• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ مَعَ کا منطوق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لفظ مَعَ کا منطوق

رہا اللہ تعالیٰ کا قول{وَھُوَمَعَکُمْ} سو اس میں لفظ مَعَ لغت عرب میں اس کا مقتضی نہیں ہے کہ ایک چیز دوسری سے ملی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اتَّقُوا اللہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔
توبہ
’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھرہو۔‘‘
اور فرمایا:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ
الفتح
’’محمد اللہ کے رسول ہے اورجو لوگ ان کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں۔‘‘
اورفرمایا:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ
الانفال
’’جو لوگ بعد میں ایمان لائےاور جنہوں نے ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا وہ تم میں سے ہیں۔‘‘
لفظ مَعَ قرآن میں عام اور خاص دونوں معنوں میں آیا ہے ۔ عام اس آیت میں ہے اور آیہ مجادلہ میں ہے:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِيالْاَرْضِ ۰ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُو َرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّاہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ۰ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَالْقِيٰمَۃِ ۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ۷
المجادلہ
’’کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اللہ کو سب معلوم ہے۔ جب تین آدمیوں کے درمیان سرگوشی ہوتی ہے تو ضرور ان کا چوتھا وہ ہوتا ہے اور اگر پانچ میں ہو تو ضرور ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور اسسے کم ہوں یا زیادہ اور کہیں بھی ہوں، وہ ضرور ان کے ساتھ ہوتا ہے۔پھر قیامت کے دن وہ ان کو جتا دے گا۔ اللہ ضرور ہر ایک چیز سے واقف ہے۔‘‘
اس آیت کی ابتدا بھی علم کے ذکر سے فرمائی اور اسے ختم بھی علم کے ذکر کے ساتھ کیا۔ اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ضحاک، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کےساتھ ازروئے علم ہے، دوسری معیت خاصہ ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ ۔
النحل
’’اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور احسان کرنے والے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام سے فرماتاہے:
اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى ۴۶
طٰہ
’’میں یقینا تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔‘‘
اور فرمایا:
اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَمَعَنَا ۰ۚ
التوبہ
’’جب وہ اپنے دوست سے کہہ رہا تھا، ڈرو مت! اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ فرعون کے ساتھ نہیں بلکہ موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہالسلام کے ساتھ ہے اور ابوجہل اور اپنے دوسرے دشمنوں کے ساتھ نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دوست ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کےساتھ ہے جو متقی ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہے جو احسان کرنے والے ہیں نہ کہ ظالم اور تعدّی پیشہ ہیں۔ اگر معیت کے معنی یہ ہوں کہ وہ بذاتہ ہر جگہ ہوتا ہے تو اس سےخبرِ خاص و خبرِ عام کا تناقض لازم آتا ہے۔ اس لیے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ازروئے نصر ت و تائید ان لوگوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہے
اورفرمایا:
وَہُوَالَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۰ۭ
الزخرف
’’اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے کہ آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے۔‘‘
یعنی اُن مخلوقات کا بھی معبود ہے جو آسمانوں میں ہیں اوران کا بھی الٰہ ہے جو زمین میں ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰىفِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۰ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 28
الروم
’’آسمانوں اور زمینوں میں عمدہ سے عمدہ باتیں اس کی شان کےشایاں ہیں اور وہ زبردست ہے صاحب ِ حکمت ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ کا فرمانہے:
وَہُوَاللہُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ ۰ۭ
الانعام
اس کی تفسیر امام احمد اور دیگر ائمہِ علم نے اس طرح کی ہےکہ وہ آسمانوں اور زمین میں معبود ہے، امت کے سلف اور اس کے اماموں کا اس پر اتفاق ہے کہ رب تعالیٰ اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔ اس کے اوصاف وہی ہیں جو کہ اس نے خود بیان کیے ہیں اور جو کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں۔ ان میں کسی طرح کی تحریف، تعطیل، تمثیل یا کیفیت کی تعیین جائز نہیں۔ وہ صفاتِ نقص سے نہیں بلکہ صفاتِ کمال سے متصف ہے اور یہ معلوم ہی ہے کہ اس کی مثل کوئی نہیں اور اس کی صفات کمال میں سے کوئی اس کا ہمسر نہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیاہے:
قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ 1 اَللہُ الصَّمَدُ 2 لَمْ يَلِدْ ۰ۥۙوَلَمْ يُوْلَدْ 3 وَلَمْ يَكُنْ لَّہ كُفُوًا اَحَدٌ 4
’’اے پیغمبر ! کہو کہ وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے نہ اسسے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ اور نہ کوئی اس کے برابر کاہے۔‘‘
اخلاص
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
’’الصمد‘‘ وہ علیم ہے جو اپنے علم میں کامل ہو۔ وہ عظیم ہے جو اپنی عظمت میں کامل ہو۔ وہ قدیر ہے جو اپنی قدرت میں کامل ہو۔ وہ حکیم ہے جو اپنی حکمت میں کامل ہو اور وہ سرور ہے جو اپنی سروری میں کامل ہو۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ فرماتے ہیں کہ
صمد وہ ہے جس کا جوف (کھوکھلاپن) نہ ہو اور احد وہ ہے جس کی نظیر نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا نام ’’صمد‘‘ صفاتِ کمال سے متصف ہونے اور نقائص سے مبرّا ہونے کو متضمن ہے۔ اور اسی کا نام ’’احد‘‘ اس صفت کو متضمن ہے کہ اس کی مثل کوئی نہیں۔ اس مسئلے پر ہم سورۂ اخلاص کی تفسیر اور اس سورہ کے ثلث قرآن کے برابر ہونے کے مسئلہ کی توضیح کرتے ہوئےتفصیل کے ساتھ بحث کرچکے ہیں۔

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top