہ بہت مشہور ہے کہ اللہ ورسول ﷺ کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہے ، اس کے لئے بڑا علم چاہئے تویہ بات بہت غلط ہے اس واسطے کہ اللہ نے فرمایاہے کہ قرآن مجید میں باتیں صاف اور صریح ہیں ۔ ان کاسمجھنا مشکل نہیں اور اس کو سمجھنے کے لئے بڑا علم نہیں چاہئے ۔

(3) شاہ ولی اللہ ؒ فتح الرحمن میں لکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مثنوی مولاناجلال الدین،گلستاں شیخ سعدی، منطق الطیر شیخ فریدالدین عطار،قصص فارابی،نفحات مولاناعبدالرحمن اور اسی قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں ، اسی طرح طرح قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھ کر قرآن مجید پڑھنے کی توفیق دے ۔ آمین
 
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت نہیں کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
آیت کے ترجمہ میں غلطی سے نہیں کا اضافہ ہوگیاہے ۔

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (سورة محمد :24)
ترجمہ : کیایہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ؟
اس آیت کے ترجمہ کا کچھ حصہ چھوٹ گیاہے۔ وہ ہے " یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں

انتظامیہ کمیٹی سے اس کی اصلاح کی درخواست ہے ۔

جزاکم اللہ خیرا
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لوگوں میں مشہور ہوگیا ہے کہ قرآن کا سمجھنا بہت مشکل ہے ، یہ عربی زبان میں ہے اسے صرف عربی داں ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اس کتاب کو سمجھنے کے لئے اٹھارہ علوم سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ العیاذ باللہ یہ بھی کہاجاتاہے کہ اگر عوام قرآن کا ترجمہ پڑھیں گے تو گمراہ ہوجائیں گے ۔
یہ بات دراصل پیٹ پرست، مطلب پرست اور شہرت پسند کم علم ملاؤں کی طرف سے پھیلائی گئی ہےتاکہ ساری عوام ان ملاؤں کے زندگی بھر غلام رہے اور یہ مولوی ان سے عزت،شہرت اور دولت بیجا حاصل کرتا رہے حالانکہ قرآن سمجھنا نہایت آسان ہے ۔ اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کے لئے نازل کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا ،اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ مومن کو سمجھ کر قرآن پڑھنا چاہئے تاکہ صحیح سے اس پر عمل کرے جس کا بدلہ اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کے تاج کی شکل میں ملے گا۔
قبرمیں جب مومن بندہ تین سوالات کا جواب دے دیگا تو منکر نکیر چوتھا سوال پوچھیں گے ۔
وما يُدريكَ ؟ فيقولُ: قرأتُ كتابَ اللَّهِ فآمنتُ بِهِ وصدَّقتُ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی تو وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پہ ایمان لایااور اس کی تصدیق کی ۔
یہ حدیث بھی ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد بتلاتی ہے کہ اسے سمجھ کرپڑھاجائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے ۔
ہمیں تو قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی بتلاتا ہے کہ علم حاصل کرو۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(سورة العلق:1)
ترجمہ: پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔
یہی وہ علم ہے جس کے بارے میں کل قیامت میں سوال بھی کیاجائے گا۔
لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يُسألَ عن أربعٍ : عن عُمرِهِ فيمَ أفناهُ ؟ وعن علمِهِ ماذا عمِلَ بهِ ؟ وعن مالِهِ مِن أينَ اكتسبَهُ ، وفيمَ أنفقَهُ ؟ وعن جسمِهِ فيمَ أبلاهُ ؟ (صحيح الترغيب:3592)
ترجمہ : قیامت میں مومن کا قدم اس وقت تک ٹل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے ۔ عمر کے بارے میں کہ تونے کہاں گذاری،علم کے بارے میں کہ تم نے کتنا اس پہ عمل کیا، مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایااور کہاں صرف کیا،جسم کے بارے میں کہ کہاں خرچ کیا۔
ان باتوں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عمل کرنے سے پہلے علم کا حصول ضروری ہے ، بایں سبب اسلام میں علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے ۔
طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ(صحيح الجامع:3914)
ترجمہ : علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔

قرآن سمجھنا آسان ہے اس کے منطقی دلائل :
اب چلتے ہیں اس طرف کہ قرآن سمجھنا کس قدر آسان ہے ؟۔ اس بات کو پہلے منطقی اور عقلی طورپہ ثابت کرتاہوں ۔
(1) ابھی میں نے بتلایاہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد سمجھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے اور یہ قرآن ساری کائنات کے لئے نازل کی گئی ہے ۔ ہندو،مسلم،سکھ ۔عیسائی۔خواہ اس کی زبان ہندی،اردو،انگریزی،فارسی کچھ بھی ہو۔اور وہ کسی بھی علاقے کا رہنے والاہو۔بھلا اللہ تعالی ایسی کتاب کیوں نازل فرمائے گا جو دنیاوالوں کی سمجھ سے باہر ہواور لوگ جس کے سمجھنے سے قاصرہوں؟۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کے نزول کا مقصد فوت ہوجائے گا اور آخرت میں علم وعمل کے متعلق سوال کرنا بندوں پہ ظلم ٹھہرے گاجبکہ ہمیں معلوم ہے کہ نہ تو قرآن کانزول بلامقصدہے اور نہ ہی اللہ بندہ پر ذرہ برابر ظلم کرنے والاہے ۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(سورة آل عمران : 191)
ترجمہ : اے ہمارے تونے (یہ کائنات) بلامقصد نہیں بنائی ۔
اسی طرح اللہ کافرمان ہے :
وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (سورة ق:29)
ترجمہ: اور ہم ذرہ برابر بھی بندوں پرظلم کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔
(2) دنیا میں ہزاروں غیرمسلم اسلام قبول کرتے ہیں ۔ یہ سب قرآن سے متاثرہوکراسلام قبول کرتے ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی قرآن ہی کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرتے ہیں تاکہ اسلام پہ مضبوطی کے ساتھ جم جائے ۔
بی بی سی کے سابقہ ڈاریکٹر جنرل جان بٹ کا بیٹا یحی بٹ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتاتھا اس نے اسلام قبول کرلیا۔اس کے پی ایچ ڈی کا موضوع تھا

" یورپ میں پچھلے دس سالوں میں ایسے کتنے لوگ مسلمان ہوئے جو یورپین نسل کے تھے اور کیوں ہوئے ؟ "
چنانچہ انہوں نےدوتین سال تک اس بات کی تحقیق کی اور پھر اس نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتلایاگیاتھاکہ پچھلے دس سالوں میں تیرہ ہزاریورپین نسل کے لوگوں نے اسلام قبول کیا جن میں سے اسی (80 ) فیصد لوگ قرآن سے متاثرہوکراسلام کو گلے لگایاتھا۔ ان نئے مسلموں میں ایک امریکی خاتون تھی جس کا نام ایم کے ہرمینسن تھا ۔ اس نے اپنے اسلام لانے کی وجہ بتلائی کہ میں اسپین میں تعلیم حاصل کرتی تھی ، ایک دن ہاسٹل میں ریڈیوکی سوئی گھماتے گھماتے ایک ایسی آواز پہ اٹک گئی جہاں سے ایسی آواز آرہی تھی جسے سن کا میں مبہوت ہوگئی ۔ لگاتار کئی دنوں تک اس آواز کوسنتی رہی ۔ مجھے لگایہ میرے دل کی آوازہے ۔ پھر کسی سے اس آواز کے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی آواز(تلاوت) ہے ۔
پس میں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ حاصل کیا اور مکمل پڑھ لیا ۔ پھر سوچا کیوں نہ اس کتاب کو اس کی اصل زبان عربی کے ذریعہ پڑھی جائے؟ چنانچہ مصر کی قاہرہ یونیورسٹی سے عربی میں دوسالہ ڈپلومہ کورس کیا۔ اس کےبعد اب اصل عربی قرآن کو سمجھ کرپڑھی تو قرآن نے مجھے مسلمان کردیا۔ سبحان اللہ
آج مسلمانوں میں شرک و بدعت کی گرم بارازی اور اختلاف وانتشارکے بادسموم کی بڑی وجہ عوام کا قرآنی تعلیمات سے دوری اور اسے سمجھ کر نہ پڑھناہے۔اگر لوگ اسے سمجھ کرپڑھنے لگ جائیں تو امت ایک پلیٹ فارم اور کتاب وسنت کے ایک ہی شاہ راہ پہ جمع ہوجائیں ۔ اے کاش ایسا ہوتا۔
(3) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جیسے دنیاوی علوم کے الگ الگ ماہرین ہیں ۔ طب کے اندر جسم کے الگ الگ حصے کے الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں اسی طرح قرآنی علوم کے بھی الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں کوئی قرات کا ماہر،کوئی علم نحووصرف کاماہر،کوئی لغت کاماہر تو تفسیرکاماہروغیرہ ۔
ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ میرے بھائی مولویوں کی ایسی باتوں پہ نہ جائیں ۔اگر وہ آپ کے خیرخواہ ہوتے توکہتے کہ قرآن کی تعلیم مجھ سے سیکھ لومگر وہ ایسانہیں کہتے بلکہ الٹاقرآن سے ڈراتے ہیں۔ یہ زمانہ سائنس وٹکنالوجی کاہے ۔ اس وقت اندھا،بہرااور گونگاسب کی تعلیم کا بندوبست ہے تو پھرمسلمانوں کے لئے قرآن سمجھنادشوارکیوں؟ آرٹ اور کمرس کے بالمقابل سائنسی علوم زیادہ سخت ہیں ۔باوجودسائنسی علوم سخت ومشکل ہونے کے اسی فیلڈ میں لوگوں کی بہتات ہے ۔اور یہاں مسلمانوں کے لئے قرآن سمجھنامشکل لگ رہاہے ،کیوں؟
نبی ﷺ نے تو قرآن کی مکمل تعلیم سے امت کو آراستہ کردیا ۔ قرآن کی آیت " لتبین للناس ما نزل الیھم" (آپ کی شان یہ ہے کہ جس بات کی آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اس کو کھول کھول کر بیان کردیں)۔ نبی ﷺ نے ہپ فریضہ بحسن وخوبی انجام دے دیا ۔ اب کس بات کی ضرورت ہے ؟ مزید برآں اہل علم نے سارے علوم کو یکجا کردیا ۔اب کس بات کی ضرورت ہے ؟
آپ کوئی تفسیر اٹھالیں ۔ آیت پڑھیں اس کا ترجمہ پڑھیں ۔آیت کا معنی معلوم ہوجائے گا۔اور آیت کے ساتھ تفسیر پڑھ لیں تو آپ کو آیت کا مکمل معنی ومفہوم معلوم ہوجائے گا۔
آپ سے میں سوال کرتاہوں کہ اس کام کے لئےآپ کو کن علوم کی ضرورت ہے ؟ بلاشبہ کسی علم کی ضرورت نہیں ۔صرف اس زبان کی ضرورت ہے جس زبان میں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں گے ۔
(4) اگر قرآن سمجھنا مشکل ہوتا تو اولا اس پہ عمل کرنا اس سے بھی مشکل ہوتا۔ ثانتا قرآن سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف پڑھنا مقصود ہوتا تو قرآن کی تعلیم ، نبی ﷺ كا اس کی تعلیم پہ ابھارنا، قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والےکو افضل قرار دینا لغوٹھہرتا۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ سورہ اخلاص ثلث قرآن ہے ۔اس کا مطلب یہ ہواکہ تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے سے قرآن پڑھنا حاصل ہوگیا۔مکمل قرآن پڑھنے کی کیاضرورت؟ اور احادیث میں ایسے ایسے اذکار مسنونہ بتلائے گئے ہیں جن کے پڑھنے سے لاکھوں کروڑوں ثواب قرآن پڑھے بغیر مل جائے گا ۔
ان باتوں سے حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کا مقصد سمجھ کر پڑھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے ۔

قرآن سمجھنا آسان ہے اس پہ قرآن وحدیث کے دلائل :
پہلی دلیل : اللہ کا فرمان ہے :
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ
ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت نہیں کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت میں تلاوت کی شرط "
حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کر پڑھاجائے ۔

دوسری دلیل : اللہ تعالی نے خود ہی واضح کردیا کہ قرآن نصیحت کے واسطے آسان ہے ۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ(سورة القمر:17)
ترجمہ : اور ہم نے قرآن کو آسان بنایاہے ، ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے ۔
یہ آیت سورہ قمر میں چارمقامات میں آئی ہے ۔وہ آیت17، آیت 22، آیت 32اور آیت 40 ہیں۔

تیسری دلیل : قرآن سمجھنے کی کتاب ہے اور جو کتاب سمجھنے کی ہو اسے ہرکوئی سمجھ سکتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ
ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورة الانبياء :10)
ترجمہ : تحقیق کے ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟

چوتھی دلیل : اللہ تعالی نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ اسے سمجھاجاسکے ۔اللہ نے فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سورة يوسف:2)
ترجمہ : ہم نے اس قرآن کوعربی زبان میں نازل کیاتاکہ تم سمجھ سکو۔

پانچویں دلیل : قرآن کے نزول کا مقصد تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاناہے اور یہ مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے اسے سمجھ کرپڑھاجائے تاکہ اس کی طرف دعوت دی جائے۔ فرمان رب ذوالجلال ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(سورة ابراهيم:1)
ترجمہ : یہ عالیشان کتاب ہم نے آپ پر نازل کیاکہ آپ لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لائیں ۔

چھٹی دلیل : یہ ہدایت کی کتاب ہے ، یہ کتاب اسی وقت ساری کائنات کے لئے ہدایت کا سبب بن سکتی ہے جب اس کا سمجھنا آسان ہو۔ اللہ کا فرمان ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ(سورة البقرة : 185)
ترجمہ : رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجولوگوں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے ۔

ساتویں دلیل : اللہ نے قرآن پاک اس لئے نازل کیاتاکہ اس میں غورکیاجائے ۔ فرمان احکم الحاکمین ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (سورة ص :29)
ترجمہ : یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کیاہے کہ لوگ اس کی آیتوں پہ غوروفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
دوسری جگہ اللہ کاارشاد ہے :
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (سورة محمد :24)
ترجمہ : کیایہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ؟

آٹھویں دلیل : اللہ تعالی نے قرآن کوپہاڑ پہ نازل نہیں کیاکیونکہ اس میں سمجھ نہیں ہے ، انسان کے اندر سمجھ بوجھ ہے اس لئے اللہ نے ان پہ نازل کیا۔
لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ(سورة الحشر:21)
ترجمہ : اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پہ اتارتے تو تودیکھتا کہ خوف الہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ۔

نویں دلیل : نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لاَ يفقَهُ من قرأَهُ في أقلَّ من ثلاثٍ(صحيح أبي داود:1390)
ترجمہ : جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن سمجھ کر پڑھنا چاہئے اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ قرآن تین دن میں بھی سمجھ کر ختم کیاجاسکتاہے ۔

دسویں دلیل : نبی ﷺ کا عام فرمان ہے :
إنَّ هذا الدينَ يسرٌ(صحيح النسائي:5049)
ترجمہ : بے شک یہ دین آسان ہے ۔

یوں تو اس پہ بے شماردلائل ہیں مگر میں نے قرآن وحدیث سے دس ادلہ پیش کردیاتاکہ اپنی حجت ان لوگوں پہ تمام کروں جو قرآن سمجھنے کو مشکل خیال کرتے ہیں۔
آپ تصور کریں کہ جس دین کی بنیاد آسانی پر ہو اور جس دین کی پہلی وحی کا آغاز لفظ "اقرا "سے ہوبھلا وہ کتاب کیسے مشکل ہوسکتی ہے ؟ عقل میں بھی یہ بات نہیں آتی اور کتاب وسنت کے دلائل بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔

چند علماء کے اقوال :
(1) مولوی انیس احمد دیوبندی انوارالقرآن صفحہ نمبر35 پر لکھتے ہیں کہ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ اس کو سمجھ سکتے ہیں اور جو لوگ عربی نہیں جانتے ان کے لئے بہترین ترجمے موجود ہیں وہ ان کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہم قرآن کوبالکل سمجھ نہیں سکتے ، اس کے سمجھنے کے لئے بہت سے علوم وفنون کی ضرورت ہے اور بڑے جیدعالم ہونے کی ضرورت ہے ۔

(2) شاہ اسماعیل شہیدؒ تقویۃ الایمان میں لکھتے ہیں کہ عوام الناس میں یہ بہت مشہور ہے کہ اللہ ورسول ﷺ کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہے ، اس کے لئے بڑا علم چاہئے تویہ بات بہت غلط ہے اس واسطے کہ اللہ نے فرمایاہے کہ قرآن مجید میں باتیں صاف اور صریح ہیں ۔ ان کاسمجھنا مشکل نہیں اور اس کو سمجھنے کے لئے بڑا علم نہیں چاہئے ۔

(3) شاہ ولی اللہ ؒ فتح الرحمن میں لکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مثنوی مولاناجلال الدین،گلستاں شیخ سعدی، منطق الطیر شیخ فریدالدین عطار،قصص فارابی،نفحات مولاناعبدالرحمن اور اسی قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں ، اسی طرح طرح قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھ کر قرآن مجید پڑھنے کی توفیق دے ۔ آمین
fdfdfd.jpg
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لوگوں میں مشہور ہوگیا ہے کہ قرآن کا سمجھنا بہت مشکل ہے ، یہ عربی زبان میں ہے اسے صرف عربی داں ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اس کتاب کو سمجھنے کے لئے اٹھارہ علوم سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ العیاذ باللہ یہ بھی کہاجاتاہے کہ اگر عوام قرآن کا ترجمہ پڑھیں گے تو گمراہ ہوجائیں گے ۔
یہ بات دراصل پیٹ پرست، مطلب پرست اور شہرت پسند کم علم ملاؤں کی طرف سے پھیلائی گئی ہےتاکہ ساری عوام ان ملاؤں کے زندگی بھر غلام رہے اور یہ مولوی ان سے عزت،شہرت اور دولت بیجا حاصل کرتا رہے حالانکہ قرآن سمجھنا نہایت آسان ہے ۔ اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کے لئے نازل کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا ،اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ مومن کو سمجھ کر قرآن پڑھنا چاہئے تاکہ صحیح سے اس پر عمل کرے جس کا بدلہ اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کے تاج کی شکل میں ملے گا۔
قبرمیں جب مومن بندہ تین سوالات کا جواب دے دیگا تو منکر نکیر چوتھا سوال پوچھیں گے ۔
وما يُدريكَ ؟ فيقولُ: قرأتُ كتابَ اللَّهِ فآمنتُ بِهِ وصدَّقتُ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی تو وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پہ ایمان لایااور اس کی تصدیق کی ۔
یہ حدیث بھی ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد بتلاتی ہے کہ اسے سمجھ کرپڑھاجائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے ۔
ہمیں تو قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی بتلاتا ہے کہ علم حاصل کرو۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(سورة العلق:1)
ترجمہ: پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔
یہی وہ علم ہے جس کے بارے میں کل قیامت میں سوال بھی کیاجائے گا۔
لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يُسألَ عن أربعٍ : عن عُمرِهِ فيمَ أفناهُ ؟ وعن علمِهِ ماذا عمِلَ بهِ ؟ وعن مالِهِ مِن أينَ اكتسبَهُ ، وفيمَ أنفقَهُ ؟ وعن جسمِهِ فيمَ أبلاهُ ؟ (صحيح الترغيب:3592)
ترجمہ : قیامت میں مومن کا قدم اس وقت تک ٹل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے ۔ عمر کے بارے میں کہ تونے کہاں گذاری،علم کے بارے میں کہ تم نے کتنا اس پہ عمل کیا، مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایااور کہاں صرف کیا،جسم کے بارے میں کہ کہاں خرچ کیا۔
ان باتوں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عمل کرنے سے پہلے علم کا حصول ضروری ہے ، بایں سبب اسلام میں علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے ۔
طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ(صحيح الجامع:3914)
ترجمہ : علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔

قرآن سمجھنا آسان ہے اس کے منطقی دلائل :
اب چلتے ہیں اس طرف کہ قرآن سمجھنا کس قدر آسان ہے ؟۔ اس بات کو پہلے منطقی اور عقلی طورپہ ثابت کرتاہوں ۔
(1) ابھی میں نے بتلایاہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد سمجھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے اور یہ قرآن ساری کائنات کے لئے نازل کی گئی ہے ۔ ہندو،مسلم،سکھ ۔عیسائی۔خواہ اس کی زبان ہندی،اردو،انگریزی،فارسی کچھ بھی ہو۔اور وہ کسی بھی علاقے کا رہنے والاہو۔بھلا اللہ تعالی ایسی کتاب کیوں نازل فرمائے گا جو دنیاوالوں کی سمجھ سے باہر ہواور لوگ جس کے سمجھنے سے قاصرہوں؟۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کے نزول کا مقصد فوت ہوجائے گا اور آخرت میں علم وعمل کے متعلق سوال کرنا بندوں پہ ظلم ٹھہرے گاجبکہ ہمیں معلوم ہے کہ نہ تو قرآن کانزول بلامقصدہے اور نہ ہی اللہ بندہ پر ذرہ برابر ظلم کرنے والاہے ۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(سورة آل عمران : 191)
ترجمہ : اے ہمارے تونے (یہ کائنات) بلامقصد نہیں بنائی ۔
اسی طرح اللہ کافرمان ہے :
وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (سورة ق:29)
ترجمہ: اور ہم ذرہ برابر بھی بندوں پرظلم کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔
(2) دنیا میں ہزاروں غیرمسلم اسلام قبول کرتے ہیں ۔ یہ سب قرآن سے متاثرہوکراسلام قبول کرتے ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی قرآن ہی کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرتے ہیں تاکہ اسلام پہ مضبوطی کے ساتھ جم جائے ۔
بی بی سی کے سابقہ ڈاریکٹر جنرل جان بٹ کا بیٹا یحی بٹ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتاتھا اس نے اسلام قبول کرلیا۔اس کے پی ایچ ڈی کا موضوع تھا

" یورپ میں پچھلے دس سالوں میں ایسے کتنے لوگ مسلمان ہوئے جو یورپین نسل کے تھے اور کیوں ہوئے ؟ "
چنانچہ انہوں نےدوتین سال تک اس بات کی تحقیق کی اور پھر اس نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتلایاگیاتھاکہ پچھلے دس سالوں میں تیرہ ہزاریورپین نسل کے لوگوں نے اسلام قبول کیا جن میں سے اسی (80 ) فیصد لوگ قرآن سے متاثرہوکراسلام کو گلے لگایاتھا۔ ان نئے مسلموں میں ایک امریکی خاتون تھی جس کا نام ایم کے ہرمینسن تھا ۔ اس نے اپنے اسلام لانے کی وجہ بتلائی کہ میں اسپین میں تعلیم حاصل کرتی تھی ، ایک دن ہاسٹل میں ریڈیوکی سوئی گھماتے گھماتے ایک ایسی آواز پہ اٹک گئی جہاں سے ایسی آواز آرہی تھی جسے سن کا میں مبہوت ہوگئی ۔ لگاتار کئی دنوں تک اس آواز کوسنتی رہی ۔ مجھے لگایہ میرے دل کی آوازہے ۔ پھر کسی سے اس آواز کے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی آواز(تلاوت) ہے ۔
پس میں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ حاصل کیا اور مکمل پڑھ لیا ۔ پھر سوچا کیوں نہ اس کتاب کو اس کی اصل زبان عربی کے ذریعہ پڑھی جائے؟ چنانچہ مصر کی قاہرہ یونیورسٹی سے عربی میں دوسالہ ڈپلومہ کورس کیا۔ اس کےبعد اب اصل عربی قرآن کو سمجھ کرپڑھی تو قرآن نے مجھے مسلمان کردیا۔ سبحان اللہ
آج مسلمانوں میں شرک و بدعت کی گرم بارازی اور اختلاف وانتشارکے بادسموم کی بڑی وجہ عوام کا قرآنی تعلیمات سے دوری اور اسے سمجھ کر نہ پڑھناہے۔اگر لوگ اسے سمجھ کرپڑھنے لگ جائیں تو امت ایک پلیٹ فارم اور کتاب وسنت کے ایک ہی شاہ راہ پہ جمع ہوجائیں ۔ اے کاش ایسا ہوتا۔
(3) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جیسے دنیاوی علوم کے الگ الگ ماہرین ہیں ۔ طب کے اندر جسم کے الگ الگ حصے کے الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں اسی طرح قرآنی علوم کے بھی الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں کوئی قرات کا ماہر،کوئی علم نحووصرف کاماہر،کوئی لغت کاماہر تو تفسیرکاماہروغیرہ ۔
ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ میرے بھائی مولویوں کی ایسی باتوں پہ نہ جائیں ۔اگر وہ آپ کے خیرخواہ ہوتے توکہتے کہ قرآن کی تعلیم مجھ سے سیکھ لومگر وہ ایسانہیں کہتے بلکہ الٹاقرآن سے ڈراتے ہیں۔ یہ زمانہ سائنس وٹکنالوجی کاہے ۔ اس وقت اندھا،بہرااور گونگاسب کی تعلیم کا بندوبست ہے تو پھرمسلمانوں کے لئے قرآن سمجھنادشوارکیوں؟ آرٹ اور کمرس کے بالمقابل سائنسی علوم زیادہ سخت ہیں ۔باوجودسائنسی علوم سخت ومشکل ہونے کے اسی فیلڈ میں لوگوں کی بہتات ہے ۔اور یہاں مسلمانوں کے لئے قرآن سمجھنامشکل لگ رہاہے ،کیوں؟
نبی ﷺ نے تو قرآن کی مکمل تعلیم سے امت کو آراستہ کردیا ۔ قرآن کی آیت " لتبین للناس ما نزل الیھم" (آپ کی شان یہ ہے کہ جس بات کی آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اس کو کھول کھول کر بیان کردیں)۔ نبی ﷺ نے ہپ فریضہ بحسن وخوبی انجام دے دیا ۔ اب کس بات کی ضرورت ہے ؟ مزید برآں اہل علم نے سارے علوم کو یکجا کردیا ۔اب کس بات کی ضرورت ہے ؟
آپ کوئی تفسیر اٹھالیں ۔ آیت پڑھیں اس کا ترجمہ پڑھیں ۔آیت کا معنی معلوم ہوجائے گا۔اور آیت کے ساتھ تفسیر پڑھ لیں تو آپ کو آیت کا مکمل معنی ومفہوم معلوم ہوجائے گا۔
آپ سے میں سوال کرتاہوں کہ اس کام کے لئےآپ کو کن علوم کی ضرورت ہے ؟ بلاشبہ کسی علم کی ضرورت نہیں ۔صرف اس زبان کی ضرورت ہے جس زبان میں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں گے ۔
(4) اگر قرآن سمجھنا مشکل ہوتا تو اولا اس پہ عمل کرنا اس سے بھی مشکل ہوتا۔ ثانتا قرآن سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف پڑھنا مقصود ہوتا تو قرآن کی تعلیم ، نبی ﷺ كا اس کی تعلیم پہ ابھارنا، قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والےکو افضل قرار دینا لغوٹھہرتا۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ سورہ اخلاص ثلث قرآن ہے ۔اس کا مطلب یہ ہواکہ تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے سے قرآن پڑھنا حاصل ہوگیا۔مکمل قرآن پڑھنے کی کیاضرورت؟ اور احادیث میں ایسے ایسے اذکار مسنونہ بتلائے گئے ہیں جن کے پڑھنے سے لاکھوں کروڑوں ثواب قرآن پڑھے بغیر مل جائے گا ۔
ان باتوں سے حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کا مقصد سمجھ کر پڑھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے ۔

قرآن سمجھنا آسان ہے اس پہ قرآن وحدیث کے دلائل :
پہلی دلیل : اللہ کا فرمان ہے :
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ
ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت نہیں کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت میں تلاوت کی شرط "
حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کر پڑھاجائے ۔

دوسری دلیل : اللہ تعالی نے خود ہی واضح کردیا کہ قرآن نصیحت کے واسطے آسان ہے ۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ(سورة القمر:17)
ترجمہ : اور ہم نے قرآن کو آسان بنایاہے ، ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے ۔
یہ آیت سورہ قمر میں چارمقامات میں آئی ہے ۔وہ آیت17، آیت 22، آیت 32اور آیت 40 ہیں۔

تیسری دلیل : قرآن سمجھنے کی کتاب ہے اور جو کتاب سمجھنے کی ہو اسے ہرکوئی سمجھ سکتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ
ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورة الانبياء :10)
ترجمہ : تحقیق کے ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟

چوتھی دلیل : اللہ تعالی نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ اسے سمجھاجاسکے ۔اللہ نے فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سورة يوسف:2)
ترجمہ : ہم نے اس قرآن کوعربی زبان میں نازل کیاتاکہ تم سمجھ سکو۔

پانچویں دلیل : قرآن کے نزول کا مقصد تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاناہے اور یہ مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے اسے سمجھ کرپڑھاجائے تاکہ اس کی طرف دعوت دی جائے۔ فرمان رب ذوالجلال ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(سورة ابراهيم:1)
ترجمہ : یہ عالیشان کتاب ہم نے آپ پر نازل کیاکہ آپ لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لائیں ۔

چھٹی دلیل : یہ ہدایت کی کتاب ہے ، یہ کتاب اسی وقت ساری کائنات کے لئے ہدایت کا سبب بن سکتی ہے جب اس کا سمجھنا آسان ہو۔ اللہ کا فرمان ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ(سورة البقرة : 185)
ترجمہ : رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجولوگوں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے ۔

ساتویں دلیل : اللہ نے قرآن پاک اس لئے نازل کیاتاکہ اس میں غورکیاجائے ۔ فرمان احکم الحاکمین ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (سورة ص :29)
ترجمہ : یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کیاہے کہ لوگ اس کی آیتوں پہ غوروفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
دوسری جگہ اللہ کاارشاد ہے :
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (سورة محمد :24)
ترجمہ : کیایہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ؟

آٹھویں دلیل : اللہ تعالی نے قرآن کوپہاڑ پہ نازل نہیں کیاکیونکہ اس میں سمجھ نہیں ہے ، انسان کے اندر سمجھ بوجھ ہے اس لئے اللہ نے ان پہ نازل کیا۔
لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ(سورة الحشر:21)
ترجمہ : اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پہ اتارتے تو تودیکھتا کہ خوف الہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ۔

نویں دلیل : نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لاَ يفقَهُ من قرأَهُ في أقلَّ من ثلاثٍ(صحيح أبي داود:1390)
ترجمہ : جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن سمجھ کر پڑھنا چاہئے اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ قرآن تین دن میں بھی سمجھ کر ختم کیاجاسکتاہے ۔

دسویں دلیل : نبی ﷺ کا عام فرمان ہے :
إنَّ هذا الدينَ يسرٌ(صحيح النسائي:5049)
ترجمہ : بے شک یہ دین آسان ہے ۔

یوں تو اس پہ بے شماردلائل ہیں مگر میں نے قرآن وحدیث سے دس ادلہ پیش کردیاتاکہ اپنی حجت ان لوگوں پہ تمام کروں جو قرآن سمجھنے کو مشکل خیال کرتے ہیں۔
آپ تصور کریں کہ جس دین کی بنیاد آسانی پر ہو اور جس دین کی پہلی وحی کا آغاز لفظ "اقرا "سے ہوبھلا وہ کتاب کیسے مشکل ہوسکتی ہے ؟ عقل میں بھی یہ بات نہیں آتی اور کتاب وسنت کے دلائل بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔

چند علماء کے اقوال :
(1) مولوی انیس احمد دیوبندی انوارالقرآن صفحہ نمبر35 پر لکھتے ہیں کہ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ اس کو سمجھ سکتے ہیں اور جو لوگ عربی نہیں جانتے ان کے لئے بہترین ترجمے موجود ہیں وہ ان کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہم قرآن کوبالکل سمجھ نہیں سکتے ، اس کے سمجھنے کے لئے بہت سے علوم وفنون کی ضرورت ہے اور بڑے جیدعالم ہونے کی ضرورت ہے ۔

(2) شاہ اسماعیل شہیدؒ تقویۃ الایمان میں لکھتے ہیں کہ عوام الناس میں یہ بہت مشہور ہے کہ اللہ ورسول ﷺ کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہے ، اس کے لئے بڑا علم چاہئے تویہ بات بہت غلط ہے اس واسطے کہ اللہ نے فرمایاہے کہ قرآن مجید میں باتیں صاف اور صریح ہیں ۔ ان کاسمجھنا مشکل نہیں اور اس کو سمجھنے کے لئے بڑا علم نہیں چاہئے ۔

(3) شاہ ولی اللہ ؒ فتح الرحمن میں لکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مثنوی مولاناجلال الدین،گلستاں شیخ سعدی، منطق الطیر شیخ فریدالدین عطار،قصص فارابی،نفحات مولاناعبدالرحمن اور اسی قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں ، اسی طرح طرح قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھ کر قرآن مجید پڑھنے کی توفیق دے ۔ آمین
16360 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
196
پوائنٹ
84
مجھے ابن قدامہ کی جسارت پر ۔۔کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کے خلاف اپنے علماء کے فتویٰ درج کرنا صدیوں سے مقلدین تو یہی کرتے آئے ہیں۔ مجھے تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی کیسے منافقین کا سردار ہو گیا؟ اس نے تو محض دو چار مرتبہ نبی کی شان میں گستاخی کی تھی۔ یہاں مقلدین دن رات اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ایک امتی کی باتوں پر عمل کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، پھر ان کے تقویٰ پر ذرہ آنچ نہیں آتی ۔ اگر ایک مسلم کو قرآن سمجھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں تو پھر کفار بیچارے کفر ہی پر مرجائیں گے۔ کفار اللہ سے بآسانی کہدیں گے کہ تو نے ایسی کتاب کیوں نازل کی جس کو سمجھ کر لوگ ہدایت پر آنے کی بجائے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ مقلدوں !اپنی زبان کو کھولنے سے پہلے اللہ سے ڈرو۔
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (٢٠١٣ء) فرماتے ہیں :

جس طرح قرآن مجید کی آیت کو سمجھنے کے لیے دوسری آیات، احادیث، اجماع اور متفقہ تفاسیر سلف صالحین کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، اسی طرح حدیث کو سمجھنے کے لیے دوسری احادیث، اجماع اور متفقہ فہمِ محدثین کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.

(شرح شمائل الترمذی ، ص : ٢٤٦)
 
Top