• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قوالی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قوالی

جن اُمور سے شیطانی ''احوال'' کو سب سے بڑی تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان میں سے گانا اور آلاتِ موسیقی کا سننا ہے اور یہ مشرکین کا سماع ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُہُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَۃً ۰ۭ (الانفال: ۸؍۳۵)
''بیت اللہ کے پاس سیٹیاں بجانے اور تالیاں بجانے کے سوا اور ان کی نماز ہی کیا ہے۔''
سیدناابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم اور دیگر سلف صالحین کا قول کہ تصدیہ سے مراد ہاتھ سے تالیاں بجانا اور مکائِ صفیر سیٹی کی مانند ہے۔ مشرکین اسے عبادت سمجھتے ہیں اور نبیﷺاور ان کے صحابہ کی عبادت وہ ہے جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ یعنی نماز، قرأت ، ذکر وغیرہ اور شرعی مجالس۔
نبیﷺاور ان کے صحابہ کرام نے گانے کی مجلس میں کبھی شرکت نہیں کی۔ نہ ہاتھوں سے تالیاں بجائیں۔ نہ دف استعمال کیے۔ نہ ان کو وجد آئے اور نہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی چادر گری۔ نبی ﷺ کی حدیث سے آگاہی رکھنے والوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ نبی ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب جمع ہوتے تھے تو کسی ایک کو قرآن پڑھنے کا کہتے تھے اور باقی سنا کرتے تھے۔
سیدناعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں ہمارا پروردگار یاد دلائو۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ قرآن پڑھتے اور وہ سنتے تھے۔ ایک مرتبہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ قرآن پڑھ رہے تھے اور نبی اکرم ﷺ کا ان کے پاس سے گذر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کل رات میں تمہارے پاس سے گذرا اور تم قرآن پڑھ رہے تھے۔ میں تمہاری قرأت کو سنتا رہا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اگر مجھے علم ہوتا کہ آپﷺسن رہے ہیں تو میں آپ کو سنانے کے لیے بہت اچھا کر کے پڑھتا۔
(رواہ ابویعلی کما ذکر الحافظ فی الفتح فھو حسن عندہ ۔ (ازہر عفی عنہ))
چنانچہ نبیﷺنے فرمایا ہے:
زَیِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ۔
(ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب کیف یستحب الترتیل فی القراء ۃ رقم: ۱۴۶۸، نسائی کتاب الصلوۃ باب تزیین القرآن بالصوت، رقم: ۱۰۱۶۔۱۰۱۷، مسند احمد، ۴؍۲۸۳)
''اپنی آوازوں سے قرآن کو زینت دو۔''
نبیﷺفرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ اچھی آواز والے مرد کی قراء ت کو اس قدر خوش ہو کر سنتا ہے کہ صاحب کنیزکی اپنی خوش الحان کنیز کے گانے سے اس درجہ مسرت اندوز نہیں ہوتا۔
(ابن ماجہ،کتاب الصلوۃ،باب حسن الصوت بالقرآن، رقم:۱۳۴۰۔ مسنداحمد۶؍۱۹۔ البانی صاحب نے اسے ضعیف کہاہے، ضعیف الجامع،رقم:۴۶۳۳۔)
نبیﷺنے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ
مجھ پر قرآن پڑھو۔ انہوں نے عرض کی کہ آپکو پڑھ کر سنائوں؟۔ حالانکہ آپﷺہی پر قرآن نازل ہوا ہے۔ فرمایا میں دوسروں سے سننا پسند کرتا ہوں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۂ نساء پڑھ کر سنائی۔ جب اس آیت تک پہنچے:
فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا ۴۱ۭ۬ (النساء: ۴؍۴۱)
''بھلا تو اس دن کیا حال ہونا ہے، جب سب لوگ جمع ہوں اور ہم ہر امت کے گواہ یعنی رسول کو طلب کریں گے جو ان کی نسبت گواہی دے اور اے پیغمبر(ﷺ)! ہم تم کو بھی طلب کریں کہ اپنی امت کے لوگوں کی نسبت گواہی دو۔''
تو آپﷺنے فرمایا
''بس'' ۔ اور اس وقت آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب من احب ان یستمع القرآن من غیرہ مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب فضل استماع القرآن، رقم: ۱۸۶۷۔)
اس طرح کا سماع نبیوں اور ان کے پیروئوں کا سماع ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے:
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّۃِ اٰدَمَ ۰ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۰ۡوَّمِنْ ذُرِّيَّۃِ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ ۰ۡوَمِمَّنْ ہَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۰ۭ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا ۵۸۞ (مریم: ۱۹؍۵۸)
''یہ وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء میں سے فضل کیا ، اولاد آدم میں سے اور منجملہ ان کے جن کو ہم نے (طوفان کے وقت کشتی میں) نوح علیہ السلام کے ساتھ سوار کر لیا تھا اور ابراہیم اور یعقوب کی نسل میں سے اور ان لوگوں میں سے جن کو ہم نے راہ راست دکھائی اور منتخب فرمایا۔ جب رحمن کی آیتیں پڑھ کر ان کو سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گرپڑتے تھے اور روتے جاتے تھے۔''
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہلِ معرفت کے متعلق فرمایا:
وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ ۰ۚ (المائدہ: ۵؍۸۳)
''جب وہ آیتیں جو کہ رسول پر نازل کی گئی ہیں۔ سنتے ہیں تو حق کی معرفت کی وجہ سے تم ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے دیکھتے ہو۔''
ازبس کہ اس طرح کے سماع والے لوگوں کا ایمان بڑھتا ہے۔ ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور آنسو پھوٹ نکلتے ہیں۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح فرمائی ہے۔ فرمایا:
اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِيَ ۰ۤۖ تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ۰ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللہِ ۰ۭ (الزمر: ۳۹؍۲۳)
''اللہ نے بہت ہی اچھی کتاب اتاری۔ جس کی باتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں۔ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں۔ اس کے سننے سے ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے جسم اور دل نرم ہوکر یادِ الٰہی کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔
اور فرمایا:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ ۲ۚۖ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ ۳ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۰ۭ لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ ۴ۚ (الانفال: ۸؍۲ تا ۴)
''سچے مسلمان تو بس وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب آیاتِ الٰہی ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان کو اور بھی زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں، جو نماز پڑھتے ہیں اور ہم نے جوان کو روزی دی ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، یہی ہیں سچے ایماندار ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں درجے ہیں اور معافی ہے اور عزت کی روزی ہے۔''
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جب کہ اہلِ بدعت کا سماع ہتھیلی (تالی) اور دف اور بانسری کا سماع ہے۔ صحابہ، تابعین اور ائمہ کرام میں سے کسی نے اس طرح کے سماع کو اللہ تبارک تعالیٰ تک پہنچنے کا طریق قرار نہیں دیا۔ وہ اسے قرب الی اللہ اور عبادت میں نہیں بلکہ بدعت مذمومہ میں شمار کرتے ہیں۔
شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بغداد میں میں زندیقوں کی ایجاد کردہ ایک بدعت چھوڑ آیا ہوں۔ جسے وہ تغبیر کہتے ہیں ان کے ذریعہ وہ لوگوں کو قرآن سے روکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے اولیاء عارفین اسے پہچانتے تھے اور ان کو معلوم تھا کہ اس بدعت میں شیطان کا بڑا حصہ ہے۔ اس لیے اس میں حصہ لینے والوں میں سے اچھے اچھے لوگ تائب ہوگئے اور جو لوگ معرفت سے بے بہرہ اور اللہ تعالیٰ کی ولایت کاملہ سے محروم تھے۔ ان میں شیطان کو بہت زیادہ دخل تھا۔ یہ بدعت بمنزلہ شراب کے ہے اور دلوں پر اس کی تاثیر شراب کی نسبت زیادہ گہری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جب اس کا اثر قوی ہو تو یہ بدعت والے بدمست ہوجاتے ہیں۔ ان پر شیاطین اترتے ہیں اور ان میں سے بعض کی زبانوں سے بات چیت کرتے ہیں۔ بعض کو ہوا میں اٹھا لیتے ہیں۔ کبھی کبھی ان میں باہم عداوت ہوجاتی ہے۔ جس طرح شراب پینے والے آپس میں دشمن ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے جس کے شیاطین دوسرے کے شیاطین سے قوی تر ہوتے ہیں۔ وہ اسے قتل کر ڈالتے ہیں۔ جاہل لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے متقی اولیاء کی کرامات ہیں حالانکہ یہ عمل، ا للہ سے دور کرنے والا ہے اور یہ شیطانی احوال میں سے ہے کیونکہ مسلم کا قتل بجز اس موقع کے جہاں اللہ نے حلال کیا ہو، قطعاً حرام ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ بے گناہوں کو قتل کر ڈالنا ان کرامات میں شمار ہو جن سے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سرفراز فرماتا ہے؟ غایت درجہ کی کرامت یہ ہے کہ دین میں استقامت حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ سب سے بڑی کرامت جس سے وہ اپنے کسی بندے کو سرفراز فرماتا ہے یہ ہے کہ اسے ان کاموں کے کرنے میں مدد دے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ جو اس کی رضا کا باعث ہوں۔ جن کی وجہ سے بندہ کو اپنے مالک جل شانہ کا قرب زیادہ حاصل ہو اور اس کے درجے بلند ہوں۔
بعض خوارق جنسِ علم میں سے ہیں۔ مثلاً مکاشفات، بعض جنس قدرت اور ملک میں سے ہیں۔ مثلاً وہ تصرفات جو خارقِ عادت ہوں اور بعض جنسِ غنیٰ میں سے ہیں۔ جس کی مثال وہ علم، وہ اقتدار، وہ مال و غنیٰ اور وہ تمام چیزیں ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان خوارق کے ذریعہ ان چیزوں کے حصول میں مدد لے۔ جو اللہ تعالیٰ کی رضا و محبت اس کے قرب اور علوّ مراتب کا باعث ہیں اور جن کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے تو اس سے اللہ اور اس کے رسول کے ہاں اس کا قرب اور وقعت زیادہ ہوجاتی اور اس کا درجہ بلند ہوجاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اگر وہ ان خوارق کے ذریعہ ان چیزوں کے حصول کا طالب ہو۔ جن سے اللہ اور رسول ﷺ نے منع کیا ہے۔ مثلاً شرک، ظلم، اور بے حیائی کے کام تو وہ اس سے مذمت اور عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق اور گناہوں کو مٹا دینے والی نیکیوں کے ذریعہ اس کی تلافی نہ فرمائے تو وہ گنہگاروں کی فہرست میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہلِ خوارق کو مختلف طریق سے عذاب دیا جاتا ہے۔ کبھی خوارق سلب کر لیے جاتے ہیں۔ جس طرح بادشاہ بادشاہی سے معزول کر دیا جاتا ہے اور عالم سے علم چھین لیا جاتا ہے۔ کبھی اس سے نوافل سلب کر لیے جاتے ہیں اور وہ ولایت خاصہ سے تنزل کر کے ولایتِ عامہ کے درجے میں چلا جاتا ہے۔ کبھی وہ فاسقوں کے درجے تک گر جاتا ہے کبھی اسلام سے مرتد ہوجاتا ہے اور یہ سلوک اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جس کے خارق شیطانی ہوں ان میں سے بہت سے لوگ اسلام سے مرتد ہوجاتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں۔ جنہیں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ خوارق شیطانی ہیں بلکہ وہ انہیں اولیاء اللہ کی کرامات خیال کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تو یہاں تک بھی خیال ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو خرقِ عادت عطا کرتا ہے تو اس کے متعلق اس سے محاسبہ نہیں فرماتا۔ اسی نوع کا ایک اور عقیدہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو بادشاہی، مال اور تصرف عطا فرماتا ہے تو اس کے متعلق اس سے حساب نہیں لیتا۔ بعض لوگ خوارق کے ذریعہ مباح امور کے حصول میں مدد مانگتے ہیں۔ جن کا نہ تو حکم ہوا اور نہ ممانعت۔ یہ ولایت ِ عامہ کا درجہ ہے اور یہ میانہ رو نیک لوگ ہوتے ہیں۔ رہے سابقین و مقربین سو وہ ان لوگوں سے بلند تر ہوتے ہیں۔ جس طرح بندہ رسول (عبد و رسول) بادشاہ نبی (ملک و نبی) سے بلند تر ہوتا ہے۔
جب خوارق صادر ہوں تو بسا اوقات آدمی کا درجہ کم ہوجاتا ہے۔ اس لیے بہت سے صلحاء اس طرح کے امور سے توبہ کرتے ، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے تھے اور جس طرح زنا اور چوری وغیرہ گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ بعض کو خوارق حاصل ہوتے ہیں اور وہ ان کے زائل ہونے کی دعا مانگتے ہیں اور ہر صالح آدمی اپنے مرید سالک کو یہی حکم دیتا ہے کہ خوارق ظاہر ہونے لگیں تو وہیں کھڑا نہ ہوجائے اور نہ ان کو اپنا مشغلہ اور نصب العین بنائے اور یہ عقیدہ رکھنے کے باوجود کہ وہ کرامات ہیں ان پرفخر نہ کرے۔ جب حقیقی کرامات کے متعلق صلحاء کا یہ رویہ ہے تو جو خوارق شیطانی ہوں اور جن کے ذریعہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، ان کا کیا حال ہونا چاہیے۔
مجھے ایسے آدمی بھی معلوم ہیں، جنہیں نباتات گفتگو کے ذریعہ یہ بتا دیتی ہیں کہ ان میں کیا کیا فائدے مضمر ہیں اور حقیقت میں گفتگو شیطان کرتا ہے، جو نباتات میں داخل ہوجاتا ہے، مجھے ایسے آدمی بھی معلوم ہیں، جن سے پتھر اور درخت باتیں کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں اے اللہ کے ولی! تمہیں مبارک ہو۔ پھر وہ آیۂ الکرسی پڑھتے ہیں تو یہ حال دور ہوجاتا ہے۔ میں ایسے آدمی کو بھی پہچانتا ہوں جو پرندے کا شکار کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو چڑیاں اور دیگر پرندے اس سے کہتے ہیں کہ مجھے پکڑ لیجیے تاکہ مجھے فقراء کھائیں۔ دراصل ان میں شیطان داخل ہوتا ہے۔ جس طرح وہ انسانوں میں داخل ہوتا ہے اور ان کے بھیس میں ان سے باتیں کرتا ہے۔ بعض آدمی گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں، دروازہ بند ہوتا ہے کھل نہیں سکتا اور وہ اپنے آپ کو گھر کے اندر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح کبھی وہ اپنے آپ کو شہر کے دروازہ سے باہر دیکھتا ہے حالانکہ وہ اندر ہوتا ہے اور کبھی وہ شہر کے اندر دیکھتا ہے۔ حالانکہ وہ ابوابِ شہر سے باہر ہوتا ہے۔ جن کبھی اس کو اندر اور کبھی باہر لے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سرعت ِعمل ہوتی ہے یا نظر بندی یا اسے روشنیاں دکھاتے ہیں اور وہ جو چیز مانگے اسے حاضر کرتے ہیں۔ یہ سب شیاطین کا کام ہے جو کہ اپنے دوست کی صورت تبدیل کر کے سامنے آتے ہیں۔ جب وہ بار بار آیت الکرسی پڑھتے تو یہ سب ڈھونگ ختم ہوجاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مجھے وہ شخص بھی معلوم ہے، جس سے کوئی مخاطب ہوتا ہے کہ میں اللہ کا مامور فرشتہ ہوں اور تم وہی مہدی ہو ،جس کی بشارت نبیﷺنے دی ہے۔ اس کے لیے خوارق ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلاً اس کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ٹڈی دل یا دیگر ہوائی پرندے دائیں طرف جائیں تو وہ دائیں طرف اڑنے لگتے ہیں اور اگر وہ ارادہ کرے کہ وہ بائیں طرف جائیں تو وہ بائیں طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ جب اس کے دل میں کسی چارپائے کے متعلق یہ خیال گزرتا ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے یا سو جائے یا چلا جائے تو ویسا ہی ہوجاتا ہے اور اسے بظاہر کوئی حرکت نہیں کرنی پڑتی۔ جن اسے اٹھا کر مکہ لے جاتے ہیں اور واپس لے آتے ہیں اور اس کے پاس خوبصورت اشخاص لے آتے ہیں اور شیاطین اس سے کہتے ہیں کہ یہ کروبی فرشتے ہیں، تمہاری زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دل میں خیال کرتا ہے کہ انہوں نے بے ریش لڑکوں کی صورت کیسے اختیار کر لی۔ پھر سراٹھاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ داڑھی والے بزرگ ہیں اور اس سے کہہ رہے ہیں کہ تم مہدی ہو۔ (غالباً اسی وجہ سے بہت سے جھوٹے نبیوں اور مہدیوں کو دھوکا ہوا ہے۔ (مترجم))
اور اس کی علامت یہ ہے کہ تمہارے جسم میں خال اُگے گا۔ سو وہ اُگ پڑتا ہے اور وہ اسے دیکھ لیتا ہے۔ اسی طرح کی اور کئی باتیں ہیں اور یہ سب شیطان کے مکر ہیں۔ یہ بہت وسیع باب ہیں اور اس کے متعلق جو جو باتیں مجھے معلوم ہیں۔ا گر انہیں ذکر کرنے لگوں تو ایک بڑی ضخیم کتاب کی ضرورت پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَكْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ ۰ۥۙ فَيَقُوْلُ رَبِّيْٓ اَكْرَمَنِ ۱۵ۭ وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَيْہِ رِزْقَہٗ ۰ۥۙ فَيَقُوْلُ رَبِّيْٓ اَہَانَنِ ۱۶ۚ (فجر: ۸۹؍۱۵،۱۶)
''لیکن انسان کو جب اس کاپروردگار آزمائش کے لیے عزت و نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرا پروردگار میری تعظیم و تکریم کرتا ہے اور جب اس کی آزمائش ہی کے لیے اس کی روزی اس پر تنگ کرتا ہے تو وہ بُڑبُڑاتا پھرتا ہے کہ میرا پروردگار مجھے ذلیل سمجھتا ہے۔''
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلاَّ (ہرگز نہیں) یہ لفظ زجر و تنبیہ کے لیے آتا ہے۔ زجر اس لیے کی جاتی ہے کہ ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں اور تنبیہ اس امر کی ہوتی ہے کہ جو اس کے بعدبتایا جارہا ہے ، اس پر عمل کرو۔
حقیقت ِ امر یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے دنیوی نعمتیں حاصل ہوتیں ہیں۔ وہ کرامت والوں میں شمار نہیں ہوتا اور نہ اس کی دولت و حشمت وہ کرامت ہے۔ جو اللہ عزوجل کی طرف سے اپنے بندے کی عزت افزائی کے لیے ارزانی ہوتی ہے اور نہ ہر وہ شخص جس پر نعم و ارزاق کی تنگی ہو ذلیل لوگوں میں شمار ہوسکتا ہے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندے کو راحت اور مصیبت کے ذریعے سے آزماتا ہے۔ کبھی دنیا کی نعمتیں ایسے لوگوں کو دیتا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتا اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صاحب عزت ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں نعمتیں عطا کرنے سے غرض یہ ہوتی ہے کہ بندے کو گمراہی میں ڈھیل دی جائے اور کبھی اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں اور اولیاء کو دنیوی نعمتوں سے دور رکھتا ہے تاکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا مرتبہ کم نہ ہوجائے یا ان کی وجہ سے وہ ایسی باتوں میں دامن آلودہ نہ ہوجائیں جوکہ اسے ناپسند ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نیز کراماتِ اولیاء کے لیے ضروری ہے کہ ان کا سبب ایمان اور تقویٰ ہو، اس لئے جو باتیں کفر اور فسوق و عصیان کے سبب سے ظاہر ہوں ، وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خوارق میں سے کہلاتی ہیں نہ کہ اولیاء اللہ کی کرامات میں سے۔
چنانچہ جس کے خوارق نماز، قراء ت ، ذکر، شب ِ بیداری اور دعا سے حاصل نہ ہوں بلکہ شرک سے حاصل ہوں، مثلاً جو مردہ اور غائب اشخاص سے دعا کرنے یا فسق و عصیان کے ارتکاب، سانپ ، بھڑیں، چوہے اور لہو وغیرہ نجاستیں کھانے سے حاصل ہوں، اور جو خوارق ناچ گانے اور خصوصاً غیر محرم عورتوں اور بے ریش لڑکوں کی رفاقت میں مشغول رقص و سرود ہونے سے حاصل ہوں۔ جن کے خوارق قرآن سننے سے کم ہو جائیں۔ مزامیرِ شیطان پر کان دھرنے سے قوت حاصل کریں۔ صاحب ِ خوارق رات بھر ناچتا رہے اور نماز کا وقت آئے تو بیٹھے بیٹھے نماز ادا کرے یا مرغی کی طرح نماز کو ٹھونگیں مارے، قرآن سننے کو برا سمجھے اور اس سے ناک منہ چڑھائے اور اس کا سننا اس کے لیے باعث تکلیف ہو۔ اس سے اس کے دل میں محبت، ذوق اور لذت پیدا نہ ہو۔ سیٹیاں اور تالیاں بجانے کو پسند کرے اور اس حالت میں اسے وجد آئیں تو یہ سب شیطانی ''حال'' ہیں
اور انہیں احوال پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَلَہٗ قَرِيْنٌ ۳۶
(الزخرف: ۴۳؍۳۶)
''اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آنکھیں بند کر لے۔ ہم اس پر ایک شیطان تعینات کر دیتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔''
اور قرآن ہی ذکر رحمن ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى ۱۲۴ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا ۱۲۵ قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا ۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى ۱۲۶(طٰہٰ: ۲۰؍۱۲۴)
''اور جس نے نہ ہماری یاد دہانی (یعنی قرآن) سے روگردانی کی تو اس کی زندگی تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن میں بھی ہم اس کو اندھا کر کے اٹھائیں گے، وہ کہے گا اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا اور میں تو دنیا میں اچھا خاصا دیکھتا بھالتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس طرح ہوناچاہیے تھا۔ دنیا میں تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں مگر تو نے ان کی کچھ خبر نہ لی، اور اسی طرح آج تیری بھی خبر نہ لی جائے گی۔''
فَنَسِیْتَھَا کے معنی ہیں کہ تو نے ان پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھے اور اس پر عمل کرے۔ اس کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے کہ وہ نہ تو دنیا میں کبھی گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں شقی ہوگا۔ یہ کہہ کر آپ نے یہ آیت پڑھی۔

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top