• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرض میں کمی کی سفارش کرنا

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 2405
حدثنا موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو عوانة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مغيرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عامر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال أصيب عبد الله وترك عيالا ودينا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فطلبت إلى أصحاب الدين أن يضعوا بعضا من دينه فأبوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فاستشفعت به عليهم فأبوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال ‏"‏ صنف تمرك كل شىء منه على حدته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عذق ابن زيد على حدة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واللين على حدة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والعجوة على حدة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أحضرهم حتى آتيك ‏"‏‏.‏ ففعلت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم جاء صلى الله عليه وسلم فقعد عليه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكال لكل رجل حتى استوفى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبقي التمر كما هو كأنه لم يمس‏.‏

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ا بوعوانہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے، ان سے عامر نے، اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (میرے والد) عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے بال بچے اور قرض چھوڑ گئے۔ میں قرض خواہوں کے پاس گیا کہ اپنا کچھ قرض معاف کر دیں، لیکن انہوں نے انکار کیا، پھر میں نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی سفارش کروائی۔ انہوں نے اس کے باوجود بھی انکار کیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ ولم نے فرمایا کہ (اپنے باغ کی) تمام کھجور کی قسمیں الگ الگ کر لو۔ عذق بن زید الگ، لین الگ، اور عجوہ الگ (یہ سب عمدہ قسم کی کھجوروں کے نام ہیں) اس کے بعد قرض خواہوں کو بلاؤ اور میں بھی آؤں گا۔ چنانچہ میں نے ایسا کر دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ڈھیر پر بیٹھ گئے۔ اور ہر قرض خواہ کے لیے ماپ شروع کر دی۔ یہاں تک کہ سب کا قرض پورا ہو گیا اور کھجور اسی طرح باقی بچ رہی جیسے پہلے تھی۔ گویا کسی نے اسے چھوا تک نہیں۔


حدیث نمبر: 2406
وغزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم على ناضح لنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأزحف الجمل فتخلف على فوكزه النبي صلى الله عليه وسلم من خلفه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال ‏"‏ بعنيه ولك ظهره إلى المدينة ‏"‏‏.‏ فلما دنونا استأذنت قلت يا رسول الله إني حديث عهد بعرس‏.‏ قال صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فما تزوجت بكرا أم ثيبا ‏"‏‏.‏ قلت ثيبا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أصيب عبد الله وترك جواري صغارا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتزوجت ثيبا تعلمهن وتؤدبهن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قال ‏"‏ ائت أهلك ‏"‏‏.‏ فقدمت فأخبرت خالي ببيع الجمل فلامني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأخبرته بإعياء الجمل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبالذي كان من النبي صلى الله عليه وسلم ووكزه إياه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما قدم النبي صلى الله عليه وسلم غدوت إليه بالجمل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأعطاني ثمن الجمل والجمل وسهمي مع القوم‏.‏

اور ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد میں ایک اونٹ پر سوار ہو کر گیا۔ اونٹ تھک گیا۔ اس لیے میں لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیچھے سے مارا اور فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔ مدینہ تک اس پر سواری کی تمہیں اجازت ہے۔ پھر جب ہم مدینہ سے قریب ہوئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی، عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے ابھی نئی شادی کی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا کہ بیوہ سے۔ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے کئی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اس لیے میں نے بیوہ سے کی تاکہ انہیں تعلیم دے اور ادب سکھاتی رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا اب اپنے گھر جاؤ۔ چنانچہ میں گھر گیا۔ میں نے جب اپنے ماموں سے اونٹ بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ملامت کی۔ اس لیے میں نے ان سے اونٹ کے تھک جانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ اور آپ کے اونٹ کو مارنے کا بھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو میں بھی صبح کے وقت اونٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت بھی دے دی، اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس بخش دیا اور قوم کے ساتھ میرا (مال غنیمت کا) حصہ بھی مجھ کو بخش دیا۔


کتاب الاستقراض صحیح بخاری
 
Top