• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصہ دلیل کے ایک چوری شدہ بلاگ کا – فردوس جمال

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
شہر کراچی میں قصائی اہل شہر کو عرصہ دراز تک کھوتے ذبح کركے کھلاتا رہا، پکڑا گیا تو دلیل دی کہ کھوتے پہ بار برداری اور سواری جائز تو گوشت سے شکم سیری کاہے کو حرام ہوئی؟ پیپلزپارٹی کے وزیر نے ٹی وی ٹاک شو پہ بیٹھ کر کرپشن کے جواز میں دلیل دی کہ سب کرپشن کرتے ہیں تو کیا کرپشن پہ ہمارا کوئی حق نہیں.
ایک ضعیف العمر بزرگ کے ناخلف بیٹے کو شوق چڑھا کہ کیوں نہ پیرانہ سالی میں قدم رکھے اپنے ابا جان کا نام روشن کریں، سو دلیل ڈاٹ پی کے پر شائع ہونے والی میری ایک تحریر اٹھا کر اپنے ابا جان کے نام سے روزنامہ پاکستان جیسے قومی اخبار میں شائع کرا دی اور جگہ جگہ ڈھنڈورا پیٹا کہ ابا جان کی قلمی کاوش، ابا جان کی قلمی کاوش! توجہ دلائی کہ بیٹا! کسی کی تحریر کو یوں چوری کرنا بری بات، علمی بد دیانتی اور خیانت ہے تو دلیل دی کہ اگر کسی کی لکھی تحریر اٹھا کر اپنے نام سے شائع کرنا چوری ہوئی تو پھر لوگ قرآن مجید کی آیات اور احادیث رسول کو کہیں بھی شیئر اور شائع کرتے ہیں پھر تو وہ بھی چوری ہوئی. اور یہ کہ میرے والد نے چھوٹے سے دیے کو فانوس بنا دیا. دلیل تھی اور دلیل ظاہر ہے دلیل ہوتی ہے خواہ وہ دینے والے کو ذلیل ہی کیوں نہ کرتی ہو. کراچی کا کھوتا قصائی، پیپلزپارٹی کے وزیر اور لاہور کے مضمون چور کی دلیلوں پر آپ یہاں کچھ دیر ٹھہر کر سر دھنیے. میں ایک کہانی لکھتا ہوں.
خاکسار نے 14 اپریل کو اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ لکھ کر لگائی جس کا عنوان تھا ’’مشال خان کا قاتل مولوی نہیں مسٹر ہے‘‘، 15 اپریل کو میری یہی تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر شائع ہوئی، 166 اپریل کو محترم اوریا مقبول جان سے منسوب ایک فیس بک پیچ سے وہ تحریر میرے نام سے شیئر کی گئی اور ایک ہی دن میں ہزاروں لوگوں نے آگے شیئر کیا. پھر 188 اپریل کا دن آیا اور میری وہی تحریر من و عن پاکستان کے ایک معروف خطاط عبدالرشید قمر کے نام سے روزنامہ پاکستان میں شائع ہوئی. میری طرف سے توجہ دلانے پر قمر صاحب کے فرزند ارجمند چوری کے دفاع میں یوں ڈھیٹ بن کر ڈٹ گئے اور ایسی بھونڈی دلیلیں پیش کیں کہ ایک لمحے کے لیے تو مجھے کپتان پر بھی غصہ آنے لگا کہ لاہور میں کینسر ہسپتال کے ساتھ ایسے افراد کے لیے اچھا سا نفسیاتی ہسپتال بنانے کی ضرورت بھی تھی. بہرحال گذشتہ دو تین روز سے موصوف چوری اور سینہ زوری کے کھیل میں مگن ہیں، مجھے ان کی کسی اوٹ پٹانگ پوسٹ کا جواب بھی نہیں دینا ہے ورنہ ابن قمر کی کمر پہ لفظوں کے چھتر سے چھترول کرنا مجھے آتا تھا، یوں بھی ان کی پوسٹ کے نصیب میں دو عدد لائک ہوتے ہیں، وہ بھی ایک ان کی اپنی آئی ڈی سے اور دوسری ان کی جعلی آئی ڈی سے. مجھے تو ان کے ایک قریبی نے یہاں تک بتایا کہ قمر صاحب نے ان موصوف کو عرصہ پہلےگھر سے نکال دیا ہے اور ان موصوف کے اوپر زمینوں پہ ناجائز قبضوں اور ڈکیتیوں کے الزامات بھی ہیں، (ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں) ہوسکتا ہے کہ قمر صاحب کی طرف سے گھر سے نکالے جانے پر انتقاما باپ کو بدنام کر رہے ہوں.

روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے چوری شدہ مضمون کا عکس​
دلیل پر شائع شدہ اصل مضمون کا لنک
https://daleel.pk/2017/04/15/39258
قارئین کرام! میں نہ تو کوئی بڑا لکھاری ہوں نہ میرا ایسا کوئی دعوی ہے، جو محسوس کرتا ہوں چند بے ربط لفظوں کو جوڑ کر صفحہ قرطاس پہ اتارتا ہوں، میری تحریر کسی کو اچھی لگی تو الحمدللہ، اچھی نہ لگی تو اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں. اپنے لکھے پہ داد کا طالب ہوتا ہوں اور نہ ہی مستحق، مضمون چوری کے اس ایشو کو اٹھانے کا مقصد بخدا ہمدردیاں سمیٹنے کا شوق ہے اور نہ ہی اپنی تشہیر کا. مجھے بس سوشل میڈیا پر لکھنے والے اہل قلم کی توجہ روزبروز پروان چڑھتے اس علمی سرقے کی طرف مبذول کرانا ہے کہ ہم سب مل کر پڑھی لکھی نسل کو شعور دیں کہ کسی کا لکھا اپنے نام کرنا شرعی، اخلاقی اور قانونی طور پر کتنا بڑا جرم ہے. فیس بک پوسٹیں چوری کر کے ابا جان کے نام کرنے والی نسل کو یہی لت پڑی رہی تو کوئی بعید نہیں کہ کل میر و غالب اور اقبال کے دیوان کسی کے ابا جان کے نام پر مارکیٹ میں ہوں، اور کوئی چوری کے فضائل پر لیکچرز دے رہا ہو.
 
Last edited by a moderator:
Top