• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ عشرۃکی اَسانید اور ان کا تواتر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ عشرۃکی اَسانید اور ان کا تواتر

قاری صھیب اَحمدمیرمحمدی
قاری نجم الصبیح تھانوی​
زیر نظر مضمون علم قراء ات کی دو نوجوان فاضل شخصیات کی تحریروں کا امتزاجی انتخاب ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے متعدد خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ فن ِقراء ات کے مستقبل کو ان دونوں حضرات سے خصوصی امیدیں وابستہ ہیں۔جناب قاری صھیب احمدحفظہ اللہ کو جہاں اللہ تعالیٰ نے بولنے کا اعلیٰ سلیقہ عطا فرمایا ہے، وہیں محترم قاری نجم الصبیح تھانوی حفظہ اللہ کو لکھنے میں ید طولیٰ عطا فرمایا ہے۔ دونوں حضرات کا تعلق ماہرین فن کے علمی خانوادوں سے ہے، جناب قاری نجم الصبیح تھانوی حفظہ اللہ شیخ المشائخ قاری اظہار اَحمد تھانوی رحمہ اللہ کے فرزند اَرجمندہیں تو محترم قاری صھیب احمدمیر محمدی حفظہ اللہ شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کے برادر خورد ہیں۔ دونوں حضرات علم ِقراء ات کی داخلی باریکیوں کی مہارت کاملہ رکھنے کے ساتھ ساتھ فن سے متعلقہ علمی وفنی مباحث کا اعلیٰ ذوق بھی رکھتے ہیں۔ مجلس التحقیق الاسلامی کے رکن جناب قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ نے قاری صھیب اَحمد میرمحمدی حفظہ اللہ کی عربی تصنیف جبیرۃ الجراحات فی حجیَّۃ القراء ات اور قاری نجم الصبیح تھانوی حفظہ اللہ کی کتاب ’تاریخ تجوید وقراء ات‘سے اس تحریر کو بغیر حک واضافہ کے یوں ترتیب دیا ہے کہ ایک مربوط مضمون کی صورت بن گئی ہے۔ یاد رہے کہ مضمون کا ابتدائی حصہ ’جبیرۃ الجراحات‘ سے اور آخری حصہ ’تاریخ تجوید وقراء ات ‘سے ماخوذ ہے، اگرچہ بعض جگہ کچھ عبارتیں آگے پیچھے کی گئی ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لغوی تعریف

اسناد أُسند إلیہ سے مصدر ہے، جس کامعنی ہے: منسوب کرنا۔ ہروہ چیز جس کی طرف نسبت کی گئی ہو اور اس پر اعتماد کیا جائے اس کو ’سند‘ کہتے ہیں۔ اسی لیے دیوار وغیرہ کو بھی سند اور اسناد کہا جاتا ہے،کیونکہ عمارت کی بناء اسی پر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے دین کی معتمد علیہ چیز کو سند کہا جاتا ہے۔سند کی جمع اَسانید آتی ہے۔ (المعجم الوسیط: ۱؍۲؍ ۴۵۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِصطلاحی تعریف

اسناد کا مطلب ہے متن حدیث کے طریق کو بیان کرنا، چنانچہ سند متن ِحدیث کے طریق کو کہتے ہیں۔علم المصطلح کے مطابق سند راویوں کا وہ سلسلہ ہے، جس کے ذریعہ متن حدیث تک رسائی حاصل کی جائے، جیسے امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ عبارت دیکھیں:
حدَّثنا مکی بن إبراہیم قال حدثنا یزید بن أبی عبد اﷲ وھو مولی سلمۃ بن الأکوع عن سلمۃ قال سمعت النبی ﷺ یقول:( من یقل علیَّ ما لم أقل فلیتبوأ مقعدہ من النار)
مذکورہ تعریف کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا قول حدَّثنا فلان حدَّثنا فلان حدَّثنا فلانٌ اسناد ہے اور سند اس کے وہ رواۃ ہیں، جن کاذکر متنِ حدیث سے پہلے ہوا ہے، اور متنِ حدیث آپؐ کا فرمان: مَن یقل علیَّ … الخ ہے۔ محدثین کرام اسناد و سند دونوں کوایک معنی میں استعمال کرتے ہیں، البتہ مراد قرائن سے سمجھ آتی ہے۔ (شرح صحیح مسلم مع النووی: ۱؍۲۵، ۲۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دین میں سند کی اہمیت

اسناد اُمت محمدیہ کا خاصہ ہے۔ ان سے پہلے کسی اُمت کو یہ خاصہ عطاء نہیں ہوا۔ دین میں اس کاانتہائی اہم مقام ہے۔امام حاکم نیسابوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قال عبد اﷲ بن مبارک: الإسناد من الدِّین،لولا الإسناد لقال من شاء ما شاء‘‘
’’عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا کہ اسناد کا اہتمام دینی اُمور میں سے ہے۔ اگر اسناد نہ ہوتیں تو جس کے جی میں جو آتا وہ کہہ دیتا۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث: ۶)
امام ابن مبارک رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:’’مثل الذی یطلب أمر دینہ بلا إسناد کمثل الذی یرتقی السطح بلا سلّم‘‘
’’جو شخص دین کا کوئی حکم بغیر سند کے طلب کرتا ہے، اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو چھت پربغیرسیڑھی کے چڑھناچاہتا ہے۔‘‘
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الاسناد سلاح المؤمن فإذا لم یکن معہ سلاح فبأیّ شیٔ یقاتل‘‘(الإسناد من الدین للشیخ أبو غدۃ)’’اسناد تو مومن کا ہتھیار ہے۔ اگر اس کے پاس اسلحہ نہیں ہوگا تو وہ لڑائی کس چیز کیساتھ کرے گا۔‘‘
اسی طرح امام سفیان ثوری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’الإسناد زین الحدیث ممن اعتنی بہ فھو السعید‘‘ (أیضا)’’اسناد تو حدیث کی زینت ہے، جس نے اس کااہتمام کیا وہ بامراد ہوا۔‘‘
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کلّ حدیث لیس فیہ حدثنا أو أخبرنا فہو خلّ وبقل (المحدّث الفاصل بین الراوی والواعی: ص۵۱۷)’’ہروہ حدیث جس میں حدثنا یا أخبرنا کے الفاظ نہیں ہیں، وہ ردّی اور بے وقعت ہے۔ اسناد کے فقدان کی وجہ سے وہ ناقابل التفات ہوگی۔‘‘
امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’مثل الذی یطلب الحدیث بلا إسناد کمثل حاطب لیل،یحمل حزمۃ حطب وفیہ أفعی وہو لا یدری‘‘ (الإسناد من الدین)
’’جو شخص بغیرسند کے حدیث طلب کرتاہے اس کی مثال یوں ہے جیسے کوئی آدمی رات کے اندھیرے میں لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور پھر وہ اپنا گٹھا اٹھاتا ہے، لیکن اسے علم نہیںہوتا کہ اس کی لکڑیوں میں خطرناک ترین سانپ موجود ہے۔‘‘
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ امام زہریؒ نے ایک دن حدیث بیان فرمائی، میں نے کہا کہ بلاسند بیان کر دیں، توانہوں نے فرمایا کیا آپ چھت پربغیر سیڑھی کے چڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ (اَیضا)
بعض اہل علم نے انہی کی مثال کہتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ ’’ وہ شخص جوبغیر سند کے حدیث طلب کرتا ہے تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو چھت پربغیر سیڑھی کے چڑھنا چاہتا ہے، بھلا وہ آسمان پر کیسے چڑھ سکتا ہے؟‘‘
اِمام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما ذھاب العلم إلا ذھاب الاسناد‘‘ ’’علم کا خاتمہ اسناد کے خاتمہ پرمنحصر ہے۔‘‘
حافظ یزیدبن زریع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لکلّ دین فرسان وفرسان ھذا الدّین أصحاب الأسانید‘‘’’ہردین کی حفاظت کرنے کیلئے کچھ شاہسوار ہوتے ہیں۔دین اسلام کے شاہسوار اصحاب اسانید یعنی محدثین کرام ہیں۔‘‘
حافظ الجوال ابوسعد سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نبی کریم ﷺ کے الفاظ (احادیث) کا مدار نقل پرہے۔ ان الفاظ کی صحت، صحت ِسند پر منحصر ہے۔ اور صحت ِسند کی بنیاد ثقہ اور عادل راوی کے بغیر ناممکن ہے۔‘‘
پھر اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں نے بہز بن اسعد العمی بصریؒ (متوفی بعد از ۲۰۰ھ) کو کہتے ہوئے سنا کہ جب ان کے سامنے کوئی صحیح حدیث بیان کی جاتی تو فرماتے یہ تو عادل لوگوں کی ایک دوسرے کے لئے گواہیاں ہیں، اورجب ان کے سامنے کوئی کمزور سند بیان کی جاتی تو فرماتے کہ یہ تو ناقابل التفات ہے، اور ساتھ یہ بھی فرماتے اگر کوئی مقروض جس کے ذمہ دس روپے کا قرض ہے وہ اس کی ادائیگی سے انکار کردے توقرض لینے والا جب تک دو عادل لوگوں کو گواہ بناکر پیش نہ کرے وہ قرضہ واپس لینے سے قاصر ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا دین تو اس بات کازیادہ حقدار ہے کہ اس کی باتیںعادل لوگوں سے قبول کی جائیں۔‘‘ (أدب الإملاء والاستملائ: ۳، ۵۵)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ لم یکن فی أمۃ من الأمم منذ خلق اﷲ آدم،أمناء یحفظون آثار نبیہم وأنساب سلفہم إلا فی ہذہ الأمۃ‘‘ (شرح مواہب اللدنیۃ للزرقانی: ۵؍۴۵۴)
’’ جب سے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق فرمائی، اس اُمت سے بڑھ کر کوئی ایسی اُمت نہیں گزری جو اس قدر امین ، اپنے انبیاء کی باتوں اور اسلاف کے انساب کی حفاظت کرنے والی ہو۔‘‘
امام ابو العباس محمد بن عبدالرحمن سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے محمد بن مظفر کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ نے اس اُمت کو عزت وشرف سے نوازا اور علم الاسناد کے ساتھ اس کو پہلی اُمتوں سے ممتاز کیا، کیونکہ اُن کے پاس جو کتابیں موجود ہیں انہوں نے ان میں کئی اپنی باتیں بھی داخل کردیں۔ اب ان کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس سے وہ اپنے انبیاء سے منقول کتب اورغیر معتبر آدمیوں کی رخنہ اندازیوں کے مابین فرق کرسکیں۔‘‘
جہاندیدہ شخصیت، حافظ ابوبکر محمد بن احمد ثقفی اصبہانی رحمہ اللہ (متوفی ۳۰۹ھ) فرماتے ہیں:
’’ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ نے اس اُمت کو تین ایسے خصائص عطا فرمائے ہیں جوان سے ماقبل کا نصیب نہ بن سکے:
١ سند واسناد ٢ اِعراب ٣ انساب (شرح مواہب اللدنیۃ للزرقانی: ۵؍۴۵۴، الأجوبۃ الفاضلۃ لعبد الحیّ اللّکنوی:ص ۲۴)
اسی وجہ سے کسی شاعر نے ایسی قوم کو، جو سند کا اہتمام نہیں کرتی، مخاطب کرتے ہوئے سند کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے:
ومن بطون کراریس روایتھم لو ناظروا باقلاً لَمَا غلبوا
والعلم إن فاتہ إسناد مسندہ کالبیت لیس لہ سقفٌ ولا طنب​
(الکفایۃ للخطیب البغدادی:ص۱۶۳)
’’ان کی روایات کا مدار سراسر اوراق اور کتب پر ہے، اگر کبھی کسی ردّ ی چیز سے ان کاپالا پڑ جائے تو انہیں جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر علم کی سند ختم ہوجائے تو وہ ایسے گھر کی مانند ہے جس کی چھت ہے، نہ درودیوار۔‘‘
یہ بات تو حدیث کی سند کے متعلقہ تھی، رہی بات اللہ تعالیٰ کے کلام کی، جو کہ نسل در نسل تلقِّی، سماع اور بالمشافہ اخذو اَداء کے ذریعے ہم تک ہے ، تو اس کی کیا شان ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی ایسی حفاظت پر ہم اللہ تعالیٰ کاکیسے شکریہ ادا کرسکتے ہیں۔ جو فرض ہم مسلمانوں پر حفاظت ِ قرآن کے سلسلہ میں عائد ہوتا ہے تو اس امانت کی اَدائیگی کے سلسلہ میں ہم اپنے سات سالہ بچے کو قرآن مجید کاحافظ بناکر عہد نبویؐ سے پورا کر رہے ہیں۔ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمتوں اور خوشنودیوں کا نزول ہو۔ واﷲ المستعان
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات عشرہ کی اَسانید کی تفصیل


یہ بات تو واضح ہے کہ ہرقاری کے دو راوی ہیں۔ ان میں سے کچھ راوی تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے شیخ سے بلاواسطہ نقل کیاہے، جیسا کہ سیدنا قالون رحمہ اللہ اور سیدنا ورش رحمہ اللہ نے امام نافع رحمہ اللہ سے، سیدنا شعبہ رحمہ اللہ اورسیدنا حفص رحمہ اللہ نے امام عاصم رحمہ اللہ سے، سیدنا ابوالحارث رحمہ اللہ اور سیدنا دوری علی رحمہ اللہ نے امام کسائی رحمہ اللہ سے ۔بعض رواۃ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی روایت امام سے واسطہ کے ساتھ نقل کی ہے۔ پھر ان میں سے کچھ نے ایک واسطہ سے، جیسے سیدنا دوری رحمہ اللہ اور سیدنا سوسی رحمہ اللہ میں سے ہر دو نے شیخ یزیدی رحمہ اللہ کے واسطے سے اپنے استاد ابوعمرو بصری رحمہ اللہ سے اور سیدنا خلف رحمہ اللہ و سیدنا خلادرحمہ اللہ نے امام حمزہ رحمہ اللہ سے ایک واسطہ یعنی سیدناسلیم رحمہ اللہ کے ساتھ اپنی روایات کو اخذ کرکے آگے نقل کیاہے۔ نیز بعض راوی ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے شیخ سے ایک سے زائد واسطوں سے نقل کیاہے، جیسے سیدنا بزی رحمہ اللہ اور سیدنا قنبل رحمہ اللہ نے امام مکی رحمہ اللہ سے، سیدنا ہشام رحمہ اللہ اور سیدنا ابن ذکوان رحمہ اللہ نے امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ سے ایک سے زائد واسطوں سے نقل کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
١ اِمام نافع رحمہ اللہ کی سند


یہ بات تو واضح ہے کہ امام نافع رحمہ اللہ کے دو راوی ہیں: (١) سیدنا قالون رحمہ اللہ (٢) سیدنا ورش رحمہ اللہ
امام قالون رحمہ اللہ اور امام ورش رحمہ اللہ دونوں حضرات نے امام نافع رحمہ اللہ سے قراء ت حاصل کی۔ امام نافع رحمہ اللہ نے تابعین کی ایک جماعت، جن میں ابوجعفر یزید بن قعقاع رحمہ اللہ، عبدالرحمن بن ھرمز الاعرج رحمہ اللہ ،شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ، مسلم بن جندب رحمہ اللہ اوریزیدبن رومان رحمہ اللہ زیادہ معروف ہیں،سے قراء ت حاصل کی۔ امام ابوجعفررحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے قراء ت حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٢ امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کی سند


ان کے بھی دو مشہو رراوی ہیں: (١) سیدنا بزّی رحمہ اللہ (۲) سیدنا قنبل رحمہ اللہ
ذیل میں ہرہرراوی کی مکی رحمہ اللہ تک سند درج ہے:
١ بزّی : احمد بن محمد بن عبداللہ بن ابوالقاسم بن نافع بن ابوبزہ بزی رحمہ اللہ نے عکرمہ بن سلیمان بن کثیربن عامر مکی رحمہ اللہ سے ،انہوں نے شبل بن عبادرحمہ اللہ سے، انہوں نے عبداللہ بن کثیر مکی رحمہ اللہ سے پڑھا ۔
٢ قنبل: ابوعمر محمد بن عبدالرحمن بن خالد بن محمد بن سعید قنبل مخزومی رحمہ اللہ نے ابوالحسن احمد بن محمد بن عون قواس البکَّاررحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالاخریط رحمہ اللہ سے، انہوں نے اسماعیل بن عبداللہ قسط رحمہ اللہ سے، انہوں نے شِبَل بن عباد رحمہ اللہ سے، انہوں نے عبداللہ بن کثیر مکی رحمہ اللہ سے پڑھا۔
امام عبد اللہ بن کثیرمکی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن جبیررحمہ اللہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے آپﷺ سے قراء ت حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٣ امام ابو عمرو بصری رحمہ اللہ کی سند


ان کے دو مشہور راوی ہیں: (١) سیدنا دوری رحمہ اللہ (٢) سیدنا سوسی رحمہ اللہ
سیدنا دوری رحمہ اللہ اور سیدنا سوسی رحمہ اللہ دونوں نے امام یحییٰ بن مبارک یزیدی رحمہ اللہ سے ، انہوں نے امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ سے قراء ت حاصل کی۔ امام ابو عمرو بصری رحمہ اللہ نے مجاہد بن جبررحمہ اللہ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے، ان دونوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے آپﷺ سے قراء ت حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٤ امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی سند


ان کے بھی دو مشہور راوی ہیں: (۱) سیدنا ہشام رحمہ اللہ (۲)سیدنا ابن ذکوان رحمہ اللہ
سیدنا ہشام بن عماررحمہ اللہ اور سیدنا محمد بن احمد ابن ذکوان رحمہ اللہ دونوں نے ایوب بن تمیم تمیمی رحمہ اللہ سے، انہوں نے یحییٰ بن حارث ذماری رحمہ اللہ سے، انہوں نے عبداللہ بن عامر شامی رحمہ اللہ سے، انہوں نے مغیرہ بن ابوالہاشم مخزومی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوعبداللہ عمران رضی اللہ عنہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اورانہوں نے نبی کریمﷺ سے قراء ت حاصل کی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابن عامررحمہ اللہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے براہ راست قراء ت بھی حاصل کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٥ امام عاصم کوفی رحمہ اللہ کی سند


ان کے بھی دو راوی ہیں: (۱) سیدنا شعبہ رحمہ اللہ (۲) سیدنا حفص رحمہ اللہ
ابوبکر شعبہ بن عیاش اسدی رحمہ اللہ اور ابوعمر حفص بن سلیمان بن مغیرہ اسدی رحمہ اللہ نے امام عاصم کوفی رحمہ اللہ سے، انہوں نے عبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ سے، انہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور ان تینوں حضرات نے آپﷺ سے قراء ت حاصل کی۔
 
Top