• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مالی تنگی کا دینداری پر اثر؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
اگر کسی کے مالی حالات تنگ ہوں تو وہ ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی دینداری پر بھی اثر پڑتا ہے۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟اور اگر یہ سچ ہے تو اس کا حل کیا ہے؟
پلیز یہاں کے سینئیرز حضرات اپنی رائے ضرور پیش کریں۔
باذوق
شاکر
انس
محمد آصف مغل
ابوزینب
محمد وقاص گل
کیلانی
یوسف ثانی
کنعان
ام کشف
محمد نعیم یونس
عکرمہ
Aamir
ابوالحسن علوی
ساجد تاج
محمد عاصم
خضر حیات
حرب بن شداد
محمد علی جواد
جن کو میں نے ٹیگ کیا ہے بالخصوص یہ اپنی رائے ضرور دیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
جسمانى صحت اور مالى حالت خراب ہونے پر كچھ نصيحت دركار ہے
ميں بہت زيادہ پريشان ہوں، ميرى صحت بہت اچھى تھى ليكن اچانك سب كچھ تبديل ہوگيا اور اب ميں مريض بن كر رہ گيا ہوں، ميرے پاس كوئى كام بھى نہيں، ميں اپنے والدين كى بھى بہت اچھى طرح ديكھ بھال كيا كرتا تھا، ليكن اب ميں ان كو ايك روپيہ بھى نہيں بھيج سكتا، اس ليے ميرے بوڑھے والدين نے روزى حاصل كرنے كے ليے كام كاج كرنا شروع كر ديا ہے!!​
بھائى صاحب يقين كريں اب تو مجھے اپنى صحت كے متعلق بھى بہت خطرات و خدشات ہيں، مجھے يقين ہے كہ اب ميرى صحت اچھى نہيں رہى، ليكن ڈاكٹر كے پاس جانے سے قبل ميرى يہى دعا ہے كہ اللہ تعالى مجھے خطرناك قسم كے امراض سے محفوظ ركھے.
ميں ہر چيز كھو چكا ہوں، اور بہت ہى مشكل وقت سے گزر رہا ہوں؛ برائے مہربانى مجھے كچھ اسلامى پند و نصائح كريں جو ميرى مشكلات حل كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہوں، حالانكہ ميں ہميشہ اپنے گناہوں اور غلطيوں سے استغفار كرتا رہا ہوں، اللہ آپ كو اس پند و نصائح پر جزائے خير عطا فرمائے.​
الحمد للہ:​
ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى سائل كى ہر قسم كى بيمارى دور فرمائے، اور اس كى ہر قسم كى تنگى دور كرے، اور آپ كے سارے غم و پريشانى كو خوشى و سرور ميں تبديل كر دے اور آپ كى آنكھيں ٹھنڈى فرمائے!!​
آپ نے اپنى پريشانى و غم كا مداوا اور علاج استغفار كے ساتھ كر كے بہت اچھا كيا ہے، كيونكہ كسى تنگى و پريشانى كو دور كرنے اور خير و بھلائى لانے كے ليے استغفار سب سے عظيم سبب ہے.​
جيسا كہ نوح عليہ السلام كے متعلق بيان كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:​
{ تو ميں نے انہيں كہا تم اپنے رب سے استغفار كرو يقينا وہ بخش دينے والا ہے، اللہ تعالى تم پر آسمان سے بارش نازل فرمائيگا، اور اموال اور اولاد كے ساتھ تمہارى مدد بھى فرمائيگا، اور تمہارے ليے باغات اور نہريں جارى كر دےگا }نوح ( 10 ـ 12 ).​
ہم آپ كو درج ذيل پند و نصائح كرتے ہيں:​
پہلى نصيحت:​
آپ اللہ سبحانہ و تعالى كى طرف متوجہ ہوں اور اسى كى طرف رجوع كريں، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے عاجزى و انكسارى كے ساتھ دعا كريں كہ وہ آپ كى سارى تنگياں اور پريشانياں دور فرمائے، كيونكہ وہ اللہ اكيلا ہى اس پر قادر ہے.​
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:​
{ اور اگر اللہ تعالى آپ كو كوئى تكليف دے تو وہ تكليف اللہ كے علاوہ كوئى اور دور نہيں كر سكتا، اور اگر اللہ تعالى تمہيں كوئى خير و بھلائى عطا كرے تو وہ اللہ تعالى ہر چيز پر قادر ہے }الانعام ( 17 ).​
يہ بات ياد ركھيں كہ دعا كى شان بہت ہى عظيم ہے اور ہو سكتا ہے كہ يہ مصائب اور تنگياں بندے اور اللہ كے مابين مناجات و تعلق قائم كرنے كا سبب بن جائے اور ہو سكتا ہے بندہ اپنے پروردگار سے مناجات ميں مستغرق ہو اور اس سے انس ركھنے لگے اور اس كى مٹھاس و حلاوت پا لے اور ہر قسم كى تنگى و تكليف كو بھول جائے، جو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا اپنے بندے پر خفيہ لطف و كرم ہے، اور كيوں نہ ہو وہ اللہ سبحانہ و تعالى تو رحيم و ودود سبحانہ و تعالى ہے.​
دوسرى نصيحت:​
آپ اپنے پروردگار كے ساتھ حسن ظن ركھيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہر خوبصورت و جميل كا اہل ہے، آپ كسى شر و برائى كى توقع ركھنے اور آزمائش و ابتلاء كا انتظار كرنے كى بجائے اپنى اميد كى سوچ اس طرح ركھيں كہ اميد ہے اللہ تعالى آپ كے ساتھ مہربانى فرمائيگا، اور آپ كى حالت سدھار دےگا.​
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:​
" اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ميں اپنے بندے كے گمان كے مطابق ہوں جو وہ ميرے بارہ ميں گمان ركھتا ہے، جب وہ مجھے پكارتا ہے تو ميں اس كے ساتھ ہوتا ہوں "​
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7405 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2675 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.​
جب آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ اپنے گناہوں اور غلطيوں سے كثرت كے ساتھ استغفار كرتے ہيں، تو ہم آپ كو يہ تنبيہ كرتے ہيں كہ جن غلطيوں اور گناہوں سے كثرت استغفار اور توبہ كرنے كى ضرورت ہوتى ہے ان ميں اللہ رب العالمين كے ساتھ سوء ظن بھى شامل ہے جو كہ رحيم و ودود ہے اس كے ساتھ سوء ظن نہيں ركھنا چاہيے.​
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:​
" اس طرح كى حالت كا جو شخص شكار ہو اس كے اندر اللہ كى خلق و امر ميں تقدير كى مخالفت و ناراضگى كى ايك قسم سے باقى رہتى ہے، اور اس كى حكمت و رحمت كے متعلق وسوسوں كا شكار رہتا ہے، اس ليے بندے كو اپنے آپ سے دو چيزوں كى نفى كرنى چاہيے:​
ايك تو غلط و فاسد قسم كى آراء اور دوسرا غلط و فاسد قسم كى اہواء خواہشات، اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے علم و حكمت كے تقاضے كے مطابق اس كى حكمت و عدل ہے، نہ كہ بندے كے علم و حكمت كے تقاضے كے مطابق، اس ليے بندے كى اہواء و خواہشات اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كے مطابق ہونى چاہيں، اس ليے بندے كى خواہشات اللہ كے حكم اور حكمت كے مخالف نہ ہوں " انتہى​
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 288 ).​
تيسرى نصيحت:​
اپنى مشكلات كو دور كرنے كے ليے مادى اسباب اختيار كرنا، اس ليے آپ اس بيمارى كا دوائى كے ساتھ علاج معالجہ كريں جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:​
" اللہ سبحانہ و تعالى نے بيمارى اور اس كا علاج بھى نازل كيا ہے، اور ہر بيمارى كى دوا اور علاج بھى بنايا ہے، اس ليے تم علاج معالجہ كرو، اور كسى حرام چيز كے ساتھ علاج مت كرو"​
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3874 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الصحيحۃ ( 1633 ) ميں اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.​
آپ اپنى پريشانى ختم كرنے كے ليے اپنے آپ كو دينى اور دنياوى مشغوليات ميں مشغول كريں، اور اپنے اوقات كو فارغ ركھنے كى بجائے فائدہ مند امور ميں مشغول ركھنے كى كوشش كريں، اس ميں كچھ اوقات تو روزى كى تلاش كے ليے مقرر كر ليں، اور كچھ جسمانى ورزش كے ليے، اور كچھ وقت كتابوں كا مطالعہ كرنے اور علمى مجالس اور دروس ميں شركت كے ليے مقرر كر كے اوقات مشغول ركھيں.​
چوتھى نصيحت:​
ہم يہ كہيں گے كہ آپ روزى كے متعلق پريشان مت ہوں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آسمان و زمين بنانے سے پچاس ہزار برس قبل تقدير لكھ دى تھى، اس ليے آپ كا ہم وغم اللہ تعالى كى تقدير كو تبديل نہيں كر سكتا، اور اللہ نے آپ كے مقدر ميں جو لكھ ديا ہے وہ آپ كو مل كر رہےگا، صرف آپ اس كے ليے مباح سبب اختيار كريں، اور وہ بھى جو آپ كى استطاعت ميں ہوں جو سبب استطاعت ميں نہيں اس كے آپ مكلف نہيں.​
اور آپ ہميشہ اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ياد كيا كريں:​
{ زمين پر چلنے پھرنے والے جتنے داندار ہيں سب كى روزياں اللہ تعالى كے ذمہ ہيں، وہى ان كے رہنے سہنے كى جگہ كو جانتا ہے اور ان كے سونپے جانے كى جگہ كو بھى، سب كچھ واضح كتاب ميں موجود ہے }ھود ( 6 ).​
اور ايك جگہ اس طرح فرمايا:​
{ اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے چھٹكارے كى شكل نكال ديتا ہے، اور اسے روزى بھى اسى جگہ سے ديتا ہے جس كا اسے گمان بھى نہ ہو، اور جو شخص اللہ پر توكل كرے گا اللہ اسے كافى ہو ہوگا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے رہيگا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے }الطلاق ( 2 - 3 ).​
پانچويں نصيحت:​
ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنے سے كم تر شخص كو ديكھيں، اس طرح آپ ذرا اپنى بصارت و بصيرت كو ان بيماروں اور زخميوں اور اپاہچوں كى طرف دوڑائيں تا كہ آپ كو اپنے اوپر اللہ كى نعمت كى قدر و احساس ہو جائے، كيونكہ اگر آپ يہ كام كريں گے تو آپ كو علم ہو گا كہ آپ كو جتنى بھى تكليف آئے يا آئى ہے پھر بھى آپ صحت و عافيت ميں ہيں.​
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:​
" تم اس كى جانب ديكھو جو تم سے نيچا ہے اور اسے نہ ديكھو جو تم سے اوپر ہے، كيونكہ اس طرح تم اللہ كى نعمت كو حقير نہيں سمجھو گے "​
ابو معاويہ كہتے ہيں كہ تم اپنے اوپر اللہ كى نعمت كى قدر كر سكو گے.​
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6490 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2963 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.​
چھٹى نصيحت:​
ہم اپنے عزيز بھائى سے كہيں گے: ميرے بھائى آپ نے اپنے والدين كى ديكھ بھال كر كے انتہائى حسن سلوك كا مظاہرہ كيا ہے، كيونكہ آپ پر ان كا يہ حق بھى تھا، اور يہ ياد ركھيں اللہ سبحانہ و تعالى احسان كرنے والوں كا اجر ضائع نہيں كيا كرتا اور اگر آپ اپنى بيمارى يا روزى كى تنگى كى بنا پر اپنے والدين كے اخراجات نہ ديں سكيں تو اس ميں آپ پر كوئى حرج نہيں، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اجروثواب نصيب فرمائيگا، اور آپ كى بيمارى كے دوران بھى آپ كو ہميشہ اجروثواب ملتا رہےگا، كيونكہ آپ صحت و تندرستى كى حالت ميں جو عمل كرتے تھے بيمارى كى حالت ميں اس كا ثواب حاصل ہوگا.​
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:​
" جب بندہ بيمار ہو جاتا ہے يا پھر سفر ميں ہوتا ہے تو اس كے ليے اتنا اور وہى اجر لكھا جاتا ہے جو وہ صحيح اور تندرستى و مقيم ہونے كى حالت ميں عمل كيا كرتا تھا "​
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2996 ).​
آپ اپنى استطاعت كے مطابق اپنے والدين پر خرچ كريں اور كسى بھى نيكى كو حقير مت جانيں، اور اگر آپ ان كو دينے كے ليے كچھ نہ پائيں تو آپ ان سے مسلسل رابطہ اور تعلق قائم ركھيں، اور ان كے حالات معلوم كرتے رہيں، اور انہيں اپنى حالت بتا كر ان سے معذرت كر ليا كريں.​
اللہ تعالى آپ كے والد كے ليے آسانى پيدا فرمائيگا، اور اس كا ممد و معاون بنےگا، آپ اپنے والد كے ليے كثرت سے دعا كيا كريں.​
واللہ اعلم .​
الاسلام سوال وجواب​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بہت بہت شکریہ ارسلان بھائی۔ آپ نے اس قابل سمجھا۔ یہ آپ کی عنایت ہے۔ آپ کے تھریڈز میں اگر مجھے ٹیگ نہ بھی کیا جائے تو بھی صرف اس وجہ سے کوئی نہ کوئی جواب لکھنے کو دل چاہتا ہے کہ اچھی بات کے ساتھ ہمارا نام بھی آجائے۔

ذاتی رائے یہ ہے کہ جب کسی کے مالی حالات خراب ہوں تو اُسے اللہ کی طرف لگاؤ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ عمومی قاعدہ نہیں بلکہ ذاتی مشاہدہ ہے اور اس کے متعلق دو آیات ذہن میں آ رہی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ
كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى۔ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰى
مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے جب کہ اپنے تیئں غنی دیکھتا ہے (ترجمہ از جالندھری)
اور جب انسان کو لمبے عرصے کے لئے راحت و سکون، مال و دولت، آزادی و بے فکری اور فراغت میسر آجائے، تو وہ عام طور پر طاغوت بننے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى
فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے
اور فرعون سے بڑا طاغوت تو دنیا میں شاید اور کوئی نہیں گذرا۔

دوسری بات یہ کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جن کے پاس بڑوں کی وفات پر قل، ساتا، دسواں اور چالیسواں وغیرہ وغیرہ رسوم کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ چنانچہ ان کی غربت نے انہیں دین کی طرف لوٹنے میں مدد کی۔ الحمد للہ علی ذالک

یہ باتیں تو ان کے لئے تھیں جنہیں امیری سے فقیری کی طرف سفر کرنا پڑا۔

اور جو لوگ فقیر ہی ہیں انہیں بہت زیادہ جنت کی بشارتیں ملی ہیں اور جنت و جہنم کی گفتگو جو کہ ایک حدیث میں وارد ہوئی ہے کہ جنت میں جانے والے اکثر و بیشتر غریب و فقیر لوگ ہی ہوں گے۔
اسی طرح ایک حدیث میں فقراء کو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے خوشخبری بھی دی گئی ہے۔
ایک حدیث کے مطابق فقراء و مساکین لوگ خوشحال و امیر لوگوں سے 500 سال پہلے جنت میں چلے جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔

ذہنی الجھنیں تو شاید ہر انسان کو ہی ہوتی ہیں۔ لیکن مشاہدے کی بات ہے کہ غریبوں کو کم ہوتی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے جو کچھ کمایا، روکھا سوکھا کھایا اور اچھی طرح نیند کی اور صبح پھر اپنی روزی کے لئے نکل پڑے۔ جبکہ امراء و روساء کو ایسا سکون میسر نہیں۔ بلکہ قیامت کے دن جنت کا پروانہ ہاتھ میں لے کر بھی جنت میں جانے سے روک لئے جائیں گے تاکہ ان سے ان کے اموال و دولت کا حساب لیا جا سکے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ
سب سے اچھا اور خوش قسمت انسان وہ ہے جسے اللہ تعالی نے مال و دولت بھی دی اور عقیدہ توحید کی پہچان بھی۔ اس نے اپنی دولت سے خوب خوب اللہ تعالی کو راضی کیا اور اس کے اعمال قبول و منظور فرما لئے گئے۔
اس کے بعد وہ غریب انسان ہے جس کے پاس مال و دولت تو نہیں البتہ اُسے عقیدہ توحید کے بعد اخلاص کی دولت ملی اور وہ چاہتا رہا کہ جب بھی اس کے پاس دولت آئے وہ بھی امیر آدمی کی طرح اپنے رب کو راضی کرے گا۔
چنانچہ یہ دونوں کم و بیش برابر برابر ثواب لے گئے۔
تیسرا وہ شخص جس کے پاس دولت تو ہے لیکن وہ اپنی دولت سے اپنے رب کو راضی نہ کر سکا۔ چنانچہ اس نے اپنی دولت سے آخرت کا سامان تو نہیں کیا لیکن اپنی دنیا اچھی گزار گیا۔
چوتھا وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو دولت تھی اور نہ ہی عقیدہ توحید و اخلاص۔ اس کا معاملہ سب سے زیادہ برا دکھائی دیتا ہے۔

اللہ تعالی سے دُعا ہے کہ رب العالمین
اللھم اھدنی فیمن ھدیت و عافنی فیمن عافیت و تولنی فیمن تولیت۔ و بارک لی فیما اعطیت۔ و قنی شر ما قضیت
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
اسلام غربت کو پسند نہیں کرتا:
اسلام میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے ؛ بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور مستقل گردش میں رہے :
مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ۝۰ۭ(الحشر : ٧ )
جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔
اسی طرح قدرتی وسائل اگر شخصی زمین میں بھی دریافت ہوں تو ان کا معتد بہ حصہ کو بیت المال کا حق قرار دیا گیا ہے ؛ تاکہ تمام انسان م اس سے فائدہ اُٹھاسکیں ، شریعت میں یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ سماج میں دولت اور اس کے وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جائیں ۔
اور ملاحظہ ہو:
الید العلیا خیر من الید السفلٰی
اوراسلام میں نماز کے بعد کسب حلال کو اہم ترین فریضہ قرار دیا گیا ہے
کسب الحلال فریضة بعد الفریضة۔
اس کے علاوہ اور بھی امثلہ ہیں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
السلام علیکم
اگر کسی کے مالی حالات تنگ ہوں تو وہ ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی دینداری پر بھی اثر پڑتا ہے۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟اور اگر یہ سچ ہے تو اس کا حل کیا ہے؟
پلیز یہاں کے سینئیرز حضرات اپنی رائے ضرور پیش کریں۔
وعلیکم السلام
جی آپ کی پہلی بات کا جواب کہ دین پر اثر پڑتا ہے؟؟ بالکل پڑتا ہے، یا تو انسان دکھ کے مارے الله کے اور قریب آ جاتا ہے یا پھر ذہنی پریشانی کی بدولت ذہن دین سے دور بھی ہو جاتا ہے، سب سے پہلی بات تو اپنے آپ کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ الله سب ٹھیک کر دے گا ، ہمیشہ ہر opportunity کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، ہمیشہ Positive سوچ ہونی چاہیے، وغیرہ
اور ایک بات کہ ہمیشہ الله کا شکر ادا کرنا چاہیے، شکر ادا کرنے پر الله اور عطا کرتا ہے، میں جب بھی کبھی اپنی بائیک سے گرتا ہوں یا حادثہ وغیرہ ہو جاتا ہے تو فورا زخمی حالت میں "الحمد للہ" کہتا ہوں، کیونکہ میں جب اپنے آپ کو حادثہ کے بعد دیکھتا ہوں تو پاتا ہوں کہ صرف کچھ زخم ہی لگے ہیں اور الحمد للہ کہتا ہوں، کیونکہ میں الله کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے صرف زخم دیے ہاتھ پیر کی ہڈی نہیں ٹوٹی یا جان نہیں گئی، اسی طرح الله کے ہر فیصلے پر لبیک کہنا چاہیے، اگر آپ اپنے آپ کو حقیر یا نیچا سمجھتے ہیں تو اپنے سے حقیر اور نچلے طبقے کے لوگوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں، تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کتنی اچھی زندگی بسر کر رہےہیں،
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
ہمیشہ الله کا شکر ادا کرنا چاہیے، شکر ادا کرنے پر الله اور عطا کرتا ہے، میں جب بھی کبھی اپنی بائیک سے گرتا ہوں یا حادثہ وغیرہ ہو جاتا ہے تو فورا زخمی حالت میں "الحمد للہ" کہتا ہوں، کیونکہ میں جب اپنے آپ کو حادثہ کے بعد دیکھتا ہوں تو پاتا ہوں کہ صرف کچھ زخم ہی لگے ہیں اور الحمد للہ کہتا ہوں، کیونکہ میں الله کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے صرف زخم دیے ہاتھ پیر کی ہڈی نہیں ٹوٹی یا جان نہیں گئی، اسی طرح الله کے ہر فیصلے پر لبیک کہنا چاہیے، اگر آپ اپنے آپ کو حقیر یا نیچا سمجھتے ہیں تو اپنے سے حقیر اور نچلے طبقے کے لوگوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں، تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کتنی اچھی زندگی بسر کر رہےہیں،
السلام علیکم
محترم آپ جیسے بندوں کی وجہ سے ہی یہ زمین آسمان ٹکا ہوا ہے۔بیشک آپ تصوف کے خلاف ہیں لیکن کلام زاہدانا ناصحانا،عالمانا،کاملانا،واعظانا ہوتا ہے ،میں آپ کی بات سے صد فی صد متفق ہوں آج کی رات میرے لیے خصوصی دعاء فرمادیں منتظر رہوں گا جیسے ہی دعاء فرمائیں گے ان شاء اللہ اثر محسوس ہوگا
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔اٰمین
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم۔۔۔
ارسلان بھائی یہ میں نے خاص کر آپ کے لئے ہی یوٹیوب سے ڈاونلوڈ کیے ہیں۔۔۔
اور فیس بک پر لگائے ہیں کیونکہ ہمارے پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی ہے۔۔۔
لہٰذا اس ان وڈیوز کو دیکھیں اگر آپ کے پاس وقت ہے یہ تقریبا آدھا گھنٹہ کی ہیں۔۔۔
اور اگر وقت کی کمی ہے تو پھر وڈیو نمبر دو پانچ منٹ کے بعد آخرتک دیکھیں۔۔۔
اور وڈیونمبر چار شروع سے جواب کے ختم ہونے تک۔۔۔
والسلام علیکم۔
دکھ تکلیف پریشانی کو مت سمجھیں۔۔۔ کوشش کیجئے کہ اسلام اور اُس کی تعلیمات سمجھ میں آئیں۔۔۔
باقی اس حوالے سے کوئی سوال ذہن میں آئے تو بندہ ناچیز جواب دینے کے لئے حاضر ہے اگر۔۔۔
علم میں ہو۔۔۔ ان شاء اللہ۔۔۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
السلام علیکم
محترم آپ جیسے بندوں کی وجہ سے ہی یہ زمین آسمان ٹکا ہوا ہے۔بیشک آپ تصوف کے خلاف ہیں لیکن کلام زاہدانا ناصحانا،عالمانا،کاملانا،واعظانا ہوتا ہے ،میں آپ کی بات سے صد فی صد متفق ہوں آج کی رات میرے لیے خصوصی دعاء فرمادیں منتظر رہوں گا جیسے ہی دعاء فرمائیں گے ان شاء اللہ اثر محسوس ہوگا
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔اٰمین
ان شاء الله ، ضرور دعا کروں گا، لیکن آپ کو کیسے پتا چلے گا،،، ابتسامہ
آمین
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم
اگر کسی کے مالی حالات تنگ ہوں تو وہ ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی دینداری پر بھی اثر پڑتا ہے۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟اور اگر یہ سچ ہے تو اس کا حل کیا ہے؟
پلیز یہاں کے سینئیرز حضرات اپنی رائے ضرور پیش کریں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اولاً: زرق میں کمی بیشی اللہ رب العٰلمین کی طرف سے ہے اور یہ دونوں چیزیں اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔ صرف رزق کی کمی کو آزمائش نہیں سمجھنا چاہئے، رزق کی فراوانی بھی آزمائش ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَنَبلوكُم بِالشَّرِّ‌ وَالخَيرِ‌ فِتنَةً ۖ وَإِلَينا تُر‌جَعونَ ٣٥ ﴾ ... سورة الأنبياء
اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں آخرکار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے (35)

اصل اہمیت اس شخص کی ہے جو دونوں قسم کی آزمائش پر پورا اترتا ہے۔ مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر کرتا ہے۔ اور یہی حقیقی مومن ہے۔
عجبًا لأمرِ المؤمنِ. إن أمرَه كلَّه خيرٌ. وليس ذاك لأحدٍ إلا للمؤمنِ. إن أصابته سراءُ شكرَ فكان خيرًا له. وإن أصابته ضراءُ صبر فكان خيرًا له ... صحیح مسلم

جس طرح نعمت پر فخر اللہ کو سخت نا پسند ہے اسی طرح مصیبت پر مایوسی اور جزع فزع اللہ کو شدید ناراض کرتا ہے۔

ثانیا: اللہ تعالیٰ سے ہر وقت عافیت طلب کرنی چاہئے لیکن اگر مصیبت آجائے تو سمجھنا چاہئے کہ یہ میرے عمل کی وجہ سے آئی ہے، اللہ سے استغفار کرنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ گناہگاروں کو معاصی پر اللہ تعالیٰ غافل کرنے کیلئے مزید دے دیتے ہیں، لیکن اپنے مقرب لوگوں کو اللہ مصیبت میں ڈال کر آزمائش کرتے ہیں تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، گڑگڑائیں، جو ایسا نہیں کرتا در حقیقت اس کا دل - اللہ معاف فرمائیں - سخت ہو چکا ہوتا ہے، درج ذیل آیات کریمہ کو بغور پڑھیں:

﴿ وَلَقَد أَر‌سَلنا إِلىٰ أُمَمٍ مِن قَبلِكَ فَأَخَذنـٰهُم بِالبَأساءِ وَالضَّرّ‌اءِ لَعَلَّهُم يَتَضَرَّ‌عونَ ٤٢ فَلَولا إِذ جاءَهُم بَأسُنا تَضَرَّ‌عوا وَلـٰكِن قَسَت قُلوبُهُم وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطـٰنُ ما كانوا يَعمَلونَ ٤٣ فَلَمّا نَسوا ما ذُكِّر‌وا بِهِ فَتَحنا عَلَيهِم أَبوٰبَ كُلِّ شَىءٍ حَتّىٰ إِذا فَرِ‌حوا بِما أوتوا أَخَذنـٰهُم بَغتَةً فَإِذا هُم مُبلِسونَ ٤٤ فَقُطِعَ دابِرُ‌ القَومِ الَّذينَ ظَلَموا ۚ وَالحَمدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ٤٥ ﴾ ... سورة الأنعام
اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وه (ہمارے سامنے) گڑگرائیں (42) سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا (43) پھر جب وه لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشاده کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وه خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وه بالکل مایوس ہوگئے (44) پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے (45)

حدیث مبارکہ میں ہے:

من يُرِدِ اللَّهُ بِه خيرًا يُصِبْ مِنهُ
الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5645

اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اس کی مصیبت کے ساتھ آزمائش کرتے ہیں۔

أشدُّ الناسِ بلاءً الأنبياءُ ، ثم الأمثلُ فالأمثلُ ، يُبتلى الناسُ على قدْرِ دينِهم ، فمن ثَخُنَ دينُه اشْتدَّ بلاؤُه ، و من ضعُف دينُه ضَعُف بلاؤه، و إنَّ الرجلَ لَيُصيبُه البلاءُ حتى يمشيَ في الناسِ ما عليه خطيئةٌ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 993
خلاصة حكم المحدث: صحيح

سب سے سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے پھر جو ان سے جتنا قریب ہوتے ہیں۔ لوگوں کی آزمائش ان کے ایمان کے مطابق ہوتی ہے۔ جس کا ایمان زیادہ ہو اس کی آزمائش زیادہ ہوتی ہے اور جس کا ایمان کمزور ہو اس کی آزمائش بھی کم ہوتی ہے۔ ایک شخص پر آزمائش آتی رہتی ہے حتیٰ کہ (ایسا وقت آتا ہے کہ) وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے اور اس کا کوئی گناہ باقی نہیں رہ جاتا۔

صبح شام کے اذکار میں یہ دعا تین تین مرتبہ ضرور پڑھیں:
اللهم عافني في بدني، اللهم عافني في سمعي، اللهم عافني في بصري، لا إله إلا أنت. اللهم إني أعوذ بك من الكفر والفقر، اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر ، لا إله إلا أنت


اللہ تعالیٰ سب کے ساتھ آسانی فرما دیں!
 
Top