• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لال مسجد کے لال ہونے کے اسباب

شمولیت
جنوری 07، 2014
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
6
یونانی دیومالا کی جس کہانی /محاورے کو عموماً پڑھے لکھے اردو دان طبقے میں سب سے آسانی سے جانا جاتا ہے۔ اس کا نام ہے پنڈورا باکس۔
پنڈورا نامی خاتون کو ایک جار دیا گیا ، جس پر لکھا تھا کہ اسے مت کھولنا۔ اس میں برائیاں بھری ہوئی ھیں۔تجسس کے ہاتھوں جار کُھل گیا، تو برائیاں تمام دنیا میں پھیل گئیں۔ پنڈورا باکس کا محاورہ ہر اس معاملے کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے، جس کو چھیڑنے سے کئی دوسرے معاملات بھی خراب ہونے کا خدشہ ہو۔
لال مسجد کے واقعے کے بارے جب بھی سوچتا ہوں۔ صرف پنڈورا باکس کا لفظ ذہن میں آتا ہے۔
وجہ یہ کہ اس واقعے سے پہلے پاکستان میں پرویزی خلافت کی وجہ سے نسبتاً امن، باہمی رواداری اور معاشی آسودگی کا دور دورہ تھا۔ تمام پاکستانی بلا تخصیص شیعہ سُنی قادیانی ہندو عیسائی ایک ہی دیگ سے کانی آنکھوں کے ساتھ پلاؤ میں سے بوٹیاں چن چن کر کھا رہے تھے۔ شازیہ منظور اور نرما کی زندگی میں بہت عرصے بعد تین وقت کے کھانے کا بندوبست ہوا تھا۔ علامہ اقبال کا نواسہ یوسف صلّی اپنے ماتھے پہ پڑی اپنے بالوں کی لٹ کو بار بار پھونک مار کر اڑانے کے بعد بسنت کے موقع پر آب مقدس کے ساتھ چکن تکے نگلنے (اور اس عمل کے دوران کبھی کبھار پتنگ کی ڈور کو ٹچ کرنے ) کے فضائل پر وعظ دے دے کر پھاوا ہوچکا تھا۔
اس ایک واقعے کے بعد ملک میں منتخب حکومتوں کے خلاف ایک عجیب افراتفری اور بھگدڑ کا آغاز ہوا، جو اب تک کنٹرول نہیں ہو سکی۔ اس کیفیت کو غالباً عربی زبان میں حکومت کے خلاف خروج کہتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ اس واقعے کے آفٹر شاکس نے پاکستانی معاشرے کے اکثر پاپی افراد کو پاپ مولوی بنا دیا ، جو رشوت اور بے ایمانی سے بڑھے اور بھرے پیٹ پر بار بار ہاتھ پھیر کر فرما رہے ہیں کہ فلانا فلانا اور خاص طور پر فلانا کافر ہے۔ وہ حضرات تکفیریوں کا پراپیگنڈا آب زم زم سمجھ کرسوشل میڈیا میں شئیر کر رہے ہیں، جن کی ساری زندگی کا مطلوب و مقصود ہی امریکہ و برطانیہ کا پاسپورٹ رہا ہے۔ وہ لوگ خواتین کو پردے کی تلقین کر رہے ھیں جن کی آنکھیں اور انگلیاں تمام عمر پرائی خواتین کے لمس سے آلودہ رہیں۔ مجھے انہی ننھی ننھی معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے لال مسجد کے واقعے کے اسباب جاننے بارے کافی تجسس رہا ہے۔
1979 کے روسی حملے کے بعد شائد لال مسجد ہی وہ واحد قابل ذکر واقعہ ہے جس کو پاکستان کی معاشرتی تاریخ کا اہم سنگ میل سمجھا جا سکتا ہے۔
اس بارے بہت سے باخبر حضرات کا لکھا پڑھا۔ اکثر کا رونا پیٹنا اس بات سے نہیں ہٹتا کہ معصوم بچیاں اور قرآن فاسفورس کے بم مار کر بخارات میں تبدیل کردیے گئے۔ تقریباً تمام افراد واقعے کے اسباب کا دھاگہ عموماً اسلام آباد نامی شہر میں اسلام کی غیر موجودگی اور مختلف اقسام کے اسلام (اور جوڈو کراٹے ) سکھانے والے مدرسوں کی زیادتی سے جوڑتے ہیں۔ لیکن شکی ذہن پتہ نہیں کیوں ہمیشہ اس کے پیچھے ایک نادیدہ سازش کو ڈھونڈتا ہے۔ شائد اس لیے کہ پاکستان نامی اسلامی ملک کے صحافیوں کے بارے ایک ہی بات سچ پائی ہے ۔ وہ یہ کہ واقعے کے فوری بعد سچ بولنا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی اور جانی خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔ مرشد ڈیل کارنیگی کے فرمودات کے عین مطابق شعبہ صحافت لوگوں کو وہی بات سناتا ہے ، جو وہ سننا چاھتے ھیں۔ اصل بات کا علم عوام کو پچیس تیس سال بعد تب ہوتا ہے جب اسباب زوال امت بیان کرنے اور اپنے سینے سے نام نہاد پچھتاوے کو اتارنے کے لیے شہاب نامے ٹائپ کی سوانح حیات لکھی جاتی ھیں۔ لیکن خیر شائد کچھ واقعات اتنے پیچیدہ ہوتے ھیں کہ تصویر کے تمام ٹکڑے اکٹھے کرتے کرتے کافی سال لگ جاتے ھیں۔
کیا وجہ تھی کہ مبینہ طور پر پاک فوج کے حامی عبدالعزیز نے یکدم پینترہ بدل کر پاک فوج کے خلاف ہی بندوق اٹھا لی؟؟
کیا اس کی وجہ واقعی اسلام آباد میں اسلام کی کمی تھی؟ اگر ہاں، تو برسوں سے سویا مرد مجاہد اچانک کس کے پانی کا جگ پھینکنے سے جاگ اٹھا؟ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ لال مسجد کے واقعہ کس کس کو فائدہ دے سکتا تھا؟
میری رائے میں ان سوالوں کےسب سے ٹھوس جواب ایک نسبتاً گمنام صحافی ایشیا ٹائمز آن لائن کے نمائندے سید سلیم شہزاد نے اپنی کتاب "(Inside Al Qaedaand the Taliban)" میں دیے ہیں۔ اس کتاب کی تیاری میں جن ذرائع سے مدد لی گئی ان میں القاعدہ کے پاکستانی اراکین (اورپاک فوج کے سابقہ کمانڈوز) کیپٹن خرم عاشق، میجر ہارون عاشق اور میجر عبدالرحمٰن پاشا بھی شامل ہیں، جن کا نام ممبئی حملوں کی سازش کرنے والوں میں آتا ہے۔
سید سلیم شہزاد کتاب کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد 2010 میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں شہید ہوچکے ھیں۔ ان کے قتل کا شبہ حسب معمول آئی ایس آئی پر ظاہر کیا جاتا ہے۔
سلیم شہزاد کے مطابق لال مسجد واقعے کے پیچھے القاعدہ ہے۔
القائدہ کے ایک صاحب ھیں عبدالحکیم حسان۔ شیخ عیسٰی اور ابوعمرو کے نام سے بھی مشہوری ہے۔نیشنیلٹی مصر، لیکن کاروبار زندگی کے سلسلہ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قیام ہے۔ اب یہ صاحب ستر اسی کے پیٹے میں ہیں اور قبائلی علاقوں میں اکثر جہادیوں کے پیر ہیں۔
یہ صاحب پہلے اخوان کے رکن تھے۔ پھر انور سادات کا تختہ الٹنے کی سازش میں نام آیا۔ آخر انور سادات کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ رہائی کے بعد اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے الازہر یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر سیدھا افغانستان میں قدم رنجا فرمایا جہاں القائدین سے ملاقات ہوئی۔ متفرق جسمانی وجوہات کی بناء پر بندوقیں نہیں چلائیں، لیکن قلم کے ذریعے کام چُک کے رکھا۔ ان کی کتاب "الولاء والبراء" (دوستی اور دشمنی کے اصول)تکفیریوں کی فضائل اعمال سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق جمہوریت کفر ہے کیونکہ اگر مذہبی حلقے جمہوریت میں اقتدار میں آبھی جائیں تب بھی مکمل طور پر شریعت نافذ نہیں کی جاسکتی۔ اور جب تک شریعت نافذ نہیں ہوگی، ثمرات سرحدوں سے نکل کر ساری دنیا میں نہیں پھیل سکتے۔ ان صاحب کے فتوے کے مطابق چونکہ پاکستان نے افغان طالبان کی شرعی حکومت کے خلاف امریکہ اور نیٹو فورسز کا ساتھ دیا، اس لیے یہ داراالسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے۔ یعنی ادھر جہاد فرض ہے۔ اسی طرح جو مسلمان کفار کا ساتھ دیں، وہ زندیق و مرتد ھیں اور ان کے ساتھ لڑنا چاھیئے اور ان کی عورتوں بچوں کو ۔ ۔ ۔ خیر اس ذکر کو چھوڑیں۔ ویسے یاد آیا، طالبان کے بنوں جیل حملے میں اغواء کی گئی خواتین پولیس وومن واپس آ گئی ھیں یا نہیں؟
ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ تکفیر کے فتوے بہت ضروری ہیں، کیونکہ حق صرف اس وقت سامنے آتا ہے جب تکفیر کا فتوٰی لگایا جاتا ہے۔(دوسرے لفظوں میں حق اور کفر کے علاوہ کوئی درمیانی موقف نہیں)۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کسی طرح پاکستان کے مذہبی طبقات و لیڈر شپ کو حکومت اور فوج کے خلاف خروج پر راضی کر لیا جائے۔تو القائدہ اور جہادیوں کو تین فائدے ہونگے۔
ایک۔ پاکستان افغانستان میں امریکی جنگ میں تعاون کے قابل نہیں رہے گا۔
دو۔ اہم عہدوں پر فائز اسلامی ذہن کے لوگ جہادیوں کی مدد کرینگے۔
تین۔ اگر خروج کامیاب رہا، تو پاکستان کی صورت میں عالمی جہاد کے لیے ایک زرخیز لانچنگ پیڈ مل جائے گا۔
شیخ صاحب ایجنسیوں کی ہٹ لسٹ پر تھے لیکن پھر بھی 2003 میں انہوں نے کتاب کی پروموشن کے لیے پاکستان میں طوفانی دورے کیے۔ ان کی ملاقات ڈاکٹر اسرار، قاضی حسین احمد اور حافظ سعید سمیت بہت سے لوگوں سے ہوئی۔ ان کو کتاب کے مختلف حصے پڑھ کر سنائے اور پوچھا کہ کیا میں نے کچھ غلط کہا؟ شنید ہے کہ کتاب کے مواد کو کسی نے بھی نہیں جھٹلایا ۔ "اگر یہ سب سچ ہے تو پھر تم لوگ پاک فوج کو زندیق و کفار کیوں ڈکلیئر نہیں کرتے، جو مجاہدین کے خلاف جنوبی وزیرستان میں آپریشن کررہی ہے۔؟" قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ اصولاً آپ کی بات ٹھیک ہے، لیکن آج کل کے حالات میں یہ نظریات انڈیا اور امریکہ جیسے دشمنوں کو فائدہ پہنچائیں گے۔
اسی بک ٹور پر شیخ عیسٰی کی ملاقات لال مسجد کے خطیب عبدالعزیز صاحب سے بھی ہوئی، جو سادہ اور کھرا آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی آنکھوں کا تارا تھے۔ وجہ؟ ایک ان کے والدمولانا عبداللہ کے فوج سے تعلقات۔ دو ۔ جہاد کشمیر کی ریکروٹمنٹ کے لیے ان کی خدمات۔ کشمیری تنظیم حرکت المجاہدین کے کمانڈر فضل الرحمٰن خلیل ہر سال ان کے در پر حاضری دیتے تھے اور پھر عبدالعزیز صاحب کی اپیل پر مدارس سے سینکڑوں نوجوان حاضر ہو جاتے۔ تین۔ اسلام آباد و راولپنڈی کے تمام لوگوں میں ان کی عزت و مقام تھا۔ آرمی اور سول کے اکثر باثروت وعزت دار گھرانے ان کے پاس اپنی بچیوں کو اسلام سکھانے بھیجتے تھے۔
شیخ عیسٰی کی خصوصی آنکھ لال مسجد پر تھی، کیونکہ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے ادھر کچھ گڑ بڑ ہونے کی صورت میں پورا پاکستان ہل جاتا۔ اور القائدہ کا معاشرے میں افراتفری اور حکومتوں کو کمزور کرنے کا مشن کامیاب ہو سکتا تھا۔ اسی لیے شیخ جی نے عبدالعزیز صاحب کو قرآن و سنت کی روشنی میں لیکچر دے کر معمول کا سوال "کیا پاکستانی فوج مسلمان فوج ہے" پوچھنے کے ساتھ ہی یہ بھی زور ڈالا کہ اگر عبدالعزیز صاحب نے سچ جانتے بوجھتے پاک فوج پر تکفیر نہ کی، تو اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا۔
عبدالعزیز صاحب سیدھے سادے اچھے مسلمان تھے اور ہر سیدھا سادا اچھا مسلمان شدید جذباتی ہوتا ہے۔ شائد اسی لیے چکر میں آ گئے۔
مبینہ طور پر کسی کے ہاتھ اپنے ہی دارالفتاء کے نام سوال بھجوایا گیا کہ جنوبی وزیرستان میں مجاہدین کے خلاف لڑنے والے پاکستانی فوجیوں کی ایمانی و مسلمانی حالت کیا ہے۔ جواباً فتوٰی دیا گیا کہ زندیق و مرتد ہیں ۔ نہ ان کا جنازہ پڑھا جائے اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفنایا جائے۔
پاکستانی مسلم معاشرے میں سب سے زیادہ ذلت آمیز بات مولوی کا کسی کا جنازہ پڑھنے سے انکار ہے۔ اسی لیے اس فتوے کا خاطر خواہ اثر ہوا۔اس قدر کہ بہت سے فوجیوں نے وزیرستان میں اپنے "مسلمان" بھائیوں کے خلاف لڑنے سے انکار کردیا اور سینکڑوں کے حساب سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواستیں دی گئیں۔ نتیجتاً صورتحال اتنی خراب ہو گئی کہ پاک فوج کو وزیرستان میں صلح کرنی پڑگئی۔(اور یہی وجہ ہے کہ بعد میں بھی آپریشن کرنے سے حتی المکان گریز کیا جاتا رہا۔)۔
یہی وہ موقع تھا جب اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے قاری طاہر یلدوشیف نے عبدالعزیز صاحب سے رابطے بڑھانے شروع کر دیے۔ یہ صاحب بھی ہر مرد مجاہد کی طرح وزیرستان میں قیام پزیر تھے۔ قاری طاہر نے عبدالعزیز صاحب کو" حق بات" پر مبنی فتوٰی دینے پر مبارک باد پیش کی اور ان پر زور دیا کہ وہ اس فتوے کو پاکستان آرمی کے خلاف ایک منظم تحریک میں بدلنے کی کوشش کریں۔ اور مدارس کے علماء و طلباء کو کافر آرمی کے خلاف اکسائیں ۔ شیخ صاحب نے بھی ہدایت دی کہ نوجوانوں کو کشمیر بھیجنے کی بجائے پاکستان آرمی کے خلاف تحریک کے لیے استعمال کریں۔ تھپکی دینے والے ہوں تو بندہ شیر ہو جاتا ہے۔
2007 میں عبدالعزیز صاحب نے سلیم شہزاد کو بتایا کہ وہ پاکستان میں طالبان طرز کی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ھیں کیونکہ ملک سیاسی اور نسلی بنیادوں پر افراتفری اور بگاڑ کی وجہ سے طوائف الملوکی کا شکار ہو رہا ہے۔ گو کہ عبدالعزیز صاحب کا دعوٰی تھا کہ وہ پاکستان میں شرعی نظام لانا چاھتے ھیں، لیکن سلیم شہزاد کے خیال میں یہ القاعدہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے کیونکہ القائدہ ان کو پاکستان میں شرعی بحالی کی تحریک کا قائد بنا کران کے ذریعے ملک بھر کے ہزاروں مدارس کو کنٹرول کرنا چاھتی تھی۔ مقصد شریعت کا نفاذ نہیں بلکہ معاشرے کے مذھبی طبقوں اور پاک فوج کے درمیان ٹینشن پیدا کرنا تھا تاکہ کسی طرح پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کی حمایت سے دستبردار ہو جائے۔
تکفیریوں سے تعلقات استوار ہوئے تو عبدالعزیز صاحب بھی آہستہ آہستہ تکفیری عقائد کے قریب ہو کر شدت پسند ہوتے چلے گئے۔ اسی بناء پر ان کی ہدایت پر قحبہ خانوں پرحملے شروع کردیے گئے۔ ان کو جب حکومت کی طرف سے سمجھایا گیا کہ یہ کام پولیس کا ہے۔ آپ مہربانی کریں، تو بجائے رکنے کے ان کے جانثاروں نے انارکی کو مزید پھیلاتے ہوئے مارکیٹوں میں گشت اور وڈیو شاپس پر حملے شروع کردیے۔ وجہ ؟ کیونکہ مقصد ٹینشن پیدا کرنا تھا۔
اسی اثناء میں عبدالعزیز صاحب خود ہر روز بہت سے مدارس میں بھی لیکچر دینے اور پاکستان آرمی کے خلاف تکفیری فتوے کی حمایت حاصل کرنے بھی جارہے تھے۔
جب اعجاز الحق اور چوہدری شجاعت ان صاحب کو منانے میں ناکام ہو گئے تو مفتی تقی عثمانی صاحب کو ان کے پاس بھیجاگیا۔
مفتی صاحب نے عبدالعزیز صاحب سے پوچھا کہ کیا کرنا چاہتے ہو؟ عبدالعزیز صاحب کا جواب تھا "شریعت کا نفاذ!"
پوچھا کہ نفاذ کے لیے طریقہ کونسا استعمال کرو گے؟ آنحضرت ؐ والا یا اپنا؟ بولے "ظاہر ہے سنت کی ہی اتباع کروں گا۔"
پوچھا کہ پھر آپ وضاحت کرسکتے ھیں کہ چلڈرن لائبریری پر قبضہ، فاحشہ عورتوں اور پولیس والوں کا اغواء، وڈیو شاپس کو آگ لگانا اور شہر میں بدامنی کی کیفیت پیدا کرنے کی کوئی مثال حضورؐ کے دور میں ملتی ہے؟ یا اسلاف میں سے کسی نے جدوجہد کا یہ طریقہ اختیار کیا؟ کیا تمہیں شریعت نافذ کرنے کی جدوجہد اور ملک میں بدامنی قائم کرنے میں فرق معلوم ہے؟ عبدالعزیز صاحب سر نیچے کر کے چپ چاپ کھڑے رہے۔ مفتی صاحب نے زور دے کر جواب مانگا تو بولے" آپ میرے استاد محترم ہیں۔ میں آپ سے بحث نہیں کروں گا۔"۔مفتی صاحب نے پوچھا کہ پھر تم وعدہ کرتے ہو کہ مستقبل میں اس قسم کی حرکتوں سے باز رہو گے؟ عبدالعزیز صاحب بولے " میں اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہی صحیح طریقہ ہے۔"۔ مفتی صاحب نے پوچھا کہ یعنی کہ قرآن اور سنت سے کوئی دلیل نہ ملنے کے باوجود تم اسی طرح کرتے رہو گے؟ عبدالعزیز صاحب خاموش رہے۔
مفتی صاحب نے پھر اٹھتے ہوئے فرمایا کہ میں نے سنا ہے تم لوگوں کو کہتے پھرتے ہو کہ میرا اور تمہارا تعلق استاد شاگرد کا ہے اور تم مجھ سے دینی رہنمائی حاصل کرتے ہو۔ لیکن اب یاد رکھو کہ یہ رشتہ ٹوٹ چکا۔ آئندہ لوگوں کو مت کہنا کہ میرا تمہارا کوئی تعلق ہے!" کسی بھی طالب علم کے لیے استاد کی طرف سے اس سے بڑی سزا اور کوئی نہیں۔
عبدالعزیز نے مفتی صاحب کو روکنے یا منانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی۔
بعد میں حکومت امام کعبہ اور عبدالعزیز صاحب کے پرانے یار فضل الرحمٰن خلیل کو بھی بیچ میں لے کر آئی۔ لیکن ۔ ۔ ۔
اور پھر سب نے دیکھا سنا کہ گیارہ کلاشنکوف ہونے کے باوجود مسجد کے میناروں سے اسلحے کا ذخیرہ ہونے اور خودکش بمباروں کی موجودگی کے دعوے کیے گئے۔ آپریشن کے دوران مولوی عبدالعزیز کی برقعے میں فرار کی کوشش نے وزیرستان میں القائدہ کو فکرمند کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ آپریشن کے دوران قاری طاہر ازبک نے خود عبدالرشید غازی اور ان کے ڈپٹی عبدالقیوم کو فون کیا کہ ان کا آخری گولی تک جنگ کرنا بہت ضروری ہے۔ (کیونکہ فلانےشہید۔ تیرے خون سے انقلاب آئے گا۔) اور ان کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے آسانی سے ہتھیار ڈال دیے تو اسلامی تحریک کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ اور پھر ۔ ۔ ۔
اس واقعے کے بعد پاکستان کا سیاسی و مذہبی منظرنامہ الٹ پلٹ ہو گیا۔ لیکن القائدہ اور عبدالعزیز کی توقعات کے برعکس ملک کے مدارس سے ایک بھی طالب علم شریعت کے نفاذ اور لال مسجد کی حمایت میں کھڑا نہیں ہوا۔ حتٰی کہ اسلام آباد راول پنڈی کے اٹھارہ مدرسے بھی اس بابت خاموش رہے۔
سلیم شہزاد کی کتاب پڑھیں تواپنے آس پاس ہونے والے ان عجیب واقعات کے بارے ذھن میں بکھرے سوالوں کے بہت سے ڈاٹس آپس میں جڑتے نظر آتے ھیں۔ یہ کتاب پاکستان میں جاری دھشت گردی کے تانے بانے جاننے کے لیے معلومات کا اہم خزینہ ہے جو شائد محض اس وجہ سے اکثر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے کہ سلیم شہزاد ایک نسبتاً گمنام صحافی تھے جو ایک گمنام سے آن لائن اخبار کے لیے لکھتے لکھتے کچھ گمنام افراد کے ہاتھوں شہید ہو گئے، اور شائد اس لیے بھی کہ کتاب کو میڈیا میں توجہ نہیں دی گئی کیونکہ یہ کتاب دونوں انتہاؤں یعنی پاک فوج کی دھشت گردی کے خلاف مضبوط جنگی قوت اورالقائدہ و اس کے پاکستانی اتحادیوں کا تذکرہ کچھ زیادہ مثبت الفاظ میں نہیں کرتی۔
معلوم نہیں، پچھلے چھ سات سال میں دونوں اطراف کے اتنے سارے لوگ مروا کر عبدالعزیز صاحب اب کیا سوچتے ہیں ۔ ۔ ۔؟ ؟
ویسے اگر مولوی عبدالعزیز کی جگہ آپ ہوتے، تو کیا کرتے؟ گلی میں پھیلتے غلاظت بھرے پانی کو دیکھ کر واسا کے خاکروبوں کا انتظار کرتے یا "لوگوں" کے اصرار کرنے پر بانس پکڑ کر خود ہی گٹر میں چھلانگ مار دیتے ؟؟۔۔ ۔ یہ بہت اہم سوال ہے ، جس کا جواب آسان نہیں۔

آپ کا اس بارے کیا خیال ہے؟

http://alikasca.blogspot.com/2013/12/blog-post_22.html
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
خوبصورت اور پر مغز موضوع ہے اور شاندار خیالات بھی لیکن حوالہ جات کی انتہائی کمی اور انداز بیان کے ناموافق طرز کے ساتھ۔
 
شمولیت
جنوری 09، 2014
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
باتیں اگرچہ بغیر حوالہ جات ہیں مگر حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ واقعی سلیم شہزاد نے حالات بتانے کی حد تک ٹھیک لکھا ہے
اگرچہ کچھ لوگ ایک قسم کے حالات بتا کر جو نتیجہ نکالتے ہیں دوسرے انہیں حالات سے کھینچ تان کر دوسرا نتیجہ نکال لیتے ہیں اب مجھے دونوں نتیجہ نکالنے والوں سے انکے دلائل پوچھنیں ہیں کیونکہ میرے علم کے مطابق ان باتوں کا رد نہیں
کیا تمام تکفیر کرنے والے خارجی ہیں اس پر امت کا اتفاق ہے اور اس بارے معلومات چاہیئں کیونکہ دوسرے پھر یہی سوال پوچھتے ہیں
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
بہت پیار ا اور اچھوتا انداز بیان ہے۔حقائق کو جس طرح پیش کیا گیا کوئی جاہل ہی ہو گا جو ان سے انحراف کرےگا۔مولویت کی سوچ اور مولویت کے کرتوت ہمیشہ سے ہی اسلام اور پاکستان کے لئے نقصان دہ رہے ہیں۔مولانا تقی عثمانی صاحب کی گفتگو بڑی پیاری اور پر مغز ہے اور جو سوالات انہوں نے غازی صاحب سے کئے ہیں یہی سوالات ہر محب وطن پاکستانی اور مدبر مسلمان کی زبان پہ ہیں۔​
یقیناًمولانا کی یہ حرکت اسلام اور پاکستان کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کے سوتے بھی دیارغیر سےملتےہوں۔
نفاذ شریعت کا کیسا مطالبہ اور کس طرح سے
؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ممکن ہے۔
جو بھی ہے میرے خیال میں انہی فتنوں میں شامل ہے جن میں پڑنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔
جب تک واضح اطلاعات نہ ہوں ہمیں بیچ میں نہیں گھسنا چاہیے۔
 

allah ke bande

مبتدی
شمولیت
مارچ 20، 2012
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
25
القاعدہ اپنا خونی کھیل پاکستان میں کھیل رہی ہے اور اس کی تقلید میں طالبان کشت و خون کی دوکان چمکا رہے ہیں - بدنامی اسلامی کے حصے میں آرہی ہے اور بربادی پاکستانیوں کے حصے میں -
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بہت خوب جوانی پٹا صاحب۔
آپ نے دلائل کے ماخذ نقل کرنے میں انتہائی کمی ہے۔
جوانی پٹا صاحب!
جماعت الدعوۃ کے زیر انتظام دارالاندلس کے اس وقت کے مدیر صاحب نے آپ کی بیان کردہ کتاب خود شائع کروائی تھی۔ (یہ ماخذ تو ان گنہگار ہاتھوں میں بھی آیا تھا)۔
اس کے بعد
مذکورہ کتاب
جہاد منزل پشاور کے ایڈریس سے چھپی۔ (یہ ماخذ بھی ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا تھا)۔
اس کے بعد
جماعت الدعوۃ کے اراکین پر مذکورہ کتاب کو اپنے پاس رکھنا یا پڑھنا گناہِ عظیم قرار دے دیا گیا تھا۔ (اور یہ پابندی ما شاء اللہ ابھی تک قائم و دائم ہے)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وجہ یہ کہ اس واقعے سے پہلے پاکستان میں پرویزی خلافت کی وجہ سے نسبتاً امن، باہمی رواداری اور معاشی آسودگی کا دور دورہ تھا۔ تمام پاکستانی بلا تخصیص شیعہ سُنی قادیانی ہندو عیسائی ایک ہی دیگ سے کانی آنکھوں کے ساتھ پلاؤ میں سے بوٹیاں چن چن کر کھا رہے تھے۔
http://alikasca.blogspot.com/2013/12/blog-post_22.html
آپ کی اس تحریر سے مجھے یہ بات سمجھ آئی ہے کہ یہ سب کے سب اسی طرح چلتے رہیں تاکہ
ایمان
اور
کفر
میں تمیز نہ ہو
نیز
پاک خلافت پھلتی پھولتی رہے
بوٹیاں کھانے والوں کو
بوٹیاں کھانے سے غرض ہونی چاہیئے
نہ
کہ
وہ یہ دیکھنا شروع کر دیں کہ
جانور گائے کی نسل سے ہے
یا
خنزیر کی نسل سے
حالانکہ آپ نے
پس منظر پر نظر دوڑائی ہیں
ثبوت یہ ہے (آپ کی تحریر سے اقتباس حاضر خدمت ہے)
وہ لوگ خواتین کو پردے کی تلقین کر رہے ھیں جن کی آنکھیں اور انگلیاں تمام عمر پرائی خواتین کے لمس سے آلودہ رہیں۔ مجھے انہی ننھی ننھی معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے لال مسجد کے واقعے کے اسباب جاننے بارے کافی تجسس رہا ہے۔
http://alikasca.blogspot.com/2013/12/blog-post_22.html
یعنی آپ خود تو تجسس کرتے ہیں
جبکہ
دوسروں کو اس سے منع کرتے ہیں
اسی پس منظر میں دو آیاتِ قرآنی پڑھ لیجیے
مَا كَانَ اللہُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ۝۰ۭ
(لوگو) جب تک خدا ناپاک کو پاک سے الگ نہ کردے گا مومنوں کو اس حال میں جس میں تم ہو ہرگز نہیں رہنے دے گا۔
لِيَمِيْزَ اللہُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيْثَ بَعْضَہٗ عَلٰي بَعْضٍ فَيَرْكُمَہٗ جَمِيْعًا فَيَجْعَلَہٗ فِيْ جَہَنَّمَ۝۰ۭ
تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر ایک ڈھیر بنا دے۔ پھر اس کو دوزخ میں ڈال دے۔
آیات پیش کرنے کا مقصد آپ کے ویژن کو تیز کرنا ہے
فتوی لگانا
ہرگز
ہرگز
نہیں ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جوانی پٹا صاحب!
جماعت الدعوۃ کے زیر انتظام دارالاندلس کے اس وقت کے مدیر صاحب نے آپ کی بیان کردہ کتاب خود شائع کروائی تھی۔ (یہ ماخذ تو ان گنہگار ہاتھوں میں بھی آیا تھا)۔
اس کے بعد جماعت الدعوۃ کے اراکین پر مذکورہ کتاب کو اپنے پاس رکھنا یا پڑھنا گناہِ عظیم قرار دے دیا گیا تھا۔ (اور یہ پابندی ما شاء اللہ ابھی تک قائم و دائم ہے)
محترم آصف بھائی آپ اوپر جوانی پٹا بھائی کی باتیں پڑھ کر ہماری جماعت کے بارے جو کہنا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے وہ آپ کے مطابق ٹھیک ہو مگر انتہائی معذرت کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی اس بارے معلومات کم ہیں میں اس کو بھی ثابت کروں گا اور جوانی پٹا بھائی کی غلط فہمیاں بھی دور کرنے کی کوشش کروں گا آپ اصلاح کر دیں اللہ جزا دے امین
محترم بھائی میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ اس کتاب کے پس منظر میں ہماری جماعت پر دو طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں
1-ہماری جماعت اس کتاب کو چھپوا کر اس سے اب انکاری ہو گئی ہے یعنی خود یوٹرن لے لیا ہے
2-اگر انکاری نہیں ہوئی اور یو ٹرن نہیں لیا تو اس پر عمل کیوں نہیں ہے

پہلے الزام کا جواب
محترم بھائی واقعی ہماری جماعت نے اس کتاب کا ترجمہ ابو سیاف اعجاز احمد تنویر حفظہ اللہ نے کیا جو جرار اور دعوہ ٹاک پاک پر سوالوں کے جواب بھی دیتے ہیں اور کہا ہے کہ میں نے اسکا ترجمہ نہیں بلکہ ترجمانی کی ہے اور ایک ایک بات کو قرآن و حدیث کے دلائل سے سمجھ کر آگے لکھا ہے اور اسی طرح تائید محترم سیف اللہ خالد مدیر دارالاندلس حفظہ اللہ وغیرہ نے بھی کی ہے تو اب بتائیں کسی جماعت پر غلط گمان کرنے کا کیا گناہ ہوتا ہے آپ آج بھی جا کر ہمارے عالم محترم ابو سیاف اعجاز احمد تنویر حفظہ اللہ سے جا کر پوچھ لیں اگر وہ اس کا انکار کر دیں تو پھر بتائیں البتہ ہمارے کچھ بھائی اس کتاب کا جب انکار کرتے ہیں تو اسکے پیچھے کچھ اور وجوہات ہوتی ہیں مثلا کوئی بچہ جب اللہ کے بارے کوئی ایسا سوال پوچھتا ہے جس کا مکمل پس منظر اسکو پتا نہیں ہوتا تو پھر اسکو درست جواب نہیں دے سکتے ورنہ وہ الٹا غلط مطلب لے لے گا پس میری نیچے لکھی وجوہات سے لاعلمی کی وجہ سے عامی کے سامنے ہمارے بھائی کبھی اسکا انکار بھی کر دیتے ہیں جو غلط نہیں
دوسرے الزام کا جواب
محترم بھائی اللہ کے نبی سے جب صلح حدیبیہ کے وقت مطالبہ کیا گیا کہ رسول اللہ کا لفظ معاہدے سے مٹا دیں تو علی رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا مگر آپ نے کہا کہ اگرچہ میں اللہ کا نبی ہوں مگر یہاں پر مٹانا ہے اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے جب کہا کہ کیا ہمارے شہید جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا وہ جہنم میں نہیں جائیں گے تو پھر ہم کیوں ڈر کر صلح کریں مگر اللہ کے نبی نے پھر بھی ایک حق بات کو کسی دین کی مصلحت کی وجہ سے ہی موخر کیا اس دوستی دشمنی کا حوالہ دینے والے بھی کبھی دنیاوی مصلحتوں کے تحت بہت کچھ قربان کر جاتے ہیں پس ہمارے علماء نے کتابیں لکھیں ہیں جن کے نام طاغوت کے ساتھ تعاون ہے تو اس سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کیا ہمارے علماء انکو طاغوت نہیں سمجھتے-
اصل چیز حق کو ماننا ہے اللہ سمجھ دے امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ تکفیر کے فتوے بہت ضروری ہیں، کیونکہ حق صرف اس وقت سامنے آتا ہے جب تکفیر کا فتوٰی لگایا جاتا ہے۔(دوسرے لفظوں میں حق اور کفر کے علاوہ کوئی درمیانی موقف نہیں)۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کسی طرح پاکستان کے مذہبی طبقات و لیڈر شپ کو حکومت اور فوج کے خلاف خروج پر راضی کر لیا جائے۔تو القائدہ اور جہادیوں کو تین فائدے ہونگے۔
ایک۔ پاکستان افغانستان میں امریکی جنگ میں تعاون کے قابل نہیں رہے گا۔
دو۔ اہم عہدوں پر فائز اسلامی ذہن کے لوگ جہادیوں کی مدد کرینگے۔
تین۔ اگر خروج کامیاب رہا، تو پاکستان کی صورت میں عالمی جہاد کے لیے ایک زرخیز لانچنگ پیڈ مل جائے گا۔
ان کی ملاقات ڈاکٹر اسرار، قاضی حسین احمد اور حافظ سعید سمیت بہت سے لوگوں سے ہوئی۔ ان کو کتاب کے مختلف حصے پڑھ کر سنائے اور پوچھا کہ کیا میں نے کچھ غلط کہا؟ شنید ہے کہ کتاب کے مواد کو کسی نے بھی نہیں جھٹلایا ۔ "اگر یہ سب سچ ہے تو پھر تم لوگ پاک فوج کو زندیق و کفار کیوں ڈکلیئر نہیں کرتے، جو مجاہدین کے خلاف جنوبی وزیرستان میں آپریشن کررہی ہے۔؟" قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ اصولاً آپ کی بات ٹھیک ہے، لیکن آج کل کے حالات میں یہ نظریات انڈیا اور امریکہ جیسے دشمنوں کو فائدہ پہنچائیں گے۔
آپ کا اس بارے کیا خیال ہے؟
http://alikasca.blogspot.com/2013/12/blog-post_22.html
اس میں امیر محترم کا اور قاضی حسین احمد وغیرہ کا موقف میرے خیال میں بالکل ٹھیک ہے جیسے میں اوپر دوسرے الزام کے جواب میں وضاحت کی ہے کیونکہ اس طرح دشمنوں کو ہی فائدہ ہو گا
دوسرا جہاں تک اس سے پاکستان فوج سے لڑائی کی بات آتی ہے تو یہی وہ موقع ہے جس پر امیر محترم اور قاضی حسین احمد وغیرہ کی راہیں شیخ عیسی سے جدا ہو جاتی ہیں- یاد رکھیں کافر یا طاغوت کہنے کا خروج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
آپ نے لکھا کہ القائدہ سمجھتی ہے کہ اس سے تین فائدے ہوں گے تو یہی سوچ انکی غلط ہے پس ہماری سمجھ ہمارے لئے انکی کی سوچ انکے ساتھ- مگر جہاں سے راہیں جدا ہوتی ہیں اس سے پیچھے بھی انکی ضد میں راہ کو جدا کرتے ہوئے غلط راستہ اپنا لینا بھی بیوقوفی ہو گی
 
Top