• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

ماں

ماں زندگی ہے مرکز صبر و قرار ہے
ماں ایک چمن ہے جس میں مسلسل بہار ہے
ماں لطف ہے سکون ہے شفقت ہے پیار ہے
ماں ایک عظیم نعمتِ پروردگار ہے
ماں پہلی درسگاہ ہے عقل و شعور کی
ماں شمع فروزاں ہے محبت کے نور کی
ماں نظارہ ہے قدرتِ رب جلیل کا
ماں چشمہ خلوص ہے الفت کی جھیل کا
ماں کو کوئی کرے گا فراموش کس طرح
ماں سے رہے جدا تو ہوش کس طرح
بچہ ہو بوڑھا ہو عور ت ہو یا کہ مرد
آتی ہے ماں کی یاد تو ہوتا ہے دل میں درد
ماں ہوا خوشبوؤں کی،ہمدردی کا پھول ہے
ماں کے بغیر زوبی زندگی فضول ہے​
محمد زبیر ڈھال۔۔۔۔فتح خان
ننھے مجاہد میگزین​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
ایک خاموش پیغام

ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت اپنے بیٹے کے ساتھ پارک میں بیٹھی ہو ئی تھی۔
پاس ہی ایک کوا بھی بیٹھا تھا۔

ماں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ کیا ہے۔
بیٹا بولا یہ کوا ہے۔

ماں نے کچھ دیر بعد پھر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔
بیٹا بولا یہ کوا ہے۔

ماں نے پھر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔
بیٹا غصے سے بولا کہ کتنی بار بتاؤں کہ یہ کوا ہے۔

ماں ہنسی اور بولی کہ بیٹا جب تو تین سال کا تھا تو یہی جگہ تھی اورایسا ہی کوا پاس بیٹھا ہواتھااور تم نے چالیس بار پوچھا تھا اور میں نے چالیس دفعہ تمہارے ماتھا چوم کر بتایا تھا کہ یہ کوا ہے۔

"ایک خاموش میسج"
اپنی ماں سے ہمیشہ پیار کرو اگر یہ ہستی کھو گئی تو دوبارہ نہیں ملے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک چھوٹی سی نصیحت

جب آپکو آپکی امی اپنے کسی ذاتی کام کے لیے بلاتی ہیں جبکہ ان کے سامنے آپکے دیگر بہن بھائی بھی موجود ہیں تو اس وقت اس بات کا احساس کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی اطاعت کے لیے چنا ہے اور دوسروں پر فوقیت دی ہے تو آپ عبادت میں کوتاہی نہ کیجیے
جب آپکی عمر ایک سال تھی ماں آپکو کھلاتی پلاتی تھی اور آپ اس کے بدلے میں پوری رات (رو رو کر) اس کی نیند خراب کرتے تھے اور آج آپکو اس کی خدمت کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے
جب آپ دو سال کے ہوئے تو اس عظیم ہستی نے ہی آپکو چلنا سکھایا اور اب جب کہ اسے آپکی ضرورت ہے آپ اس سے دور بھاگ کر اس کا بدلہ چکا رہے ہو
جب آپ نے اپنی زندگی کے تیسرے سال میں قدم رکھا تو ماں آپکو لذیذ سے لذیذ تر کھانے بنا کر کھلاتی تھی
اور آج جب کبھی آپکو کھانا مرضی کے مطابق نہ ملے تو آپ پلیٹ کو زمین پھر پھینک کر اسکا شکریہ ادا کرتے ہیں
جب آپ اپنی عمر کی چوتھی بہار میں تھے تو اس نے آپکو لکھنا سکھانے کے لیے قلم دی
اور آپ نے دیواروں کو خراب کر کے اسکا شکریہ ادا کیا اور آج بھی آپ کی قلم اس ماں کے شکریہ میں چند کلمات لکھنے سے محروم ہے
جب آپ پانچ سال کے تھے آپ کی ماں ہی تھی جو خود محروم رہ کر بھی آپ کو سب سے خوبصورت لباس پہناتی تھی
اور آپ چند گھنٹوں میں اسے خراب کر کے اسکا شکریہ ادا کرتے تھے
آج جب اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کپڑے خریدتے ہو تو اس ماں کو بھول جاتے ہو
جب آپکی عمر چھ سال تھی اس نے اپنا پیٹ کاٹ کر آپکو سکول داخل کروایا
جبکہ آپ اس وقت نہ جانے کے لیے چیختے چلاتے تھے
اور آج اپنی تعلیم پر فکر کرتے ہوئے اسے حقیر سمجھتے ہو
جب آپ ۱۰ سال کے ہوئے تو ماں بے تابی سے آپکی سکول واپسی کی منتظر ہوتی تھی تاکہ آپکو گلے لگائے اور دن بھر کی روداد سنے جبکہ آپ اس سے دور بھاگتے تھے اس سے بات کرنے سے کترارتے تھے
اور آج بھی وہ آپ سے باتیں کرنے کے لیے ترستی ہے لیکن دوستوں یا سوشل میڈیا پر مصروف رہتے ہو
جب آپ پندرہ سال کے ہوئے وہ رو رو کر آپکی کامیابی کے لیے اللہ سے دعائیں کرتی
اور آپ کامیاب ہونے پر اس سے تحائف مانگتے اور نہ دینے پر اپنے دوستوں کی ماؤں کی مثالیں دے کر اس کے جگر کو چھلنی کرتے تھے
اور آج جب وہ آپکو اپنی بڑی سے بڑی خوشی کی خبر دیتی ہے تو آپ کو خوشی کا اظہار کرنا بھی مشکل لگتا ہے
جب آپ اپنی عمر کی بیسوی بہار میں پہنچے تو وہ آپکے فارغ وقت کی منتظر رہتی کہ آپکو اپنے رشتہ داروں کے ہاں لے جائے
لیکن آپ نے ہمیشہ اپنے دوستوں کو اپنے رشتہ داروں پر ترجیح دے کر اسکا شکریہ ادا کیا
اور آج بھی۔۔۔۔
جب آپکی عمر پچیس سال ہوئی تو اس نے بھاگ دوڑ کر کے آپ کے لیے دلہن ڈھونڈھی اور سب ذمہ داریاں برداشت کی
جبکہ آپ نے اپنے آپکو اور اپنی بیوی کو ماں سے دور کر کے اس کے اس عظیم احسان کا بدلہ چکایا
جب آپ تیس برس کے ہوئے تو آپکی والدہ نے آپکو بچوں کے معاملہ میں نصیحت کرنے کی کوشش کی
اور آپ نے یہ کہہ کر انکا شکریہ ادا کیا کہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی مت کیجیے ہم زیادہ بہتر جانتے ہیں
جب آپ پینتیس برس کے ہوئے تو ماں نے آپکے دیدار کے لیے آپکو دوپہر کے کھانے پر دعوت دی اور آپ یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ آپ آجکل کام کاج میں مصروف ہیں
جب آپ چالیس برس کے ہو گئے تو ماں نے آپکو خبر دی کہ وہ بیمار ہے اور آپکی تیماداری کی محتاج ہیں تو آپ نے یہ کہہ کر ان کے احسانات کا شکریہ ادا کیا کہ والدین بڑھاپے میں اولاد پر بوجھ بن جاتے ہیں
اور ایک دن وہ اس دنیا سے رخصت ہو جائے گی لیکن آپکی محبت اسکے دل میں ہمیشہ رہے گی
اگر آپکی والدہ زندہ ہیں آپکے قریب ہیں تو ان سے جدا مت ہوں ان کی محبتوں کو نہ بھولیے انہیں راضی کرنے کے لیے محنت کریں
کیوں کہ دنیا میں صرف ایک ہی ماں ہوتی ہے
اور جب ماں فوت ہو جائے گی تو فرشتے پکاریں گے کہ آج وہ ہستی دنیا سے چلی گئی جس کی دعاؤں کی بدولت تم پر رحم کیا جاتا تھا
ماؤں کے بارے میں اللہ سے ڈرو
ماں
ہسپتال بن جاتی ہے جب میں تکلیف میں ہوتی ہوں
ہوٹل بن جاتی ہے جب میں بھوکی ہوتی ہوں
پارٹی بن جاتی ہے جب میں خوش ہوتی ہوں
الارم بن جاتی ہے جب میں سو رہی ہوتی ہوں
آسمانی دعائیں ہے جب میں سفر پر ہوتی ہوں
کیا میں نے اس سے حسن سلوک کیا ہے؟؟
ہم گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھتے ہیں::امی جان کہاں ہیں؟؟
حالانکہ ہمیں امی سے کوئی ضرورت نہیں ہوتی
گویا کہ وہ وطن عزیز ہوں!!جس سے ہم دور ہونے کے بعد پھر اس کی مٹی کو چومنے کے لیے لوٹتے ہیں!!
اے اللہ میری ماں کو سب کی ماؤں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمانا۔ آمین
عبدالعلام
 
شمولیت
مئی 16، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
75
ماں کے لیے کچھ اشعار۔۔۔۔
پیاری ماں تیری دید چاہیے
تیرے آنچل سے ٹھنڈی ہوا چاہیے
لوری گا گا کے مجھ کو سلاتی ہے تو
مسکرا کر سویرے جگاتی ہے تو
مجھ کو اس کے سوا اور کیا چاہیے
تیری ممتا کے سائے میں پھولوں پھلوں
تمام عمر تیری انگلی پکڑ کر بڑھتا چلوں
تیری خدمت سے دنیا میں عظمت میری


ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے؟
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں

کب ضرورت ہو مری بچے کو، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں

بھوک سے مجبور ہو کر مہماں کے سامنے
مانگتے ہیں بچے جب روٹی تو شرماتی ہے ماں

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسوؤں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں

لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں

ایسا لگتا ہے جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر بانہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں

دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب کبھی
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں

شکر ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دئے جاتی ہے ماں



ماں کتنی ٹھنڈک ہے تیرے نام کے ان حرفوں میں
لب پہ آتے ہی تپتی دھوپ بھی گھنی چھاؤں لگنے لگتی ہے

تیرا سایہ رہے مجھ پر میری زندگی کی آخری حد تک
ماں تجھے اک دن نہ دیکھوں تو زندگی بُری لگنے لگتی ہے

اے میری پیاری ماں تُو کیا جانے تیری دعا میں کیا اثر ہے
اِدھر تو ہاتھ اٹھائے، اُدھر ہر مشکل مجھےآساں لگنے لگتی ہے

ایک تجھے راضی رکھنے سے میرا دامن بھرگیا خوشیوں سے
تیری محبت کے سامنے دنیا کی ہرمحبت جھوٹی لگنے لگتی ہے

جوہومیرے بس میں نثار کردوں میں جہاں بھر کی نعمتیں
دنیا کی ہر نعمت تیرے رتجگوں سامنے ہیچ لگنے لگتی ہے

ماں تُو کہتی ہے میں تیری ہستی کا مان ہوں،غرورہوں
یہ سوچ کے مجھے یہ زندگی کچھ اور بھی اچھی لگنے لگتی ہے

میں وہ لفظ کہاں سے ڈھونڈ کرلاؤں،جو تیری شان میں ہوں ادا ماں میری محبت،تیری محبت کے سامنے شرمندہ سی لگنے لگتی ہے

امن ایمان
 
Top