• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:9)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( صداقت و امانت ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

صداقت و امانت ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب

♻ آغاز بعثت کے موقع پر ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے جو اوصاف بیان کیے تھے، ان میں یہ بھی تھے: '' تَصْدُقُ وَتُؤَدِّی الْأَمَانَۃَ'' (صحیح البخاری:٤٩٥٣ و الزرقانی، شرح المواہب:111/6) آپ تو بات کے سچے اور امانتدار ہیں۔


♻ رسول ﷲ ﷺ کے ان اوصاف کے مشرکین مکہ بھی معترف تھے۔ وہ آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے ،چنانچہ وہ اپنی امانتیں آپ ہی کے سپرد کرتے تھے۔ آپ کے صدق و امانت سے ہر کوئی واقف تھا اور اس کا اقرار بھی کیا کرتا تھا،

♻ایک بار آنحضرت ﷺ کے مال تقسیم کرنے پر کسی نے تحفظات کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا: (( أَلَا تَأْمَنُونِی وَأَنَا أَمِینُ مَنْ فِی السَّمَائِ، یَأْتِینِی خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَائً))(صحیح البخاری:٤٣٥١وصحیح مسلم:١٠٦٤) ''کیا تم مجھے امین تسلیم نہیں کرتے، میں تو آسمان کے مالک کے ہاں بھی امین ہوں۔ میرے پاس تو صبح و شام آسمان سے وحی آتی ہے۔''

♻ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ادھار کپڑا لینے کے لیے ایک صحابی کو کسی یہودی کے پاس بھیجا۔ اس نے جاکر یہودی سے بات کی تو وہ بولا: مجھے معلوم ہے کہ محمد(ﷺ) کیا چاہتا ہے، وہ میرا مال ہتھیانا چاہتا ہے۔ (نعوذ بااللہ) اس بات کا جب رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا: ''یہ آدمی بالکل جھوٹ کہہ رہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ میں سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ امانتداری کی لاج رکھنے والا ہوں۔'' (سنن الترمذی:١٢١٣ و سنن النسائی:٤٦٢٨)

♻ مشرکین مکہ رسول مقبول ﷺ کی عداوت اور دشمنی میں حد سے بڑھ گئے۔ ہجرت کی رات انھوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنا لیاتھا ، لیکن قربان جائیں رسول امین ﷺ کے، آپ کو انھی دشمنوں کی امانتیں واپس کرنے کی فکر لاحق تھی۔ اس کے لیے آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری لگائی اور خود ﷲ تعالیٰ کے حکم پر مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے،(البیہقی،السنن الکبریٰ:١٢٦٩٦ و ابن ہشام، السیرۃ النبویہ:485/1)

♻ شاہ روم ہرقل کے دربار میں سردارِ مکہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے آپ کی صفات وعادات بیان کیں ۔ تب تک یہ مسلمان نہ ہوئے تھے ، تب آپ کی امانتداری اور راست گوئی کا بھی تذکرہ کیا گیا ، جس پر ہرقل نے کہا تھا : '' ھٰذِہِ صِفَۃُ نَبِیٍّ ''(صحیح البخاری:٢٦٨١ و أحمد بن حنبل،المسند:٢٣٧٠) پیغمبر انھی فضائل کے حامل ہوا کرتے ہیں۔

♻ رسول اللہ ﷺ نے صدق و امانت کا عملی نمونہ بھی پیش فرمایا اور اس کے بارے میں اپنی امت کو بیش بہا ہدایات بھی دیں۔ یہی آپ کی حیات طیبہ کا ایک امتیازی پہلو ہے کہ آپ اپنے عمل وکردار اور اقوال و فرمودات کے ذریعے امت کی مکمل رہنمائی فرماتے ہیں ،

♻ صدق و امانتداری کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے بیش بہا ہدایات تعلیم فرمائی ہیں ، آپ نے ان چار صفات کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا: امانتداری، حق گوئی، حسن اخلاق اور حلال روزی۔ (أحمد بن حنبل المسند:٦٦٥٢و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٧٣٣)

♻ رسول مقبول ﷺ نے ان چھ چیزوں کی ضمانت پر جنت کی ضمانت دی ہے: سچ بولنا،
وعدہ پورا کرنا، امانت کا خیال رکھنا، پاکدامنی اختیار کرنا، نظر کی حفاظت کرنا اور اپنے ہاتھوں سے کسی کو تکلیف نہ دینا۔ (أحمد بن حنبل المسند:٢٢٧٧٥ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:١٤٧٠)

♻ آنحضرت ﷺ نے صدق و امانتداری کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: ''سچا اور امانتدار مسلمان تاجر روز قیامت انبیائے کرام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔'' (سنن ابن ماجہ:٢١٣٩)

♻ رسول اللہ ﷺ نے سچائی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ''سچ کو تھامے رکھو کیونکہ سچ نیکی کے راستے کھولتا ہے اور نیکی جنت کی رہنمائی کرتی ہے۔ ہمیشہ سچ بولنے والا اور سچ ہی کی جستجو میں رہنے والا بارگاہ الٰہی میں صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔'' (صحیح مسلم:٢٦٠٧)

♻ رسول اللہ ﷺ نے صدق و امانتداری کی اہمیت اس انداز سے بھی بیان کی ہے ، آپ نے جھوٹ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت کو منافق کی علامتیں قرار دیا ہے۔(صحیح البخاری:٣٣)

♻ صدق و امانتداری اور دیگر عمدہ عادات و خصائل کے دینی وتربیتی ، اخلاقی وسماجی اور معاشی وسیاستی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، صدق و امانتداری سے معاشرے میں امن و امان قائم ہوتا ہے ، باہمی اخوت واعتماد بڑھتا ہے ، معاملات سلجھتے اور امور زندگی کی اصلاح ہوتی ہے ،


♻ پیغمبر صادق و مصدوقﷺ کی تعلیمات سے امت کا تعلق وعقیدت کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے، وعدے کی پاسداری ، سچ گوئی ، وفا شعاری اور امانتداری جیسے اوصاف وخصائل میں اہل اسلام کی حالت ناگفتہ بہ ہے ، انفرادی واجتماعی اور ریاستی سطح پر صدق و امانتداری سے دامن خالی ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اس کی وجہ کمزور ایمان وعقیدہ اور جدید فکر وتہذیب کے بھیانک اثرات ہیں ،

♻ سیکولرزم اور مذہب بیزار جدید فکر وتہذیب لا الہ الا اللہ کی نہ صرف منکر ہے، بلکہ ان کی تہذیب وثقافت لا الہ الا الانسان کے نظریے پر قائم ہے، مغربی فکر وتہذیب افادیت پسندی اور مادہ پرستی پر مبنی ہے ، ایک عرصے تک ان کے ہاں عمدہ عادات و خصائل کو کسی نہ کسی صورت میں اچھا سمجھا جاتا تھا ، صدق و امانتداری کو قابل قدر عادات میں شمار کیا جاتا تھا ، لیکن قومی اور ریاستی فائدے کی خاطر اس کی پاسداری تب بھی ضروری نہ تھی، پس جدیدیت تو تمام طرح کی عمدہ عادات و اطوار کی منکر ہے، ان کے ہاں کوئی سچائی دائمی اور آفاقی نہیں، بس وہی سچ اور حقیقت ہے جسے لوگ پسند کریں اور اس میں ان کا فائدہ ہو، اسلامی صدق و امانتداری کا تصور بھی ان کے ہاں مفقود ہے،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top