• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لا علمی میں کفر نہیں۔ صحابہ اور صحابیات کی زندگیوں سے مسئلہ تکفیر کی وضاحت 'الشیخ ابو جمیل السوری'

Ibrahim Qasim

مبتدی
شمولیت
مارچ 14، 2016
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
25
“لا علمی میں کفر نہیں”

صحابہ اور صحابیات کی زندگیوں سے مسئلہ تکفیر کی وضاحت

الشیخ ابو جمیل السوری
الحمد للہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد!
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللہ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ
(الاحزاب : 21)
” البتہ تحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے بہترین نمونہ ہے ، اس کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے ۔ ”
اصل بات یہ ہے کہ جس شخص نے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہے وہ مسلمان ہے اور اس پر تمام مسلمانوں والے احکامات لاگو ہوں گے البتہ کچھ ایسے افعال، اعمال ، اعتقادات و نظریات بھی ہیں جن کی وجہ سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے لیکن اس کا فیصلہ اتنا آسان یا معمولی نہیں کہ بس جیسے ہی ہم بظاہر کسی سے کوئی کفریہ بات یا فعل کا ارتکاب ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے اور اس پر اصلی کفار والے تمام احکامات جاری کر دیے جائیں ۔۔۔۔۔ نہیں بلکہ اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں اور کچھ موانع ہیں جن کو مد نظر رکھنا بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔انہی موانع میں سے ایک مانع جہالت ہے جس کی کچھ مثالیں دے کر سمجھایا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں، بہترین نمونہ ہیں۔ تمام زندگی کے معاملات میں ہم ان سے رہنمائی لینے کی کوشش کرتے ہیں دعوت و تبلیغ کے حوالے سے ہم نبوی منہج کو دیکھیں تو ہمارے سامنےتربیت و اصلاح والا پہلو ہی نمایاں نظر آتا ہے حتی کہ کسی مسلمان سے کوئی کفریہ بات یا عمل سرزد ہو گیا تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح کی ہے اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر اس کو کفار کی صف میں شامل نہیں کیا۔ بطور مثال مندرجہ ذیل واقعات پر غور کریں :
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث یوں مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں :
جس رات کی میری باری تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اوڑھ لی اور دونوں جوتے اتارے اور انہیں اپنے پاؤں کے پاس رکھ لیا اور اپنے بستر پر اپنے تہہ بند کا پلو بچھا دیا اور لپٹ گئے جب تھوڑی ہی دیر گزری کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ میں سو گئی ہوں آپ نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور دروازہ کھولا اور باہر نکل گئے پھر دروازہ آہستہ سے بند کر دیا ، میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہن لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑی ، یہاں تک کہ آپ بقیع میں آئے ، کھڑے ہو گئے اور لمبا قیام کیا پھر تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو اٹھایا پھر آپ واپس لوٹے ، میں بھی واپس لوٹی ، آپ تیز چلے میں بھی تیز چلی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑے میں بھی دوڑی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو میں بھی پہنچ گئی ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقت لے گئی ۔
میں گھر میں داخل ہوئی ، میں ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے آئے ۔ فرمایا : اے عائش! تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تیرا سانس پھول رہا ہے ؟
میں نے کہا : یا رسول اللہ ، کوئی کچھ نہیں ۔ فرمایا: تم مجھے بتا دو ، ورنہ مجھے باریک بین ہر چیز کی خبر رکھنے والا بتا دے گا ۔
میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ پھر پورے قصے کی میں نے آپ کو خبر دی ، فرمایا : تم وہ سایہ تھی جو میں اپنے آگے آگے دیکھ رہا تھا ۔ میں نے کہا : ہاں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پشت پر کچوکا مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا : کیا تو سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق دبا لے گا ۔ کہنے لگیں :
” مهما يكتم الناس يعلمه الله ؟ “
جب لوگ کچھ چھپا لیتے ہیں تو اللہ اس کو جانتا ہے ؟
فرمایا: ہاں ، جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے جس وقت تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے اسے چھپایا تو میں نے اس کی بات قبول کی اور تجھ سے چھپایا اور وہ تیرے پاس اس لئے نہیں آئے تھے کہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی اور میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے ، سو میں نے تجھے جگانا پسند نہ کیا اور مجھے ڈر لاحق ہوا کہ تم گھبرا جاؤ گی ۔
جبرئیل علیہ السلام نے کہا : بلا شبہ تیرا رب تجھے حکم دیتا ہے کہ تو اہل بقیع والوں کے ہاں آئے اور ان کے لئے استغفار کرے ، کہنے لگیں : یا رسول اللہ میں کس طرح کہوں ؟ فرمایا : تم کہو :
” السلام على اهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله للاحقون ”
[مسند احمد : 6/221 ، ونسخۃ اخری 43/43-45 (25855) ، صحیح مسلم کتاب الجنائز باب ما یقول عند دخول القبور والدعاء لأھلھا : 103/974 ، سنن النسائی (2037) ، نسائی کبری ( 2164 ، 7685 ، 8912 ) المصنف لعبد الرزاق : 3/570 ]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فهذه عائشة أم المؤمنين سألت النبى صلى الله عليه وسلم هل يعلم الله كل ما يكتم الناس ؟ فقال لها النبى صلى الله عليه وسلم : “نعم” وهذا يدل على أنها لم تكن تعلم ذلك ولم تكن قبل معرفتها بأن الله عالم بكل شىء يكتمه الناس كافرة .
[مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : 11/412-413]
” یہ عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : کیا جو کچھ بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ہے ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا : ہاں ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یہ بات نہیں جانتی تھیں اور اس بات کی معرفت سے قبل کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کو جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ، وہ کافرہ نہ تھیں ۔ “
ذات انواط والا قصہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین سے واپس آرہے تھے راستے میں مشرکین کی ایک بیری (کے درخت ) جسے وہ ’’ ذات انواط‘‘ کہتے تھے (اور اس کو متبر ک سمجھتے تھے ) کے پاس سے گزرے تو بعض نئے نئےمسلمان ہونے والے (یعنی دین کے مسئلے میں لا علم) صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ''اجعل لنا ذات انواط کمالھم ذات انواط''
’’ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط ( بیری کا درخت) مقرر کر دیجئے جس طرح ان کے پاس ایک ذات انواط ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا :
تم نے مجھ سے وہی مطالبہ کیا ہے جو قوم موسیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا:
اجعل لنا الھا کما لھم الھۃ
’’ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر دیجئے جس طرح ان کے پاس ایک معبود ہے‘‘
توموسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: انکم قوم تجھلون
’’تم ایک جاہل قوم ہو۔‘‘
( جامع الترمذی ,مسند احمد )
غور کیجئے ! اللہ رب العالمین کے مقابلہ میں نئے الٰہ کا مطالبہ بغاوت و شرک ہے یا نہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےان کی اصلاح فرمائی تربیت کی یا ان پر فتویٰ کفر داغ کر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا؟
ایک صحابی نے زنا کی اجازت مانگی
اسلام میں نہ صرف زنا حرام ہے بلکہ زنا کے قریب جانا بھی حرام ہے لیکن ایک نوجوان صحابی نبی ﷺ کے پاس آیا ۔ اور آکر عرض کیا۔ مجھے زنا کی اجازت دیجئے!
آپ ﷺنے فرمایا :
کیا تو پسند کرتا ہے کہ تیری بہن کے ساتھ کو ئی بد کاری کرے ؟
اس نے کہا : نہیں !
پھر آپ ﷺ نے فرمایا :
کیا تو پسند کرتا ہے کہ تیری بیٹی کے ساتھ کوئی منہ کالا کر ے ؟
اس نے کہا :نہیں!
پھر آپ ﷺ نے فرمایا :
کیا تو پسند کرتا ہے کہ تیری ماں کے ساتھ کوئی حرام کاری کرے ؟
اس نے کہا :نہیں !
پھر آپ ﷺ نے فرمایا :
کیا تو پسند کرتا ہے کہ تیری خالہ کے ساتھ کوئی زنا کرے ؟
اس نے کہا: نہیں!
آپ ﷺ نے فرمایا :
کیا تو پسند کرتا ہے کہ تیری پھوپھی کے ساتھ کوئی بدکاری کرے ؟
اس نے کہا: نہیں!
پھر آپ ﷺ نے اسے اپنےقریب کیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعاکی:
اللھم اغفر ذنبہ و طھر قلبہ و حصن فرجہ
’’اے اللہ اس بندے کے گناہ معاف کر دے اور اس کے دل کو پاک و صاف کر دے اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما ۔ ‘‘
صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں:
اس کے بعد اس کو گلی کو چوں میں کبھی نظر اونچی کرکے چلتا ہوا نہیں دیکھا گیا ۔اللہ اکبر
( مسند احمد, طبرانی سلسلہ صحیحہ )
ماشاء اللہ وشئت والا قصہ
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
( أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللهُ، وَشِئْتَ، أَجَعَلْتَنِي وَاللهَ عَدْلًا بَلْ مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ)
(عمل الیوم و اللیلۃ للنسائی، ح:988 و مسند احمد:1/ 214)
“ایک آدمی نے نبی ﷺسے کہا: “مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ”(وہی ہوگا جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)تو آپ نے فرمایا: تو نے مجھے اللہ تعالی کا شریک ٹھہرادیا ؟ صرف اتنا کہو “مَا شَاءَ اللَّهُ” “وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے گا۔”
ایک اور روایت میں اس طرح سے مروی ہے :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے مادری بھائی طفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
رأيت كأني أتيت على نفر من اليهود، فقلت: إنكم لأنتم القوم، لولا أنكم تقولون: عزير ابن الله. قالوا: وإنكم لأنتم القوم لولا أنكم تقولون: ما شاء الله وشاء محمد.
ثم مررت بنفر من النصارى فقلت: إنكم لأنتم القوم، لولا أنكم تقولون: المسيح ابن الله، قالوا: وإنكم لأنتم القوم، لولا أنكم تقولون: ما شاء الله وشاء محمد.
فلما أصبحت أخبرت بها من أخبرت، ثم أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته. قال: (هل أخبرت بها أحداً؟) قلت: نعم. قال: فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال:
(أما بعد؛ فإن طفيلاً رأى رؤيا، أخبر بها من أخبر منكم، وإنكم قلتم كلمة كان يمنعني كذا وكذا أن أنهاكم عنها. فلا تقولوا: ما شاء الله وشاء محمد، ولكن قولوا: ما شاء الله وحده)
(سنن ابن ماجہ، الکفارات، باب النھی ان یقال ماشاء اللہ وشئت، ح:2118 و مسند احمد:5/ 72)
“میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میرا گزر یہود کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا ۔ میں نے ان سے کہا : تم اچھے لوگ ہو اگر تم عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالی کا بیٹا نہ کہو، تو انہوں نے جوابا کہا: تم بھی اچھے ہو اگر تم “مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِاءَ مُحَمَّدٌ” (وہی ہو گا جو اللہ تعالی اور محمد ﷺچاہیں) نہ کہو،
اس کے بعد میرا گزر عیسائیوں کے ایک گروہ کے پاس سے ہوا ۔ میں نے ان سے کہا: تم اچھے لوگ ہو اگر تم مسیح (عیسی علیہ السلام )کو اللہ تعالی کا بیٹا نہ کہو۔ انہوں نے جوابا کہا: تم بھی اگر “مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِاءَ مُحَمَّدٌ”نہ کہو تو بہت اچھے ہو۔
صبح ہوئی تو میں نے کچھ لوگوں سے اس خواب کا تذکرہ کیا۔ پھر نبی (ﷺ) کی خدمت میں آکر آپ سے ساری بات بیان کی۔ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا تم نے اس خواب کا کسی سے ذکر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔
آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: امابعد! طفیل نے خواب دیکھا ہے اور اس نے تم میں سے بعض لوگوں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ تم ایک جملہ بولا کرتے ہو، تمہیں اس سے روکنے میں مجھے ہچکچاہٹ رہی۔ تم “مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِاءَ مُحَمَّدٌ”(وہی ہو گا جو اللہ تعالی اور محمد(ﷺ) چاہیں) نہ کہا کرو بلکہ صرف “مَا شَاءَ اللَّهُ” (وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے)کہا کرو۔”
ایک تیسری روایت میں مزید یہ بیان کیا گیا ہے :

ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
( أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللهُ، وَشِئْتَ، أَجَعَلْتَنِي وَاللهَ عَدْلًا بَلْ مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ)
(عمل الیوم و اللیلۃ للنسائی، ح:988 و مسند احمد:1/ 214)
“ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: “مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ”(وہی ہوگا جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)تو آپ نے فرمایا: تو نے مجھے اللہ تعالی کا شریک ٹھہرادیا ؟ صرف اتنا کہو “مَا شَاءَ اللَّهُ “وہی ہو گا جو اللہ تعالی چاہے گا۔”
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنا
اسی طرح معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :
ما هذا يا معاذ ؟
’’اے معاذ! یہ کیا ہے ؟‘‘ تو انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میں نے شام میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سرداروں اور بڑوں کو سجدہ کرتے اور اس کے لئے (بطور دلیل) اپنے انبیاء کا تذکرہ کرتے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

يا معاذ، لو أمرت أحدًا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها

’’اے معاذ ! اگر میں کسی کے لئے کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ،اس (مرد) کے اس (عورت) پر عظیم حق ہونے کی وجہ سے ۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : يا معاذ، أرأيت لو مررت بقبري أكنت ساجدًا لقبري، قال: لا. قال: فإنه لا يصلح السجود إلا لله. أو كما قال.
’’اے معاذ! تیرا کیا خیال ہے اگر تو میری قبر سے گزرے ، تو کیا تم میری قبر کو سجدہ کرو گے؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقیناً سجدے کسی کے لئے بھی درست نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے ‘‘
حاصل کلام
صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ان سب واقعات پر غور کریں ! پہلے اور دوسرے واقعہ میں بعض لوگوں سےایک شرکیہ بات کا صدور ہوا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی، تیسرے میں ایک حرام عمل کی اجازت طلب کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطری انداز سے اصلاح تو فرمائی لیکن تکفیر وتفسیق کا پہلو اختیار کرنے میں عجلت اور جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیاجس طرح آج کل ہمارے معاشرے میں رائج ہے ۔
ان احادیث و واقعات سے یہ بات بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حجت قائم کرنے سے قبل کسی کو کافر قرار دینا جائز نہیں ۔ اگر شرعی علوم سے ناواقف اور جاہل ہے تو پہلے اس کی جہالت کا ازالہ کیا جائے گا اور اس کے شکوک و شبہات کو رفع کیا جائے گا پھر بھی اگر وہ باطل پر مُصِر اور کفر پر قائم رہتا ہے اور عناد و سرکشی کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی سللہ علیہ وسلم کے فرامین کو رد کرتا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔



http://alfitan.com/2016/05/21/لا-علمی-میں-کفر-نہیں-۔-صحابہ-اور-صحابیا/
 
Top