• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن اور میزان

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97


اصول غامدی:۔

قرآن مجید کے جتنے بھی نام ہیں یا تو ان کا ذکر قرآن مجید میں ملتا ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں ملتا ہے قرآن کوفرقان اور تنزیل وغیرہ کے نام سے موسوم کیا گیا لیکن غامدی صاحب کہتے ہیں قرآن کا ایک نام میزان بھی ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اس آیت کو پیش کیا ہے ''اللہ الذی انزل الکتاب باالحق والمیزان (الشوری ۴۲آیت ۱۷)اس آیت کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے
'' اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری یعنی میزان نازل کیا ہے '' ۔
اسکی مزید وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب رقمطراز ہیں : اس آیت میں ، والمیزان سے پہلے (و) تفسیر کے لئے ہے ، اس طرح المیزان دراصل یہاں الکتاب ہی کا بیان ہے (اصول ومبادی میزان صفحہ ۲۲۔۲۳)
جواب:۔
غامدی صاحب کا یہ موقف خود ساختہ ہے اور اس کی حیثیت شاذ کی طرح ہے کیونکہ ان سے پہلے اہل علم میںسے کسی محدث یا مفسر نے قرآن کے اس نام (میزان ) کو بیان نہیں کیا اورنہ ہی کسی مفسر نے اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان کی جیساکہ غامدی صاحب نے اوپر بیان کی ہے عربی زبان میں لفظ (و) کی کئی اقسام ہیں لیکن جب لفظ (و)اگر کسی جگہ استعمال ہوتا ہے تو اس کا تعین کرنے کے لئے ( کہ یہ (و) قسم کے لئے یا تفسیر کے لئے ہے )دلیل یا کسی قرینے کی ضرورت ہوتی ہے مثال کے طور پر قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ''قد جآء کم من اللہ نور وکتاب مبین '' (المائدہ ۵ آیت ۱۵ ) یقینا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور یعنی کتاب مبین آئی ہے '' یہاں پر'' نورکتاب'' کے درمیان میں جو (و) ہے تفسیر کے لئے ہے کیونکہ اس کی اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے '' یھدی بہ اللہ '' اللہ اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے '' یہاں ''بہ '' یعنی ضمیر مفرد مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نور اور کتاب ایک ہی چیز ہیں اور کتاب نور کی تفسیر ہے کیونکہ اگر نور اور کتاب دونوں الگ الگ چیزیں ہوتی تو ''بہ'' کی جگہ ''بھما'' ہوتا یعنی ضمیر تثنیہ غائب کا صیغہ استعمال ہوتا ۔
جس طرح یہاں دلیل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ لفظ (و) تفسیر کے لئے استعمال ہوا ہے غامدی صاحب کو یہ بھی چاہیے تھا کہ وہ دلیل کے ساتھ اپنی بات کی وضاحت کرتے لیکن غامدی صاحب نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر بغیر دلیل سے کہہ رہے ہیںکہ ''والمیزان '' میں (و) تفسیر کے لئے استعمال ہوا ہے لہٰذا غامدی صاحب کی یہ بات کالعدم ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔غامدی صاحب اگر قرآن کو غور سے پڑھتے اور اسلاف کے طریقے کو اپناتے تو یہ نوبت نہ آتی ۔ دوسروں کو تو غامدی صاحب قرآن مجید غور وفکر اور اسے بغیر کسی دوسری چیز کا سہارا لئے بغیر پڑھنے کی ترغیب دے رہے ہیں لیکن خود ان کا عمل اسکے برعکس ہے ۔ ''والمیزان '' میں (و) عطف کے لئے اور مغایرت کے لئے استعمال ہوا ہے اس بات کی واضح دلیل سورہ حدید کی یہ آیت ہے ۔'' لقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معھم الکتاب والمیزان '' (سورہ حدید ۵۷ آیت ۲۵ ) یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمائی ِ''
غامدی صاحب کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کے لئے قرآن اتارا ہے جو دراصل ایک میزان عدل ہے تاکہ ہر شخص اس پر تول کر دیکھ سکے کہ کیا چیز حق ہے اور کیا باطل اور تولنے کے لئے یہی چیزہے اس کے علاوہ دنیا میں کوئی اور چیز نہیں جس پر اسے تولا جاسکے ۔
(اصول ومبادی میزان صفحہ ۲۳)
سورہ حدید کی آیت نمبر ۲۵ جو ہم نے پیش کی ہے اس میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ رب العزت نے دیگر رسولوں کے ساتھ بھی کتاب اور میزان کا نزول فرمایا ۔
اگر والمیزان میں (و) تفسیر کے لئے ہے تو نتائج اس طرح نکلتے ہیں ۔
(۱) خاص قرآن ہی میزان نہیں رہ جاتا بلکہ دوسرے انبیاء پر جو کتابیں اتاری گئیں وہ بھی میزان بن جاتی ہیں ۔
(۲) ان کتابوں پر بھی کسی چیز کو تول کر حق وباطل کا پتہ لگا یا جاسکتا ہے
(۳) غامدی صاحب کی اس بات کا بھی رد ہوتا ہے قرآن کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر اسے تولا جائے ۔
(۴)اور اگر قرآن ہی میزان ہے تو کیا اللہ تعالیٰ نے دیگر رسولوں پر بھی قرآن نازل کیا تھا ؟ کیونکہ ان پر بھی کتاب ومیزان کا نزول ہوا تھا ۔
ایسی تفسیر جس سے بات کا بتنگڑ بن جائے اور خود انہی کی بات کا رد ہوجائے بے کار اور باطل ہے ۔
صحیح بات یہی ہے کہ قرآن اور میزان دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں وگرنہ نتائج مذکورہ آپ کے سامنے ہیں ان نتائج کو کوئی ادنیٰ سا مسلمان بھی نہیں مانے گا یہاں تک کہ غامدی صاحب بھی نہیں مانیں گے ۔
 
Top