• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن مجید کے جمع کرنے کا بیان

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 4986
حدثنا موسى بن إسماعيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن إبراهيم بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد بن السباق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال أرسل إلى أبو بكر مقتل أهل اليمامة فإذا عمر بن الخطاب عنده قال أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ إن عمر أتاني فقال إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن وإني أخشى أن يستحر القتل بالقراء بالمواطن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيذهب كثير من القرآن وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن‏.‏ قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر هذا والله خير‏.‏ فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ورأيت في ذلك الذي رأى عمر‏.‏ قال زيد قال أبو بكر إنك رجل شاب عاقل لا نتهمك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقد كنت تكتب الوحى لرسول الله صلى الله عليه وسلم فتتبع القرآن فاجمعه فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان أثقل على مما أمرني من جمع القرآن قلت كيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هو والله خير فلم يزل أبو بكر يراجعني حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر أبي بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللخاف وصدور الرجال حتى وجدت آخر سورة التوبة مع أبي خزيمة الأنصاري لم أجدها مع أحد غيره ‏ {‏ لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم‏}‏ حتى خاتمة براءة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فكانت الصحف عند أبي بكر حتى توفاه الله ثم عند عمر حياته ثم عند حفصة بنت عمر ـ رضى الله عنه ـ‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبید بن سباق نے اور ان سے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں (صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے) شہید ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو (باقاعدہ کتابی شکل میں) جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم یہ تو ایک کارخیر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہیں رائے ہو گئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ (زید رضی اللہ عنہ) جوان اور عقلمند ہیں، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے بھی تھے، اس لئے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لئے کہتے تو میرے لئے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم، یہ ایک عمل خیر ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید (جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا) کی تلاش شروع کر دی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں، پتلے پتھروں سے، (جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا۔ سورۃ التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس لکھی ہوئی ملیں، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں لقد جاء كم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم‏ سے سورۃ براۃ (توبہ) کے خاتمہ تک۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہے۔


حدیث نمبر: 4987
حدثنا موسى: حدثنا إبراهيم: حدثنا ابن شهاب: أن أنس بن مالك حدثه: أن حذيفة بن اليمان قدم على عثمان،‏‏‏‏ وكان يغازي أهل الشام في فتح إرمينية وأذربيجان مع أهل العراق،‏‏‏‏ فأفزع حذيفة اختلافهم في القراءة،‏‏‏‏ فقال حذيفة لعثمان: يا أمير المؤمنين،‏‏‏‏ أدرك هذه الأمة قبل أن يختلفوا في الكتاب،‏‏‏‏ اختلاف اليهود والنصارى. فأرسل عثمان إلى حفصة: أن أرسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف ثم نردها أليك،‏‏‏‏ فأرسلت بها حفصة إلى عثمان،‏‏‏‏ فأمر زيد بن ثابت،‏‏‏‏ وعبد الله بن الزبير،‏‏‏‏ وسعيد بن العاص،‏‏‏‏ وعبد الرحمن ابن الحارث بن هشام،‏‏‏‏ فنسخوها في المصاحف،‏‏‏‏ وقال عثمان للرهط القريشيين الثلاثة: إذا اختلفتم أنتم وزيد بن ثابت في شيء من القرآن فاكتبوه بلسان قريش،‏‏‏‏ فإنما نزل بلسانهم،‏‏‏‏ فافعلوا،‏‏‏‏ حتى إذا نسخوا الصحف في المصاحف رد عثمان الصحف إلى حفصة،‏‏‏‏ وأرسل إلى كل أفق بمصحف مما نسخوا،‏‏‏‏ وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف أن يحرق.

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد عوفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ امیرالمؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اس وقت عثمان ارمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کے لئے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے، تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی قرآت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ امیرالمؤمنین اس سے پہلے کہ یہ امت (مسلمہ) بھی یہودیوں اور نصرا نیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے، آپ اس کی خبر لیجئے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کہلایا کہ صحیفے (جنہیں زید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا“) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں (کتابی شکل میں) نقل کروا لیں۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور آپ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص، عبدا لرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کر لیں۔ حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں حضرت زید رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لئے گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھیجوا دیا اور حکم دیا کے اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔


حدیث نمبر: 4988
قال ابن شهاب وأخبرني خارجة بن زيد بن ثابت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمع زيد بن ثابت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال فقدت آية من الأحزاب حين نسخنا المصحف قد كنت أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ بها فالتمسناها فوجدناها مع خزيمة بن ثابت الأنصاري ‏ {‏ من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه‏}‏ فألحقناها في سورتها في المصحف‏.‏

ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم (عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں) مصحف کی صورت میں قرآن مجید کو نقل کر رہے تھے، تو مجھے سورۃ الاحزاب کی ایک آیت نہیں ملی، حالانکہ میں اس آیت کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا اور آپ اس کی تلاوت کیا کرتے تھے، پھر ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی۔ وہ آیت یہ تھی من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ چنانچہ ہم نے اس آیت کو سورۃ الاحزاب میں لگا دیا۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل القرآن
 
Top