• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن مجید میں نسخ کی بحث

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرآن مجید میں نسخ کی بحث

محمد سعید اَختر​
نسخ کی لغوی تعریف
یہ نَسَخَ یَنْسَخُ کا مصدر ہے، اس کے دو معانی ہیں: 1۔ اِزالہ ورفع۔ 2۔ نقل وتحویل
1۔اِزالہ ورفع
نسخ کے باب میں اِزالہ کی دو قسمیں ہیں:
1۔کسی چیز کو ختم کرکے دوسری چیز کو اس کی جگہ لے آنا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’ مَا نَنْسَخ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاتِ بِخَیْرٍ مِنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا ‘‘ (البقرۃ: ۱۰۶)
’’جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اُس جیسی اور لے آتے ہیں۔‘‘
نسخ کے معنی میں تبدیلی کا عنصر موجود ہے، اس فرمانِ الٰہی میں اسے بڑی صراحت سے بیان کیا گیا ہے:
’’ وَاِذَا بَدَّلنَآ اٰیَۃً مَکَانَ اٰیَۃٍ وَاللّٰہُ اَعلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ … ‘‘ (النحل: ۱۰۱)
’’اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے، اسے وہ خوب جانتا ہے …‘‘
2۔بغیر عوض کے کسی چیز کو منسوخ کردینا۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’ فَیَنْسَخ اللّٰہُ مَا یُلقِٹ الشَّیْطٰنُ ثُمَ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتہٖ ‘‘ (الحج: ۵۲)
’’پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ دور کرتا ہے، پھر اپنی باتیں پکی کر دیتا ہے۔‘‘
علامہ قرطبی اس آیت کی وضاحت میں یوں رقمطراز ہیں:
’’اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے حکم کو زائل کر دیتے ہیں لہٰذا اس کی تلاوت کی جاتی ہے اور نہ مصحف میں باقی رکھا جاتا ہے۔‘‘ (الجامع لأحکام القرآن: ۲/۶۲)
2۔نقل یا تحویل
یعنی کسی چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ایسے منتقل کرناکہ منتقل شدہ چیز کا وجود بھی باقی رہے، جیسے کہا جاتا ہے: نَسَخْتُ الْکِتَابَ ’’میں نے کتاب نقل کی۔‘‘ اِرشاد باری ہے:
’’ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‘‘ (الجاثیۃ: ۲۹)
’’ہم لکھواتے جاتے تھے جو تم عمل کرتے تھے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نسخ کی اصطلاحی تعریف
علامہ ابن حاجب نسخ کی تعریف میں لکھتے ہیں:
’’ رَفْعُ الحُکمِ الشرعِي بدَلِیل شرعي مُتأَخِّر ‘‘ (النّسخ حُکمہ وأنواعہ لمحمد بن عبید النامي: ص۵۶)
نسخ کی اصطلاحی تعریف میں علما کے مختلف اقوال موجود ہیں، لیکن ابن حاجب کی یہ تعریف جامع، مانع اور مختصر ہے۔
نسخ کی حکمت:
جب رسولِ کریمﷺ کو انسانیت کی راہنمائی کا فرض سونپا گیا، اُس وقت انسانیت جہالت وضلالت کی دَلدل میں پھنسی ہوئی تھی اور خصوصاً عرب معاشرہ،جس میں معاشی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی، مذہبی اور ثقافتی ہر قسم کی برائیاں پائی جاتی تھیں، جو ان کی گھٹی میں رَچ بس چکی تھیں، ان برائیوں کو یکسر ختم دینا ان کے بہت مشکل تھا۔ علاوہ اَزیں مصلحت ِعامہ اور حکمت ِبالغہ کا تقاضا یہ یہی تھا کہ شریعت کے احکام میں ’تدریج‘ کو مد نظر رکھا جائے۔ لہٰذا بعض اوقات ایسا ہوتا کہ ابتدا میں نسبتاً آسان حکم نازل ہوتا اور پھر جب دیکھا جاتا کہ لوگوں کے ذہن ایک جائز حکم کی بجا آوری میں پختہ ہوچکے اور ان کے دل جذبہ اتباع سے لبریز ہو چکے ہیں تو پہلے حکم کو منسوخ کرکے حتمی فیصلہ سنا دیا جاتا۔
علامہ رشید رضا تفسیر المنار ۱؍۴۱۶ میں نسخ کی حکمت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’جس طرح ایک معالج اپنے مریض کے علاج میں حسب ِحالات تغییر وتبدل کر دیتا ہے، اسی طرح حاکم حقیقی بھی مصلحت اور اقتضائے وقت کے لحاظ سے اپنے اَحکام بدلتا رہا۔‘‘
نسخ کے عمومی مزاج سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے احکام تکلیفیۃ میں تخفیف، سہولت اور مصلحت عامہ اور خاصہ کا لحاظ رکھا گیا ہے تاکہ اسلامی احکام ہر دور میں اپنے پیروکاروں کیلئے سود مند ثابت ہوں۔ شارع نے ناسخ ومنسوخ کے عمل سے اسلام کی پہلی کھیپ میں اسلام کی طرف میلان پیدا کرنے اور ان میں اسلام کی محبت راسخ ہونے پر حتمی فیصلہ سنا دیا تاکہ وہ قیامت تک کیلئے ہر دور، ہر نسل کیلئے مفید ہو۔
اس عمل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا پیدا نہیں کیا بلکہ ان کے ذہنی معیارات مختلف ہیں، حاجیات، ضروریات اور تحسینیات کے معیار میں تفاوت ہے۔سابقہ اُمتیں جس چیزکا تقاضہ کرتی تھیں، ضروری نہیں کہ بعد والی اُمت بھی اسکی حاجت محسوس کرے، لہٰذا نسخ کا عمل جاری رہا۔ علامہ تقی عثمانی فرماتے ہیں:
’’نسخ صرف اُمت محمدیہﷺ کی خصوصیت نہیں،بلکہ پہلے انبیا کی شریعتوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ہے، جس کی بہت سی مثالیں موجودہ بائبل میں بھی ملتی ہیں۔ مثلاً بائبل میں ہے کہ سیدنا یعقوب﷤ کی شریعت میں دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز تھا اور خود سیدنا یعقوب﷤ کی بیویاں لیاہ اور راحیل آپس میں بہنیں تھیں، لیکن موسیٰ﷤ کی شریعت میں اسے ناجائز قرار دے دیا گیا۔ سیدنا نوح﷤ کی شریعت میں ہر چلتا پھرتا جاندار حلال تھا، لیکن موسیٰu کی شریعت میں بہت سارے جانور حرام کر دئیے گئے۔ غرض عہدنامہ جدید وقدیم میں ایسی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں جن میں کسی پرانے حکم کو نئے حکم سے منسوخ کر دیا گیا۔‘‘ (علوم القرآن: ص ۱۶۱، مناہل العرفان: ۲؍۱۵۰)
انسانیت جب عنفوانِ شباب کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اُمت ِمحمدیہﷺ پر آیت مبارکہ ’’ اَلیَوْمَ اَکمَلتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِٹ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ‘‘ نازل فرما کر دستورِ اساسی اور احکامِ اسلامی کی تکمیل فرما دی، جس میں نظامِ زندگی کے جملہ اُمور اور ہمہ جہت اُصول متعین کر دئیے تاکہ قیامت تک کسی دوسرے نظام کو وضع کرنے یا تشکیل دینے کی ضرورت نہ پڑے۔
نسخ کے عمومی مزاج کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ عنفوانِ شباب پر پہنچی ہوئی اُمت کیلئے اس طرح کا ایک حتمی دستور پیش کردیا جائے جو تا قیامت ہر دور، ہر نسل کیلئے بدرجۂ اَتم مفید ثابت ہو، جیسے کسی انسان کا جوانی کی عمر میں بنایا ہوا لباس بڑھاپے میں ستر ڈھانپنے کیلئے اسے مکمل طور پر کفایت کرتا ہے، اور اُسے کسی دوسرے کپڑے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نسخ کی اَہمیت وفوائد
ناسخ ومنسو خ کا علم جاننا ہر قاضی اور مفتی کیلئے نہایت ضروری ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس طرح ہوتا ہے کہ جس شخص کو نسخ کا علم نہ ہوتا، صحابہ کرام رض اس کو فتویٰ دینے سے منع کرتے اور نہ ہی اس کو منصب ِقضا پر فائز کیا جاتا۔ سیدنا علی﷜ نے ایک قاضی سے پوچھا :
’’کیا تو ناسخ منسوخ کو پہچانتا ہے؟‘‘ قاضی نے نفی میں جواب دیا، تو فرمایا: ’’تو خود بھی ہلاک ہوا اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔‘‘ (الناسخ والمنسوخ لقاسم بن سلام: ص:۴)
سیدنا ابن عباس﷜ آیت ِکریمہ:
’’ وَمَنْ یُؤتَ الحِکمَۃَ فَقَدْ اُوْتِٹَ خَیْرًا کَثِیْرًا ‘‘ (البقرۃ: ۲۶۹) میں ’حکمت‘ کو قرآن کریم کے ناسخ ومنسوخ، محکم ومتشابہ، مقدم ومؤخر اور حلال وحرام کی معرفت سے تعبیر کرتے ہیں۔
علم ناسخ ومنسوخ کی اہمیت بہت زیادہ ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر علمائے کرام نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف کیں۔ ناسخ ومنسوخ اُصولِ حدیث اور اُصولِ فقہ میں معرکۃ الآرا مسئلہ ہے جو اُصولیوں کو بیداری کاسامان مہیا کرتا ہے۔
نسخ کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی معرفت سے فقہ اسلامی کے عمومی مزاج اور اُسلوب کا پتہ چلتا ہے، جس سے شریعت میں حکمت ِالٰہیہ کا اِظہار ہوتا ہے۔
اس سے خاتم الانبیا والرسلﷺ کی عظمت کا پہلو بھی عیاں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو وہ شریعت دی جو کامل واکمل ہونے کے باوَصف تمام سماوی ادیان کی تعلیمات اور احکام ومسائل کی ناسخ ہے اور تا قیامت زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل راہنمائی کا سامان مہیا کرتی ہے۔ (الإتقان: ۲؍۴۰، الناسخ والمنسوخ: ص ۵ -۷)
قرآن کریم میں نسخ
شرعی احکام میں نسخ کا سلسلہ سابقہ اَدیان سے جاری وساری ہے، دین اسلام میں بھی بہت سے اَحکام منسوخ ہوئے ہیں، مثلاً پہلے بیت المقدس کی طرح رُخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا، بعد میں اس کو منسوخ کر کے بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ اسی طرح ابتدا میں یو مِ عاشوراء کا روزہ فرض تھا، جس کو رمضان کی فرضیت سے منسوخ کر دیا گیا۔ (تفسیر القاسمي: ۱؍۳۲)
قرآن مجید میں نسخ موجود ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
1۔اہل السنہ والجماعہ کا موقف ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں ناسخ ومنسوخ کا سلسلہ موجود ہے۔
2۔ اَبو مسلم اصفہانی، اس کے متبعین (اور عصر حاضر کے بعد متجددین) اہل السنۃ والجماعہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں نسخ موجود نہیں بلکہ تمام آیات محکم اور واجب العمل ہیں۔ (روضۃ الناظر: ۱؍۲۲۱)
غیر مسلموں میں سے یہود ونصاریٰ بھی نسخ کا انکار کرتے ہیں … ذیل میں ہم بالترتیب یہود، نصاریٰ اور ابو مسلم اصفہانی کے شکوک وشبہات کا ردّ پیش کریں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یہود کا اعتراض
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ﷤ پر تورات نازل فرمائی جو ہم تک تواتر سے منقول ہے، اس میں موجود ہے کہ یہ شریعت اس وقت تک قائم ہے جب تک زمین وآسمان قائم ودائم ہیں۔ اسی طرح تورات میں ہے: الزَمُوا یومَ السّبتِ أَبدًا ’’یومِ سبت کی تعظیم ہمیشہ لازم رکھو۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری شریعت کبھی منسوخ نہیں ہوسکتی۔
جواب
شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن القیم اور رحمت اللہ ہندی کی تحقیق کے مطابق تورات کا کوئی صحیح اور غیر محرف نسخہ کہیں نہیں پایا جاتا، اور مزید ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ تورات میں درج ہے کہ:
’’ہارون﷤ نے بنی اسرائیل کیلئے بچھڑے کا انتخاب کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بچھڑے کی عبادت کی طرف برانگیختہ کیا۔‘‘
اور پھر تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ یہود نے ارتداد اختیار کیا، بتوں کی پوجا کرنے لگے اور انبیا علیہم السلام کو شہید بھی کیا۔
سیدنا عبداللہ بن سلام، جو یہود کے سب سے بڑے عالم اور تورات کے حافظ تھے، جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل میں محمدﷺ کے نبی ہونے کی بشارت دی ہے۔
جہاں تک لفظ ِتأبید سے استدلال ہے تو اَبدی حکم بھی منسوخ ہو سکتا ہے، جیسے یہود کیلئے گائے کی قربانی کو سنت ِدائمی قرار دیا گیا (ہٰذِہٖ سُنَّۃٌ لَکُمْ أَبَدًا) اور مزید قربانی کے بارے میں
قَرِّبُوا کُلَّ یَوْمٍ خَرُوفَیْنِ قُرْبَانًا دَائِمًا یعنی’’ہر دن دو مینڈھے ذبح کر کے ہمیشہ تقرب حاصل کرتے رہو۔‘‘ …
اِن مذکورہ دو عبارتوں کا اَبدی حکم یہود کے اپنے اعتراف کے مطابق منسوخ ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نصاریٰ کا اعتراض
نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح﷤ نے فرمایا کہ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ تَزُولَانِ وَکَلَامِي لَا یَزُولُ یعنی ’’زمین وآسمان ختم ہو جائیں گے لیکن میرا کلام منسوخ نہ ہو گا۔‘‘
جواب
نصاریٰ کے پاس موجودہ اِنجیل وہ انجیل نہیں جو عیسیٰu پر نازل ہوئی۔یہ تحریف وتبدیل کے غبار سے اٹی کتاب ہے جس میں نصاریٰ نے تاریخی روایات کو درج کر رکھا ہے اور آج تک عیسائیت اس کی صحت ثابت نہیں کر سکی۔ علاوہ اَزیں مذکورہ بالا پیش کی گئی دلیل امتناعِ نسخ پر مطلقاً دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ جملہ مسیحu کی شریعت میں سے کسی چیز کے نسخ کے امتناع پر دلالت کرتا ہے۔
اور پھرانجیل ِمرقس میں ہے کہ عیسیٰ﷤ کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیا گیا اور بعد میں انہیں حکم ہوا: اذْہَبُوا إِلَی الْعَالَمِ أَجْمَع۔ قولِ ثانی پہلے قول کیلئے ناسخ ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ عیسائیوں کے ہاں بھی نسخ کا ثبوت اور وجود پایا جاتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ابو مسلم اصفہانی کا اعتراض
ابو مسلم اصفہانی معتزلی کی طرف نسخ کے متعلق مختلف اَقوال منسوب کیے جاتے ہیں:
1۔وہ مطلقاً نسخ کا انکار کرتے تھے۔
2۔وہ ایک شریعت میں نسخ کے منکرتھے۔
3۔وہ خاص طور پر قرآن مجید میں نسخ کے نہ پائے جانے کے قائل تھے ۔
ان کی طرف پہلے قول کی نسبت محل نظر ہے، کیونکہ اس کو عقل تسلیم نہیں کرتی کہ کوئی ادنیٰ مسلمان بھی نسخ کا مطلقاً انکار کرے چہ جائیکہ کہ ابو مسلم جیسے جید اُصولی اس کا کلی طور پر انکار کر دیں، فرق صرف اتنا ہے کہ جس کو ہم نسخ کہتے ہیں وہ اس کو تخصیص کا نام دیتے ہیں، اور آخری یعنی تیسرا قول ان کی طرف صحیح نسبت سے ثابت ہے کہ وہ قرآن مجید میں نسخ کے منکر ہیں۔
اَبو مسلم اصفہانی نے قرآنِ مجید میں نسخ کے انکار کیلئے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے:
’’ لَا یَاتِیْہِ البَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ‘‘ (فصلت: ۴۲)
’’اس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے، نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے، خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے۔‘‘
جواب
باطل وہ ہوتا ہے جو حق کے مخالف ہو جبکہ نسخ حق ہے، لہٰذا اس آیت مبارکہ میں باطل کا اطلاق نسخ پر نہیں ہوتا۔
بالفرض اگر یہ مان لیا کہ درج بالا آیت کریمہ میں نسخ کا رد ہے تو بھی یہ نسخ کی تین قسموں میں سے ایک قسم ’حکم منسوخ اور تلاوت باقی‘ پر دلالت کرتی ہے جبکہ باقی دوقسموں میں یہ آیت دلیل نہیں بنتی۔
اس آیت کریمہ کا اصل معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں عقائد عقل کے، احکام، حکمت کے اور اخبار وقائع کے موافق ومطابق ہیں اور قرآنِ مجید کے الفاظ تحریف وتبدل کے غبار سے آلودہ ہونے سے محفوظ ہیں، جیسے فرمانِ باری ہے:
’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُونَ ‘‘ (الحجر: ۹)
اب ہم ذیل میں نسخ کی اقسام اور ان کے مندرجات کا ذکر کرتے ہیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نسخ کی اقسام
جمہور اہل سنت کے نزدیک قرآن مجید اور اَحادیث ِمبارکہ میں بالاجماع نسخ موجود ہے۔ امام سیوطیؒ فرماتے ہیں:
أَجْمَعَتِ الْأُمَّۃُ عَلَیٰ جَوَازِ النَّسْخ (الإتقان: ۲/۴۲)
قرآنی آیات اور اَحادیث ِنبویہ کے تتبع واستقرا سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں نسخ کی تین اقسام موجود ہیں، جن کو امام شرف الدین نوویa نے یوں بیان کیا ہے:
نسخ کی تین قسمیں ہیں:
1۔ جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوں، جیسے رضاعت میں دس گھونٹ
2۔جس کی تلاوت منسوخ ہو لیکن حکم باقی ہو، جیسے رضاعت میں پانچ گھونٹ اور شادی شدہ زانی مرد وعورت کیلئے سنگسار کا حکم
3۔جس کا حکم باقی نہ ہو لیکن اس کی تلاوت باقی ہو۔
نسخ کی یہ قسم اکثر طور پر پائی جاتی ہے، مثلاً ارشادِ باری ہے:
’’ وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِیَّۃً لِاَزْوَاجِھِمْ ‘‘ (البقرۃ: ۲۴۱)
’’وہ لوگ جو تم میں سے وفات پاکر بیویوں کو چھوڑ جاتے ہیں وہ اپنی بیویوں کے لیے وصیت کر جایا کریں۔‘‘
نسخ کی پہلی دو اقسام (حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوں یا تلاوت منسوخ ہو اور حکم برقرار رہے) اگرچہ قرآن مجید میں پائی جاتی ہیں، لیکن بہت کم اور نادر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اس لیے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی تلاوت کریں اور اس میں بیان کردہ احکام پر عمل پیرا ہو کر اپنے رب کی خوشنودی حاصل کریں۔ اور جہاں تک نسخ کی تیسری قسم (حکم منسوخ اور تلاوت باقی ہو) کا تعلق ہے تو یہ قرآنِ مجید میں بکثرت موجود ہے۔ علامہ زرکشی فرماتے ہیں کہ:
’’نسخ کی یہ قسم قرآن مجید کی ۶۳ سورتوں میں پائی جاتی ہے۔‘‘ (الإتقان: ۲/۴۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1- حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوں
اس کی مثال اُم المومنین سیدہ عائشہ رض سے مروی حدیث ہے، فرماتی ہیں:
کَانَ فِیمَا أُنزِل مِن القُرآنِ عَشرُ رَضَعاتٍ مَعلُومَاتٍ یُحرِّمْنَ ثُمّ نُسِختْ بِخَمسٍ مَعلُوماتٍ فتُوفِّيَ رَسولُ اﷲ ﷺ وہِيَ فیما یُقْرأُ مِن الْقُرْآنِ۔(صحیح مسلم: ۱۴۵۲)
’’قرآنِ کریم میں تھا کہ اگر کوئی دس گھونٹ دودھ پی لے تو یہ حرمت میں داخل ہے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور پانچ گھونٹ پینا موجب ِحرمت ٹھہرا، پس رسول اللہﷺ وفات پاگئے اور یہ چیز قرآن پاک میں تلاوت کی جاتی تھی۔‘‘
مذکورہ روایت کا جزء اَول عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ یُحَرِّمْنَ کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہیں جبکہ جزء ثانی خَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ - جو پہلے جزء کا ناسخ ہے - کا حکم باقی اور تلاوت منسوخ ہے۔
سیدنا اَبو موسیٰ اَشعری﷜ فرماتے ہیں:
نزلت ثمّ رفعت۔(الإتقان: ۲/۴۲)
’’یہ آیت نازل ہوئی پھر اِس کو اٹھا لیا گیا۔‘‘
امام سیوطی  امام مکی کا قول نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا:
ہذا المثال فیہ المنسوخ غیر متلو والناسخ أیضا غیر متلو ولاأعلم لہ نظیر۔(أیضًا)
’’یہ وہ مثال ہے جس میں ناسخ ومنسوخ دونوں غیر متلو ہیں اور میں اس مثال کی کوئی اور نظیر نہیں جانتا۔‘‘
اس نوع کی اصل اور بنیاد کے بارے میں کئی ایک دلائل ہیں جیسا کہ قرآن مجیدمیں صحف ِابراہیم﷤، صحف ِموسیٰ﷤ اور دیگر صحیفوں کا بڑی صراحت سے تذکرہ موجود ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاوْلٰی۔ صُحُفِ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰی ‘ (الأعلیٰ: ۱۸، ۱۹)
’’یہی بات پہلے صحیفوں میں مرقوم ہے یعنی ابراہیم اور موسیٰi کے صحیفوں میں۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ وَاِنَّہٗ لَفِی زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ ‘‘ (الشعرائ: ۱۹۶)
’’اور اس کی خبر پہلے نبیوں کے صحیفوں میں لکھی ہوئی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کئی صحیفوں کو نازِل فرمایا جن کی تلاوت ہوتی رہی اور اُن پر عمل بھی ہوتا رہا لیکن اب ان صحیفوں میں سے ہمارے پاس تلاوت کیلئے کوئی چیز ہے نہ عمل کرنے کو، لہٰذا معلوم ہوا کہ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہو سکتے ہیں جو عملاً واقع ہوئے ہیں۔
قراء ت اور حکم دونوں کے منسوخ ہونے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ جن آیات کا نسخ مقصود تھا انہیں اللہ تعالیٰ نے صحابہ ٔ کرام رض کے ذہن سے بالکل بھلا دیا اور وہ کسی کو یاد ہی نہ رہیں۔
چنانچہ سنن بیہقی میں سیدنا اَبو اُمامہ﷜ سے مروی ہے:
’’ایک صحابی﷜ نے رات کو تہجد کی نماز اَدا کرنے کیلئے اُٹھ کر نماز پڑھنا شروع کی۔ جب اُنہوں نے سورہ فاتحہ کے بعد اُس سورت کو - جسے وہ ہمیشہ پڑھا کرتے تھے - پڑھنا چاہا تو وہ بالکل یاد ہی نہ آئی اور وہ سوائے بسم اللہ کے کچھ نہ پڑھ سکے۔ صبح اُنہوں نے اس کا ذکر جب دوسرے صحابہ سے کیا تو اُنہوں نے بھی کہا کہ ہمارا بھی یہی حال ہوا، ہمیں بھی وہ سورت ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود یاد نہ آئی اور اب وہ ہمارے حافظے میں نہیں ہے۔ سب نے سرورِ عالمﷺ کی خدمت ِاَقدس میں یہ معاملہ پیش کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’آج کی شب وہ سورت اُٹھا لی گئی، اس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہو گئے ہیں، حتیٰ کہ جن چیزوں پر وہ لکھی گئی تھی اُن پر اسکے نقوش بھی مٹ گئے، اب وہ باقی نہیں ہیں۔‘‘ (لباب التّأویل في معاني التّنزیل: ۱؍۷۲)
اس مذکورہ فکر کو قرآنِ مجید اس پیرائے میں بیان کرتا ہے:
’’ سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی۔اِلَّا مَا شَاؓئَ اللّٰہُ ‘‘ (الأعلی: ۶، ۷)
’’ہم عنقریب تمہیں پڑھا دیں گے کہ تم اُسے نہیں بھولو گے مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے۔‘‘
اس آیت ِمبارکہ سے معلوم ہوا کہ جیسے اللہ ربُ العزت بھلانا چاہیں، بھلا سکتے ہیں۔ اگر نسیان واقع نہیں ہوا یا آپﷺ کی طرف اس کی نسبت جائز نہیں تو پھر قرآن مجید میں اس کا ذکر بے سود ہے جبکہ قرآن کریم میں کوئی بھی چیز فائدہ سے خالی نہیں۔
اس سے یہ نتیجہ بھی اَخذ ہوتا ہے کہ جن آیات واَحکام کو بھلا دیا گیا ہے اُن کا سرے سے کوئی وجود نہ رہا تو ایسی صورت میں ان کی تلاوت ممکن ہے نہ اُن پر عمل۔(النّسخ حکمہ وأنواعہ: ص۱۷۸)
تلاوت اور حکم دونوں کے نسخ کی حکمت
اللہ علیم وحکیم ہے، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر بے پایاں احسانات ہیں کہ اس کے احکام میں عدمِ حرج، قلت ِتکلیف اور تدریج کی جھلک نمایاں ہے، جن کو فقہ ٔ اِسلامی کے اُصول کہا جاتا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۵)
’’اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ تم پر کوئی تنگی نہیں چاہتا۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جن آیات کی تلاوت اور حکم منسوخ کیا ہے، وہ در اصل اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر قلت ِتکلیف کے اُصول کے تحت اِحسان ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔تلاوت منسوخ، حکم باقی
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے اَلفاظ کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہو لیکن وہ الفاظ جس حکم پر دلالت کریں اس پر عمل کرنے کا اَمر بدستور قائم ہو۔
نسخ کی اس قسم کا قرآنِ کریم میں وجود اس کے وقوع کی بڑی دلیل ہے۔(أیضًا: ص۱۹۰۔)
اس کے دیگر دلائل درج ذیل ہیں:
1۔اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی سابقہ روایت کا دوسرا حصہ محل ِشاہد ہے، فرماتی ہیں:
کَانَ فِیمَا أُنزِل مِن القُرآنِ عَشرُ رَضَعاتٍ مَعلُومَاتٍ یُحرِّمْنَ ثُمّ نُسِختْ بِخَمسٍ مَعلُوماتٍ فتُوفِّيَ رَسولُ اﷲ ﷺ وہِيَ فیما یُقْرأُ مِن الْقُرْآنِ۔(صحیح مسلم: ۱۴۵۲)
’’قرآنِ کریم میں تھا کہ اگر کوئی دس گھونٹ دودھ پی لے تو یہ حرمت میں داخل ہے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور پانچ گھونٹ پینا موجب ِحرمت ٹھہرا، پس رسول اللہﷺ وفات پاگئے اور یہ چیز قرآن پاک میں تلاوت کی جاتی تھی۔‘‘
2۔سیدنا عمر بن خطاب﷜ فرماتے ہیں:
لَوْ لَا أن یقُولَ النّاسُ زَادَ عمرُ في کتابِ اﷲ لکتَبتُ آیۃَ الرَّجم بیدي: (الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوہُمَا الْبَتَّۃَ نَکَالًا مِنَ اﷲِ وَاﷲُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ) فإِنَّا قَد قرَأنَاہَا۔(صحیح البخاری، کتاب الأحکام،باب الشّہادۃ تکون عند الحاکم)
’’اگر مجھے لوگوں کے یہ کہنے کا خوف نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کر دیا ہے تو میں آیت ِرجم (الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوہُمَا الْبَتَّۃَ نَکَالًا مِنَ اﷲِ وَاﷲُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ) کو اپنے ہاتھ سے (مصحف میں) لکھ دیتا، پس ہم نے تو اسے (نبی کریمﷺ کے زمانے میں) پڑھا تھا۔‘‘
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ
دس رضعات اس قسم میں سے ہیں جن کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہیں، جبکہ پانچ رضعات اس (قسم ثانی) سے ہیں جن کی تلاوت منسوخ لیکن حکم برقرار ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیرﷺ، اِمام شافعی اور اَحمد بن حنبل کا عمل بھی اسی اَثر پر ہے اور مجتہدین ِاسلام کا نسخ کی اس قسم پر استدلال اجماعی ہے۔(المُستَصفیٰ للغزالي: ۱؍۷۹، أصول السرخسي: ۲؍۷۸)
سیدنا ابن عباس﷜ سے مروی ہے کہ اَمیر المومنین عمر﷜ نے فرمایا:
إِنَّ اﷲ تَعالیٰ بَعثَ محمّدًا ﷺ وَأنزَل علیہ الکتابَ، فَکانَ مِمّا أَنزَل عَلَیہ آیَۃ الرَّجم فَقَرأناہا وعَقَلنَاہا ووَعَیناہا، فأخشَیٰ إن طَالَ بالنّاس زَمانٌ أن یقُولَ قَائِل: وَاﷲِ مَا نَجِدُ آیۃَ الرّجمِ في کتاب اﷲ فیَضِلُّوا بتَرکِ فَریضۃٍ أَنزَلہَا اﷲُ والرّجمُ في کتَابِ اﷲ حقٌّ عَلیٰ من زَنیٰ إذا أُحصِنَ من الرِّجَالِ وَالنِّسَآء إذا قَامَتِ البَیِّنَۃُ أو کان الحَبلُ أوِ الاعترافُ۔(صحیح البخاري: ۶۸۳۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل کی اور اس میں آیت ِرجم بھی نازل کی گئی جس کو ہم نے پڑھا، سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ ایک لمبا عرصہ گزر نے کے بعد لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگ جائیں کہ ہم کتاب اللہ میں آیت ِرجم کو نہیں پاتے پس وہ ایک ایسے فرض کو ترک کرنے کی بنا پر گمراہ ہوجائیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور رجم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس پر ثابت ہے جس نے شادی شدہ مردوں اور عورتوں میں سے زنا کیا، اس شرط پر کہ اس پر گواہیاں پوری ہو جائیں یا پھر وہ حاملہ ہو جائے یا اِعتراف کر لے۔‘‘
سیدنا انس﷜ سے اَصحابِ بئر معونہ کے بارے میں مروی ہے جو شہید کر دئیے گئے تھے اور ان کے قاتلوں پر بد دُعا کیلئے ایک مہینہ قنوت کیا گیا تھا:
ونَزلَ فیہم قرآنٌ قَرَأنَاہ حَتّیٰ رُفِعَ: (أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنًا أَنْ قَدْ لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا) (صحیح البخاري: ۲۸۰۱)
’’ان کے بارے میں قرآن نازل ہوا (أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنًا أَنْ قَدْ لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا) جس کی ہم نے تلاوت کی حتیٰ کہ اسے بعد میں اُٹھا لیا گیا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تلاوت منسوخ کر کے حکم باقی رکھنے کی حکمت؟
علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں:
’’اس سے اُمت ِمسلمہ کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری بتانا مقصود ہے کہ اس اُمت کے ایسے لوگ بغیر کسی دلیل اور حجت کے صرف ادنیٰ سے اشارہ پر سر تسلیم خم کر دیتے ہیں، محبوب کے حکم کی تعمیل میں انہیں کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ بغیر کہے اس کی منشا اور رضا معلوم کر کے جو کرنا ہے کر گزرتے ہیں۔‘‘ (لباب التأویل في معاني التنزیل: ۱؍۷۶، الإتقان: ۲؍۴۷، ۴۸)
3۔حکم منسوخ لیکن تلاوت باقی
نسخ کی یہ قسم قرآنِ مجید میں بکثر ت پائی جاتی ہے، اِمام زرکشی فرماتے ہیں:
’’یہ قرآن کریم کی ۶۳ سورتوں میں ہے۔‘‘(الإتقان: ۲؍۴۲)
نسخ پر لکھی جانے والی کتابیں عموماً اسی قسم پر مشتمل ہیں، اس کی مثالیں اور دلائل حسب ذیل ہیں۔
1۔ارشادِ باری تعالیٰ:
’’ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ‘‘ (الکافرون: ۶)
’’تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔‘‘
سورۃ الکافرون کا یہ جزء منسوخ ہے اگرچہ اس کی تلاوت باقی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہﷺ مشرکین ِعرب کو دعوتِ اسلام دینے کیلئے مبعوث کیے گئے تھے نہ کہ ان کے اپنے دین پر قائم رہنے پر اپنی رضامندی کے اظہار کیلئے۔ پس ایک خاص حالت میں جب مشرکین غالب تھے اور انہوں نے نہ صرف دعوتِ الٰہی کا انکار کیا بلکہ تمسخر بھی اُڑایا تو اللہ عز وجل کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اے رسولﷺ! آپ ان کافروں سے صاف صاف فرما دیجئے کہ میں نہ تمہارے معبودوں کی پرستش کرتاہوں اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو اور نہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے۔ پس تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔
اِمام رازی فرماتے ہیں:
کلّا! فإنہ ﷺ ما بعث إلا للمنع فکیف یأذن فیہ، ولکن المقصود منہ أحد أمور: أحدہا: إنَّ المقصود التّہدید، کقولہ: { اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ } …(التفسیر الکبیر: ۳۰؍۱۴۷)
’’ہر گز نہیں! آپﷺ کفر کی چھوٹ کیوں دے سکتے تھے جبکہ آپ کو مبعوث ہی اس سے روکنے کیلئے کیا گیا تھا، اس سے مراد اِن اُمور میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے: a یہ الفاظ تہدید کے طور پر استعمال ہوئے ہوں، جیسے ارشادِ باری ہے: { اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ } … ‘‘
2۔ارشادِ باری تعالیٰ:
’’ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۰)
’’جب تم میں سے کسی کو موت آ جائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اَقربا کیلئے وصیت کرنا فرض قرار دے دیا گیا ہے،یہ حکم متقین پر لازمی ہے۔‘‘
یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب وراثت کے احکام نہ اُترے تھے، اس میں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرے کہ اس کے والدین اور رشتہ داروں کو کتنا کتنا مال تقسیم کیا جائے۔
اہل ِعلم کی ایک کثیر تعداد اس آیت کو منسوخ قرار دیتی ہے۔ اس کی ناسخ آیت ِکریمہ: ’’ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِی اَوْلَادِکُمْ ‘‘ (النّسائ: ۱۱) ہے۔ بعض علما کے نزدیک اس آیت کا ناسخ فرمانِ نبویﷺ: ( لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ) (جامع الترمذی: ۲۱۲۰) ہے۔
علامہ ابن منذر اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أجمع کل من نحفظ من أہل العلم علی أن الوصیۃ للوالدین الذین لا یرثان والأقرباء الّذین لا یرثون جائزۃ۔(حاشیۃ علیٰ روضۃ النّاظر: ۱؍۲۳۲)
’’تمام اہل ِعلم کا اس بات پر اجما ع ہے کہ صرف اُن والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں وصیت جائز ہے جو وارث نہ بن رہے ہوں۔‘‘
بعض اہل ِعلم کا کہنا ہے کہ وصیت کا وجوب منسوخ ہے اور استحباب باقی ہے۔
مزید برآں!
یہ کہ وصیت والی آیت منسوخ ہے لیکن ان والدین اور اقربا کیلئے جو اَسباب منع ارث کے تحت وارث نہ بن رہے ہوں یا وہ ورثا جو کثیر العیال ہوں اور وراثت سے ان کا حصہ کم ہو تو دوسرے ورثا سے موافقت لے کر ان کے حق میں وصیت کا جواز فراہم کرتی ہے۔
3۔آیت کریمہ:
’’ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۴) منسوخ ہے اور اس کی ناسخ آیت ’’ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۵) ہے۔
ابتدائے اسلا م میں روزوں کی فرضیت میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جس میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا اِختیار تھا لہٰذا جو روزہ نہ رکھنا چاہتا اُس پر اُسکے بدلے میں فدیہ - جو کہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کے برابر تھا - اَدا کرنے کا حکم تھا۔ چنانچہ بعد والی آیت نے روزہ رکھنے پر قادر لوگوں کیلئے اس اختیار کو منسوخ کر دیا اور عاجز، بوڑھے، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کیلئے اس رُخصت کو برقرار رکھا، جس کی تائید اَحادیث ِمبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس﷜ فرماتے ہیں:
’’بوڑھے مرد اور عورت روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن ان کیلئے رخصت تھی کہ وہ چاہیں تو روزہ رکھیں، چاہیں تو روزہ نہ رکھیں اور ہر دن کے بدے کسی مسکین کو کھانا کھلا دیں، پھر یہ رخصت آیت کریمہ: ’’ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘‘ سے منسوخ ہو گئی اور اُن بوڑھے مرد وعورت کیلئے برقرار رہی جو روزہ نہ رکھ سکیں۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی کو جب روزہ رکھنا مشکل لگے تو اُن کیلئے بھی یہ رُخصت ہے۔‘‘ (أبو داؤد: ۸؍۲۳)
4۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۳)
اس آیت کریمہ میں اہل کتاب کی طرح روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا کہ رات کو سو جانے سے پہلے پہلے کھانے کی اِجازت تھی، اور اگر کوئی سو گیا تو اس پر کھانا اور بیوی دونوں حرام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمت ِمحمدیہ پر قلت ِتکلیف کے پیش نظر اس کو منسوخ کر دیا۔
عمر بن خطاب اور قیس بن صرمہ رض سے پیش آنے والے واقعات اس ناسخ آیت کے نزول کا سبب بنے: ’’ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاؓئِکُمْ … وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۷)
پہلی آیت میں لفظ کما میں حکم اور وصف دونوں پائے جاتے ہیں۔ اس مذکورہ آیت سے حکم بعینہٖ باقی رہا لیکن وصف منسوخ ہو گیا۔
5۔آیت ِکریمہ:
’’ وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اﷲِ ‘‘ (البقرۃ: ۱۱۵) تحویل ِقبلہ والی آیت: ’’ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ ‘‘ (البقرۃ: ۱۴۴) سے منسوخ ہے۔
پہلی آیت یہود پر رد کرنے میں محکم ہے جنہوں نے یہ طعن کیا تھا کہ یہ کیسا دین ہے جو لوگوں کے قبلے تبدیل کررہا ہے، لیکن جہت ِقبلہ کے اعتبار سے منسوخ ہے۔
پہلی آیت سواری پر نفلی عبادت کی ادائیگی کی رخصت فراہم کرتی ہے لیکن دوسری آیت فرض نمازوں میں قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے وجوب کا فائدہ دیتی ہے۔(مناہل العرفان: ۲؍۱۵۹)
نسخ کی اس نوع کے بارے میں مزید تفصیل کیلئے امام سیوطی کی کتاب الإتقان في علوم القرآن،علامہ زرقانی کی کتاب مناہل العرفان اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب الفوز الکبیر في أصول التفسیر کا مطالعہ مفید رہیگا۔
 
Top