• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی ہمیں کیا سکھاتی ہے؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

قربانی ہمیں کیا سکھاتی ہے​

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم أما بعد:

محترم قارئین!

لفظ قربانی یہ قربان سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہوتا ہے نزدیک ہونااور اصطلاح میں قربانی ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے خواہ وہ ذبیحہ کے ذریعے ہو یا پھر کسی اور چیز سے،جیسا کہ رب العالمین کا فرمان ہے:’’ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ‘‘ اور آدم کے ان دونوں بیٹوں کا حال بھی انہیں سنا دیجئے جنہوں نے اپنا اپنا نذرانہ پیش کیاتو ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی۔۔۔۔(المائدہ:27)

برادران اسلام!

قربانی صرف مہنگے سےمہنگے جانور خرید کر ذبح کردینے کا نام نہیں ہے،قربانی صرف خون بہانے کا نام نہیں ہے،قربانی صرف گوشت سےعمدہ ڈشیں تیار کرکے لطف اندوز ہونے کا نام نہیں ہے،بلکہ یہ قربانی چارروزہ دینی واخلاقی اور تربیتی ٹریننگ اور ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر آن و ہر لمحہ اور پورے ماہ وسال کے اندر تسلیم ورضا،خودسپردگی وخاکساری کے جذبات سے آشنا کرواتی ہے، اس کے پیچھے کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور اس قربانی کے ذریعے بھی رب العالمین ہم سب کو بہت کچھ تعلیم دینا چاہتے ہیں مگر افسوس صد افسوس آج ہم سب کو قربانی کا جانور تو یاد رہا مگر قربانی کی حکمتیں اور قربانی کی تعلیم کو ہم نے یکسر ہی بھلا دیا ہے،یقینا دسویں ذی الحجہ کے دن سب سے افضل عمل اللہ کی رضا وخوشنودی کے لئےجانور ذبح کرنا ہےمگر رب العالمین کو قربانی کے جانور سے نہ تو گوشت مطلوب ہے اور نہ ہی خون مقصود ہے بلکہ مطلوب ومقصود تو کچھ اور ہی ہے،آئیے مندرجہ ذیل میں قربانی ہمیں کیا سکھاتی ہے ؟قربانی کا کیا پیغام ہے ؟قربانی ہمیں کیا تعلیم دیتی ہیں؟ اس سلسلے میں کچھ باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ،ویسے قربانی تو ایک عظیم عبادت ہے اور ہرعبادت کو ہمیں رب العالمین کا حکم سمجھ کرٹھیک اسی طرح سے ادا کرنی چاہیے جس طرح سے ایک بیل ہل جوتتا ہے مگر مقصد کا اسے علم نہیں ہوتا ہےکہ اس سے ایسا کیوں کرایا جارہا ہے؟مقصد تو کسان جانتا ہے مگر پھر بھی وہ بس اپنے مالک کے اشاروں پر پورے کھیت کا چکر لگا کر کھیت کو جوتنے میں مصروف رہتا ہے۔

(1) قربانی ہمیں متقی ومخلص بنانے کے لئے ہرسال آتی ہے:

قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے اندر تقوی وللہیت کی صفت پیداکرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام عملوں کے اندر خلوص پیداکریں،نیک اعمال کو انجام دیتے وقت ہمارے دلوں میں کسی بھی قسم کی کوئی ریاکاری کا جذبہ نہ ہواورنہ ہی دل کے اندر اللہ کے راہ میں اپنے مال کو خرچ کرنے کے تعلق سے کوئی رنج وملال ہوجیسا کہ رب العالمین کا کہنا ہے:’’ لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ‘‘ اللہ رب العالمین کو قربانیوں کے نہ تو گوشت مطلوب ہے اور نہ ہی خون مقصود ہے بلکہ اللہ رب العالمین کو تو تمہارے دلوں کی ہیزگاری ،تقوی وللہیت مطلوب ومقصود ہے۔(الحج:37)پتہ یہ چلا کہ قربانی کے ذریعے رب العالمین کا ہم بندوں کے نام یہی پیغام ہے اور رب العالمین ہمیں یہی تعلیم دینا چاہتا ہے کہ ہمارے اندر تقوی وللہیت کی صفت پیدا ہوجائے یعنی کہ اللہ ہم سب کو متقی ومخلص بنانا چاہتا ہے،اور یہ تقوی واخلاص دو ایسی چیزیں ہیں جو ہر مسلمان سے مطلوب ومقصود ہے اور جب تک ایک مسلمان کے اندر یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ نہ پائی جائیں گی اس کے نیک اعمال کی عنداللہ کوئی حقیقت نہیں،افسوس آج ہم نے قربانی کو اپنا سٹیٹس دکھانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے مہنگے سے مہنگا جانور اس لئے خریدتے ہیں تاکہ سماج ومعاشرے کے اندر ہمارے جانور کی تعریف کی جائے اور لوگ ہمارا نام لیں،لوگ ہماری تعریفوں کے پل باندھےاور تو اور ہے آج کل یہ وبا بھی بہت عام ہے کہ لوگ اپنے اپنے جانوروں کی تصاویر اور ویڈیوں اپنے شوشل اکاؤنٹ پر شیئر کرکے لائک اور کمنٹ چاہتے ہیں،جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں ان کو اپنی قربانی کی فکر کرنی چاہئےکیونکہ جس نے بھی اپنا نیک عمل لوگوں کے دکھانے کےلئے کیا اس کے نیک اعمال تباہ وبرباد ہوجائیں گےجیساکہ فرمان مصطفیﷺ ہے:’’ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ‘‘ میں تم پر سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ ہے شرک اصغر!صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ ‘‘ یہ شرک اصغر ہے کیا چیز؟تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ الرِّيَاءُ ‘‘ شرک اصغر یہ ریاکاری اور دکھاوا ہے،(پھر آپﷺ نے فرمایا کہ سنو) ’’ يَوْمَ تُجَازَى الْعِبَادُ بِأَعْمَالِهِمْ اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ بِأَعْمَالِكُمْ فِي الدُّنْيَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً ‘‘ کل بروزقیامت رب العالمین یہ ارشاد فرمائے گا کہ اے لوگوں دنیا کے اندر جن جن کو دکھانے کے لئے تم نیک اعمال انجام دیتے تھےآج ان کے پاس جاؤ اور جا کر دیکھو کہ کیا ان کے پاس تمہارے لئے کوئی اجروثواب اور بدلہ ہے۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:951،مسند احمد:23630)قربانی کے قبول ہونے کےتعلق سے یہ بات یاد رکھ لیں کہ آپ کی قربانی اسی وقت اور اسی دن قبول ہوئی یا نہیں ہوئی کا فیصلہ ہو چکا ہے جب آپ نے جانور خریدا تھا!!

(2) قربانی ہمیں مؤحد بناناچاہتی ہے:

قربانی کے ذریعے ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ہم ہر طرح کے شرک وکفر سے دوری اختیار کرکےمؤحد بن جائیں،جیسا کہ ہم سے جانتے ہیں کہ جب قربانی کا جانور ذبح کیا جاتا ہے تو جو دعا پڑھی جاتی ہے اس کے اندر یہ آیت بھی موجود ہوتی ہے ،پڑھنے والا پڑھتا بھی ہے مگر وہ اس کی اہمیت سے یکسر ہی نابلد ہوتا ہے،فرمان باری تعا لی ہے:’’ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ‘‘ آپ فرمادیجئے کہ یقینا میری نماز اور میری ساری عبادتیں اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔(الانعام:162-163)کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمان قربانی بھی کرتے ہیں،قربانی کے جانور کے حلق پر چھری پھیرتے وقت یہ کہتے بھی ہیں کہ میرا جینا مرنا سب اللہ کے لئے ہے مگر پھر بھی غیروں سے نفع ونقصان کی امید لگائے بیٹھے رہتے ہیں،اور کیا بتاؤں میں آج تو مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جو قربانی کرنا تو جانتی بھی نہیں ہے مگر وہ غیراللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا ،گیارہویں کرنا پورےذوق وشوق سے کرتی ہے بلکہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ اگر ولیوں کے نام سے جانور ذبح نہ کیا جائے تو پھر پورا سال ہمارا برباد ہوجائے گا ،ہم ہلاک وبرباد ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ،جب کہ قربانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ جانور ذبح کرو تو صرف اور صرف اللہ کی رضا وخوشنودی کے لئے اور اگر کسی نے غیروں کی رضاوخوشنودی چاہی تو پھر وہ ملعون ومغضوب الہی ہے جیسا کہ حبیب کبریامحمدعربیﷺ کا فرمان ہے :’’ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ ‘‘کہ جس کسی نے بھی غیراللہ کے نام سے جانور ذبح کی اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ (مسلم:1978)

(3) قربانی جوانی اور ایام صحت میں عبادت کرنا سکھاتی ہے!

(4) قربانی ہمیں اپنے اپنے دلوں کو پاک وصاف رکھنا سکھاتی ہے!

(5) قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اللہ صرف پاک اور حلال چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے!

ہم اور آپ جانتے ہیں کہ قربانی کےشرائط میں سے یہ بات مسلم ہے کہ قربانی کا جانورعیوب و نقائص سے پاک وصاف ہو،قربانی کا جانورتندرست اورتوانا ہو،لاغر اور کمزور نہ ہو،لنگڑا ،اندھااور کان کٹا نہ ہو،مذکورہ بالا تمام باتوں کے اندر ہمارے لئے یہ پیغام ہوتا ہے کہ ہم اپنی جوانی اور صحتمندی کوغنیمت جانیں اور جوانی میں اللہ کی عبادت کریں اور جوانی کی عبادت ہی تو اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے،ہم اور آپ جوان اور تندرست وتواناجانورقربانی کے لئے خرید کر لا تولیتے ہیں مگر ہم خود جوانی میں اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور بڑھاپے کا انتظارکرتے رہتے ہیں،ہم خود ایام صحت کو غنیمت نہیں سمجھتے اور ایام مرض میں اللہ اللہ کرتے رہتے ہیں،کمال یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی عبادت و بندگی بڑھاپے اور ایام مرض میں کریں بلکہ کمال تو تب ہے جب ہم عین جوانی اور ایام صحت میں اللہ کی عبادت وبندگی کریں،شیخ سعدی نے کیا ہی خوب کہا ہے:

درجوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری است

وقت پیری گُرگ ظالم میشود پرہیزگار​

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جوانی میں توبہ وبندگی کرنانبیوں اوررسولوں کا طریقہ ہے ورنہ بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی شریف بن جاتا ہے

محترم قارئین !جس طرح سے قربانی کے صحیح ہونے کے لئے قربانی کے جانور کا بے عیب ہونا ضروری ہے اسی طرح سے ہماری نجات کے لئے اور جنت پانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے دل کو ہرطرح کے کفر وشرک کی آلودگیوں ،بدعات وخرافات کی نجاستوں اور اخلاقی رذالتوں جیسے کہ بغض وعداوت،کینہ کپٹ،حسد وجلن جیسی قبیح عادتوں سے پاک وصاف رکھیں جیسا کہ رب العالمین کا فرمانا ہے: ’’ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ،إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ‘‘ یعنی کہ جس دن مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی لیکن (فائدے میں وہی شخص رہے گا) جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر آئے گا۔(الشعراء:88-89)اور آپ ﷺ نے بھی جنت کی بشارت دی تھی اس آدمی کے بارے میں جو کسی بھی مسلمان سے بغض وعداوت نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی حسد کا جذبہ اپنے سینے میں پالتا تھا کہ جیسا کہ انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آپﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ يَطْلُعُ عَلَيْكُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ‘‘ ابھی کچھ ہی دیر میں تمہارے سامنے میں ایک جنتی آدمی آنے والا ہے!انسؓ کہتے ہیں کہ ابھی کچھ ہی دیر ہواتھا کہ ایک انصاری صحابی اس حال میں آتے ہوئے نظر آئے کہ ان کے ڈاڑھی سے وضو کے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے اور انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ میں اپنا جوتا اٹھا رکھا تھا،تین دن آپﷺ نے ایسا کہا اور تینوںمرتبہ وہی انصاری صحابی نظر آئے حقیقت حال جاننے کے لئے عبداللہ بن عمروبن عاصؓ ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور کہا کہ میں نے اپنے والدسے قسم اٹھا لی ہے کہ تین دن تک گھر نہیں آؤں گا لہذا کیا آپ مجھے اپنے گھر میں ٹھہرنے کی اجازت دیں گے ،آپ جوکریں گے میں بھی وہی کروں گا،انصاری صحابی نے عبد اللہ بن عمروبن عاص کو اپنےیہاں رکنے کی اجازت دے دی۔

عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں تین دن تک ان کے پاس ٹھہرارہا لیکن کسی رات انہوں نے قیام بھی نہیں کیا ہاں وہ انصاری صحابی اتنا ضرور کرتے تھے کہ جب بھی ان کی آنکھ کھل جاتی اور جب بستر پر سے اٹھتے تو اللہ کا ذکر ضرور کیا کرتے اور فجر کی نماز کو اٹھ جایا کرتے تھےاور ہمیشہ خیر کی بات ہی کیا کرتے تھے،جب تین راتیں گذرگئیں اور میں اپنی ساری محنتوں کو حقیر سمجھنے لگا تو میں نے انہیں کہا کہ اے انصاری صحابی میرے اور والد کے درمیان ایسی ویسی کوئی ناراضگی نہیں ہے کہ میں نے اپنا گھر تین دن کے لئے چھوڑدیا ہے بلکہ میں نے آپﷺ کو تین مرتبہ ایسا اور ایسا کہتے ہوئے سنا اور تینوں مرتبہ آپ ہی نظر آئے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں آپ کے اعمال کو دیکھوں تاکہ میں بھی وہ عمل کرکے جنت میں داخل ہوسکوںمگر میں نے تو آپ کو زیادہ کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا پھر آپ اس مقام تک کیسے پہنچ گئے؟انصاری صحابی نے بھی کہا کہ :’’ مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ غَيْرَ أَنِّي لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ غِشًّا وَلَا أَحْسُدُ أَحَدًا عَلَى خَيْرٍ أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ ‘‘ عمل تو وہی ہے جو آپ نے دیکھا،ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے متعلق کوئی کینہ نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی مسلمان کو ملنے والی نعمتوں پر اس سے حسد کرتا ہوں،یہ سن کر عبداللہؓ نے کہا کہ’’ هَذِهِ الَّتِي بَلَغَتْ بِكَ وَهِيَ الَّتِي لَا نُطِيقُ ‘‘ یہی وہ چیز ہے جس نے آپ کو جنتی بنایا ہے اور جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔(مسند احمد:12697 اسنادہ صحیح)

کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم بے عیب جانور تو قربانی کرلیتے ہیں مگرتمام برائیوں جیسے جھوٹ،غیبت وچغل خوری،ظلم وزیادتی وغیرہ کو گلے لگائے رکھتے ہیں!!

برادران اسلام !قربانی کے صحیح ہونے کے لئےجانور کا تمام عیوب سے پاک ہونایہ اس بات کی دلیل ہے اللہ کی رضا وخوشنودی کے لئے جو مال خرچ کی جائے وہ حلال کمائی سے ہو،جس طرح سے عیب دار جانور قربانی کے لئے قابل قبول نہیں ٹھیک اسی طرح سے حرام مال بھی راہ خدا میں قابل قبول نہیں ،جس طرح سے جانور کا عیب قربانی کے قبول ہونے میں رکاوٹ ہے اسی طرح سے حرام کمائی اور حرام دولت بھی عبادتوں کے قبول ہونے میں رکاوٹ ہےجیسا کہ جان رحمتﷺ کا فرمان ہے:’’ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ ‘‘ کہ اے لوگو! اللہ پاک ہے اور صرف پاک وحلال چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دیا ہے ،فرمان باری تعالی ہے:’’ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ‘‘ اے رسولو!حلال چیزیں ہی کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کررہے ہو اس سے اللہ بخوبی واقف ہے(المومنون:51)ایک دوسری جگہ اللہ نے فرمایا: ’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ‘‘ اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو۔(البقرۃ:172) پھر آپﷺ نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا جو بہت دوردراز کا سفر کرتا ہے،تھکاوٹ سے چور ہوچکاہے اور گردوغبارسے بھراہوا ہےاور پھر ایسا مسافر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر رب کے حضور’’ يَا رَبِّ يَا رَبِّ ‘‘ کہہ کہہ کر دعا ئیں کرتا ہے حالانکہ ’’ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ ‘‘ اس کا کھانا،پانی اور لباس حرام کمائی سے ہے بلکہ اس کی پرورش بھی حرام کمائی سے ہورہی ہےتو پھر’’ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ ‘‘ ایسی صورتوں میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوں گی۔ (مسلم:1015)

(6) قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ وہی عمل قابل قبول ہے جو فرمان مصطفی ﷺسے ثابت ہو:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نزدیک وہی عمل قابل قبول ہے جو فرمان مصطفیﷺ سے ثابت ہو اور وہ عمل کسی بھی حال میں مقبول نہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ سے ہٹ کر ہو گرچہ وہ چیز کتنی اچھی ہی کیوں نہ ہو اور یہی سبق اور یہی پیغام ہمیں قربانی کے جانور کے ذریعے ہرسال دیا جا تا ہے وہ اس طرح سے کہ قربانی تبھی قابل قبول ہوگی جب انسان عیدالاضحی کی نماز کے بعد ذبح کرے اگر کسی نے عیدالاضحی کی نماز پڑھے بغیر جانور ذبح کرلی تو پھر اس کی قربانی قربانی نہیں بلکہ صرف گوشت کھانا اور مزہ کرنا ہے جیسا کہ براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کے مامو یا خالو نے عیدالاضحی کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی اپنے جانور کو ذبح کردیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ ‘‘ نماز سے پہلے تمہارا جانور ذبح کرنا یہ صرف گوشت ہے قربانی نہیں ہےپھر آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ سنو!’’ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ ‘‘ جس نے بقرعید کی نماز پڑھنے سے پہلے اپنے جانور کو ذبح کرلیا تو اس نے محض اپنے نفس کے لئے ہی ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اسی کی قربانی قابل قبول ہے اور ایسا کرنے والا ہی مسلمانوں کی سنت کو پائے گا۔ (بخاری:5546،مسلم:1962)

(7) قربانی ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے سامنے سرنڈرکرنا سکھاتی ہے:

جب ہم قربانی کرتے ہوئے جانور کے حلقوم پر چھری چلاتے ہیں تو اس وقت قربانی ہمیں یہ درس وپیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ہم اپنی تمام خواہشات کو اللہ کے حکم پر قربان کردیں،قربان شدہ جانور جس کی آنکھیں ذبح کے بعدکھلی رہتی ہیں اس وقت وہ ہمیں یہ خاموش پیغام دے رہی ہوتی ہیں کہ جس طرح سے تم نے یہ جانورذبح کردئے تو کیا تم اپنے برے اعمال کو چھوڑنے اور نفس امارہ کی قربانی کردینے کا فیصلہ لے لیا ہے،قربانی ہمیں تو یہی سکھاتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے سامنے ٹھیک ویسے ہی سرنڈر کردیں جیسے مردہ غسال کے ہاتھوں میں چلاجاتاہے ،جب روح پرواز کرجاتی ہے تو مردے کی کوئی خواہش اور حرکات وسکنات باقی نہیں رہتی ہے،اب غسال اسے جس طرح سے چاہے الٹے پلٹے،دائیں کریں یا پھر بائیں کریں،پیٹ کے بل لٹادے یا پھر کمر کے بل اب بندہ کسی چیز اور عمل پر قادر نہیں ہے اور یہی تو ایک مومن کی پہچان ہے جیسا کہ انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حبیب کبریامحمدعربیﷺ نے فرمایا:’’ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ، وَأَهْلِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ‘‘ یعنی کہ تم اس وقت تک کامل ایمان والے ہوہی نہیں سکتے ہو جب تک کہ تم اپنے مال اور اپنے اہل و عیال (اپنی اولاد،اپنے والدین اور اپنی جان)اور تمام انسانوں سے زیادہ مجھے اپنے نزدیک محبوب نہ رکھ لو۔(نسائی:5014،مسلم:44،بخاری:15)اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہر حال میں اطاعت وفرمانبرداری کرے۔

کتنے نادان ہیں ہم مسلمان کہ ہم قربانی تو بڑے ہی تزک واحتشام اور بڑے ہی زوروشور اور شوق و جذبےسے توکرلیتے ہیں مگر جب کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ماننے اور تسلیم کرنے کی بات آجاتی ہے تو ہم اس سے یہ کہہ کر منہ موڑ لیتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے نہیں ہے،ہمارے باپ دادا تو ایسا ہی کیا کرتے تھے،ہم اپنے باپ دادا کے طوراور طریقوں کو نہیں چھوڑیں گے،یہ ہمارے امام کے خلاف حدیث ہے،یہ ہمارے مسلک کے خلاف ہے،یہ ہماری چاہت کے خلاف ہے،آج کل اس حدیث پر عمل کرنا ناممکن ہے،وہ زمانہ کچھ اور تھا اور یہ زمانہ کچھ اور ہےوغیرہ وغیرہ حالانکہ رب العالمین نے یہ واضح کردیا ہے کہ ’’ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‘‘ قسم ہے تیرے پروردگار کی! وہ ایماندار ہوہی نہیں سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں اے نبیﷺ آپ کو حاکم نہ مان لیں،پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔(النساء:65)

(8)قربانی ہمیں خدمت خلق کرنا سکھاتی ہے:

قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دیکھو اپنی زندگی میں تم خدمت خلق کو مت بھولنا،اپنے مال میں سے غریبوں اور مسکینوں کا حصہ کچھ نہ کچھ ضرور نکالنا،اگر تمہیں خداکی رضا وخوشنودی مطلوب ہو تو پھر لاچارومجبور قسم کے لوگوں کی خبرگیری کرتے رہنا،غریبوں کی ہمیشہ مدد کرتے رہنااور اسی میں تمہاری دنیوی واخروی نجات ہے،قربانی کی اسی تعلیم کی طرف رب العالمین نے رہنمائی کرتے ہوئے اس بات کا حکم دیا کہ’’ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ‘‘ تم خود بھی قربانی کے گوشت سے کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔(الحج:28)اور ایک دوسری جگہ پر رب العالمین نے بہت ہی وضاحت کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا کہ قربانی کے گوشت سے فائدہ تم ان لوگوں کو بھی پہنچایا کروجو مانگتے نہیں ہیں،فرمایا:’’ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ‘‘ یعنی کہ قربانی کے گوشت سے تم خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔(الحج:36) آج کل تو ویسے ہی پریشان کن حالات ہیں،کمانے اور کھانے کی تنگیاں ہیں،سال دوسال سے لوگ رزق کے مسئلے کو لے کر پریشانیوں سے دوچار ہیں ایسے حالات میں غریبوں اور مسکینوں کا خاص خیال رکھیں،اپنے علاقے میں دیہاڑی مزدوروں کا بھی خاص خیال رکھیں،امسال اگر ہوسکے تو گوشت کی ذخیرہ اندوزی نہ ہی کریں تو ہمارے لئے بہتر ہوگاکیونکہ اس وائرس نے سب کی کمرتوڑ کرکے رکھ دی ہے۔

(9)قربانی ہمیں وقت کی اہمیت کرنا سکھاتی ہے:

قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اسلام میں وقت کی بہت ہی زیادہ اہمیت ہےاور اسلام کی ہر عبادت وقت کے ساتھ مربوط ہےاور جو انسان وقت نکلنے سے پہلے یا وقت نکلنے کے بعد عبادتوں کو انجام دے گا اس کی عبادتیں مردود اور ناقابل قبول ہوں گی،اب دیکھئے کہ قربانی کرنے کے لئے ذی الحجہ کا مہینہ ہونا ضروری ہے اور اس پر مستزاد یہ ہے ذی الحجہ کی 10 سے 13 تک ہی اس کا وقت متعین ہے اب جو اس کے خلاف کرے گا اس کی قربانی قربانی نہیں بلکہ صرف گوشت خوری ہوگی،اس کے اندر ہمارے لئے یہی تو پیغام ہے کہ ہم اپنے نماز اور دیگرعبادتوں کو وقت پر ادا کیا کریں،خاص کر نماز جس کو اللہ نے وقت پر ہی ادا کرنے کا حکم دیا ہے:’’ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ‘‘ یقینا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔(النساء:103)

ہائے افسوس!وقت مقررہ پر تو ہم قربانی کر لیتے ہیں مگرنماز کے اوقات کا ہم خاص خیال نہیں رکھتے ہیں ،من میں آیا تو پڑھ لیا ،من میں آیا تو چھوڑدیا،کبھی مغرب پڑھ لی کبھی نہیں پڑھی،جماعت کا بھی ٹھیک سے اہتمام نہیں کرتے ہیں،بھلا یہ سوچیں کہ کیا اس طرح سے بے وقت نماز پڑھنے سے ہماری نماز قبول کی جائیں گی،ہرگز نہیں جس طرح سے بے وقت قربانی قابل قبول نہیں ٹھیک اسی طرح سے بے وقت ادا کی جانے والی نماز بھی رائیگاں اور بیکار ہیں۔

(10)قربانی ہمیں نمازوں کا اہتمام کرنےکی تعلیم دیتی ہے:

قرآن مجید کے اندر رب العالمین نے نماز کے ساتھ قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ‘‘ کہ اے نبیﷺ آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔(الکوثر:2)مذکورہ بالا آیت کے اندر جہاں قربانی کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے نماز کے ساتھ قربانی کا ذکر کیا ہےوہیں پر یہ بات بھی معلوم ہوتی ہےکہ جو انسان قربانی کرنے جارہاہے اسے چاہئے کہ پہلے وہ نماز کاپابند ہوجائیں اور قربانی کے ساتھ ساتھ نماز کا بھی اہتمام کریں ورنہ نماز کے بغیر قربانی ہی کیا دیگر عبادتیں بھی رائیگاں وبیکار ہیں،جیسا کہ ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جان رحمتﷺ نے فرمایاکہ نماز تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے،ایک تہائی حصہ طہارت ووضوہےاور ایک تہائی حصہ رکوع اور ایک تہائی حصہ سجود ہیں پھر آگے آپﷺ نے فرمایا کہ:’’ فَمَنْ أَدَّاهَا بِحَقِّهَا قُبِلَتْ مِنْهُ وَقُبِلَ مِنْهُ سَائِرُ عَمَلِهِ وَمَنْ رُدَّتْ عَلَيْهِ صَلَاتُهُ رُدَّ عَلَيْهِ سَائِرُ عَمَلِهِ ‘‘ پس جس نے نماز کو اس کے تمام حقوق کے ساتھ ادا کیا تو اس کی نمازیں بھی قبول کی جائیں گی اور ساتھ میں اس کے تمام نیک اعمال بھی قبول کئے جائیں گے اور ہاں جس انسان کی نمازیں رائیگاں اور ناقابل قبول ہوں گی تو اس کے تمام نیک اعمال بھی رائیگاں اور بیکار ہوجائیں گے۔(الصحیحۃ للؤلبانی:2537) اب یہ حدیث پڑھنے اور سننے کے بعد ذراسوچئے کہ اگر ہم نماز کی پابندی نہیں کریں گے تو پھر یہ ہماری قربانیاں اور دیگر نیک اعمال کس کام کی؟قیامت کے دن رب کے حضورجب ہم کھڑے ہوں گے تو رب العالمین ہم سے سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کرے گا اور جب ہماری نماز صحیح ہوگی تو قربانی اور دیگر تمام عبادتیں اپنے آپ صحیح ہوجائیں گی جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے:’’ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ‘‘ کہ یقینا کل بروزقیامت ہر ایک سےسب سے پہلے تمام نیک اعمال میں جس عمل کے بارے میں سوال ہوگا وہ نماز ہی ہے،پس اگر نماز صحیح نکلی تو پھر کامیابی ملے گی اور انسان جنت میں داخل ہوگا اور اگر نماز نامکمل نکلی تو پھر انسان کو ہلاک وبرباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:1358،ترمذی:413)

برادران اسلام!اب ذراسوچئے کہ اگر ہم نمازوں کا اہتمام نہیں کریں گے تو پھرہماری یہ قربانیاں کس کام کی؟تو آئیے ہم سب آج سے ہی یہ عہد کرتے ہیں کہ جس طرح سےہم نے قربانیاں دی ہیں ٹھیک اسی طرح سے ہم نمازوں کا بھی اہتمام کریں گے،اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے مطابق گذاریں گے،اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے تمام باطل اور ناجائز سفلی خواہشات کو قربان کردیں گے،قربانی کے ساتھ ساتھ سماج ومعاشرے کے تمام باطل وفرسودہ رسم ورواج سے کو بھی چھوڑدیں گے،اپنے جان ومال کو رضائے الہی کے لئے قربان کردیں گے۔ان شاء اللہ
 
Top