قربانی کے تین دن ہیں
(حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ،الحدیث:44)
(حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ،الحدیث:44)
سلیمان بن موسی نے سیدنا جبیر بن مطعمؓ کو نہیں پایا،امام بیہقیؒ نے اس روایت کے بارے میں فرمایا:’’مرسل‘‘ یعنی منقطع ہے۔(السنن الکبری ج۵ص۲۳۹،ج۹ص۲۹۵)۔
امام ترمذی کی طرف منسوب کتاب العلل میں امام بخاری سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا:’’سلیمان لم یدرک احدا من اصحاب النبیﷺ‘‘
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی صحیح دلیل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ سلیمان بن موسی نے سیدنا جبیر بن مطعمؓ کو پایا ہے۔سلیمان نے نبی کریمﷺ کے صحابہ میں سے کسی کو بھی نہیں پایا۔(العلل الکبیر۱/۳۱۳)۔
روایت نمبر۲:
صحیح ابن حبان(الاحسان:۳۸۴۳،دوسرا نسخہ:۳۸۵۴) والکامل لابن عدی(۱۱۱۸/۳،دوسرا نسخہ۲۶۰/۴) والسنن الکبری للبیہقی(۲۹۵/۹) اور مسند البزار(کشف الاستار۲۷/۲ح۱۱۲۶) وغیرہ میں’’سلیمان بن موسی عن عبدالرحمن بن ابی حسین عن جبیر بن مطعم‘‘ کی سند سے مروی ہےکہ(و فی کل ایام التشریق ذبح)) سارے ایام تشریق میں ذبح ہے۔ یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:۱:حافظ البزار نے کہا ہے:عبد الرحمن ابن ابی حسین کی جبیر بن مطعم سے ملا قات نہیں ہوئی
(البحرالزخار۳۶۴/۸ح۳۴۴۴،نیز دیکھئے نصب الرایہ ج۳ص۶۱ و التمہید نسخہ جدیدہ۲۸۳/۱۰)
۲:
لہذا یہ مجہول الحال ہے۔عبد الرحمن بن ابی حسین کی توثیق ابنِ حبان(الثقات۱۰۹/۵) کے علاوہ کسی اور سے ثابت نہیں ہے
روایت نمبر۳:طبرانی (المعجم الکبیر۱۳۸/۲ح۱۵۸۳)بزار(البحرالزخار۳۶۳/۸ح۳۴۴۳)بیہقی(السنن الکبری۲۳۹/۵،۲۹۲/۹) اور دارقطنی(السنن۲۸۴/۴ح۴۷۱۱) وغیرہم نے‘‘سوید بن عبدالعزیز عن سعید بن عبد العزیز التنوخی عن سلیمان بن موسی عن نافع بن جبیر بن مطعم عن ابیہ’’ کی سند سے مرفوعا نقل کیا کہ((ایام التشریق کلھا ذبح)) تمام ایام تشریق میں ذبح ہے۔
حافظ ہثیمی نے کہا :‘‘و ضعفہ جمھور الائمۃ’’ اور اسے جمہور اماموں نے ضعیف کہا ہے۔(مجمع الزوائد۱۴۷/۳)۔اس روایت کا بنیادی راوی سوید بن عبدالعزیز ضعیف ہے۔(دیکھئے تقریب التہذیب:۲۶۹۲)
روایت نمبر۴:ایک روایت میں آیا ہے کہ‘‘عن سیلمان بن موسی أن عمرو بن دینار حدثہ عن جبیر بن مطعم أن رسول اللہﷺ قال:کل ایام التشریق ذبح’’۔(سنن دارقطنی ح۴۷۱۳،والسنن الکبری للبیہقی ۲۹۶/۹)۔
یہ روایت دو وجہ سے مردود ہے:
۱:اس کا راوی احمد بن عیسیٰ الخشاب مجروح ہے۔(لسان المیزان ج۱ص۲۴۰،۲۴۱)
۲: عمرو بن دینا ر کی جبیر بن مطعم سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔(الموسوعۃ الحدیثہ ج۲۷ص۳۱۷)
۔تنبیہ:ایک روایت میں‘‘ الولید بن مسلم عن حفص بن غیلان عن سلیمان بن موسی عن محمد بن المکندر عن جبیر بن مطعم’’ کی سند سے آیا ہے کہ‘‘ عرفات موقف و ادفعوا من عرنۃ و المزدلفۃ موقف وادفعوا عن محسر’’۔(مسند الشامیین۳۸۹/۲ح۵۵۶)
اس روایت کی سند میں ولید بن مسلم کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس میں ایام تشریق میں ذبح کابھی ذکر نہیں ہے۔
آثار صحابہ:روایت مسٔولہ کے ضعیف ہونے کے بعد آثار صحابہ کی تحقیق درج ذیل ہے۔خلاصہ التحقیق:ایام تشریق میں ذبح والی روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔لہذٰا اسےصحیح یا حسن قرار دینا غلط ہے۔
۱:سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعاٰلی عنہ نے فرمایا:‘‘الاضحی یومانِ بعد یوم الاضحی’’ قربانی والے دن کے بعد (مزید) دو دن قربانی (ہوتی) ہے۔
(موطا امام مالک ج۲ص۴۸۷ح۱۰۷۱ و سندہ صحیح،السنن الکبری للبیہقی ۲۹۷/۹)
۲:سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا:‘‘النحر یومان بعد یوم النحر و افضلھا یوم النحر’’
۳:سیدنا انس بن مالکؓ نے فرمایا:الاضحی یومان بعدہ’’قربانی کے دن کے بعد دو دن قربانی ہے اور افضل قربانی نحر والے(پہلے) دن ہے۔(احکام القران للطحاوی ۲۰۵/۲ح۱۵۷۱،وسندہ حسن)
۔(احکام القران للطحاوی۲۰۶/۲ح۱۵۷۶،وھو صحیح)قربانی والے(اول) دن کے بعد دو دن قربانی ہوتی ہے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:‘‘النحر ثلاثۃ ایام’’ قربانی کے تین دن ہیں۔(احکام القران للطحاوی۲۰۵/۲ح۵۶۹،وھو حسن)۔
تنبیہ:احکام القران میں‘‘حماد بن سلمہ بن کھیل عن حجتہ عن علی’’ ہے۔جبکہ صحیح حماد بن سلمہ بن کھیل عن حجیۃ عن علی’’ ہے جیسا کہ کتب اسماء الرجال سے ظاہر ہے اور حماد سے مراد حماد بن سلمہ ہے۔والحمدللہ
ان کے مقابلے میں چند آثار درج ذیل ہیں:
۱:
حسن بصری
نے کہا:
۔(احکام القران للطحاوی۲۰۶/۲ح۱۵۷۷ و سندہ صحیح)عید الاضحی کے دن کے بعدتین دن قربانی ہوتی ہے
۲:عطا(بن ابی رباح) نے کہا: ایام تشریق کے آخر تک (قربانی ہے)۔(احکام القران۲۰۶/۲ح۱۵۷۸ وسندہ حسن)
۳:عمر بن عبد العزیز نے فرمایا:الاضحی یوم النحر و ثلاثۃ ایام بعدہ۔قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے۔(اسنن الکبری للبیہقی ۲۹۷/۹ و سندہ حسن)
امام شافعی اور عام علماء اہل حدیث کا فتوی یہی ہے کہ قربانی کے چار دن ہیں۔ بعض علماء اس سلسلے میں سیدنا جبیر بن مطعمؓ کی طرف منسوب روایت سے بھی استدلال کر تے ہیں لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ ثابت کیا جا چکا ہے۔
ان سب آثار میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول راجح ہے کہ قربانی تین دن ہے،عید الاضحٰی اور دو دن بعد۔
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن مصنف ابن ابی شیبہ(مطبوع) میں یہ روایت نہیں ملی۔واللہ اعلمابنِ حزم نے ابن ابی شیبہ سے نقل کیا ہے کہ‘‘سیدنا ابوہریرہ نے فرمایا کہ قربانی تین دن ہیں’’۔(المحلی ج۷ص۳۷۷مسئلہ:۹۸۲)
فائدہ:نبی کریمﷺ نے ابتداء میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیاتھا،بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا۔یہ ممانعت اس کی دلیل ہے کی قربانی تین دن ہے والا قول ہی راجح ہے۔
اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ سے صراحتا اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور آثار میں اختلاف ہے لیکن سیدنا علیؓ اور جمہورصحابہ کا یہی قول ہےکہ قربانی کے تین دن ہیں(عید الاضحیٰ اور دو دن بعد) ہماری تحقیق میں یہی راجح ہے اور امام مالک وغیرہ نے بھی اسے ہی ترجیح دی ہے ۔واللہ اعلم
اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ سے صراحتا اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور آثار میں اختلاف ہے لیکن سیدنا علیؓ اور جمہورصحابہ کا یہی قول ہےکہ قربانی کے تین دن ہیں(عید الاضحیٰ اور دو دن بعد) ہماری تحقیق میں یہی راجح ہے اور امام مالک وغیرہ نے بھی اسے ہی ترجیح دی ہے ۔واللہ اعلم