• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم نے دعوت و تبلیغ کو جہاد سے کیوں تعبیر فرمایا؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قرآن کریم نے حضرت پاک ﷺ کی مکی زندگی کو ذکر فرمایا اور آپ کی دعوت و تبلیغ اور اس پر کفار مکہ کی طرف سے پیش آمدہ مصائب و مشکلات اور اس پر آپ کے صبر و استقامت کو بیان کرتے وقت جن الفاظ کو استعمال فرمایا وہ یہ ہیں :

فَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَجَاہِدْ ھُمْ بِہٖ جِہَاداً کَبِیْرًا (سورۃ فرقان، آیت نمبر۵۲)

اس آیت کریمہ میں آپ کی دعوت و تبلیغ کو صرف جہاد ہی نہیں بلکہ جہاد کبیر یعنی بڑا جہاد قرا ر دیا، حالانکہ اس میں قتل ہے نہ قتال بلکہ یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ صریح اور واضح حکم کُفُّوْا اَیْدَیَکُمْ (سورۃ نساء ، آیت نمبر۷۷) یعنی اپنے ہاتھوں کو روکو۔ کے ذریعہ سے قتال کرنے کی ممانعت تھی۔

تو اگر جہاد فی سبیل اللہ، صرف قتال فی سبیل اللہ ہی کا نام ہے، تو قرآن کریم نے دعوت و تبلیغ کو جہاد سے کیوں تعبیر فرمایا؟

جواب نمبر ۱ :
اس آیت کریمہ میں’’ جَاھِد‘‘ کا معنی ہے کہ کفار کو تبلیغ کرنے میں خوب کوشش کرو ، انتھک محنت کرو اور اسی محنت و مشقت کے ساتھ دعوت الیٰ اللہ کو لفظ جہاد سے تعبیر فرمایا، کیونکہ لغت عرب میں ہر وہ کام جس میں مشقت اور جدوجہد ہو ،اس کو جہاد ہی کہا جاتا ہے، خواہ وہ کوشش اور جدوجہد کسی برے کام میں ہو یا اچھے کام میں ،مگر اس کو لغت عرب میں جہاد کا نام دے دینے سے وہ شریعت کا حکم جہاد فی سبیل اللہ تو نہیں بن سکتا۔

جواب نمبر ۲ :
اگر کسی بھی فعل اور عمل کیلئے لفظ جہاد کا استعمال ہی دلیل ہے ،اس کے جہاد فی سبیل اللہ ہونے کی تو پھر سورۃ لقمان کی آیت کریمہ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو حکم دیا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ہمارا اور اپنے والدین کا شکر گزار بن کر رہے اور
وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا (سورۃ لقمان ، آیت نمبر۱۵)
اگر تمہارے والدین خوب کوشش بھی کریں کہ تم میرے ساتھ شرک کرو تو ان کی یہ بات ہر گز نہ ماننا۔

اب دیکھیں اس آیت میں والدین کی شرک اور کفر کی طرف دعوت کو بھی لفظ ِجہاد سے تعبیر کیا ہے ، تو کیا اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ ، کفر اور شرک کی طرف دعوت دینا بھی ، جہاد فی سبیل اللہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو جہاد فی سبیل اللہ کہا ہے، تو آپ اس کو کیا جواب دیں گے؟ یقینا آپ اس کو یہی کہیں گے کہ یہاں جہاد اپنے لغوی معنی میں استعمال ہواہے، نہ کہ اصطلاحی اور شرعی معنی میں اور ہماری بحث جہاد بالمعنی الشرعی کے بارے میں ہے ، نہ کہ جہاد بالمعنی اللغوی کے بارے میں۔


جواب نمبر ۳ :
اس بات پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ ایک فریضہ اور حکم شرعی ہے، جو کہ مدینہ منورہ میں نازل ہوا اور "وَجَاہِدْھُمْ بِہٖ جِہَادًاکَبِیْرًا" تو مکی آیت ہے اور اس آیت سے مراد بھی اصطلاحِ شریعت والا جہاد ہو تو، پھر یہ کہنا چاہئے کہ جہاد فی سبیل اللہ مکہ میں نازل ہوا ، جب اس کا کوئی عالم بھی قائل نہیں۔ تو ماننا پڑے گا کہ اس آیت سے اصطلاحی اور حکم ِشرعی "جہاد فی سبیل اللہ" مراد نہیں، بلکہ مطلقاً کوشش کرنا ہی مراد ہے، اور لغت عرب میں کوشش اور جدوجہد کو جہاد کہا جاتا ہے، مگر اصطلاحی جہاد فی سبیل اللہ اور چیز ہے، اور لغوی جہاد اورچیز ہے۔

جواب نمبر ۴ :
لغتِ عرب میں تو صلوۃٰ کا معنی ہے ، "تَحْرِیْکُ الْاِلْیَتَیْنِ" سرین یعنی جسم کے پچھلے حصے کو حرکت دینا، اور صلوۃ کے معنی رحمت بھیجنے کے بھی آتے ہیں۔
اور صوم کے معنی لغت عرب میں رکنے کے ہیں ، اور حج کا معنی ارادہ کرنے کے ہیں خواہ برے کام کا ہو یا کسی اچھے کام کا۔

اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ، میں تو صبح اٹھتے ہی اپنے سرین کو حرکت بھی دیتا ہوں اور رحمت کی دعا بھی کرلیتا ہوں، لہٰذا میری یہی نماز ہے ، کیونکہ عربی میں اس کو نماز کہتے ہیں اور کوئی شخص کہے کہ میں ایک آدھ گھنٹے کے لئے کھانے پینے یا بات کرنے سے رک جاتا ہوں، تو میرا یہ ہی روزہ ہے کیا ضرورت ہے پورا دن بھوکا پیاسا اور محبوب بیوی سے دور رہنے کی۔ کیونکہ لغت عرب میں تو صرف رکنے کو ہی روزہ کہتے ہیں۔
یا میں نے بیت اللہ جانے کا ارادہ کرلیا ہے ، اب کیا ضرورت ہے کہ ہزاروں روپے خرچ کروں، اور گرمی کی شدت کا سفر برداشت کروں، اور گھر سے دور رہوں، کیونکہ لغت عرب میں صرف ارادہ کرنے کو ہی حج کہتے ہیں۔

تو آپ اس محُقِّق اور مُدقِّقْ کو کیا جواب دیں گے، سوائے اس کے کہ بابا! لغت ِعرب سے اصطلاحات ِشرعیہ متعین نہیں ہوتیں، بلکہ یہ تو صاحب ِشریعت کے متعین کرنے سے متعین ہوتی ہیں اور لغت کو لے کر شریعت کے اعمال کا حلیہ نہیں بگاڑا جاتا۔
ہاں یہ بات الگ ہے کہ لغوی اور اصطلاحی معنی میں مناسبت ضرور ہوتی ہے۔

اس لئے میں کہتا ہوں کہ قرآن وحدیث میں کسی بھی عمل پر لفظِ جہاد کے اطلاق اور استعمال کی وجہ سے اس عمل کو شرعی اور اصطلاحی جہاد قرار دینا یہ بددیانتی ہے یا کم علمی اور کم فہمی۔
 
Top