• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ ذی الحجہ فضائل و مسائل

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

❞ʺماہِ ذُوالْحَجَّہ، فضائل و مسائل!ʺ❝

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين ﷺ.
وبعد!

بے شک! الله سبحانه وتعالیٰ ہی تمام دنوں، راتوں اور مہینوں کا خالق ہے۔ اس نے اپنی کامل حکمت سے، مومنوں پر خاص رحمت و شفقت کرتے ہوئے دنوں، راتوں اور مہینوں میں سے بعض کو بعض پر غیر معمولی فضیلت عطا فرمائی ہے تاکہ ایک مسلمان انہیں غنیمت جانتے ہوئے اس کا قرب حاصل کرنے کی بھرپور جد و جہد کرے۔

❞ذُوالْحَجَّة❝
اسلامی سال کا بارہواں اور آخری قمری مہینہ اور اسلامی تاریخ میں ممتاز اہمیت کا حامل ہے۔ چوں کہ اسی ماہِ مبارک میں، حج جیسا عظیم الشان فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے، اس لیے اس مہینہ کا نام بھی حج ہی کی مناسبت سے مشہور و معروف ہے۔

~~~~؛

● ماہِ ذوالحجہ کے فضائل

◉ ماہِ ذوالحجہ، ان چار مقدس و محترم مہینوں میں سے ایک ہے جن میں ہر قسم کا قتل و قتال، جنگ و جدل اور لڑائی جھگڑا ما سوا دفاعی جہاد کے، ممنوع و حرام ہے۔

○ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
"اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّـٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِىْ كِتَابِ اللّـٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْـهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ."

''جس دن سے اس (الله) نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اسی دن سے الله کے ہاں، الله کی کتاب میں، مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جن میں سے چار حُرمت والے (مہینے) ہیں۔''
«سورة التوبة، الآية ٣٦»

○ جناب أبو بكرة الثقفي رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

"السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ."

''سال بارہ مہینوں کا ہے۔ اس میں چار مہینے حُرمت والے (مہینے) ہیں۔ تین (مہینے) ذوالقعدة، ذوالحجة اور محرم تو لگاتار ہیں اور ایک رجب ہے۔''
نیز فرمایا
"إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ (وَأَعْرَاضَكُمْ) عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا."
''تمہارے خون، تمہارے اموال اور (تمہاری عزتیں) تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس شہر میں، (اور) تمہارے اس مہینہ میں حرمت کا باعث ہے۔''
«صحيح البخاري ٤٤٠٦ ۔ صحيح مسلم ١٦٧٩»

~~~~؛

◉ ماہِ ذوالحجہ کے خصائص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسی مہینہ میں، دنیا بھر سے تمام مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بیت الله کا رُخ کرتے ہیں۔

○ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
"اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ ۚ."
''حج کے چند (ہی) مہینے ہیں جو (مقرر و) معلوم ہیں۔''
«سورة التوبة، الآية ٣٦»

یعنی عمرہ تو سال میں کسی بھی وقت اور مہینہ میں کیا جاسکتا ہے لیکن حج صرف چند مخصوص دنوں میں ہی کیا جائے گا۔

✯ فائدة
جناب نافع المدني رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد الله بن عمر رضي الله عنهما نے فرمایا

"أَشْهُرُ الحَجِّ شَوَّالٌ، وَذُو القَعْدَةِ، وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الحَجَّةِ."

''حج کے مہینے، (جن کا ذکر الله تعالیٰ نے کتاب میں ذکر کیا ہے) وہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ (کے پہلے) دس دن ہیں۔''

«صحيح البخاري (تعلیقاً)، قبل الحديث ١٥٦٠ ۔ المستدرك على الصحيحين، بتحقيق مصطفی عبد القادر عطا ٣٠٩٢ ⤺ وسندہ صحيح»

~~~~؛

● عشرہ ذوالحجہ کے فضائل و اعمال

◉ عشرہ ذوالحجہ سے مراد، ذوالحجہ کے ابتدائی دَس دن ہیں جن میں دَسواں دن یومِ نَحر یعنی قربانی کا دن ہے۔ کتاب و سُنت کی رُو سے ان دنوں میں کیے گئے نیک اعمال، باقی ایّام کی عبادات سے افضل و برتر ہیں۔

○ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
"وَالْفَجْرِ. وَلَيَالٍ عَشْرٍ."
''اور قسم ہے وقتِ فجر کی اور (قسم ہے) دَس راتوں کی۔''
«سورة والفجر، الآية ٢، ١»

✯ فوائد
١۔ "وَالْفَجْرِ''
شیخ محمد عبدہ الفلاح رحمه الله فرماتے ہیں
''صبح سے مراد ہر صبح ہے یا خاص یکم محرم کی صبح کیوں کہ اس سے سال کی ابتدا ہوتی ہے یا یکم ذی الحجہ کی صبح کیوں کہ اس سے ان دس راتوں کی ابتدا ہوتی ہے جن کا ذکر بعد کی آیت میں آرہا ہے۔''
«تفسير اشرف الحواشي للفلاح، سورة والفجر، تحت الآية ١»

٢۔ "وَلَيَالٍ عَشْرٍ"
جناب زُرَارَة الحَرَشي رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد الله بن عباس رضي الله عنهما نے فرمایا

"إِنَّ اللَّيَالِي الْعَشْر الَّتِي أَقْسَمَ اللَّه بِهَا ، هِيَ لَيَالِي الْعَشْر الْأُوَل مِنْ ذِي الْحِجَّة."

''وہ دَس راتیں، جن کے ساتھ الله نے قسم اٹھائی ہے ان سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔''

«جامع البيان عن تأويل أي القرآن للطبري، سورة والفجر، تحت الآية ٢ ⤺ وسندہ صحيح»

○ جناب عبد الله بن عباس رضي الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا

"مَا مِنْ أَيَّامٍ، الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِء، قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ."

''الله تعالیٰ کو، کسی دن کا کوئی نیک عمل، اس قدر پسندیدہ نہیں ہے جتنا کہ ان دنوں میں پسندیدہ اور محبوب ہے۔ یعنی ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں۔ صحابہ رضي الله عنهم نے کہا اے الله کے رسول ﷺ! کیا جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ماسوا اس شخص کے جو اپنی جان و مال لے کر نکلا ہو اور پھر کچھ واپس نہ لایا ہو۔''
«سنن أبي داؤد ٢٤٣٨ ⤺ وسندہ صحيح ۔ صحيح البخاري ٩٦٩»

○ جناب عبد الله بن عمر رضي الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا

"مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ وَلَا الْعَمَلُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ فَأَكْثِرُوا فِيْها مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّحْمِيدِ، يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ."

''الله تعالیٰ کے نزدیک (عشرہ ذوالحجہ کے) یہ دن اور ان میں کیے جانے والے نیک اعمال جس قدر محبوب ہیں، کسی اور دن نہیں۔ لہذا تم کثرت سے ان میں تہلیل (لا اله الا الله) اور تحمید (الحمدلله) کیا کرو۔''

«مسند أبي عوانة، بتحقيق أيمن الدمشقي ٣٠٢٤ ⤺ وسندہ حسن لذاته»

~~~~؛

◉ ذوالحجہ کے پہلے نَو دنوں کے روزے رکھنا، مسنون اور مستحب عمل ہے۔

○ بعض امهات المومنین رضي الله عنهن بیان کرتی ہیں

"انَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ."

''رسول الله ﷺ ذوالحجہ کے (پہلے) نَو دن، عاشورہ محرم، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔''
«سنن أبي داؤد ٢٤٣٧ ۔ سنن النسائي ٢٣٧٤ ⤺ وسندہ صحيح»

~~~~؛

◉ ذوالحجہ کی نَو تاریخ کو یومِ عرفہ کہا جاتا ہے کیوں کہ اس دن حجاج کرام میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ وہی دن ہے جس میں الله سبحانه وتعالیٰ نے اس دِین کی تکمیل اور اہلِ اسلام پر اپنی نعمت کو پورا فرمایا۔

○ سیدنا طارق بن شهاب رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے سيدنا عمر ابن الخطاب رضي الله عنه سے کہا

"يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ اليَهُودِ نَزَلَتْ، لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا. قَالَ أَيُّ آيَةٍ؟ قَالَ اَليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا. قَالَ عُمَرُ قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، وَالمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ."

''اے امیر المومنین! تمہاری کتاب (قرآن) میں ایک ایسی آیت ہے جسے تم پڑھتے رہتے ہو، اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن ٹھہرا لیتے۔ سيدنا عمر ابن الخطاب رضي الله عنه نے کہا وہ کون سی آیت ہے؟ یہودی بولا یہ آیت "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور دین اسلام کو تمہارے لیے پسند کر لیا۔" سيدنا عمر ابن الخطاب رضي الله عنه نے کہا "ہم اس دن اور اس مقام کو جانتے ہیں جس میں یہ آیت نبی ﷺ پر نازل ہوئی۔ یہ آیت جمعہ کے دن اتری جب آپ ﷺ عرفات میں کھڑے تھے۔''

«صحيح البخاري ٤٥ ۔ صحيح مسلم ٣٠١٧»

○ جناب عمار بن أبي عمار المكي رحمه الله بیان کرتے ہیں

"قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا وَعِنْدَهُ يَهُودِيٌّ فَقَالَ لَوْ أُنْزِلَتْ هَذِهِ عَلَيْنَا لَاتَّخَذْنَا يَوْمَهَا عِيدًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنَّهَا نَزَلَتْ فِي يَوْمِ عِيدٍ فِي يَوْمِ جُمْعَةٍ وَيَوْمِ عَرَفَةَ."

''سیدنا عبدالله بن عباس رضي الله عنهما نے آیت ''الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الإِسْلاَمَ دِينًا'' پڑھی۔ آپ کے پاس ایک یہودی بیٹھا تھا۔ اس نے کہا اگر یہ آیت ہم (یہودیوں) پر نازل ہوئی ہوتی تو جس دن یہ آیت نازل ہوئی ہے اس دن کو ہم عید (تہوار) کا دن بنا لیتے۔ یہ سن کر سیدنا ابن عباس رضي الله عنه نے فرمایا (تُو ایک عید کی بات کرتا ہے) یہ آیت تو دوعیدوں، جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی ہے۔''

«سنن الترمذي ٣٠٤٤ ۔ مسند أبي داود الطيالسي، بتحقيق محمد بن عبد المحسن التركي ٢٨٣٢ ⤺ وسندہ صحيح»

✯ فائدة
ہفتہ کے دنوں میں، جمعہ کو نبی کریم ﷺ نے عید کا دن قرار دیا ہے

(سنن ابن ماجه ١٠٩٨ ⤺ وسندہ حسن لذاته)

جب کہ یومِ عرفہ کو عید قرار دینے کی درج ذیل دو وجوہات ہوسکتی ہیں

١۔ یومِ نَحر سے متصل ہونے کی وجہ سے۔

٢۔ چوں کہ عرفہ کے دن، حج کا اہم ترین رکن، وقوفِ عرفہ ادا کیا جاتا ہے اس لیے اسے بھی عید کا دن قرار دیا گیا۔
والله أعلم

○ ارشاد باری تعالیٰ ہے
"وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ."
''اور قسم ہے شاہد و مشہود کی۔''
«سورة البروج، الآية ٣»

✯ فائدة
جناب عمار بن أبي عمار المكي رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا أبوهريرة الدوسي رضي الله عنه نے فرمایا

"الشَّاهِدُ يَومُ الجُمُعَةِ والمَشهودُ يَومُ عَرَفةَ."

''شاہد سے مراد، جمعہ کا دن اور مشہود سے مراد، یومِ عرفہ ہے۔''

«جامع البيان عن تأويل أي القرآن للطبري، سورة البروج، تحت الآية ٣ ⤺ وسندہ صحيح»

○ سيدة عائشة الصديقة رضي الله عنها بیان کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا

"مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ."

''الله، یومِ عرفہ سے زیادہ اور کسی دن بندوں کو آگ (جہنم) سے آزاد نہیں کرتا۔''

«صحيح مسلم ١٣٤٨ ۔ سنن ابن ماجه ٣٠١٤ ⤺ وسندہ صحيح»

○ جناب عبد الله بن عباس رضي الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ عرفہ کے دن، رسول الله ﷺ کے ساتھ سواری پر ایک شخص جو آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھا تھا، عورتوں کو دیکھنے لگا تو رسول الله ﷺ نے فرمایا

"إِبْنَ أَخِيْ! إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مَنْ مَلَكَ فِيهِ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ وَلِسَانَهُ غُفِرَ لَهُ."

''بھتیجے! بے شک آج کے دن جو شخص اپنے کان، آنکھ اور زبان پر قابو رکھے گا، اس کی مغفرت کردی جائے گی۔''

«مسند الإمام أحمد بن حنبل، بتحقيق أحمد محمد شاكر ٣٠٤٢ ۔ صحيح ابن خزيمة، بتحقيق ماهر ياسين الفَحل ٢٨٣٢ ⤺ وسندہ حسن لذاته»

○ جناب أبو قتادة الأنصاري رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا

"صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ."

''میں الله سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ، ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا (یعنی انہیں مٹا دے گا)۔''

«صحيح مسلم ١١٦٢ ۔ سنن الترمذي ٧٤٩ ⤺ وسندہ صحيح»

✯ فوائد
١۔ یومِ عرفہ کا روزہ، صرف ان حضرات کے لیے مشروع ہے جو حج میں شامل نہیں ہیں۔ حجاج کرام کے لیے، اس دن روزہ نہ رکھنا ہی سُنّتِ رسول ﷺ ہے۔

«صحيح البخاري ١٦٦١ ۔ صحيح مسلم ١١٢٣»

٢۔ راجح مؤقف کے مطابق، عرفہ کا روزہ، اپنی روئیت کے مطابق قمری تاریخ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے رکھنا چاہیے خواہ اس وقت سعودیہ میں یومِ عرفہ ہو یا نہ ہو۔

«فتاویٰ اصحاب الحديث للشيخ عبد الستار الحماد ٢٢١/١، ٢٢٠ ۔ احکام و مسائل للشيخ عبد المنان النورفوري ٤١٩/٢، ٤١٨»

~~~~؛

◉ ذوالحجہ کا دسواں دن، یومِ نَحر کہلاتا ہے۔ اس دن مسلمان الله سبحانه وتعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے لیے قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں۔ ذوالحجہ کے گیارہویں دن، حجاج کرام کے منیٰ میں قیام کرنے کی وجہ سے اس دن کو یومِ قَرّ کہتے ہیں۔

○ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
"وَالشَّفْـعِ وَالْوَتْرِ."
«سورة والفجر، الآية ٣»

✯ فائدة
جناب زُرَارَة الحَرَشي رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد الله بن عباس رضي الله عنهما نے فرمایا

"الشَّفْعُ يَوْمُ النَّحْرِ وَالْوَتْرُ يَوْمُ عَرَفَةَ."

''الشفع سے مراد یومِ نَحر اور الوتر سے مراد یومِ عرفہ ہے۔''

«جامع البيان عن تأويل أي القرآن للطبري، سورة والفجر، تحت الآية ٣ ⤺ وسندہ صحيح»

○ جناب عبد الله بن قُرط رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

"إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ."

'' بے شک! الله تبارك و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظمت والا دن، یومِ نَحر (یعنی دس ذوالحجہ)، (اور) اس کے بعد یومِ قَرّ ( یعنی گیارہ ذوالحجہ) ہے۔''

«سنن أبي داؤد ١٧٦٥ ۔ المستدرك على الصحيحين، بتحقيق مصطفی عبد القادر عطا ٧٥٢٢ ⤺ وسندہ صحيح»

✯ فائدة
حافظ ابن قيم الجوزية رحمه الله فرماتے ہیں

"أَنَّ يَوْم الْجُمْعَة أَفْضَل أَيَّام الْأُسْبُوع وَيَوْم النَّحْر أَفْضَل أَيَّام الْعَام فَيَوْم النَّحْر مُفَضَّل عَلَى الْأَيَّام كُلّهَا الَّتِي فِيهَا الْجُمْعَة وَغَيْرهَا."

''ہفتہ کے تمام دنوں میں، جمعہ کادن اور سال کے تمام دنوں میں، یومِ نحر افضل ہے۔ پس یومِ نحر، سال کے تمام دنوں میں افضل ہے جن میں جمعہ اور دیگر ایام بھی آجاتے ہیں۔''

«عون المعبود مع شرح الحافظ ابن القيم، بتحقيق عبد الرحمن محمد عثمان ١٨٦/٥»

○ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

"وَاَذَانٌ مِّنَ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٓ ٖ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَـجِّ الْاَكْبَـرِ اَنَّ اللّـٰهَ بَرِىٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ۙ وَرَسُوْلُـهٝ ۚ."

''اور الله اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے حجِ اکبر کے دن تمام لوگوں کی طرف صاف اعلان ہے کہ الله اور اس کا رسول ﷺ مشرکوں سے برئ الذمہ ہیں۔''

«سورة التوبة، الآية ٣»

✯ فائدة
جناب علي بن أبي الطالب رضي الله عنه بیان کرتے ہیں

"سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ فَقَالَ يَوْمُ النَّحْرِ."

''میں نے رسول الله ﷺ سے حجِ اکبر کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا یومِ نَحر (یعنی قربانی کادن)۔''

«سنن الترمذي ٩٥٧ ⤺ وسندہ صحيح ۔ صحيح مسلم ١٣٤٧»

عوام الناس میں مشہور یہ بات کہ "جمعہ کے دن کا حج، حجِ اکبر ہے"، حدیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں صراحتاََ غلط اور باطل ہے۔

~~~~؛

◉ ذوالحجہ کی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ کو ایّامِ تشریق یا ایّامِ معدودات کہا جاتا ہے۔ یہ دن کھانے، پینے اور ذکر و اذکار کے لیے مخصوص ہیں۔

○ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

"وَاذْكُرُوا اللّـٰهَ فِىٓ اَيَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ ؕ."

''اور گنتی کے ان چند دنوں میں الله کو خوب یاد کرو۔''

«سورة البقرة، الآية ٢٠٣»

✯ فائدة
''سعيد بن جبير رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سيدنا عبد الله بن عباس رضي الله عنهما نے آیت "وَاذْكُرُوا اللّـٰهَ فِىٓ اَيَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ" کے بارے میں فرمایا "أَيَّامُ التَّشْرِيقِ" یعنی (ان ایّام سے مراد) ایّامِ تشریق ہیں۔''

«جامع البيان عن تأويل أي القرآن للطبري، سورة البقرة، تحت الآية ٢٠٣ ⤺ وسندہ صحيح»

○ جناب نُبَيشَة الهُذَلي رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا

"أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ "وَذِكْرِ اللهِ"."

''تشریق کے دن کھانے، پینے اور "الله کے ذکر" کے دن ہیں۔''

«صحيح مسلم ١٣٤٧ ۔ مسند الإمام أحمد بن حنبل، بتحقيق أحمد محمد شاكر (باختلاف يسير) ٧١٣٤ ⤺ وسندہ صحيح»

○ جناب عقبة بن عامر رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا

"يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ النَّحْرِ، وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ."

''یومِ عرفہ (نَو ذوالحجہ)، یومِ نَحر (دَس ذوالحجہ یعنی قربانی کا دن) اور ایّامِ تشریق (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ) ہم اہل اسلام کے عید اور کھانے پینے کے دن ہیں۔''

«سنن أبي داؤد ١٣٤٧ ۔ سنن النسائي ٣٠٠٧ ⤺ وسندہ حسن لذاته»

~~~~؛

◉ ذوالحجہ کے ان ایّام میں، تکبیر، تہلیل و تحمید کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ تکبیرات کے آغاز اور اختتام کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سے تو کچھ ثابت نہیں ہے تاہم صحابہ کرام رضي الله عنهم اور تابعین عظام رحمهم الله کے بعض آثار میں اس کی تفصیل موجود ہے جن پر عمل کرنا اقتداء بالسلف کی رو سے بالکل جائز اور درست ہے۔

○ جناب شقيق بن سلمة الأسدي رحمه الله بیان کرتے ہیں

"كَانَ عَلِيٌّ يُكَبِّرُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ غَدَاةَ عَرَفَةَ ثُمَّ لَا يَقْطَعُ حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ثُمَّ يُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرِ."

''سیدنا علي بن أبي الطالب رضي الله عنه، عرفہ کے دن نمازِ فجر سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی نمازِ عصر کے بعد تک مسلسل تکبیرات پڑھا کرتے تھے۔''

«السنن الكبير للبيهقي، بتحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي ٦٣٤٦ ۔ المستدرك على الصحيحين، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا ١١١٣ ⤺ وسندہ حسن لذاته»

○ جناب سلمة بن نبيط الأشجعي رحمه الله بیان کرتے ہیں

"أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ مِنْ صَلاَةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ."
''جناب ضحاك بن مزاحم التابعي رحمه الله، یومِ عرفہ کی نمازِ فجر سے لے کر آخری یومِ تشریق کی نمازِ عصر تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔''

«المصنف لابن أبي شيبة، بتحقيق حمد الجمعة و محمد اللحيدان ٥٦٨٨ ⤺ وسندہ صحيح»

~~~~؛

◉ تکبیرات کے الفاظ سے متعلق، نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب معروف روایت، انتہائی ضعیف ہے۔ تاہم بعض سلف الصالحین سے تکبیرات کے مختلف الفاظ ثابت ہیں۔

○ امام إبرهيم ألنخعي رحمه الله

"اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ."

«المصنف لابن أبي شيبة، بتحقيق حمد الجمعة و محمد اللحيدان ٥٦٩٣ ⤺ وسندہ صحيح»

○ سیدنا سلمان ألفارسي رضي الله عنه

"اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا (تَكْبِيرًا)، أَللَّهُمَّ أَنْتَ أَعْلَى وَأَجَلُّ مِنْ أَنْ تَكُوْنَ لَكَ صَاحِبَةٌ، أَوْ يَكُوْنَ لَكَ وَلَدٌ، أَوْ يَكُوْنَ لَكَ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ، أَوْ يَكُوْنَ لَكَ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا، أَللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا، أَللَّهُمَّ ارْحَمْنَا."

«السنن الكبير للبيهقي، بتحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي ٦٣٥٤ ۔ المصنف لعبد الرزاق الصنعاني، طبع دار التأصيل ٢١٥٠٥ (باختلاف يسير) ⤺ وسندہ صحيح»

○ سیدنا عبدالله بن عباس رضي الله عنهما

١۔ "اَللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا، اَللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا، اَللَّهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ."

«المصنف لابن أبي شيبة، بتحقيق حمد الجمعة و محمد اللحيدان ٥٦٩٨ ⤺ وسندہ صحيح»

٢۔ "اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ، اَللَّهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اَللَّهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا."

«السنن الكبير للبيهقي، بتحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي ٦٣٥٢ ⤺ وسندہ صحيح»

~~~~؛

حافظ ابن حجر العسقلاني رحمه الله، عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے، رقمطراز ہیں

"وَاَلَّذِي يَظْهَرُ أَنَّ السَّبَبَ فِي اِمْتِيَازِ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ لِمَكَانِ اِجْتِمَاعِ أُمَّهَاتِ الْعِبَادَةِ فِيهِ، وَهِيَ الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ وَالْحَجّ وَلَا يَتَأَتَّى ذَلِكَ فِي غَيْرِهِ."

''عشرہ ذوالحجہ کے امتیاز کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں (تمام) بنیادی عبادات جیسے نماز، روزہ، صدقہ اور حج ایک ساتھ جمع ہوجاتی ہیں جو ان کے علاوہ کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتیں۔''

«فتح الباري بشرح صحيح البخاري للعسقلاني، بتحقيق شعيب الأرناؤوط ٤٧/٤، تحت الحديث ٩٦٩»

ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم وصلى الله وسلم وبارك على سيدنا ونبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين۔

http://salafitehqiqimaqalat.blogspot.com/2020/07/blog-post_25.html

.
 
Top