• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:14)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( خوش طبعی ،اسوہ نبوی اور جدید تہذیب والحاد))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

خوش طبعی ،اسوہ نبوی اور جدید تہذیب والحاد

♻اچھی عادات میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے رفقا کے ساتھ گھل مل کر رہا جائے۔ خصوصاً جب کوئی عظیم قائد یا سربراہ عام لوگوں کے ساتھ میل جول میں کوئی دقت محسوس نہ کرے اور کوئی فاصلہ نہ رکھے تو اسے بہت پذیرائی ملتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ اپنے صحابہ کی مجالس میں شریک ہوتے تو ان سے خوش طبعی اور مزاح بھی کیا کرتے تھے۔

♻ رسول اللہ ﷺ کی اس عادت مبارکہ کے متعلق کسی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ مزاح کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، رسول اللہ ﷺ بھی مزاح کرلیا کرتےتھے۔ (الأصبہانی، أخلاق النبی،ص:٦٧)

♻آنحضرت ﷺ کی خوش مزاجی کے بارے میں کتب احادیث میں متعدد واقعات مذکور ہیں جن سے آپ کے اعلیٰ اخلاق، حسن کردار، خوش مزاجی اور عظیم عادات و خصائل کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ داعی اعظم اور مربی بے مثل ہونے کے باوجود آپ اپنے اصحاب ذی شان سے خوش طبعی اور مزاحیہ گفتگو فرما لیا کرتے تھے ، آپ اپنے شاگردان گرامی سے بالکل الگ تھلگ نہ رہتے تھے ،

♻ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ سے کم عمر ان کے ایک بھائی ابوعمیر تھے۔ انھوں نے نُغَیر نام کا ایک پرندہ پالا ہوا تھا ، جس سے وہ کھیلا کرتے تھے۔ ایک دن وہ پرندہ مر گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں پریشان دیکھ کر وجہ پوچھی، ۔بتایاگیا کہ ان کا پرندہ مر گیا ہے۔ آپ نے انہیں مزاحاً فرمایا: (( یَا أَبَاعُمَیْرٍ ! مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟! )) ''ابو عمیر! نُغَیرکا کیا بنا؟! '' اس کے بعد جب بھی رسول اللہ ﷺ کی حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی سے ملاقات ہوتی، آپ مزاحاً فرمایا کرتے: ''ابو عمیر! پرندے کا کیا بنا؟!'' (صحیح البخاری:٦٢٠٣ و سنن أبی داود:٤٩٦٩)

♻حضرت زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں، یہ مدینہ سے باہر ایک گاؤں میں سکونت پذیر تھے۔ یہ جب بھی مدینہ آتے رسول اللہ ﷺ کے لیے گاؤں کا کوئی نہ کوئی تحفہ لایا کرتے۔ واپسی پر رسول اللہ ﷺ بھی انھیں نوازا کرتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ''یہ ہمارے دیہاتی دوست ہیں اور ہم ان کے شہری دوست ہیں۔'' آپ ان سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔

♻ حضرت زاہر رضی اللہ عنہ زیادہ خوبصورت نہ تھے۔ ایک روز منڈی میں سامان فروخت کر رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے پیچھے سے آ کر انھیں پکڑ لیا۔ وہ کہنے لگے: کون ہے؟ مجھے چھوڑو۔ بعد میں جب آپ کے بارے میں معلوم ہوا تو بہت خوش ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے بارے میں مزاحاً فرمانے لگے: ''یہ غلام کون خریدے گا؟'' وہ بولے: اللہ کے رسول! آپ کا یہ غلام بہت کم قیمت ہے۔ آپ نے فرمایا: ''اللہ عزوجل کے ہاں تم کم قیمت نہیں ہو۔'' (أحمد بن حنبل،المسند:١٢٦٤٨ و أبو ٰ یعلی ،المسند:٣٤٥٦)

♻ ایک دفعہ کسی آدمی نے سواری کے لیے آپ سے اونٹ کا مطالبہ کیا۔ آپ نے مزاح کرتے ہوئے فرمایا: ''میں تجھے سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا۔'' وہ آدمی بڑے تعجب سے کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟! آپ نے فرمایا: ''اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔'' (سنن الترمذی:١٩٩١ و البخاری، الأدب المفرد:٢٤٢)

♻ ایک بار ایک انصاری بوڑھی عورت آنحضرت ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئی اور دخولِ جنت کی دعا کے لیے درخواست کی۔ آپ نے فرمایا: ''جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی۔'' وہ روتی ہوئی واپس جانے لگی تو آپ نے فرمایا: ''بوڑھے جوان ہو کر جنت میں جائیں گے۔'' ساتھ ہی آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : ( اِِنَّآ اَنْشَاْنَاہُنَّ اِِنْشَآئً o فَجَعَلْنَاہُنَّ اَبْکَارًا o ) (الواقعہ: 36،35/56و الطبرانی، المعجم الأوسط:٥٥٤٥ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٢٩٨٧) ''ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں کنواری بنا دیں گے۔''

♻ رسول مقبول ﷺ کی خوش مزاجی کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے ہنسی مزاح اور خوش طبعی کے رویوں میں نہ تو کسی کی دلآزاری تھی اور نہ تحقیر و مذاق۔ آپ نے خوش طبعی کی اجازت کے ساتھ اس کی حدود بھی مقرر کی ہیں۔ خوش طبعی اور مزاح کرتے ہوئے کسی کا مذاق اڑانے کی ممانعت ہے۔

♻نبی اکرم ﷺ نے ہنسی مزاح میں کسی کی کوئی چیز اٹھانے یا چھپانے سے منع فرمایا ہے ، تاکہ آدمی پریشان نہ ہو۔ اسی طرح بطور مزاح کسی کو ڈرانے دھمکانے سے بھی منع فرمایا۔ آپ نے مزاح میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔ حدیث ہے کہ آدمی کا ایمان تب تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ مزاح میں بھی جھوٹ ترک نہ کر دے ، بلکہ آپ نے خوش طبعی اور مزاح میں بھی جھوٹ نہ بولنے والے کو جنت کے وسط میں محل سے نوازے جانے کی بشارت دی ہے۔ (سنن أبی داود:٤٨٠٠، ٥٠٠٣ و أحمد بن حنبل،المسند:١٧٩٤٠، ٢٣٠٦٤، ٨٦٣٠)

♻ عصر حاضر میں امت مسلمہ کا تعلق شرعی ہدایات اور نبوی تعلیمات سے کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے، ہنسی مزاح اور خوش طبعی جیسے امور تو کیا بنیادی اسلامی عقائد و ایمانیات میں بھی اہل اسلام کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے، ہنسی مزاح کے نام پر دوسرے مسلمان بھائی کی تذلیل و تحقیر تو عام رواج بن چکا ہے ، مزاحیہ پروگراموں میں شرعی ہدایات اور اسلامی تعلیمات تک پر زبان درازی کی جاتی ہے اور نادان مسلمان اسے بڑے اہتمام اور توجہ سے انہیں سنتے، دیکھتے ، پڑھتے اور بیان کرتے ہیں ، حالانکہ کہ اس بری عادت کے دینی وتربیتی اور اخلاقی وسماجی کئی طرح کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اسلامی ممالک کے الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بھانڈ اور میراثیوں کا غلبہ ہے ، جو طنز و مزاح کے نام پر ایمانی غیرت و حمیت اور اسلامی اقدار وروایات کی دھجیاں اڑاتے ہیں،ہنسی مزاح میں نبوی ہدایات کی عدم پاسداری سے کئی طرح کے دعوتی و تربیتی اور اخلاقی وسماجی مسائل جنم لیتے ہیں ،

♻ مغربی فکر وتہذیب اپنی اصل کے اعتبار سے مذہب بیزار اور عمدہ اقدار وروایات کی باغی ہے ، اس کے ان کے ہاں طنز و مزاح کا کوئی اخلاقی وسماجی ضابطہ نہیں، استہزاء و تمسخرہ ان کی تہذیب وثقافت کا لازمی حصہ ہے ، ان کے مزاحیہ پروگراموں میں بھی فحش گوئی ، بد کلامی ، فحاشی وعریانی ، انسانیت کی تحقیر و تذلیل کذب بیانی اور الزام تراشی عام معمول ہے، اسلامی اقدار وروایات، عقائد وایمانیات ، اسلامی تعلیمات ، اہل اسلام کا طرز بود و باش اور رسول مکرم ﷺ کی ذات گرامی ان کی نشتر زنی اور طنز و مزاح کا خاص ہدف ہیں، کارٹون ، فلموں ، ڈراموں ، مزاحیہ پروگراموں اور ناولوں میں ایک بھیانک منصوبے کے تحت اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کو ہدف تنقیص و تحقیر بنایا گیا ، لمحہ فکریہ ہے کہ عالمی امن و امان کا راگ الاپنے والی استعماری طاقتوں کو لگام دینے کا امت مسلمہ کوئی قابل ذکر انتظام نہیں کر سکی ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top