ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 513
- ری ایکشن اسکور
- 167
- پوائنٹ
- 77
ماہِ شعبان کی سنت کو زندہ کریں تاکہ بدعت نہ پنپنے پائے
━════﷽════━
━════﷽════━
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ:
’’يَا رَسُولَ اللَّہ! لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنْ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ قَالَ: ’’ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ‘‘.
اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنا آپ شعبان میں رکھتے ہیں، (کیا وجہ ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’در اصل یہ مہینہ ایسا ہے کہ لوگ اس میں غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں، رجب اور رمضان کے درمیان آنے کی وجہ سے، حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں رب العالمین کے یہاں انسانوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ لہذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں رہوں‘‘۔
[سنن النسائی: ۲۳۵۷، مسند أحمد: ۲۱۷۵۳، حسنہ الألبانی وغیرہ]
فائدہ:
دینی بھائیو! نبی اکرم ﷺ صرف پندرہ شعبان کو روزہ کے لیے خاص نہیں فرمایا کرتے، جیسا کہ آج بدعتی طبقہ دین سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہے، بلکہ آپ بلا تخصیص ماہِ شعبان کے زیادہ تر دنوں کو روزے کی حالت میں گزارتے تھے، لہذا ہمیں بھی اس سنتِ رسول کو اپنے درمیان زندہ کرنی چاہئے تاکہ سنت کا غلبہ ہو اور مبتدعانہ اعمال کا آپریشن ہوسکے۔
واضح رہے کہ سنتوں کا اہتمام بدعت کو خاک میں ملانے کا کام کرتا ہے، جبکہ سنتوں سے غفلت بدعت کو پنپنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔