• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن،آئینِ پاکستان اور قائد اعظم

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن،آئینِ پاکستان اور قائد اعظم

محمدعطاء اللہ صدیقی​
حکمت و دانش کا تقاضا ہے کہ انسان جس موضوع کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھتا ہو، اُس کے متعلق کوئی بات کرتے ہوئے یا حتمی رائے کے اظہار سے گریز کرنا چاہیے۔ ورنہ اُس کی کم علمی اور جہالت اُس کے لیے رسوائی اور خجالت کا باعث بن سکتی ہے۔ مگر کچھ لوگ دانش مندی کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی غیرمحتاط اور بے باکانہ انداز میں ایسے بیانات بھی داغ دیتے ہیں جس پر اُنہیں تنقید اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ سننے والوں کے ذہن میں ایک ’پیکر ِجہالت‘ کا تاثر چھوڑتے ہیں۔ ۲۳؍مئی ۲۰۱۰ء کو فوزیہ وہاب نے میڈیا کے سامنے جو بیان دیا، اُس سے کچھ اسی قسم کا تاثر سامنے آتا ہے۔ یہ نہایت قابلِ اعتراض تھا جسے بجا طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور عین ممکن ہے کہ خود فوزیہ وہاب کے سیاسی کیرئیر پر اس نامعقول بیان کے دیرپا اَثرات مرتب ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فوزیہ وہاب نے صحافیوں کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا :
’’حضرت عمرؓ کے دور میں آئین نہیں تھا، صرف قرآنِ مجید تھا۔ آج کی عدالتیں صدرِ مملکت کا احتساب نہیں کرسکتیں،کیونکہ اُنہیں آئینی تحفظ حاصل ہے، آئین نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عمرؓ کو عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ صدر عام شہری نہیں ہوتا۔ اگر صدرِ مملکت کو تحفظ نہیں دیا جائے گا تو وہ کام نہیں کرسکیں گے۔‘‘ (جیو ٹی وی ، اے آر وائی نیوز)
اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوزیہ وہاب کو اسلام میں حاکمیت کے تصور اور اس تصور کے آئینِ پاکستان کی اَساس سے تعلق کے بارے شعور اور فہم نہیں ہے، ورنہ وہ یہ بیان کبھی نہ دیتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں خلیفہ یا امیرالمؤمنین کی قرآن و سنت کے مقابلے میں ثانوی حیثیت کا بھی اُنہیں اندازہ نہیں ہے۔ ہمیں گمانِ غالب ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے اس موضوع پر واضح بیانات پر بھی ان کی نگاہ نہیں رہی، ورنہ شاید وہ یہ بیان دینے سے گریز کرتیں۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اور جدید تعلیم یافتہ افراد کی کثیر تعداد دیگر موضوعات کے متعلق تو بہت جانتی ہے مگر اس اہم موضوع کے متعلق اُنہوں نے جاننے کی شاید کبھی کوشش نہیں کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس موضوع پر مصورِ پاکستان، حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے کئی ایک ارشادات ریکارڈ پر ہیں جن سے ہم راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ قائداعظم کے درجنوں بیانات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں۔
٭ ۱۹۴۶ء کا واقعہ ہے، قائداعظم الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں نواب سر محمد یوسف کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ وکلا کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا۔ وہاں یہ مکالمہ ہوا:
ارکانِ وفد: پاکستان کا دستور کیسا ہوگا؟ … کیا پاکستان کا دستور آپ بنائیں گے؟
قائداعظم: پاکستان کا دستور بنانے والا مَیں کون ہوں؟ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو سال پہلے ہی بن گیا تھا۔
٭ ۲۷؍جولائی ۱۹۴۴ء کی بات ہے۔ کھانے کی میز پر راولپنڈی مسلم لیگ کے صدر محمد جان بیرسٹر نے پوچھا: سر! آپ جو پاکستان بنانا چاہتے ہیں، اس کا دستور کیا ہوگا؟
قائداعظم:یہ تو اس وقت کی دستور ساز اسمبلی کا کام ہے۔ مَیں کیا بتا سکتا ہوں؟
محمد جان: اگر ہم فرض کرلیں کہ آپ کی موجودگی میں پاکستان بنتا ہے اور آپ اس ملک کے سربراہ ہیں تو پھر دستور کی حیثیت کیا ہوگی؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائداعظم:
’’اس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کے پاس تیرہ سوسال سے دستور موجود ہے۔‘‘
٭ ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:
’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیسا ہوگا؟ پاکستان کا طرزِ حکومت متعین کرنے والا مَیں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا آج سے ساڑھے تیرہ سوسال قبل قرآنِ حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا۔‘‘
٭ ۱۹۴۵ء میں ممبئی میں عیدالفطر کے موقع پر آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآنِ پاک غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔‘‘
٭ قائداعظم نے فرمایا:
’’مَیں نے قرآنِ مجید اور قوانینِ اسلامیہ کے مطالعے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کارُوحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی پہلو ہو یا معاشی، غرض یہ کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے اِحاطہ سے باہر ہو۔ قرآنِ کریم کی اُصولی ہدایت اور طریقِ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی حکومت، غیرمسلموں کے لیے حسنِ سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ دیتی ہے، اس سے بہتر تصور ناممکن ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مسلمانانِ پشاور کے عظیم اجتماع میں ۲۶؍نومبر ۱۹۴۵ء کو قائداعظم نے جو بیان دیا، وہ بے حد جامع اور ہمارے لیے راہنمائی کے اُصول فراہم کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’اسلامی حکومت کا یہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور فرمائش کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کے لیے تعمیل کا مرکز ’قرآنِ مجید‘ کے اَحکام اور اُصول ہیں۔ اسلام میں نہ اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآنِ کریم کے احکام ہی سیاست ومعاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ ’اسلامی حکومت‘دوسرے الفاظ میں ’’قرآنی اُصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔‘‘
قائداعظم کے یہ اور دیگر اس طرح کے بیانات ’حیاتِ قائداعظم‘، ’قائداعظم کا مذہب و عقیدہ‘، ’قائداعظم کی تقاریر و بیانات‘ جیسی مستند کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ بیانات اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ ان کی مزید وضاحت اور تعبیر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قائداعظم نے اپنے بیانات میں تواتر سے قرآنِ مجید اور شریعت ِاسلامیہ کو تیرہ سوسال پہلے کا آئین قرار دیتے اور اِسے دیگر اقوام کے سامنے نہایت فخر سے بیان کرتے تھے مگر افسوس آج کس قدر مغالطہ آمیز ور گمراہ کن بیانات دیے جارہے ہیں۔ ایسے بیانات صرف وہ شخص دے سکتا ہے جس کی بدنصیبی نے اُسے اسلام، اسلامی تاریخ، اسلام کے سیاسی فلسفہ اور نظامِ حیات کے مطالعے سے محروم رکھا ہو۔ فوزیہ وہاب کو قائداعظم کے مندرجہ بالا بیانات کو غور سے پڑھنا چاہیے اور پھر فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کا بیان کس حد تک نامعقول ہے!!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا تصور پیش کیا مگر یہ خیال کہ قرآن ملتِ اسلامیہ کا آئین ہے، آپ بہت پہلے پیش کرچکے تھے۔ فوزیہ وہاب جیسی سوچ کے حامل افراد کو اگر زبانی بتایا جائے تو شاید وہ یقین نہ کریں مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق فارسی شاعری کی کتاب ’رموزِ بے خودی‘ جب ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی تو اقبال نے اپنی اس طویل نظم کے ایک حصہ کا عنوان ’آئینِ محمدیہ قرآن است‘رکھا۔اس عنوان کے تحت ۳۵؍اشعار درج ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے درج ذیل معروف اشعار بھی ان میں شامل ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے :
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ملّتی را رفت چوں آئین ز دست
مثل خاک اجزای اُو از ہم شکست
ہستیِ مسلم ز آئین است و بس
باطن دینِ نبیؐ این است و بس
آن کتاب زندہ قرآنِ حکیم
حکمت اُو لا یزال است و قدیم
نوعِ انسان را پیام آخرین
حامل او رحمتہ للعالمین
نسخۂ ی اسرارِ تکوینِ حیات
بی ثبات از قوتش گیرد ثبات
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان اشعار کا آسان ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ
’’ جس قوم نے آئین ہاتھ سے جانے دیا، اس کے اَجزا خاک کی صورت پریشان ہوگئے۔ مسلمانوں کی قوت کا دارومدار آئین پر ہے (جو قرآن کریم کی صورت ہمارے پاس ہے)۔ ہمارے نبیﷺ کے دین کا باطن بھی آئین میں ہے۔ قرآن ایک زندہ و تابندہ کتاب ہے، اس کی حکمت لازوال اور اس کی دانش قدیم ہے۔ یہ نوعِ انسانی کے لیے آخری پیغام ہے۔ حضرت محمدﷺجو رحمتہ للعالمین ہیں، اس کے حامل ہیں۔اگر مسلمانوں کی طرح جینے کا ارماں رکھتے ہو تو جان لو کہ قرآن کے علاوہ کوئی ہادی نہیں مل سکتا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ محمد اقبال نے ملتِ اسلامیہ کے لیے قرآنِ مجید کو آئین قرار دیا ہے۔ درحقیقت پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی سیاسی فکر کا یہ بنیادی نکتہ رہا ہے اور اس کے متعلق کبھی شکوک و شبہات یا ذہنی تحفظات وارد نہیں کیے گئے۔ اسلامی تاریخ میں جن برگزیدہ ہستیوں نے اسلام کی سیاسی فکر پر قلم اُٹھایا ہے، ان میں الماوردی، نظام الملک طوسی، امام غزالی، ابنِ تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہم اللہ تعالیٰ کے اسماے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔ ان سب مفکرینِ اسلام نے قرآنِ مجید کو اسلام کی سیاسی فکر اور نظامِ ریاست کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم اپنے اسلاف کی اسی تابندہ فکر کے علم بردار تھے۔
۲۳؍مئی کو دن کے تقریباً ۱۱بجے میڈیا نے فوزیہ وہاب کا بیان نشر کیا۔علماے دین، ماہرینِ قانون، سیاستدانوں اور دانشوروں کی طرف سے فوری احتجاج بھی سامنے آیا۔ میڈیا نے اس احمقانہ بیان کا اتنا مؤثر تعاقب کیا کہ شام ہوتے ہی فوزیہ وہاب نے پسپائی اختیار کرنے اور معذرت پیش کرنے میں ہی عافیت جانی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں اس نے قدرے عقل مندی سے کام لیا اور مزید تنقید سے وقتی طور پر نجات حاصل کرلی۔ فوزیہ وہاب نے وضاحت کی کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اُس نے قرآنِ مجید پر آئین کو کبھی فوقیت نہیں دی۔ اُس نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ حضرت عمرؓ کا بے حد احترام کرتی ہے۔ البتہ اُس نے اپنے وضاحتی بیان میں یہ بھی کہا کہ اُس کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔
نجانے ’سیاق و سباق‘ سے موصوفہ کیا مراد لیتی ہیں؟!!
ہماری رائے میں اُس نے جو بات کی تھی، اُس کو میڈیا نے بالکل درست سیاق وسباق میں سمجھا اور پیش کیا۔ درحقیقت پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے صدرِ مملکت کے خلاف عدالتی کاروائی کے متعلق استثنا کو موضوع بناتے ہوئے سوال کیا کہ اگر حضرت عمرؓ کو عدالت میں بلایا جاسکتا ہے تو صدرِ پاکستان کو کیوں نہیں؟ اُس صحافی نے اپنے سوال کی تائید میں بیرسٹر اعتزاز احسن کے دلائل کا حوالہ بھی دیا جو اُنہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے دیے تھے۔ بیرسٹر صاحب نے صدرپرویز مشرف کے خلاف دلائل دیتے ہوئے حضرت عمرؓ کی مثال دی تھی۔ بہرحال سیاق و سباق واضح ہے، البتہ اس پر مزید بات کی ضرورت شاید نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ موضوع شاید آنے والے دنوں میں بھی زیر ِ بحث رہے۔ اس لیے کچھ مزید اُصولی باتیں اور حقائق اگر پیش کردیے جائیں تو مناسب ہوگا۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل۲کی رُو سے اسلام، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ریاستی مذہب ہے۔ آرٹیکل ۲۲۷ کے مطابق پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو قرآن و سنت سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ یہ آرٹیکل یہ بھی کہتا ہے کہ اگر موجودہ قوانین قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے تو اُنہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا اور مطابقت پیدا کی جائے گی۔ آرٹیکل۴۱ کے مطابق صدر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ہے، پھر قراردادِ مقاصد جسے اب آئین کے قابلِ تنفیذ آرٹیکل (۲؍اے) کا درجہ حاصل ہے،بے حد وضاحت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اعلان کرتی ہے۔ یہ سب باتیں معروف ہیں، البتہ آئین میں صدرِ پاکستان کے عہدے کے لیے جو حلف کی عبارت دی گئی ہے، اُس کا تذکرہ کم کم ہوتا ہے۔ اس عبارت میں جہاں حلف لینے والے صدر کو توحید ِباری تعالیٰ اور قرآنِ مجید کو آخری الہامی کتاب اور حضرت محمدﷺ کی ختمِ نبوت اور یومِ آخرت پر ایمان کا اقرار کرنا پڑتا ہے، وہاں قرآنِ مجید کے ’تمام تقاضوں اور تعلیمات‘ پر عمل پیرا ہونے کا بھی حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ ’تمام تقاضے اور تعلیمات‘ کے اندر سب کچھ آجاتا ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ آئینِ پاکستان کی رُو سے بھی قرآن و سنت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس تناظر میں فوزیہ وہاب کے مذکورہ بالا بیان کو دیکھا جائے تو وہ غیرمنطقی، غیرعقلی اور حددرجہ قابلِ اعتراض اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
 
Top