• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مالک اشتر نخعی کا دفاع؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
مالک اشتر نخعی کا دفاع؟

تحریر: حافظ محمد بلال، اصلاح میڈیا

امیر المومنین، ذوالنورین، صاحب الھجرتین، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اقراری قاتل اشتر نخعی کی خباثت و ضلالت وشقاوت کے بارے معتبر روایات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا موقف پیش کیا گیا تھا، جس پر اشتر کے دفاع میں کچھ لوگ سامنے آئے، اس تحریر میں ان کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے۔

اعتراض نمبر 1:
اشتر نخعی نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو امت کا بہترین فرد قرار دیا!۔(مصنف ابن ابی شیبة : 37784، مستدرک الحاکم : 4571)
جائزہ :
اس کا پس منظر یہ تھا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے اشتر نخعی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل ہو گیا، اس کی خواہش یہ تھی کہ مجھے اعلی منصب ملے، لیکن جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کی بجائے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کو بصرہ کا حاکم بنا دیا، تو اسے دلی رنج ہوا کہ مجھے چھوڑ کر اپنے رشتہ دار کو گورنری سے کیوں نوازا، اسی دکھ کی وجہ سے اس نے ببانگ دہل کہا کہ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنوں کو نوازنا تھا تو پھر ہم نے اس بوڑھے (عثمان رضی اللہ عنہ) کو مدینہ میں کیوں قتل کیا؟ اسی رنج میں یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملنے کا ارادہ بنانے لگا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اس کی خباثت کی بنا پر اسے خفیہ طور پر قتل کروانا چاہتے تھے، لیکن مصلحت کے تحت رُکے رہے۔ (مصنف ابن ابی شیبة : 37757، وسندہ حسن)

ابھی اشتر اسی صدمے سے نہیں نکلا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے لیے کوچ کا حکم دے دیا، اس کے پاس نخعی قبیلے والے جمع ہوئے تو اس نے پہلے پوچھا کہ گھر میں نخعیوں کے علاہ کوئی ہے؟ یعنی اگر کوئی دوسرے قبیلے کا آدمی ہوا تو راز کی بات کھل سکتی ہے۔ جب پتا چلا کہ صرف اسی قبیلے کے لوگ ہیں تو اس نے اپنے قبیلے والوں کے حوصلے پست کرنے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھڑانے کے لیے کہا کہ امت نے پہلے قتلِ عثمان والا فتنہ ڈال کر بہت بڑا جرم کر لیا ہے، لہذا اب جنگ صفین کے لیے جانے سے پہلے سوچ لو۔

یہ تھا اصل پس منظر، اشتر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا خود اقرار کرتا ہے، لیکن جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوتا ہے تو پھر ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بہترین انسان کہہ کر مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے۔

یہ سارا پس منظر چھپا کر صرف اتنی بات کہنا کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتا تھا، انتہا درجے کی بددیانتی ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دشمن اشتر نخعی سے ہم دردی کرنے والوں کا حشر اللہ تعالیٰ اسی کے ساتھ کرے اور ہمیں سیدنا عثمان وسیدنا علی رضی اللہ عنہما کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین
اشتر نخعی کی مزید تعریف کے لیے دیکھیں:(مصنف ابن ابی شیبۃ : 37757، الإمامة والرد على الرافضة لابی نعیم الاصبھانی ص: 350، 351)

نوٹ :
مودودی صاحب نے بھی اشتر نخعی کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل تسلیم کیا ہے۔ (خلافت وملوکیت، ص : 146)

✿ ✿ ✿​

اعتراض نمبر 2:
اشتر نخعی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کو ناپسند سمجھتا تھا۔ (تاريخ الطبري : 4/ 520) حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔(فتح الباري لابن حجر (13/ 57، 58)

جائزہ :
اس کی سند صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے، کیوں کہ مغیرہ مدلس ہیں اور ابراہیم نخعی سے خاص طور پر تدلیس کرتے ہیں۔(تقريب التهذيب لابن حجر، ص: 543) سماع کی صراحت نہیں ہے۔ اسی طرح ابراہیم نخعی بھی مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں ہے۔ جب تک دونوں کا سماع ثابت نہیں ہو گا سند صحیح نہیں ہوگی۔

✿ ✿ ✿​

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا کھانا پانی بند تھا۔ ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دفاع کے لیے آئی تو اشتر نخعی نے ان کی سواری کے منہ پر مارا یہاں تک کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا گرنے لگیں تو انہوں نے فرمایا: مجھے واپس لے چلو کہیں یہ کتا مجھے رسوا نہ کرئے۔ (مسند ابن الجعد، ح : 2666، وسندہ صحیح) اس پر اعتراض کیا گیا کہ:

اعتراض نمبر 3:
اس رایت کی سند میں کنانہ راوی مجہول یا ضعیف ہے۔

جائزہ :
کنانہ مولی ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا ثقہ راوی ہے۔
  • امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ثقة ۔ ثقہ ہے۔(الثقات للعجلي :2/ 228)
  • امام ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے۔(الثقات لابن حبان :5/ 339)
  • امام حاکم نے کنانہ کی بیان کردہ ایک روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔(المستدرك على الصحيحين : 2008)

یاد رہے امام عجلی رحمہ اللہ کو متساہل قرار دینا درست نہیں بلکہ وہ امام احمد بن حنبل اور امام یحیی بن معین کے پائے کے امام تھے۔ امام یحیی بن معین کے شاگر امام عباس دوری فرماتے ہیں:

إنما كنا نعده مثل احمد بن حنبل، ويحيى بن مَعين
"ہم تو انہیں احمد بن حنبل اور یحیی بن معین ہی کی طرح سمجھتے تھے۔"
(تاريخ بغداد :5/ 349، وسندہ صحیح)

اور یہ معلوم ہے کہ امام احمد بن حنبل اور امام یحیی بن معین متساہل نہیں تھے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کنانہ کی زیر بحث روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔(الإصابة :8/ 212) اور کنانہ پر ازدی کی جرح کو بلا دلیل قرار دیا ہے۔(تقريب التهذيب، ص: 462)

خوب یاد رہے کہ ازدی خود ضعیف ہے ، لہذا اس کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
لا عبرة بقول الأزدي لأنه هو ضعيف فكيف يعتمد في تضعيف الثقات
ازدی کے قول کا کوئی اعتبار نہیں کیوں کہ وہ خود ضعیف ہے، پھر ثقہ راویوں کو ضعیف قرار دینے میں اس پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟۔"
(فتح الباري :1/ 386)

✿ ✿ ✿​

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اشتر کے سلام کا جواب نہیں دیا اور اسے اپنا بیٹا کہنے سے انکار کر دیا۔(مصنف ابن أبي شيبة، ح : 37757، وسندہ حسن) اس پر اعتراض ہوا کہ:

اعتراض نمبر 4:
اس کی سند میں العلاء بن المنھال مجہول ہے۔

جائزہ :
العلاء بن المنھال ثقہ راوی ہے۔

  • امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنے شیخ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں: العلاء بن المنهال والد قطبة ثقة. "قطبہ کا والد العلاء بن المنھال ثقہ ہے۔"(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم :6/ 361)
  • امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ثقة ۔ "علاء بن منھال ثقہ ہے۔(الثقات للعجلي :2/ 151)
  • امام ابن حبان نے اس راوی کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔ (الثقات لابن حبان :8/ 502)

✿ ✿ ✿​

اعتراض نمبر 5:
امام عقیلی العلاء بن المنھال کی ایک روایت ذکر کرنے سے پہلے فرماتے ہیں:
لا يتابع عليه، ولا يعرف إلا به ۔
"اس حدیث پر اس کی متابعت نہیں اور یہ صرف اسی حدیث سے پہچانا جاتا ہے۔"(الضعفاء الكبير للعقيلي :3/ 343)

حافظ ذہبی نے فرمایا : فيه جهالة ذكره العقيلي ۔ علاء میں جھالت ہے، اسے عقیلی نے ذکر کیا ہے۔"(المغني في الضعفاء :2/ 441)

جائزہ :
ائمہ سے العلاء بن المنھال کی توثیق ثابت ہونے کہ بعد لا یتابع علیہ ولایعرف ، فیہ جھالۃ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔


✿ ✿ ✿​

اعتراض نمبر 6:
گزشتہ سند کے ایک راوی عبد الله بن يونس الأندلسي بھی ثقہ نہیں۔

جائزہ :
امام ابن حزم اندلسی نے عبد اللہ بن یونس اندلسی کی سند کو "فی غایۃ الصحۃ" اعلی ترین درجہ کی صحیح قرار دے کر توثیق کی ہے۔(المحلى بالآثار :4/ 34)
ایک مقام پر "من طریق الثقات" کہہ کر توثیق کی ہے۔ (المحلى بالآثار :9/ 95)

حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
كان كثير الحديث مقبولاً.
"عبد اللہ بن یونس کثیر الحدیث قابل قبول راوی ہے۔"
(العبر في خبر من غبر :2/ 37)

✿ ✿ ✿​

اعتراض نمبر 7:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو بھی کہا کہ آپ میرے بیٹے نہیں۔ (مسند احمد : 25700)

جائزہ :
اس کی سند ضعیف ہے، کیوں کہ ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں ہے۔


✿ ✿ ✿​

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اشتر کو بد دعا دی جو کہ قبول ہوئی۔ (المعجم الكبير للطبراني :1/ 88، ح : 133، وسندہ صحیح) اس پر اعتراض کیا گیا کہ:

اعتراض نمبر 8:
یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیوں کہ طلق بن خشاف تابعی ہے۔

جائزہ :
ثقہ تابعی ابو الاسود، سیدنا طلق بن خشاف رضی اللہ عنہ کے بارے کہتے ہیں:
طلق بن خشاف رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
"طلق بن خشاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔"(الطبقات الكبرى : 7/ 60، وسندہ صحیح)

ثقہ تابعی کہہ دے کہ فلاں صحابی ہے یہ بھی صحابہ کی معرفت کا ایک طریقہ ہے۔

حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
طلق بن خشاف لہ صحبة
"طلق بن خشاف صحابی ہیں۔"(تجرید اسماء الصحابة : 1/678، الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر :3/ 437)

لہذا جن اہل علم نے صحابیت کی نفی کی ہے یا تابعی کہا ہے، ان کی بات درست نہیں، جب صحیح سند سے ثقہ تابعی کسی کو صحابی قرار دے دے تو بعد والوں کی بجائے اسی تابعی کی بات معتبر ہوتی ہے۔

نوٹ :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی قاتلین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اللہ کی لعنت ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبة : 37793، وسندہ صحیح)
 
Top