• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قران کریم میں مذکور چند جوڑے

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
قران کریم میں مذکور چند جوڑے
1 ۔ نیک اور صالح میاں بیوی
وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ ﴿٨٩﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ ﴿٩٠﴾ سورۃ الانبیاء
ہم نے اس کی دعا کو قبول فرما کر اسے یحيٰ (علیہ السلام) عطا فرمایا اور ان کی بیوی کو ان کے لئے درست کر دیا۔ یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے (90)
تفسیر السعدی :
(
فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ
) ” پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا۔“
جو ایسا مکرم نبی ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس نام کا کوئی شخص نہیں کیا
(
وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ
) ” اور ہم نے درست کردیا اس کے لئے اس کی بیوی کو۔ “
یعنی سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی بیوی بانجھ تھیں اور ان کا رحم بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی زکریا (علیہ السلام) کی خاطر ان کے رحم کو درست کر کے اسے حمل کے قابل بنا دیا۔ نیک ساتھی اور ہم نشین کے فوائد میں سے ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے لئے بابرکت ہوتا ہے۔ پس سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) ماں باپ میں (برکت کے لئے) مشترک ہوگئے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تمام انبیاء و مرسلین کا فرداً فرداً ذکر کرنے کے بعد ان سب کو عمومی مدح و ثنا سے نوازا ہے
چنانچہ فرمایا : (
إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ
) یعنی وہ نیکیوں میں سبقت کرتے تھے، اوقات فاضلہ میں نیکیاں کرتے تھے اور ان کی تکمیل اس طریقے سے کرتے تھے جو ان کے لائق اور ان کے لئے مناسب ہو۔ وہ مقدور بھر کسی فضیلت کو نہ چھوڑتے تھے اور فرصت کو غنیمت جانتے تھے
(
وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا
) یعنی ہم سے دنیا و آخرت کے مرغوب امور کا سوال کرتے تھے اور دنیا و آخرت کے ضرر رساں، خوفناک امور سے ہماری پناہ طلب کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھتے تھے، وہ غافل اور کھیل کود میں ڈوبے ہوئے تھے نہ اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور جرأت کرتے تھے۔
(
وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ
) یعنی ہمارے سامنے خشوع، تذلل اور انکساری کا اظہار کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے رب کی کامل معرفت رکھتے تھے۔

2 ۔ شوہر نیک اور بیوی اس کے برعکس
ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ ﴿١٠﴾ سورة التحريم
اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو (شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی پس وه دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا (اے عورتوں) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ (10)
تفسیر السعدی :
یہ دو مثالیں ہیں جو اللہ نے مومنوں اور کافروں کے لیے بیان کی ہیں تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ کافر کامومن کے ساتھ اتصال اور مومن کا قرب کافر کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور مومن کا کافر کے ساتھ اتصال مومن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکت اگر مومن فرائض کو پورا کرتا ہے گویا اس میں ازواج مطہرات کے لیے معصیت سے بچنے کی تنبیہ ہے نیز رسول اللہ کے ساتھ اتصال ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اگر انہوں نے برائی کی ہے
چنانچہ فرمایا : (
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۭ كَانَتَا
) اللہ نے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثالیں بیان فرمائی ہیں یہ دونوں تھیں۔
یعنی دونوں عورتیں (
تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ
) ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے گھر میں۔ اور یہ تھے سیدنا نوح اور سیدنا لوط علیھما السلام
(
فخانتھما
) پس انہوں نے دونوں کی خیانت کی۔ یعنی دین میں ان دونوں نے نبیوں کی خیانت کی۔ دونوں اپنے شوہروں کے دین کے سوا کسی اور دین پر تھیں خیانت سے یہی معنی مراد ہیں اور اس سے نسب اور بستر کی خیانت مراد نہیں کیونکہ کسی نبی کی بیوی بدکار کی مرتکب نہیں ہوئی اور نہ اللہ تعالیٰ نے کسی بدکار عورت کو انبیائے کرام میں سے کسی کی بیوی بنایا ہے۔
(
فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ
) پس نہ کام آئے وہ دونوں۔ (یعنی سیدنا نوح اور سیدنا لوط علیھما السلام اپنی بیویوں کے کچھ کام نہ آئے) اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی اور انہیں کہا گیا کہ وہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجائیں۔
3 ۔ بیوی نیک اور شوہر اس کے الٹ
وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿١١﴾سورة التحريم
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے (11)
تفسیر السعدی :
(
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ ۘ
) اور اللہ نے مومنوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی تھی اور وہ تھیں آسیہ بنت مزاحم۔
(
إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
) جب اس نے کہا اسے میرے رب میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔ اللہ نے سیدہ آسیہ کا وصف بیان کیا کہ وہ ایمان رکھتی تھیں اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتی تھیں اللہ تعالیٰ سے مطالب جلیلہ کا سوال کرتی تھیں اور وہ ہے جنت میں دخول اور رب کریم کی مجاورت کا سوال نیز وہ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتی تھی کہ وہ اسے فرعون کے فتنے، اس کے اعمال بد اور ہر ظالم کے فتنہ سے نجات دے۔ اللہ نے سیدہ آسیہ کی دعا قبول فرمائی چنانچہ وہ کامل ایمان اور اس پر ثابت قدمی کے ساتھ زندہ رہیں اور تمام فتنوں سے بچی رہی بنابریں نبی نے فرمایا مردوں میں سے مرتبہ کمال کو پہنچنے والے لوگ تو بہت ہیں مگر عورتوں میں مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بن خویلد کے سوا کوئی عورت مرتبہ کمال کو نہیں پہنچی اور عائشہ (رضی اللہ عنھا) کی تمام عورتوں پر فضیلت ایسے ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔

4 ۔بے ایمان جوڑا

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١﴾ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ﴿٢﴾سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ﴿٣﴾ وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ﴿٤﴾ فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ ﴿٥
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وه (خود) ہلاک ہو گیا (1) نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی (2) وه عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا (3) اور اس کی بیوی بھی (جائے گی،) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے (4) اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی (5)
تفسیر السعدی :
ابولہب، نبی اکرم کا چچا تھا، آپ سے شدید عدوات رکھتا تھا اور آپ کو سخت اذیت دیتا تھا اس میں کوئی دین کی رمق تھی نہ قرابت کی حمیت۔ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ذم عظیم کے ذریعے سے اس کی مذمت بیان فرمائی جو قیامت کے دن تک اس کے لیے رسوائی ہے۔
(
تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ
) یعنی اس کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بدبختی میں پڑگیا۔ اور اس نے نفع حاصل نہیں کیا۔
(
مَآ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ
) وہ مال اس کے کسی کام نہ آیا جو اس کے پاس تھا اور اس مال نے اسے سرکش بنادیا تھا اور جو مال اس نے کمایا تھا جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اس عذاب کو کچھ بھی دور نہ کرسکا۔
(
سَيَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ
) وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔ یعنی آگ اسے ہر جانب سے گھیر لے گی۔
(
وَّامْرَاَتُهٗ ۭ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ
) اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن اٹھانے والی ہے اس کی بیوی بھی اللہ کے رسول کو سخت اذیت پہنچاتی تھی میاں بیوی دونوں گناہ اور ظلم پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے وہ تکلیف پہنچاتی تھی اور رسول اللہ کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی تھی۔ اس کی پیٹھ پر بوجھ لاد دیا جائے گا اس شخص کی مانند جو ایندھن اکٹھا کرتا ہے اس کی گردن میں ڈالنے کے لیے رسی تیار کی گئی ہے۔
(
من مسد
) مونج کی۔ یعنی کھجور کے پتوں کے ریشے سے بٹی ہوئی۔ یا اس کے معنی یہ ہیں کہ جہنم میں وہ ایندھن اٹھا اٹھا کر اپنے شوہر پر ڈالے گی اور اس کے گلے میں کھجور کے پتوں کے ریشوں سے بٹی ہوئی رسی سے بندھی ہوگی دونوں معنوں کے مطابق اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے کیونکہ یہ سورۃ کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب ابولہب اور اس کی بیوی ابھی ہلاک نہیں ہوئے تھے اللہ نے خبر دی کہ عنقریب انہیں جہنم میں عذاب دیا جائے گا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ یہ دونوں ایمان نہیں لائیں گے پس یہ اس طرح واقع ہوا جس طرح عالم الغیب والشہادۃ نے خبر دی تھی۔
 
Top