باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,010
- پوائنٹ
- 289
فضیلۃ الشیخ عبید بن سلیمان بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ اپنے مقالہ سلفی منہج کے اُصول ومبادی میں لکھتے ہیں : (بشکریہ : طارق سلفی)
جزاک اللہ خیرا
ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ کچھ پیشوائیان دین و مذہب ۔۔۔ اقوال پر زور دیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ ایسے ہیں جن کا زور و شور یہ ہے کہ اعمال پہلے سدھارے جائیں ۔۔۔ پھر تیسری طرف ایک اور روشن خیال طبقہ مل جاتا ہے جس کا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ مغرب آج اسلیے آگے ہی آگے ہے کہ اس نے اپنے کردار کو صاف ستھرا اور حسن اخلاق سے آراستہ رکھا ہے ، دروغ گوئی ، بغض نفرت ، تنگ دلی تنگ نظری جیسے اعمال و افعال ان کے ہاں کم ہی پائے جاتے ہیں ۔۔۔
جبکہ ۔۔۔۔ کتنی اچھی بات کہی شیخ نے کہ آدمی کے حق پر ہونے کی نشانی کو جانچنے کے لیے تین کسوٹیوں پر اسے پرکھا جائے گا :
قول ، عمل اور کردار !!
کیا ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں؟
ایک عام آدمی ہو یا مبلغ و داعی ۔۔۔ اسے چاہیے کہ اس پر کچھ لمحے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرے اور حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام کا حامی و ناصر ہو اور ہم سب کو حق کے راستے تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔
سبحان اللہ !! کیا ہی خوبصورت بات کہی۔دوسرا اُصول: لوگوں کو حق سے پہچانا جاتا ہے نہ کہ حق کو لوگوں سے
اس اصول کا مفہوم ومعانی یہ ہے کہ ایک آدمی جو کتاب اور سنت پر کاربند ہے اور صحیح راستے پر ہے، بدعات وخرافات کا شکار نہیں ہے، تو یہ جاننے کے لئے کہ آیا وہ حق پر ہے یا نہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں حق جھلکتا ہوگا۔ یہ پہلی شرط ہے۔
کسی شخص سے حق کو نہیں پہچانا جاتا، نہ ہی اس کے کردار، بیان اور عمل سے حق کو پرکھا جا سکتا۔ بلکہ حق کو پیمانہ بنا کر اس کے اقوال واعمال کو پرکھا جائے گا۔ کہ آیا اس کا قول، عمل اور کردار سلف صالحین، اہل السنۃ والجماعۃ، اہل حدیث، فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔
جزاک اللہ خیرا
ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ کچھ پیشوائیان دین و مذہب ۔۔۔ اقوال پر زور دیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ ایسے ہیں جن کا زور و شور یہ ہے کہ اعمال پہلے سدھارے جائیں ۔۔۔ پھر تیسری طرف ایک اور روشن خیال طبقہ مل جاتا ہے جس کا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ مغرب آج اسلیے آگے ہی آگے ہے کہ اس نے اپنے کردار کو صاف ستھرا اور حسن اخلاق سے آراستہ رکھا ہے ، دروغ گوئی ، بغض نفرت ، تنگ دلی تنگ نظری جیسے اعمال و افعال ان کے ہاں کم ہی پائے جاتے ہیں ۔۔۔
جبکہ ۔۔۔۔ کتنی اچھی بات کہی شیخ نے کہ آدمی کے حق پر ہونے کی نشانی کو جانچنے کے لیے تین کسوٹیوں پر اسے پرکھا جائے گا :
قول ، عمل اور کردار !!
کیا ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں؟
ایک عام آدمی ہو یا مبلغ و داعی ۔۔۔ اسے چاہیے کہ اس پر کچھ لمحے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرے اور حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام کا حامی و ناصر ہو اور ہم سب کو حق کے راستے تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔