• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:2)سرور کونین ﷺ کا سراپا اقدس ( (آنحضرت ﷺ کا چہرہ ُپرانوار ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
( (حافظ محمد فیاض الیاس الأثری دارالمعارف لاہور))

آنحضرت ﷺ کا چہرہ ُپرانوار


جسم میں نمایاں ترین چیز چہرہ ہوتا ہے۔ چہرہ ہی دیگر تمام اعضاء کے حسن و جمال کا ترجمان اور آدمی کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ملاقات کے وقت سب سے پہلے چہرہ ہی سامنے آتا ہے جس سے دیکھنے والے کے قلب و شعور میں ایک نقش ثبت ہو جاتا ہے۔ چہرہ شناسی کے ماہرین پر انسان کی اصلیت اور حقیقت
ہویدا ہو جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہودی عالم دین تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ منورہ آمد پر وہ آپ ﷺ کی لقاء و زیارت کے لیے حاضر ہوئے۔ انھوں نے آپ کے رخِ زیبا پر نگاہ پڑتے ہی کہا تھا: ''إِنَّ وَجْھَہ، لَیْسَ بَوَجْہٍ کَذَّابٍ'' ایسے چہرے کی حامل ہستی سے کبھی جھوٹ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔(سنن الترمذی:٢٤٨٥ و سنن ابن ماجہ:١٣٣٤)

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسی دیدار کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

حضرت طارق بن عبداللہ محاربی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ہمراہ مدینہ آئے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضری سے پہلے مدینہ سے باہر پڑاؤ کیا۔ اسی دوران رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لائے، ان سے اونٹ خرید لیا اور بغیر قیمت ادا کیے آپ چل دیے۔ یہ لوگ آپ کو جانتے نہ تھے اس لیے قیمت وصول کیے بغیر اونٹ دینے پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے۔ انھی میں موجود ایک عورت ان سے کہنے لگی: ایک دوسرے کو ملامت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے اس شخص کو چہرے سے پہچان لیا تھا، وہ تم سے دھوکا نہیں کرے گا۔ میں نے ان کے چہرے سے بڑھ کر کسی کا چہرہ ماہ تمام سے میل کھاتا نہیں دیکھا۔ تمھیں قیمت نہ ملی تو اونٹ کی قیمت میں ادا کر دوں گی۔(الحاکم المستدرک:٤٢٧٥ و ابن حبان، الصحیح:٦٥٦٢) بعد میں رسول اللہﷺ نے ان کی رقم ادا کردی -

رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک چاند کی طرح گول اور چاند سے بھی زیادہ پر نور اور حسین تر تھا۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ پرانوار کے بارے میں پوچھا کہ کیا رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح لمبا اور چمکدار تھا؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نفی میں جواب دیا اور پھر بتلایا کہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک شمس و قمر کی طرح انتہائی خوبصورت اور گول تھا-(صحیح مسلم:٢٣٤٤)

اسی طرح حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آنحضرت ﷺ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل نہیں بلکہ چاند کی مانند تھا۔(صحیح البخاری:٣٥٥٢)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت رسول اللہ ﷺ آخری بار حجرہ مبارک سے دیکھ کر مسکرا دیے، تب آپ ﷺ کا چہرہ مبارک یوں دمک رہا تھا جیسے مصحف کا سنہری ورق ہو۔(صحیح البخاری:٦٨٠وصحیح مسلم:٤١٩)

رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک فرحت بخش خبر سے کھلکھلا اُٹھتا۔ فرحت و شادمانی کے اثرات آپ کے روئے تاباں پر ہویدا ہوتے، خوشی سے مسکرانے پر آپ کا چہرہ مبارک یوں محسو س ہوتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو۔ آپ کے چہرہ مبارک ہی سے آپ کی خوشی عیاں ہو جاتی تھی۔(صحیح البخاری:٣٥٥٦،٤٦٧٧)

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top