• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:10)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( مصائب وآلام میں مدد کرنا ، اسوہ نبوی اور جدید تہذیب والحاد))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

مصائب وآلام میں مدد کرنا ، اسوہ نبوی اور جدید تہذیب والحاد


♻ امام الھدی ﷺ کو آغاز اسلام ہی سے مخالفین کے شدید رد عمل ،ازحد مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ دعوتِ اسلام کی خاطر آپ نے ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کیں۔ آپ پر ایمان لانے والوں کو بھی ظلم وستم کی چکی میں پیسا گیا، رسیاں باندھ کر چلچلاتی دھوپ اور جھلسا دینے والی گرمی میں پتھریلی زمین پر گھسیٹا گیا۔

♻ داعی اعظم ﷺ کے پیغام ہدایت کو ماننے والوں پر اس قدر ظلم ڈھائے گئے کہ چشم فلک نے ایسی ہولناکی کا کبھی مشاہدہ نہ کیا ہو گا۔ اسلام کی خاطر تکلیف والم سے دوچار ہونے والوں کو آپ نے کبھی بے یارو مدد گار نہیں چھوڑا، جس قدر بن پڑا ان کی مدد کی۔ ان کی حوصلہ افزائی کی، انھیں بشارات دیں، صبر و استقامت کی تلقین کی اور ان کے لیے بارگاہ صمدی میں دعائیں کیں۔


♻رسول ﷲ ﷺ نے ہجرت مدینہ پر مہاجرین و انصار میں باہمی اخوت قائم کر کے انھیں مضبوط ایمانی رشتے سے منسلک کیا۔ یہ بھی آپ کی مدد و نصرت ہی کا ایک انداز تھا۔ مہاجرین مکہ نے اپنے اعزہ و اقربا اور مال ومتاع چھوڑنے کی جو پریشانی اٹھائی تھی، اس میں اسلامی بھائی چارگی کی وجہ سے تخفیف ہوئی۔ تمام مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے بھائی بھائی قرار پائے۔

♻ راہ حق میں مصائب وآلام سے دوچار اہل ایمان کی آپ نے ہر طرح سے مدد کی۔ تمام غزوات و سرایا سے ملنے والا مال غنیمت نبی اکرم ﷺ مجاہدین میں تقسیم فرما دیتے، حتیٰ کہ اپنا خاص حصہ ُخمس بھی آپ نادار اور ضرورت مند افراد میں تقسیم کر دیا کرتے اور اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہ رکھتے۔

♻ ایک دن تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شدید بھوک کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اپنے حالات سے آگاہ کیا۔ آپ اسی وقت انھیں اپنے ہمراہ اپنے گھر لے گئے۔ گھر میں تین بکریاں موجود تھیں۔ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ''تم تینوں ان کا دودھ استعمال کرتے رہنا۔'' یہ ان بکریوں کا دودھ دوہ کر رسول اللہ ﷺ کا حصہ رکھ لیتے اور اپنا اپنا حصہ پی لیتے۔ یوں خاصی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ (صحیح مسلم:٢٠٥٥)

♻ ایک بار ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے تیار کردہ ایک چادر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کی۔ آپ وہ چادر لیے تشریف لائے تو کسی آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ چادر تو بڑی خوبصورت ہے۔ آپ یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ نے وہ چادر اس آدمی کو دے دی۔ یہ دیکھ کر باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے ملامت کی اور کہا: تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خود اس چادر کی ضرورت تھی اورآپ کسی سوالی کو خالی نہیں بھیجتے، پھر تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس نے بتایا: میری خواہش تھی کہ اسے اپنا کفن بناؤں۔ پھر ایسا ہی ہوا، وہی چادر ان کا کفن بنی۔ (صحیح البخاری:٦٠٣٦ )


♻ حضرت ام انس رضی اللہ عنہ نے مدینہ آمد پر رسول اللہ ﷺ کو کھجور کے چند درخت ہبہ کیے ، تاکہ آپ ان کی کھجوریں تناول فرما لیا کریں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے سے زیادہ حضرت ام ایمن رضی اللّٰہ عنہا کو ضرورت مند سمجھا اور وہ درخت انھیں دے دیے، کیونکہ یہ بھی ہجرت کر کے مدینہ آئی تھیں۔ (صحیح البخاری:٢٦٣٠ و صحیح مسلم:١٧٧١)

♻ ایک بار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اصحابِ صفہ کو بلا لانے کا فرمایا۔ حضرت ابو ہریرہ اصحاب صفہ کو بلا لائے۔ آپ نے پہلے خود نوش کرنے کے بجائے ان غریب الدیار اہل ایمان کو خوب سیر کر کے پلایا اور سب سے آخر میں خود نوش فرمایا۔ ( صحیح البخاری:٦٢٤٦ و سنن الترمذی:٢٤٧٧)

اصحابِ صفہ کا عموماً نہ تو مدینہ میں کوئی رشتہ دار تھا، نہ گھر بار اور نہ ہی مال و متاع۔ آنحضرت ﷺ قبول حق کی خاطر مصائب جھیلنے والے ان اصحاب کا خاص خیال رکھا کرتے۔ آپ کے پاس جو بھی چیز آتی وہ اصحاب صفہ کے ہاں بھیج دیا کرتے۔ اگر کوئی کھانے کی چیز ہوتی تو آپ اس میں اصحاب صفہ کو بھی شریک کیا کرتے۔ اصحاب صفہ کو '' ضیوف الاسلام'' ٫٫اسلام کے مہمان ،، کہا جاتا تھا۔ (صحیح البخاری:٦٤٥٢ و أحمد بن حنبل،المسند:١٠٧٩)

♻ قبول اسلام کی پاداش میں غریب الدیار کیے جانے والے اصحاب صفہ کا آنحضرت ﷺ بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ انھیں دین کی تعلیم دیتے اور ان کی ہر طرح کی ضروریات پوری کرتے کی جستجو فرماتے ۔ رسول مقبول ﷺ کا صفہ کے شاگردان گرامی سے مثالی تعلق تھا،

♻ ایک روز رسول اللّٰہ ﷺ اصحاب صفہ کو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر لے گئے۔ جا کر فرمایا: (( یَا عَائِشَۃُ أَطْعِمِیْنَا)) ''اے عائشہ! ہمیں کچھ کھانے کو دو۔'' آپ کے کہنے پر حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے آپ کی خدمت میں جشیشہ نامی کھانا پیش کیا جو سب نے کھایا۔ آپ نے پھر فرمایا: ''عائشہ! ہمیں مزید کچھ کھانے کو دو۔'' حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے حَیْسہ نامی کھانا پیش کیا، وہ بھی سب نے مل کر کھایا،(جشیشہ گندم کا دلیہ اور اس میں گوشت یا کھجور ڈال کر پکایا جاتا ہے۔ حَیْسہ کھجور، گھی اور پنیر سے تیار کردہ ایک ڈِش ہے۔)

♻ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنی رفیقہ حیات سیدہ عائشہ سے فرمایا: (( یَاعَائِشَۃُ أَسْقِیْنَا )) ''اے عائشہ! اب ہمیں پینے کو بھی کچھ دو۔'' حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے آپ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا ، جسے رسول اللہ ﷺ سمیت تمام اصحاب صفہ نے نوش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر کچھ پلانے کا فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ دودھ کا پیالہ پیش کیا، اسے بھی سب نے نوش کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اصحاب صفہ سے فرمایا: ''اب اگر یہاں آرام کرنا چاہتے ہو تو سو جاؤ اور اگر مسجد میں جانا چاہتے ہو تو وہاں چلے جاؤ۔'' اس پر یہ سب اصحاب صفہ مسجد میں چلے گئے۔(سنن أبی داود:٥٠٤٠)

♻آنحضرت ﷺ کی تمام زندگی ہی مخلوق الہی کی خدمت سے تعبیر ہے۔ حلقہ بگوش اسلام ہونے والوں کی خاطر مدارات میں آپ کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے تھے۔ انھیں ہر ممکن سہولت مہیا کرنے کی جستجو فرماتے اور ان سے انتہائی اعلیٰ اخلاق سے پیش آتے تھے۔

♻ رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل کے ساتھ ساتھ اپنے فرامین سے بھی مسلمانوں کو امداد باہمی کی بہت تاکید کی ہے۔ اس بارے میں نبوی ہدایات یگانہ اہمیت وافادیت کی حامل ہیں، چند ایک یہ ہیں ملاحظہ کیجیے،

♻ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اپنے بھائی کی ہر حالت میں مدد کیا کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔'' ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مظلوم کی مدد تو میں کروں گا لیکن ظالم کی مدد میں کیسے کروں؟! آپ نے فرمایا: (( تَمْنَعُہ، مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذٰلِکَ نَصْرُہ، ))(صحیح البخاری:٦٩٥٢) ''تم اسے ظلم سے روکو گے تو یہی اس کی مدد ہوگی۔''

♻ اس ظلم میں تمام طرح کے ظلم شامل ہیں۔ چاہے وہ ظلم اخلاقی ہو یا معاشرتی، معاشی ہو یا سیاسی۔ اگر کسی مسلمان بھائی پر ظلم ہو رہا ہو تو اس کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے اور ظالم کو ظلم سے روکنا چاہیے۔ اگر مظلوم کی داد رسی اور ظالم وجابر کو روکنے کی ہر ممکن کوشش نہ کی جائے ، تو اس کے دینی وتربیتی اور اخلاقی وسماجی اور معاشی وسیاستی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،

♻ آنحضرت ﷺ نے ایک غلام آزاد کیا۔ اس نے اپنی آزادی پر بطور نصیحت پوچھا: اے اللہ کے رسول! میں کس کس کی مدد کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ''ہر مومن کی۔'' (سنن ابی داود:٤٥١٩ و سنن ابن ماجہ:٢٦٨٠)

♻ حدیث قدسی ہے، اللہ عزوجل نے فرمایا: ''میری وجہ سے باہمی محبت کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہے۔ میری رضا کی خاطر ایک دوسرے سے میل جول رکھنے والوں کے لیے بھی میری محبت واجب ہے۔ میری رضا کی خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے بھی میری محبت کے حقدار ہیں۔ ایسے ہی میری خاطر آپس میں سچ بولنے والے بھی میری محبت کے مستحق ہیں۔'' (أحمد بن حنبل،المسند:١٩٤٣٨ والألبانی، صحیح الترغیب:٣٠٢١)

♻ مسلمان بھائی کی امداد کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس کی موجودگی میں کسی مومن کو ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہو اور وہ استطاعت کے باوجود اس کی مدد نہ کرے تو ایسے آدمی کو اللہ عزوجل روز قیامت ساری مخلوق کے سامنے ذلیل و رسوا کرے گا۔'' (أحمد بن حنبل،المسند:١٥٩٨٥ و الطبرانی، المعجم الکبیر:٥٥٥٦)

♻ باہمی نصرت و تعاون کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے کچھ اس انداز سے بھی فرمایا: ''مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک مسلمان اپنے بھائی کی نہ تو خیانت کرتا ہے، نہ اسے جھوٹا قرار دیتا ہے اور نہ اسے بے یارو مدد گار چھوڑتا ہے۔ تمام مسلمانوں کی عزت و آبرو، مال و متاع اور خون ایک دوسرے پر حرام ہے۔ تقویٰ تو یہاں سینے میں ہے۔ آدمی کی ناکامی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر خیال کرے۔'' (سنن الترمذی:١٩٢٧ و أحمد بن حنبل،المسند:١٦٠١٩)

♻ سابقہ بیان کردہ واقعات واحادیث حدیث میں بیان کردہ تمام صورتیں باہمی اخوت کے فروغ اور ہر طرح کے احوال و ظروف میں بندہ مؤمن کی نصرت و حمایت سے متعلق ہیں۔
عصر حاضر میں اہل اسلام باہمی نصرت و حمایت کے جذے وعمل میں بھی انتہائی کمزور ہوتے جارہے ہیں،اس کی وجہ ربانی ہدایات اور پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات سے کمزور تعلق اور جدید الحاد کے بھیانک اثرات ہیں، ضرورت مند کے ساتھ بات چیت کرنے تک سے احتراز کیا جاتا ہے کہ کہیں وہ کوئی مطالبہ نہ کر دے ، مالی اور سیاسی تعاون و حمایت تو کیا اخلاقی دارد رسی کی صورت حال بھی لمحہ فکریہ ہے!

♻ جدید فکر وتہذیب کے اہل اسلام پر ہمہ گیر منفی اثرات مرتب ہوئے ، اہل اسلام انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر امت واحدہ بننے کے بجائے، ایک دوسرے سے بھاگنے لگے ہیں ، عالمی الحادی استعمار نے بھی امت مسلمہ کے جذبہ نصرت و معاونت کو کمزور کرنے کے لیے انتہائی گھناؤنا کھیل کھیلا ، نام نہاد دہشت گردی کے نام پر باہمی مالمی معاونت پر پابندی لگائی گئی ، انفرادی وملکی اور عالمی سطح پر مستحق افراد کی نصرت و مدد کو مختلف حیلوں بہانوں سے روکا گیا، مدد کرنے والے افراد واداروں اور اسلامی ممالک پر پابندیاں لگائی گئیں اور دہشتگردی کی معاونت کے نام پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں ، اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی گئی اور عملی اقدامات بھی کیے گئے، ایف اے ٹی ایف کا بڑا ہدف یہی ہے، جس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوگئے ہیں ، یہ بھی تسخیر عالم کے صہیونی منصوبے کا حصہ ہے، امت مسلمہ مسیحا کے انتظار میں خواب غفلت میں سوئی ہوئی ہے،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top