• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مالک اشتر پر اسلاف کا صحیح موقف کیا ہے؟

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
108
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
یہ کچھ روایتیں دی ہیں سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اِن کی کیا حقیقت ھے؟
الشیخ ابو یحیی نور پوری تو انباکس میسج دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ کوئی بھائی ان روایات کی مکمل تحقیق دے سکتا ھے؟ اور ساتھ ساتھ مالک اشتر پر اسلاف کا موقف بھی جاننا ھے مجھے!
اور ایسی کتابوں کے نام بتائیں۔ جن میں اس قسم کے مشھور معاملات کی روایتاً اور درایتاً تحقیق کی گئی ھو اھل الحدیث علماء کی طرف سے؟
۔
مالک الاشتر کے متعلق جتنی بھی منفی روایات ہیں، سب کی سب ضعیف ہیں۔ اور بعض علماء نے اس کو ثقہ کہا ہے اور تعریف بھی کی ہے۔
۱۔ پہلی روایت اس موضوع پر حضرتِ عمرؓ کی فراست سے منسلک ہے۔ روایت کچھ یوں ہے کہ عبد اللہ بن سلمہ کہتے ہیں::
دَخَلْنَا عَلَى عُمَرَ مَعَاشِرَ مَذْحِجٍ، وَكُنْتُ مِنْ أَقْرَبِهِمْ مِنْهُ مَجْلِسًا، فَجَعَلَ عُمَرُ يَنْظُرُ إِلَى الْأَشْتَرِ وَيَصْرِفُ بَصَرَهُ، فَقَالَ: أَمِنْكُمْ هَذَا؟ قُلْتُ: نَعَمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: مَا لَهُ، قَاتَلَهُ اللَّهُ ، كَفَى اللَّهُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ شَرَّهُ، وَاللَّهِ §إِنِّي لَأَحْسَبُ أَنَّ لِلنَّاسِ مِنْهُ يَوْمًا عَصِيبًا
ترجمہ: ہم قبیلہ مذحج کے لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو آپ رضی اللہ عنہ (مالک) اشتر کو دیکھنے لگے اور وہ نظریں چرانے لگا. آپ نے پوچھا : یہ تمہارے ساتھ آیا ہے؟ ابن سلمہ کہتے ہیں : میں نے کہا جی امیر المومنین! ہمارے ساتھ ہی آیا ہے. فرمایا : اس کا کیا معاملہ ہے، اللہ اسے بردباد کرے اور امتِ محمد کو اس کے شر کے مقابلے میں کافی ہو جائے، اللہ کی قسم مجھے لگتا ہے اس کی طرف سے لوگوں کو بڑا پریشان کن دن دیکھنا پڑے گا۔
[السنة لأبي بكر الخلال، رقم: ۸۳۶]
اس کی سند کمزور ہے کہ عبد اللہ بن سلمہ کی کوئی معتبر توثیق ہے ہی نہیں، بلکہ تضعیف ہے۔ اس روایت کو عمرہ بن مرّہ رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن سلمہ سے روایت کیا ہے، وہی اس کی تضعیف کرتے ہیں۔ عمرہ بن مرہ رحمہ اللہ جو خود روایت کے راوی ہیں، فرماتے ہیں:
كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَمَةَ قَدْ كَبِرَ، وَكَانَ يُحَدِّثُنَا، فَنَعْرِفُ وَنُنْكِرُ
ترجمہ: عبد اللہ بن سلمہ بوڑھے ہوچکے تھے اور وہ ہم سے روایت کرتے تھے، تو ہم نے (ان کی حدیث) کو جان لیا اور اس کا انکار کیا۔
[مسند ابن الجعد، صفحہ نمبر ۲۶، رقم: ۶۶]
ایک حدیث کا اپنا راوی اپنے شیخ کی تضعیف کر رہا ہے، اس سے بڑی دلیل کیا مطلوب ہوگی!
۲۔ کنانہ نے حضرتِ صفیہؓ سے نقل کیا ہے:
كنت أقود بصفية لترد عن عثمان، فلقيها الأشتر، فضرب وجه بغلتها، حتى قالت: ردوني، ولا يفضحني هذا الكلب
ترجمہ: عثمان ؓ کے دفاع میں سیدہ صفیہ ؓ ایک خچر پر سوار ہوکر نکلیں، میں انکے خچر کو ہانک رہا تھا، راستہ میں اشتر ملا، اس نے ان کو روکا اور خچر کے منہ پر مارنے لگا ، اس پر سیدہ صفیہؓ نے فرمایا: مجھے واپس لے چلو تاکہ یہ کْتا مجھے رسوا نہ کرے۔
[التاريخ الكبير للبخاري، جلد ۷، صفحہ نمبر ۲۳۷، رقم: ۱۰۱۷]
عرض ہے کہ اس کا راوی کنانہ خود ضعیف ہے۔ اس کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ:
ورأَيتُ قاتِل عُثمان مِن أهل مِصر، يُقال لَهُ: جَبَلة.بن الأيهم
ترجمہ: میں نے عثمانؓ کے قاتل کو اہلِ مصر میں دیکھا، اس کا نام جبلہ تھا۔
[التاريخ الكبير للبخاري، جلد ۷، صفحہ نمبر ۲۳۷، رقم: ۱۰۱۷]
مگر یہ شخص خود ایک ضعیف راوی ہے۔ شیخ البانیؒ ایک حدیث کو ضعیف کہتے ہوئے تصریح کرتے ہیں:
ضعيف. قلت: وكنانة مولى صفية؛ لم يوثقه غير ابن حبان
ترجمہ: یہ حدیث ضعیف ہے، اور میں کہتا ہوں، کنانہ جو حضرتِ صفیہؒ کا غلام تھا، اس کو ابنِ حبّان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں قرار دیا۔
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة، جلد ۱۰، صفحہ نمبر ۵۹۹]
اور صرف اتنا ہی نہیں، اس راوی کی تضعیف کی گئی ہے۔ کوئی معتبر توثیق بھی نہیں ہے، الٹا تضعیف امام ابنِ حجرؒ نے ذکر کی ہے۔ [تهذيب التهذيب، جلد ۸، صفحہ نمبر ۴۵۰] اس کی بعض روایات منکر بھی ہیں، بہت خطرناک اس نے روایت کی ہیں۔ لیکن یہ بہت تفصیلی بات ہوجائے گی۔
۳۔ اس کے علاوہ ایک روایت ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:
لَا سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , إِنَّهُ لَيْسَ بِابْنِي
ترجمہ: الله اُس پر کبھی سلامتی نہ کرے، وہ میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔
[مصنف ابن أبي شيبة، جلد ۷، صفحہ نمبر ۵۳۲]
اسی روایت کے مطابق اس نے اپنے قتل کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے مدینہ کے اس بوڑھے کو قتل کیا۔ یہ بھی ضعیف ہے، اس کے راوی علاء بن المنہال پر جروحات ہیں اور بعض نے مجہول بھی کہا ہے۔ امام ذہبیؒ نے فرمایا:
العلاء بن المنهال: والد قطبة، عن هشام بن عروة، فيه جهالة
ترجمہ: علاء بن منہال، یہ قطبہ کے والد تھے، ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے، ان میں جہالت ہے (یعنی یہ مجہول ہیں)۔
[ديوان الضعفاء، صفحہ نمبر ۲۸۰، رقم: ۲۸۹۲]
امام عقلی رحمہ اللہ نے فرمایا:
الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، لَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ
ترجمہ: علاء من منہال، یہ ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے، اور ان کی روایات کی کوئی متابعت نہیں (یعنی منفرد و عجیب روایات بیان کرتے تھے)۔
[الضعفاء الكبير للعقيلي، جلد ۳، صفحہ نمبع ۳۴۳، رقم: ۱۷۳۲]
یہ بات ایک جرح ہے۔ اس کے علاوہ اس روایت کا راوی عبد الله بن يونس الأندلسي بھی ثقہ نہیں۔ اس کی کوئی توثیق نہیں ہے۔ ابنِ عماد الحنبلی نے صرف اتنا کہا:
عبد الله بن يونس القبري الأندلسي صاحب بقي بن مخلد، وكان كثير الحديث مقبولا
ترجمہ: عبد اللہ بن یونس القبری الاندلسی بقی بن مخلد کا شاگرد تھا، کثرت سے حدیث بیان کرنے والا مشہور آدمی ہے۔
[شذرات الذهب في أخبار من ذهب، جلد ۴، صفحہ نمبر ۱۷۱]
اوّل تو ابنِ عماد کوئی ناقدِ حدیث نہیں اور یہ کوئی توثیق نہیں۔
۴۔ اسی طرح سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپؒ نے فرمایا:
سَاقَ اللهُ إِلَى الْأَشْتَرِ سَهْمًا مِنْ سِهَامِهِ
ترجمہ: اور اے الله مالک اشتر سے بدلہ لے، اور اپنے تیروں میں سے خاص تیر بھیج کر اس کا کام تمام کردے۔
[المعجم الكبير للطبراني، جلد ۱، صفحہ نمبر ۸۸، رقم: ۱۳۳]
یہ روایت بھی ضعیف ہے اور ام المؤمنین کے شایانِ شاں نہیں کہ ان الفاظ میں بددعا دیں۔ اس کے راوی طلق بن خشاف کو بعض نے صحابی تو بعض نے تابعی کہا ہے، مگر علی الراجح یہ تابعی ہیں۔ امام ابنِ حجرؒ ذکر کرتے ہیں:
وأما البخاريّ وابن حبّان وابن أبي حاتم فذكروا أنه تابعيّ، وأنه يروي عن عثمان وعائشة.
ترجمہ: بخاریؒ و ابنِ حبّانؒ و ابنِ ابی حاتمؒ نے ذکر کیا کہ وہ تابعی ہیں، اور وہ عثمان و عائشہؓ سے روایت کرتے تھے۔
[الإصابة في تمييز الصحابة، جلد ۳، صفحہ نمبر ۴۶۷]
اور حافظ زبیر علی زئیؒ نے یہ اصول وضع کیا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں کہ جس کے صحابی و تابعی ہونے میں اختلاف ہو، اس کو حسن الحدیث مان لینا چاہیئے۔ یہ درست نہیں۔ باقی طلق بن خشاف کو ابنِ حبّانؒ نے ثقہ قرار دیا۔ [الثقات لابن حبان، جلد ۴، صفحہ نمبر ۳۹۶] مگر ابنِ حبّان متساہل ہیں۔ اس کے علاوہ امام ہیثمیؒ نے اس کو ثقہ کہا، وہ متأخر بھی ہیں اور متساہل بھی ہیں۔ [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، جلد ۹، صفحہ نمبر ۹۷] شیخ ابو الحسن السیمانی کہتے ہیں:
الهيثمي متساهل على كل حال
ترجمہ: ہیثمی ہر حال میں متساہل ہیں۔
[ إتحاف النبيل بأجوبة أسئلة علوم الحديث والعلل والجرح والتعديل، جلد ۱، صفحہ نمبر ۱۸۹]
اور اس کے علاوہ محدث اسحاق حوینی نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ [النافلة، جلد ۲، صفحہ نمبر ۱۴۹]
۵۔ ایک اور روایت اس موضوع پر ہے:
عَنِ الْحَسَنِ , قَالَ: أَنْبَأَنِي وَثَّابٌ , وَكَانَ مِمَّنْ أَدْرَكَهُ عِتْقُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ۔۔۔
ترجمہ: حسن البصریؒ نے فرمایا کہ مجھے ایک خادم نے بتایا جس کو حضرتِ عمرؓ نے آزاد کیا تھا۔۔۔۔ (اور بہت کچھ اشتر کے بارے میں نقل کیا)
[مصنف ابن أبي شيبة، جلد ۷، صفحہ نمبر ۴۴۱، الطبقات الكبرى ط دار صادر، جلد ۳، صفحہ نمبر ۷۲]
اب بھلا یہ کون آدمی ہے، معلوم نہیں۔ اس نے واقعے کا ادراک کیا، اس کا یقین بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے برعکس صحیح سند سے ثابت ہے کہ مالک الاشتر حضرتِ عثمانؓ کے قتل کو ناپسند کرتا تھا۔ روایت میں ہے کہ علقمہ رحمہ اللہ نے مالک الاشتر سے پوچھا:
قَدْ كنت كارها لقتل عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فما أخرجك بِالْبَصْرَةِ؟
ترجمہ: تم تو قتلِ عثمانؓ کو ناپسند کرتے تھے، پھر بصرہ (سیدہ عائشہؓ کے خلاف) کیوں نکلے؟
اس نے جواب دیا:
إن هَؤُلاءِ بايعوه، ثُمَّ نكثوا- وَكَانَ ابن الزُّبَيْر هُوَ الَّذِي أكره عَائِشَة عَلَى الخروج
ترجمہ: اس لیے کہ ان سب نے بیعت کی اور پھر توڑ دی اور ابنِ زبیرؒ وہ تھے جنہوں نے سیدہ عائشہؓ کو خروج پر آمادہ کیا۔
[تاريخ الطبري، جلد ۴، صفحہ نمبر ۵۲۰]
اس کی سند کو حافظ ابنِ حجرؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر، جلد ۱۳، صفحہ نمبر ۵۷]


۔


کس کس کو نظر انداز کریں گے حضرت!

مالک اشتر سیدنا عثمانؓ کو اس امت میں خیر والا سمجھتے تھے:

١) امام ابو بکر بن ابی شیبہؒ نقل کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ حَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا رَجَعَ عَلِيٌّ مِنَ الْجَمَلِ ، وَتَهَيَّأَ إِلَى صِفِّينَ اجْتَمَعَتِ النَّخَعُ حَتَّى دَخَلُوا عَلَى الْأَشْتَرِ ، فَقَالَ: هَلْ فِي الْبَيْتِ إِلَّا نَخْعِيٌّ ، قَالُوا: لَا ، قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَمَدَتْ إِلَى خَيْرِهَا فَقَتَلَتْهُ ، وَسِرْنَا إِلَى أَهْلِ الْبَصْرَةِ قَوْمٌ لَنَا عَلَيْهِمْ بَيْعَةٌ فَنُصِرْنَا عَلَيْهِمْ بِنُكْسِهِمْ ، وَإِنَّكُمْ سَتَسِيرُونَ إِلَى أَهْلِ الشَّامِ قَوْمٌ لَيْسَ لَكُمْ عَلَيْهِمْ بَيْعَةٌ ، فَلْيَنْظُرِ امْرُؤٌ أَيْنَ يَضَعُ سَيْفَهُ؟»

عمیر بن سعید نخعی سے روایت ہے کہ علی جنگِ جمل سے واپس لوٹے تو جنگ صفین کی تیاری شروع فرمائی قبیلہ نخع والے جمع ہوئے اور اشتر کے پاس آئے۔ اشتر نے فرمایا: گھر میں نخعی کے علاوہ بھی کوئی ہے، انہوں نے جواب دیا: نہیں، پھر مالک اشتر نے فرمایا: ”اس امت نے اپنے بہترین انسان کا قصد کیا اور اس کو قتل کر ڈالا۔ ہم اہل بصرہ کی طرف گئے وہ ایسی قوم تھی جس نے ہماری بیعت کی ہوئی تھی پس ان کے بیعت توڑنے کی وجہ سے ہماری مدد کی گئی اور کل تم ایسی قوم کی طرف جانے والے ہو جو شام کے رہنے والے ہیں اور انہوں نے ہماری بیعت نہیں کی۔ پس تم میں سے ہر آدمی دیکھ لے کہ وہ اپنی تلوار کہاں رکھے گا؟“

[مصنف ابن أبي شيبة ٦ / ١٩٦ برقم ٣٠٦١٥ - مكتبة الرشد]

١) امام حاکم نیشاپوریؒ اسی روایت کو اپنی سند سے نقل کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: أَرَادَ عَلِيٌّ أَنْ يَسِيرَ إِلَى الشَّامِ إِلَى صِفِّينَ وَاجْتَمَعَتِ النَّخَعِ حَتَّى دَخَلُوا عَلَى الْأَشْتَرِ بَيْتَهُ، فَقَالَ: «هَلْ فِي الْبَيْتِ إِلَّا نَخَعِيٌّ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَمَدَتْ إِلَى خَيْرِ أَهْلِهَا فَقَتَلُوهُ - يَعْنِي عُثْمَانَ -، وَإِنَّا قَاتَلْنَا أَهْلَ الْبَصْرَةِ بِبَيْعَةٍ تَأَوَّلْنَا عَنْهُ، وَإِنَّكُمْ تَسِيرُونَ إِلَى قَوْمٍ لَيْسَ لَنَا عَلَيْهِمْ بَيْعَةٌ فَلْيَنْظُرْ كُلُّ امْرِئٍ أَيْنَ يَضَعُ سَيْفَهُ» هَذَا حَدِيثٌ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ سَنَدٌ فَإِنَّهٌ مُعَقَّدٌ. صَحِيحُ الْإِسْنَادِ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ.

عمیر بن سعید فرماتے ہیں کہ علی نے شام کی جانب صفین جانے کا ارادہ کیا تو قبیلہ نخع کے کچھ لوگ جمع ہو کر اشتر کی عیادت کرنے ان کے گھر گئے، اشتر نے پوچھا: گھر میں قبیلہ نخع سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ تو کوئی شخص نہیں ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: نہیں۔ تب اشتر نے فرمایا: ان لوگوں نے اس امت کے سب سے نیک انسان یعنی عثمان کو شہید کر ڈالا ہے، ہم نے اہل بصرہ کے ساتھ معاہدہ ہونے کے باوجود قتال کیا کہ معاہدہ کی وجہ سے تو کوئی تاویل بھی ممکن تھی۔ جبکہ تم لوگ ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو کہ ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ بھی نہیں ہے، اس لیے تم میں ہر شخص اس بات پر غور کر لے کہ وہ اپنی تلوار کہاں رکھے گا۔ (امام حاکمؒ کہتے ہیں کہ) اس حدیث کی اگرچہ سند نہیں ہے، لیکن یہ معقد اس مقام پر صحیح الاسناد ہے۔

[المستدرك على الصحيحين ٣ / ١١٥ برقم ٤٥٧١ - دار الكتب العلمية]

حافظ ذہبیؒ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں:

قلت: على شرط مسلم.

میں کہتا ہوں: یہ مسلم کی شرط پر (صحیح) ہے۔

[تلخيص المستدرك ٣/ ١٢٩٢ برقم ٥٣٠ - دار العاصمة، الرياض]

شیخ اکرم ضیاء العمری نے بھی اسے حسن کہا۔

[عصر الخلافة الراشدة لأكرم ضياء ١ / ٤٤٦ - مكتبة العبيكان]

یہ تاريخ مدينة دمشق میں بھی موجود ہے، اس کی سند کو شیخ فواز بن فرحان الشمری نے حسن قرار دیا۔

@ابن داود @کفایت اللہ @خضر حیات
[كتاب صفين لابن ديزيل ويليه كتاب صفين لأبي سعيد الجعفي ص٤٨ برقم ٣٢ - دار الكتب العلمية]
 
Last edited:
Top