• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم کا ایک انوکھا نسخہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حقیقی مشرقی ومسلم خاتون اور اس کا عظیم کارنامہ

کچھ ماہ پہلے ٹی وی چینلز کے ذریعے یہ خبر آپ تک پہنچی ہو گی کہ پاکستان کے شہر گجرات کی رہائشی ایک خاتون نے ، مکمل قرآن کریم کپڑے کے اوپر، سوئی دھاگے کے ساتھ کڑھائی کیا ہے، میں نے بھی یہ خبر سنی، مدینہ منورہ قرآن کریم نمائش میں ذمہ داری ہوتی ہے، اس وقت سے اس خبر کو گاہے بہ گاہے زائرین کے سامنے بیان بھی کرتا رہا۔
اس سال یہ محترمہ خاتون اپنے بیٹے سمیت حج پر آئیں تھیں، دو تین ہفتے قبل مدینہ منورہ آئے، ساتھ وہ قرآن کریم کا نسخہ بھی لے کر آئے، اور اپنے ہاتھ کے ساتھ قرآن کریم نمائش کے لیے وقف کیا.
اسی عرصے میں اس مصحفِ قرآن اور اس کی کاتبہ کے بارے کچھ جاننے کا موقعہ ملا.
محترمہ نسیم اختر صاحبہ ایک گھریلو خاتون ہیں، خاوند ان کے غالبا ایئرفورس میں ڈیوٹی کرتے تھے، نسیم صاحبہ بچپن سے ہی خطاطی اور سلائی کڑھائی کی شوقین تھیں، اور ان چیزوں میں مہارت رکھتی تھیں، بلکہ ساتھ ساتھ بچیوں کو ان چیزوں کی تعلیم بھی دیا کرتی تھیں.
ان کے ایک استاد محترم تھے، جنہوں نے پنجابی زبان میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا، اور اس ترجمے کی خطاطی کی سعادت ان کے حصے میں آئی۔ پورے کا پورا قرآن کریم ترجمے کے ساتھ خطاطی کیا، ساتھ ساتھ غور بھی کرتی ہوں گی، یوں اللہ نے ان کے دل میں قرآن کی عظمت و ہیبت پیدا کردی، اور عزم پیدا ہوا کہ خطاطی اور سلائی کڑھائی دونوں مہارتیں استعمال کرتے ہوئے ، قرآن کریم کے لیے ایسی خدمت سرانجام دی جائے، جو ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے.
حقیقت بھی یہ ہے کہ بڑے بڑے پیسے والے، مہارتوں والے، ذہانت و فطانت کے مالک ہوں گے، لیکن آج دنیا میں ان کا نام ونشان نہیں، جو آج ہیں، کل انہیں کوئی جاننے والے نہ ہوگا، لیکن جو سرمایہ، وقت اور مہارت اللہ کے رستے میں صرف ہوجاتی ہے، گویا لازوال ہوجاتی ہے۔
نسیم اختر صاحبہ نے قرآن کریم کا یہ عظیم الشان نسخہ 1987ء میں لکھنا شروع کیا، اوراق کے لیے کاغذ کی بجائے سفید کپڑے کا انتخاب کیا گیا. پندرہ سال قرآن کریم کے اس نسخے کی خطاطی پر صرف ہوئے، اور سترہ سال میں پھر اس خطاطی کو سوئی دھاگے کے ساتھ کڑھائی کیا گیا. یوں بتیس سال کی صبر آزما جدوجہد اور انتھک محنت وکوشش کے بعد جنوری 2018ء میں یہ نسخہ قرآن کریم مکمل ہوگیا.
سوچتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے، ایک طرف وہ مسلمان کہ جس نے بتیس سال صرف کیے، دوسری طرف وہ مسلمان کہ جن کے پاس شاید بتیس منٹ کا ٹائم بھی نہیں نکل پاتا کہ وہ قرآن کریم کو پڑھنے سمجھنے کے لیے متوجہ ہوسکیں.
قرآن کریم کی محبت کا دعوی تو ہر مسلمان کو ہے، لیکن اس محبت و عقیدت کا حساب بھی شاید موبائل کی بیٹری والا ہوچکا ہے، جب مکمل چارج ہو، تو موبائل میں موجود ہر سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن جب آخری سانسوں پر ہو، تو ہر کام کرنے سے پہلے یہ خطرہ رہتا ہے کہ موبائل اب بند ہوا کہ اب ہوا۔
ایک طرف محبت وعقیدت کا یہ عالم کہ پوری زندگیاں کھپادی جاتی ہیں.. اور دوسری طرف یہ حال کہ قرآن کو سمجھنا، اس پر عمل پیرا ہونا تو بعد کی بات، قرآن کریم کو کھول کر پڑھنے، یا موبائل وغیرہ کے ذریعے سے سننے تک کی طاقت نہیں ہے۔
قرآن کریم کے لیے اس قدر دلچسپی رکھنے والی اس خاتون میں ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ بھی سبق ہے کہ یہ ہماری ہم عصرہیں، اسی زمانے میں جی رہی ہیں، جس زمانے میں ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیتے ہیں کہ اب حالات بہت خراب ہوچکے ہیں، اب تو مسائل ہی بہت زیادہ ہیں، پرانے وقتوں میں لوگوں کو ان حالات کا سامنا نہیں تھا، اسی لیے تو وہ دین کی اتنی خدمت کرگئے.... وغیرہ وغیرہ . اس معزز خاتون نے یہ ثابت کردیا کہ حالات جیسے مرضی ہوں، اگر انسان کا عزم و ہمت جوان اور حوصلہ بلند ہو تو آج بھی بہت بڑی بڑی خدمات سرانجام دی جاسکتی ہیں۔
مجھے بڑا فخر محسوس ہوا کہ ہماری مشرقی اور مسلم خاتون کا حقیقی چہرہ یہی ہے کہ جس نے نمود ونمائش ، اور ہر قسم کے لالچ سے بے پروا ہو کر اپنی صلاحیت و مہارت کو اللہ کی کتاب کی خدمت کے لیے صرف کیا، برصغیر پاک وہند اور اردو کمیونٹی کا بالعموم جبکہ پاکستان کا نام بالخصوص روشن ہوا۔ ورنہ اس زمانے میں وہ بھی تو نام نہاد مسلمان اور مشرقی خواتین ہی ہیں، جو چند ٹکوں کےلیے، خود کو روشن خیال کہلوانے کے لیے، نہ صرف اپنے چہروں سے نقاب اتار پھینکتی ہیں، بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دین و ملت کی مقدس ردا کو بھی تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں ، تاکہ کسی طرح ’غیر‘ ان کو تسلیم کرلیں.
یہاں مشرقی خواتین نے مغربی ایوارڈز وصول کرنے کے لیے ایجنسیاں کھولیں، فلمیں بنائیں، دوسری طرف اس حقیقی مشرقی ومسلم خاتون نے بتیس سال کی محنت شاقہ سرانجام دینے کے بعد کسی سے کوئی لالچ نہیں رکھا.
بہت سارے لوگوں کے ذہن میں ہوگا کہ اس خاتون نے قرآن کریم کے اس نسخے کےبدلے میں پتہ نہیں کیا کچھ لے لیا ہوگا، یقین مانیے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے یہ منظر دیکھ کر جب خاتون نے کہا کہ میں یہ نسخہ قرآن کریم مدینہ منورہ کو ہدیہ کرتی ہوں، اللہ کی رضا کے لیے، اللہ مجھ سے قبول کرلے، یہی میری خواہش وتمنا ہے، آج یہ قرآن کریم کا نسخہ مدینہ منورہ میں قرآن کریم نمائش میں سج گیا، گویا میری ساری تھکاوٹ کافور ہوگئی.
ہم یہاں قرآن کریم کی اہمیت و فضیلت بیان کرکے، لوگوں کو رلاتے ہیں، لیکن اس دن اس خاتون کے جذبے اور حوصلے اور قرآن کریم سے محبت دیکھ کر ہماری آنکھیں چھلک پڑیں.
قرآن کریم کا یہ نسخہ مکمل دس جلدوں میں ہے، ہر جلد میں تین پارے تحریر کیے گئے ہیں، ہر پارہ 24 صفحات پر مشتمل ہے.آخری پارہ 28 صفحات پر مکمل ہوا.
خاتون کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کا یہ نسخہ انہوں نے تہجد اور ظہر کے بعد کے اوقات میں لکھا ہے. اور صرف لکھا اور کڑھائی ہی نہیں کیا، بلکہ اس پر غور وفکر اور تدبر بھی کیا ہے۔ اسی مناسبت سے ان سے سوال کیے جانے پر انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم سارے کا سارا توحید کے بیان پر مشتمل ہے، اور سب مسلمانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن کریم پر غور وفکر اور تدبر کریں، کہ یہی اس کتاب عزیز کا ہدف ومقصد ہے۔
ایک بات جو مسلسل میرے ذہن میں گھوم رہی ہے، وہ یہ ہے کہ خاتون نے تو اپنی محنت و کوشش کرلی، اور اللہ کے حضور پیش کردی. اللہ قبول کرے۔ لیکن کیا اس عظیم الشان خاتون کا ہمارے اوپر بھی کوئی حق ہے یا نہیں ؟ کیا قرآن کریم کے لیے ہمیں بھي کچھ کرنا چاہیے کہ نہیں؟
کسی اسلامی ملک کی پالیسیوں میں، کسی اسلامی جماعت وتنظیم کے نظام میں قرآن کریم کے لیے اتنی بڑی خدمت سرانجام دینے والی خاتون کی عزت وتکریم اور حوصلہ افزائی کی کوئی صورت ہے؟
وہ تاجر، بزنس مین، وڈیرے جو ایک رات کےلیے اپنے ایمان و تہذیب کو بیچنے والی خواتین پر کروڑوں کی بارش کردیتے ہیں، کیا اللہ کے رستے میں اپنی عمرعزیز صرف کرنے والی خاتون کے لیے بھی کچھ ان کے پاس ہے کہ نہیں؟
کیا ایوارڈ صرف سڑکوں پر نکلنے والیوں، فلمیں بنانے والیوں کا ہی حق ہے؟
کیا دین الہی کی خدمت میں مصروف لوگوں کے لیے ہمارے پاس ایوارڈ دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟
میں سمجھتا ہوں، اسلام کے لیے اس نوعیت کی خدمات سرانجام دینے والوں کی ہم مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اس خاتون کے متعلق سوشل میڈیا پر لکھا جائے، خطبا ومقررین مسلمان خاتون کی اس عظیم خدمت کو عوام کے سامنے بیان کریں، جماعتوں تنظیموں کے قائدین، کم ازکم فون کرکے ہی سہی، اس گھرانے کی حوصلہ افزائی کریں، ہوسکے تو ان کے اعزاز میں تقاریب منقعد کریں. حکمرانوں، عہدیداروں کو توجہ دلائیں، کہ وہ اپنے ملک میں موجود اس ’ٹیلنٹ‘ کی بھی قدر کریں. اور سفارتی تعلقات استعمال کرکے، مشرق کے اس روشن چہرے کو دوسروں کے سامنے لائیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ محترم نسیم اختر صاحبہ جیسی خواتین و مرد تو جیت جائیں، لیکن ہم مسلمان اور اہل مشرق ان کی حوصلہ افزائی میں بخیلی وسستی کا شکار ہوکر ایک بار پھر ہار جائیں.
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی محترم نسیم اختر صاحبہ کی اس کوشش و کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے، توشہ آخرت بنائے، اور ہم مسلمانوں کو قرآن کریم کے ساتھ تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی توفیق دے.
إن اللہ یرفع بہذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین.(صحیح مسلم)
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ’ہم‘ خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر.
(قرآن کریم کے ساتھ تعلق ،ٹیسٹ کرنے کا طریقہ، ایک مختصر ویڈیو ملاحظہ کریں:
).
(نوٹ: اس تحریر کے کوئی حقوق نہیں، قرآن کریم سے محبت رکھنے والے، اور خدام قرآن کو اپنے لیےفخر سمجھنے والا کوئی بھی مسلمان، اس تحریرکو کسی بھی انداز سے نشر یا شائع کرسکتا ہے.)​
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اللہ سبحانہ و تعالی خاتون محترم کی خدمت جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے اور ان کے اس عظیم کام سے هم سب مسلمانوں میں اسلام کی تحریک پیدا فرمائے ، تعارف کے همراہ جو تحریر هے اس میں جذبہ تحریک عیاں هے مزید حالات حاضرہ میں اپنے دین سے دوری اور اغیار کے اسالیب کی تقلید پر انتباہ بهی هے ۔اللہ هم سب کو بہتر هدایات دے ۔
جزاکم اللہ خیرا ۔ والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
قرآن پاک کا منفرد نسخہ تیار کرنے کا اعزاز پاکستانی خاتون کے نام


سعودی عرب 04 اکتوبر ، 2018
مدینہ منورہ - - - - پنجاب پاکستان کی خاتون نسیم اختر نے دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا قرآن پاک کا منفرد نسخہ مدینہ منورہ کو تحفے کے طور پر پیش کر دیا۔
یہ قرآن پاک کا ایسا نسخہ ہے جسے نہ تو قلم سے لکھا گیا ہے نہ اس کی تیاری میں روشنائی استعمال ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی اور تحریری مادہ استعمال کی گئی ہے۔ قرآن پاک کا یہ کامل نسخہ پاکستان کی نسیم اختر نے 35برس میں تیار کیا۔
انہوں نے 1987ء میں کپڑے پر کڑھائی کے ذریعے آیات لکھنا شروع کیا تھا او ر2018ء میں اسے مکمل کیا۔ انہوں نے قرآن پاک کا ایک ایک حرف باوضو رہ کر رات کے پچھلے پہر میں تیار کیا۔ انہوں نے حج کے موقع پر قرآن پاک کا یہ نسخہ مدینہ منورہ کے القرآن الکریم عجائب گھر کو تحفے کے طور پر پیش کیا۔ ذمہ داران نے گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لے کر اسے عجائب گھر میں پیش کر دیا۔قریب سے دیکھنے پر ہی پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم ہاتھ سے نہیں بلکہ کپڑے پر کڑھائی کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?time_continue=45&v=KlvjRgobcwE
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
قرآن پاک کا منفرد نسخہ تیار کرنے کا اعزاز پاکستانی خاتون کے نام


سعودی عرب 04 اکتوبر ، 2018
مدینہ منورہ - - - - پنجاب پاکستان کی خاتون نسیم اختر نے دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا قرآن پاک کا منفرد نسخہ مدینہ منورہ کو تحفے کے طور پر پیش کر دیا۔
یہ قرآن پاک کا ایسا نسخہ ہے جسے نہ تو قلم سے لکھا گیا ہے نہ اس کی تیاری میں روشنائی استعمال ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی اور تحریری مادہ استعمال کی گئی ہے۔ قرآن پاک کا یہ کامل نسخہ پاکستان کی نسیم اختر نے 35برس میں تیار کیا۔
انہوں نے 1987ء میں کپڑے پر کڑھائی کے ذریعے آیات لکھنا شروع کیا تھا او ر2018ء میں اسے مکمل کیا۔ انہوں نے قرآن پاک کا ایک ایک حرف باوضو رہ کر رات کے پچھلے پہر میں تیار کیا۔ انہوں نے حج کے موقع پر قرآن پاک کا یہ نسخہ مدینہ منورہ کے القرآن الکریم عجائب گھر کو تحفے کے طور پر پیش کیا۔ ذمہ داران نے گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لے کر اسے عجائب گھر میں پیش کر دیا۔قریب سے دیکھنے پر ہی پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم ہاتھ سے نہیں بلکہ کپڑے پر کڑھائی کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?time_continue=45&v=KlvjRgobcwE
مدت کتابت:32 سال ہے۔
پہلے پوائنٹر (غالبا ایک اعشاریہ پانچ) کے ساتھ لکھا گیا ، پھر اس کے مطابق کڑھائی کی گئی۔
یہ دو باتیں خاتون نے صراحت کے ساتھ بتائی تھیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
قرآن مجید اور بتیس برس ، روزنامہ پاکستان

12 اکتوبر 2018 ، اعجاز حسن
’’میرے رب کی کتاب ، میرے رب کا کلام‘‘۔۔۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کو چہرے پر رکھ لیتے ، زبان سے یہ کلمات ادا ہوتے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے۔کتب تاریخ میں یہ قصہ نقل ہوا۔ قرآن مجید سے محبت و تعلق کے کتنے حسین مناظرچشم فلک نے دیکھے۔ قرآن کے نازل ہونے سے لے کرآج تک، ساڑھے چودہ سوسال میں لاکھوں افراد نے اس کو حفظ کیا۔ اس کے حرف حرف کوذہن نشین کیا۔ محبت کی ایک داستان اس دور میں بھی سامنے آئی ہے۔ بتیس برس کی محبت و محنت کی داستان۔ مادیت کی اس دوڑ میں جہاں بتیس سکینڈ کے اشتہار کا معاوضہ اور بجٹ لاکھوں سے تجاوز کرتا ہے،وہا ں بتیس منٹ ، بتیس گھنٹے ، بتیس ہفتے یا بتیس ماہ نہیں بلکہ بتیس برس بغیر مفاد ایک ارفع مقصد کی نذر کرنا ، یقیناًبے مثال اور لا زوال داستان ہے۔ پاکستان کی بیٹی نے سوئی دھاگے سے مکمل نسخہ قرآن مجید لکھ کر تاریخ رقم کی ہے۔ گجرات کی باکمال خاتون نے کشیدہ کاری سے کپڑے پریہ نسخہ رقم کیا۔۔۔
محلہ گڑھی احمد آباد کی باسی نسیم اختر نے قرآن مجید کا یہ عظیم الشان نسخہ بتیس برس قبل لکھنا شروع کیا۔ اوراق کے لیے کاغذ کی بجائے سفید کپڑے کا انتخاب کیا گیا۔پندرہ برس قرآن مجید کے اس نسخے کی خطاطی پر صرف ہوئے۔سترہ سال میں پھر اس خطاطی کو سوئی دھاگے کے ساتھ کاڑھنے میں صرف ہوئے۔تقریبا بتیس برس کی کوشش، جدوجہد اور محنت کے بعد 2018ء میں یہ نسخہ مکمل ہوگیا۔ گھریلو خاتون ہیں۔ بچپن سے خطاطی ،سلائی اور کشیدہ کاری میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ بچیوں کو اس فن کی تعلیم بھی دیا کرتی تھیں۔ان کے استاد نے پنجابی زبان میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کی خطاطی کی سعادت اس سعادت مند خاتون کو نصیب ہوئی۔ مالک کائنات نے ان کے دل میں قرآن مجید کی محبت ڈال دی۔ اس محبت نے خدمت قرآن کی فکر بیدار کی۔یہ فکر اس عزم میں ڈھلی کہ خطاطی و کشیدہ کاری کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسی خدمت سرانجام دی جائے، جو ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔
سوئی دھاگے کے ساتھ کپڑے پر قرآن مجید کی آیات لکھی گئی ہیں۔ کپڑا خصوصی طو رپر فیصل آباد سے منگوایا جاتا تھا۔ کشیدہ کاری کے لئے کالے اور گلابی رنگ کے دھاگے کے 84ڈبے استعمال کئے گئے ہیں۔قرآن مجید کا یہ نسخہ دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ہرجلد میں تین پارے ہیں۔سپارہ 24 صفحات پر مشتمل ہے۔آخری سپارہ 28 صفحات پر مکمل ہوا۔ نسخے کے کل صفحات 724ہیں۔ تیس سپاروں میں رموز اوقاف اور اعراب (زیر، زبر، پیش) کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ جلد(صفحہ) کی چوڑا ئی15انچ اورلمبائی 22 انچ ہے۔ صفحہ کا حاشیہ گلابی اور سیاہ دھاگے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ آیات کو سیاہ رنگ کے دھاگے سے لکھا ہے۔ نسخے کا کل وزن 55کلو گرام ہے۔ یوں عزم وجزم ، محنت و محبت ، جمال و کمال کا یہ روشن اور روح پرورمظہر منصہء شہود پر آیا۔یہ باشرف خاتون قرآن مجید تہجد اور ظہر کے بعد کے اوقات میں لکھا کرتی تھیں۔دوران کتابت باوضو رہنامعمول تھا۔ روزانہ نو سے دس لفظ کاڑھتی تھیں۔ اس عمل کے ساتھ غور وفکر بھی جاری رہا۔ اسی مناسبت سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ان کا پیغام ہے کہ مسلمان قرآن مجیدمیں تدبر کریں کہ یہی اس کتاب لاریب کاتقاضا ہے۔
اس باکمال خاتون کا کہنا ہے:’’ جب میں نے قرآن مجیدکا یہ نسخہ شروع کیا تھا تو خواہش تھی کہ مدینہ کی عظیم الشان لائیبریری میں یہ نسخہ رکھا جائے تاکہ دنیا بھر کے مسلمان اس کو دیکھ پائیں‘‘۔۔۔ ان کے اس خواب کو بھی تعبیر ملی۔ اس سال بیٹے کی رفاقت میں یہ با شرف خاتون حج کے لئے حاضر ہوئیں۔ مدینہ منورہ کا رخ کیا۔قرآن مجید کا نسخہ بھی ہمراہ تھا۔ اپنے ہاتھ سے نسخہ نمائش کے لیے وقف کیا۔ 10 محرم 1440 ھ کو سادہ اور باوقار تقریب میں یہ نسخہ قرآن نمائش کی زینت بنا۔ قرآن نمائش مدینہ منورہ (معرض القرآن) کا افتتاح 2015ء میں ہوا۔ مسجد نبویؐ کے جنوبی جانب گیٹ نمبرپانچ پر واقع ہے۔ نمائش کا ہدف جدید وسائل و ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن مجید کا تعارف ہے۔ اب تک اس نمائش کی زیارت کرنے والوں کی تعداد دو ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ نمائش کے بارہ ہالز کتابت سے کمپیوٹر تک کی داستان کو بیان کرتے ہیں۔ یہ نمائش جدت اورقدامت کا حسین سنگم ہے۔جہاں ساڑھے نو سو سال تک کے قدیم نسخے موجود ہیں ،وہاں 2018ء کے اس سوئی دھاگے سے کتابت شدہ نسخے کو بھی سجایاگیاہے۔ لاکھوں زائرین کی نگاہیں اس مرقع محبت کو دیکھیں گی۔ کچھ شاید پُرنم ہوں اور کچھ پُر عزم۔۔۔مگر اعتراض کرنے والے باز نہیں آتے۔ "اجی! کیا ضرورت تھی، اس قدر محنت کی اور کیا فائدہ ؟" آپ بتائیے کیا ضرورت ہے کہ لاکھوں افراد قومی ترانہ گا کرعالمی ریکارڈ قائم کریں۔ ہزاروں افراد سب سے بڑا انسانی قومی پرچم بنانے کا ریکارڈ قائم کریں۔ وطن سے محبت ان ریکارڈزکے بغیر ادھوری تو نہیں ؟ کیا ضرورت ہے آرٹ اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر اربوں روپے اڑانے کی ؟
خضر حیات مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔قرآن نمائش میں رہبری کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ قرآن مجید سے اس عالی وقار خاتون کی محبت دیکھ کر ہماری آنکھیں چھلک پڑیں۔جب حوصلہ مند خاتون نے کہا :" اللہ کی رضا کے لیے ،میں یہ نسخہ قرآن کریم مدینہ منورہ کو ہدیہ کرتی ہوں۔ اللہ مجھ سے قبول کرلے۔ یہی میری خواہش وتمنا ہے۔آج یہ قرآن کریم کا نسخہ مدینہ منورہ میں قرآن کریم نمائش میں سج گیا۔گویا میری ساری تھکاوٹ کافور ہوگئی‘‘۔یہ عالی ہمت خاتون مسلم خاتون کا حقیقی چہرہ ہے۔ بے لوث و بے غرض ہو کر اپنی صلاحیت کو مالک کائنات کے کلام کی خدمت کے لیے صرف کیا۔
پاکستان کی بیٹی کی محنت ٹھکانے لگی۔ رب العالمین کے حضور پیش کردی۔ رب العالمین قبول فرمائیں۔ کیا پاکستان کی بیٹی کی اہل پاکستان عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کریں گے؟ قرآن کی خدمت کرنے والوں کی جانب ہمارا عدم التفات ہماری ترجیحات کا مظہر ہے۔ اشتہارات پر کروڑوں خرچ کرنے والے تجارتی ادارے، عہدوں کی طلائی ریوڑیاں اپنوں کوبانٹنے والے اہل اقتدار، ریکارڈ قائم کرنے والوں کو انعامات پیش کرنے والی حکومتیں،کھیل و کھلاڑی ، فن و اداکاری پر خرچ کرنے والے امراء، برانڈ ایمبسڈرز کو مالا مال کرنے والے برانڈز، بیرون ملک ناز و ادا کی محفلوں میں ایوارڈز کو سپانسر کرنے والے کاروباری۔۔۔ ایک نظر ادھر بھی، ایک نگاہ ادھر بھی۔ کیا یہ ٹیلنٹ کی بے قدری نہیں؟ کیایہ عالی وقار خاتون تحسین و آفرین کی مستحق نہیں؟ کیا قرآن مجید اور حدیث شریف کی خدمت سرانجام دینے والوں کے لئے کسی انعام و ایوارڈکا اجراء ممکن نہیں؟​
 
Top