• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

كيا نصف شعبان كا روزہ ركھ لے چاہے حديث ضعيف ہى كيوں نہ ہو ؟

شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
كيا نصف شعبان كا روزہ ركھ لے چاہے حديث ضعيف ہى كيوں نہ ہو ؟

كيا حديث كے ضعف كا علم ہونے كے باوجود اس پر عمل كرنا جائز ہے يعنى فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنا صحيح ہے ؟
نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا اور پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا، يہ علم ميں رہے كہ نفلى روزہ اللہ تعالى كى عبادت ہے، اور اسى طرح رات كا قيام بھى ؟
الحمد للہ:
اول:
نصف شعبان كے وقت نماز روزہ كے فضائل كے متعلق جو احاديث بھى وارد ہيں وہ ضعيف قسم ميں سے نہيں، بلكہ وہ احاديث تو باطل اور موضوع و من گھڑت ہيں، اور اس پر عمل كرنا حلال نہيں نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں.
ان روايات كے باطل ہونے كا حكم اكثر اہل علم نے لگايا ہے، جن ميں ابن جوزى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " الموضوعات " ( 2 / 440 - 445 ) اور ابن قيم الجوزيۃ رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " المنار المنيف حديث نمبر ( 174 - 177 ) اور ابو شامۃ الشافعى نے " الباعث على انكار البدع والحوادث ( 124 - 137 ) اور العراقى نے " تخريج احياء علوم الدين حديث نمبر ( 582 ) اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے ان احاديث كے باطل ہونے كا " مجموع الفتاوى ( 28 / 138 ) ميں نقل كيا ہے.
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نصف شعبان كا جشن منانے كے حكم ميں كہتے ہيں:
" اكثر اہل علم كے ہاں نصف شعبان كو نماز وغيرہ ادا كر جشن منانا اور اس دن كے روزہ كى تخصيص كرنا منكر قسم كى بدعت ہے، اور شريعت مطہرہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى"
اور ايك مقام پر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نصف شعبان كى رات كے متعلق كوئى بھى صحيح حديث وارد نہيں ہے بلكہ اس كے متعلق سب احاديث موضوع اور ضعيف ہيں جن كى كوئى اصل نہيں، اور اس رات كو كوئى خصوصيت حاصل نہيں، نہ تو اس ميں تلاوت قرآن كى فضيلت اور خصوصيت ہے، اور نہ ہى نماز اور جماعت كى.
اور بعض علماء كرام نے اس كے متعلق جو خصوصيت بيان كى ہے وہ ضعيف قول ہے، لہذا ہمارے ليے جائز نہيں كہ ہم كسى چيز كے ساتھ اسے خاص كريں، صحيح يہى ہے"
اللہ تعالى ہى توفيق دينےوالا ہے.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 511 ).
دوم:
اور اگر ہم تسليم بھى كر ليں كہ يہ موضوع نہيں: تو اہل علم كا صحيح قول يہى ہے كہ مطلقا ضعيف حديث كو نہيں ليا جا سكتا، چاہے وہ فضائل اعمال يا ترغيب و ترھيب ميں ہى كيوں نہ ہو.
اور صحيح حديث كو لينے اور اس پر عمل كرنے ميں مسلمان شخص كے ليے ضعيف حديث سے كفايت ہے، اور اس رات كى كوئى تخصيص ثابت نہيں اور نہ ہى اس دن كى كوئى فضيلت شريعت مطہرہ ميں ملتى ہے، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے.
علامہ احمد شاكر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
احكام اور فضائل اعمال وغيرہ ميں ضعيف حديث نہ لينے ميں كوئى فرق نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صحيح يا حسن حديث كے علاوہ كسى چيز ميں كسى كے ليے حجت نہيں.
ديكھيں: الباعث الحثيث ( 1 / 278 ).
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ " القول المنيف فى حكم العمل بالحديث الضعيف " كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
 

israrulhaq

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
32
ضعیف حدیث فضائل کے باب میں مقبول ‘قابل عمل اور لائق استدلال ہے

علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں امام طبرانی کی معجم کبیرومعجم اوسط سے شب براء ت کی فضیلت والی روایت نقل کرنے کے بعد راویوں کی توثیق وتعدیل کرتے ہوئے لکھا : ورجالھما ثقات ۔ ترجمہ : اور ان دونوں احادیث کے راوی معتبر وثقہ ہیں ۔ (مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ماجاء فی الھجران ) اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ شب براء ت کی فضیلت والی روایت ضعیف ہے جیساکہ سوال میں ذکر کیا گیاہے تب بھی اُسے ناقابل عمل نہیں کہا جاسکتا‘اس لئے کہ اس حدیث شریف سے شب براء ت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جبکہ ناقدین حدیث وائمۂ جرح وتعدیل کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث فضائل کے باب میں مقبول ‘قابل عمل اور لائق استدلال ہے ۔ شارح بخاری ‘صاحب فتح الباری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (وصال ۸۵۲ ؁ ھ)نے المطالب العالیہ میں ایک مستقل باب ہی یہ باندھا ہے ’’باب العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال یعنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا بیان ‘‘اس باب کے تحت مندرجہ ذیل حدیث پاک نقل کی ہے : عن انس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من بلغہ عن اللہ تعالی فضیلۃ فلم یصدق بھا لم ینلھا ۔ ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اُنہوں نے فرمایا ‘حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو اللہ تعالی کی جانب سے کوئی فضیلت کی بات پہنچے اور اس نے اس کی تصدیق نہیں کی تو وہ اُس فضیلت سے محروم رہے گا۔ (المطالب العالیۃ‘ کتاب العلم‘ حدیث نمبر: 3133) فضائل میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے سے متعلق امام ابوزکریا محی الدین یحی بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ (۶۷۶ ؁ ھ)نے اپنی تصانیف میں متعدد مقامات پر واضح اور دوٹوک انداز میں تصریح فرمائی : وقد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ۔ ترجمہ: علماء امت نے فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کو بالاتفاق جائز کہا ہے ۔ (شرح الاربعین النوویۃ ، مقدمہ ۔ المجموع شرح المھذب ) علامہ علی بن سلطان محمد قاری رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۱۴ ؁ ھ)نے مرقاۃ المفاتیح میں اس طرح لکھا ہے : وقد اتفق الحفاظ علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال اھ ۔ ترجمہ :تمام حفاظ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا‘جائزہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب العلم ، الفصل الثالث ) حدیث ضعیف اگر متعدد اسناد اور کئی ایک طرق سے منقول ومروی ہوتو اس کا ضعف ختم ہوجاتاہے اور وہ روایت ’’حسن لغیرہ ‘‘ کا درجہ حاصل کرلیتی ہے ۔ چنانچہ علامہ زین الدین محمد عبدالرء وف مناوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۳۱ ؁ ھ )نے ضعیف احادیث کے بارے میں لکھا ہے : وھذہ الاخبار وان فرض ضعفھا جمیعہا لکن لاینکر تقوی الحدیث الضعیف بکثرۃ طرقہ وتعددمخرجیہ الا جاھل بالصناعۃ الحدیثیۃ او معاند متعصب۔ ترجمہ : اگر ان تمام احادیث شریفہ کا ضعیف ہونا فرض کرلیا جائے تب بھی اسناد کی کثرت اور راویوں کے تعدد کی بنیاد پر ضعیف حدیث‘ مضبوط وقوی قرار پاتی ہے ، اس حقیقت کا انکار فن حدیث سے ناواقف شخص ہی کرسکتاہے یا کوئی تعصب پسند مخالف ۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، الابدال من الموالی ) حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۱۴ ؁ ھ)نے تحریر کیا ہے : وتعدد الطرق یبلغ الحدیث الضعیف الی حدالحسن ۔ ترجمہ : اسناد کی کثرت ضعیف حدیث کو ’’حسن‘‘ کے درجہ تک پہنچاتی ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلوٰۃ ، باب مالایجوز من العمل فی الصلوٰۃ ) امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کو شعب الایمان میں الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ تین علحدہ اسانید سے ذکر کی ہے۔ اس روایت کی اسناد کے تعدد کی بابت تو امام بیہقی روایت نقل کرنے کے بعدخود فرماتے ہیں: ولھذا الحدیث شواھد من حدیث عائشۃ و ابی بکر الصدیق و ابی موسی الاشعری۔ ترجمہ: اس حدیث پاک کے ’’شواہد‘‘ (اس کی تائید کرنے والی روایتیں) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ‘حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں۔ (شعب الایمان‘ ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان‘ حدیث نمبر: 3665‘ 3666‘ 3667)۔واللہ اعلم بالصواب ۔ یہ جواب مفتی ضیاء اللہ نقشبندی نے ضعیف حدیث فضائل کے باب میں مقبول ‘قابل عمل اور لائق استدلال ہونے کے بارے میں دیا ہے۔اسرارالحق۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اگر نصف شعبان کے بارے میں کوئی فضیلت صحیح حدیث سے مروی بھی ہو تو اسے کسی عبادت کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ نے اس دن یا رات کوئی خاص عبادت نہیں کی۔
تو اس دن بطورِ خاص روزہ رکھنا یا رات کو مخصوص نوافل پڑھنا بدعت ہوگا۔ البتہ روٹین میں آنے والا روزہ یا قیام وغیرہ کیا جا سکتا ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے:
« لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي . ولا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام . إلا أن يكون في صوم يصومه أحدكم » ۔۔۔ صحيح مسلم
جمعہ کی رات کو دیگر راتوں سے کسی قیام کے ساتھ خاص نہ کرو۔ اور نہ جمعہ کے دن کو دیگر ایام سے روزے کے ساتھ مخصوص کرو الا یہ کہ ایسا روزہ جو تم میں کوئی (اپنی عادت کے مطابق) رکھتا ہے۔ (مثلاً ایام بیض کے روزے یا ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کی صورت میں جمعہ کا روزہ وغیرہ)

اس حدیث مبارکہ سے علم ہوا کہ کسی رات کو، خواہ اس کی کوئی فضیلت ہی کیوں نہ ہو، کسی غیر مسنون عبادت کیلئے خاص کرنا حرام ہے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یہ جواب مفتی ضیاء اللہ نقشبندی نے ضعیف حدیث فضائل کے باب میں مقبول ‘قابل عمل اور لائق استدلال ہونے کے بارے میں دیا ہے۔اسرارالحق۔
عجیب... یعنی اتنی سمجھ نہیں ہے کے ایک بندہ جو خود کو نقشبندی لکھ رہا ہے اور واضح طور پر لکھا نظر بھی آرہا ہے... ضعیف حدیث کے فضائل... افسوس صد افسوس
 

israrulhaq

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
32
عجیب... یعنی اتنی سمجھ نہیں ہے کے ایک بندہ جو خود کو نقشبندی لکھ رہا ہے اور واضح طور پر لکھا نظر بھی آرہا ہے... ضعیف حدیث کے فضائل... افسوس صد افسوس
کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ہوا میں تیر مارنے کی بجائے پورا مضمون پڑھ کر پھر اس کا جواب دیتے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ہوا میں تیر مارنے کی بجائے پورا مضمون پڑھ کر پھر اس کا جواب دیتے۔
اہل علم حضرات کا یہ وطیرہ نہیں ہوتا یہ جو الفاظ میں نے نشان زدہ کئے ہیں بات کو ان کے بغیر بھی کیا جاسکتا تھا۔۔۔ لیکن افسوس کے مجھے ہی سمجھنے میں غلطی ہوئی۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ضعیف حدیث کو ذکر کرنا جائز نہیں البتہ اسے صرف اس صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے کے اس کے ضعیف کو بھی ساتھ ہی بیان کیا جائے تاکہ سامعین یا قارئین کو علم ہوجائے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب تو کی گئی ہے مگر ثابت نہیں کیونکہ ضعیف حدیث کو اس کا ضعف بیان کئے بغیر ہی آگے نقل کردیا گیا تو یقینا ایک طرف یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہوگا اور دوسری طرف لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ جو قطعا جائز نہیں لہذا حدیث کو آگے ذکر کرنے والا دو حالتوں سے خالی ہے۔۔۔

١۔ اگر اسے حدیث کا ضعف کا علم ہو۔
٢۔ اسے یہ علم نہ ہو۔

اگر اسے حدیث کے ضعیف ہونے کا علم تھا اور اس نے پھر بھی اسے اس کا ضعف واضح کئے بغیر آگے بیان کردیا تو لازما اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ یہ وعید صادق آئے گی۔۔۔

رسول الله صلی الله عليه وسلم من حدث عني بحديث يری أنه کذب فهو أحد الکاذبين
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شہرت کے ساتھ منقول ہے کہ جس نے علم کے باوجود جھوٹی حدیث کو میری طرف منسوب کیا وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر ٢)۔۔۔

اور اگر اسے حدیث کے ضعیف ہونے کا علم نہیں تھا تو پھر بھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے گناہ گار ضرور ہوگا۔۔۔

آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے آگے بیان کردے۔۔۔

لہذا ثابت ہوا کے جو شخص کسی حدیث کی صحت وضعف کا علم نہیں رکھتا اسے چاہئے کہ بلاتحقیق اسے آگے بیان نہ کرے نیز جب عام معاملات کے لئے شریعت میں تحقیق کا حکم دیا گیا ہے اور عدالت ودیانت کا اعتبار کیا گیا ہے تو دین کے معاملے میں بالاوٰلی تحقیق وعدالت کو ملحوظ رکھنا چاہئے جیسا کے یہ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے۔۔۔

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوٓا۟ أَن تُصِيبُوا۟ قَوْمًۢا بِجَهَـٰلَةٍ فَتُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَـٰدِمِينَ ﴿٦﴾
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ (ربط)

امام ابوشامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کے ضعیف حدیث کو ذکر کرنا جائز نہیں ہاں صرف اس صورت میں جائز کے کے اس کا ضعیف بھی بیان کیا جائے محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔۔۔(تمام المنہ صفحہ ٣٢، الباعث علی انکار البدع والحوادت صفحہ ٥٤)۔۔۔

امام مسلم فرماتے ہیں!۔
جو شخص حدیث کے ضعف جانتا ہے اور پھر اسے بیان نہیں کرتا تو وہ ایسا کرنے کی وجہ سے گناہگار بھی ہوتا ہے اور لوگوں کو دھوکہ بھی دیتا ہے کیونکہ یہ امکان موجود ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے۔۔۔ (مقدمہ صحیح مسلم)

خلاصہ کلام!۔
حدیث بیان کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہئے جب تک تحقیق وتدقیق کے ذریعے کسی حدیث کے بارے میں کامل یقین نہ ہو جائے اسے آگے بیان نہیں کرنا چاہئے ہاں اگر ضعف یا موضوع روایت کا بیان کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو وہاں ساتھ ہی اس کی حالت بھی بیان کردینی چاہئے کہ یہ ضعیف یا موضوع ہے۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں امام طبرانی کی معجم کبیرومعجم اوسط سے شب براء ت کی فضیلت والی روایت نقل کرنے کے بعد راویوں کی توثیق وتعدیل کرتے ہوئے لکھا : ورجالھما ثقات ۔ ترجمہ : اور ان دونوں احادیث کے راوی معتبر وثقہ ہیں ۔ (مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ماجاء فی الھجران ) اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ شب براء ت کی فضیلت والی روایت ضعیف ہے جیساکہ سوال میں ذکر کیا گیاہے تب بھی اُسے ناقابل عمل نہیں کہا جاسکتا‘اس لئے کہ اس حدیث شریف سے شب براء ت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جبکہ ناقدین حدیث وائمۂ جرح وتعدیل کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث فضائل کے باب میں مقبول ‘قابل عمل اور لائق استدلال ہے ۔ شارح بخاری ‘صاحب فتح الباری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (وصال ۸۵۲ ؁ ھ)نے المطالب العالیہ میں ایک مستقل باب ہی یہ باندھا ہے ’’باب العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال یعنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا بیان ‘‘اس باب کے تحت مندرجہ ذیل حدیث پاک نقل کی ہے : عن انس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من بلغہ عن اللہ تعالی فضیلۃ فلم یصدق بھا لم ینلھا ۔ ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اُنہوں نے فرمایا ‘حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو اللہ تعالی کی جانب سے کوئی فضیلت کی بات پہنچے اور اس نے اس کی تصدیق نہیں کی تو وہ اُس فضیلت سے محروم رہے گا۔ (المطالب العالیۃ‘ کتاب العلم‘ حدیث نمبر: 3133) فضائل میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے سے متعلق امام ابوزکریا محی الدین یحی بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ (۶۷۶ ؁ ھ)نے اپنی تصانیف میں متعدد مقامات پر واضح اور دوٹوک انداز میں تصریح فرمائی : وقد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ۔ ترجمہ: علماء امت نے فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کو بالاتفاق جائز کہا ہے ۔ (شرح الاربعین النوویۃ ، مقدمہ ۔ المجموع شرح المھذب ) علامہ علی بن سلطان محمد قاری رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۱۴ ؁ ھ)نے مرقاۃ المفاتیح میں اس طرح لکھا ہے : وقد اتفق الحفاظ علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال اھ ۔ ترجمہ :تمام حفاظ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا‘جائزہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب العلم ، الفصل الثالث ) حدیث ضعیف اگر متعدد اسناد اور کئی ایک طرق سے منقول ومروی ہوتو اس کا ضعف ختم ہوجاتاہے اور وہ روایت ’’حسن لغیرہ ‘‘ کا درجہ حاصل کرلیتی ہے ۔ چنانچہ علامہ زین الدین محمد عبدالرء وف مناوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۳۱ ؁ ھ )نے ضعیف احادیث کے بارے میں لکھا ہے : وھذہ الاخبار وان فرض ضعفھا جمیعہا لکن لاینکر تقوی الحدیث الضعیف بکثرۃ طرقہ وتعددمخرجیہ الا جاھل بالصناعۃ الحدیثیۃ او معاند متعصب۔ ترجمہ : اگر ان تمام احادیث شریفہ کا ضعیف ہونا فرض کرلیا جائے تب بھی اسناد کی کثرت اور راویوں کے تعدد کی بنیاد پر ضعیف حدیث‘ مضبوط وقوی قرار پاتی ہے ، اس حقیقت کا انکار فن حدیث سے ناواقف شخص ہی کرسکتاہے یا کوئی تعصب پسند مخالف ۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، الابدال من الموالی ) حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۱۴ ؁ ھ)نے تحریر کیا ہے : وتعدد الطرق یبلغ الحدیث الضعیف الی حدالحسن ۔ ترجمہ : اسناد کی کثرت ضعیف حدیث کو ’’حسن‘‘ کے درجہ تک پہنچاتی ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلوٰۃ ، باب مالایجوز من العمل فی الصلوٰۃ ) امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کو شعب الایمان میں الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ تین علحدہ اسانید سے ذکر کی ہے۔ اس روایت کی اسناد کے تعدد کی بابت تو امام بیہقی روایت نقل کرنے کے بعدخود فرماتے ہیں: ولھذا الحدیث شواھد من حدیث عائشۃ و ابی بکر الصدیق و ابی موسی الاشعری۔ ترجمہ: اس حدیث پاک کے ’’شواہد‘‘ (اس کی تائید کرنے والی روایتیں) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ‘حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں۔ (شعب الایمان‘ ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان‘ حدیث نمبر: 3665‘ 3666‘ 3667)۔واللہ اعلم بالصواب ۔ یہ جواب مفتی ضیاء اللہ نقشبندی نے ضعیف حدیث فضائل کے باب میں مقبول ‘قابل عمل اور لائق استدلال ہونے کے بارے میں دیا ہے۔اسرارالحق۔
ضعیف حدیث پرمطلقاً عمل نہ کیا جائے نہ فضائل و مستحبات میں اور نہ ان کے علاوہ کسی اور موقع پر کیونکہ ضعیف حدیث کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ظن مرجوح کا فائدہ دیتی ہے۔ لہٰذا جب اس کی یہ پوزیشن ہے تو اس پر عمل کیونکر جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی بہت سی آیات میں ظن کی مذمت بیان کی چنانچہ فرمایا ہے ’’بے شک جہاں یقین چاہئے، وہاں ظن کوئی کام نہیں آتا‘‘ نیز فرمایا ’’وہ تو محض ظن کی پیروی کرتے ہیں‘‘ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ظن سے بچو کیونکہ ظن بہت جھوٹی بات ہے‘‘
تفصیل کیلئے یہ آرٹیکل ملاحظہ کریں!
 

shinning4earth

مبتدی
شمولیت
اپریل 11، 2013
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
26
کوئی بھی عمل 2 چیزوں کے بنا قبول نہیں
1۔ نیت کا اخلاص
2۔سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

اس کی مثال نصف شعبان کے روزے سے اگر لی جائے ۔ تو یقینا جو شخص روزہ رکھنا چاہتا ہے اس کی نیت خالص اللہ تعالی کا فضل حاصل کرنے کی ہے۔
لیکن اس عمل میں سنت نبی کا فقدان ہے یعنی یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے تو یقینا یہ عمل قابل قبول نہیں ۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دین میں تمام پیدا کی گئی چیزوں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
2۔دوسرا وہ عمل جو سنت سے تو ثابت ہے لیکن نیت اخلاص سے خالی ، تو ایسا عمل بھی قبول نہیں۔

بے شک قبول کرنے والی ذات اللہ کی ہے ۔ لیکن مقبول ہونے کے لئے کھول کھول کے طریقے بیان کرنے والی ذات بھی اللہ ہی کی ہے
 
Top