• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ رجب کی خاص فضیلت،فضائل واحکام

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86

ماہ رجب کی خاص فضیلت
فضائل واحکام
از:حافظ عمران ایوب لاہوری
لفظ رَجْبٌ اگر جیم کے ضمہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے ’’شرم کرنا، پھینک کر مارنا، ڈرنا اور بڑائی کرنا۔ ‘‘ اور اگر جیم کے فتحہ کے ساتھ رَجَبٌ ہو تو اس کا معنی ہے ’’گھبرانا اور شرم کرنا ‘‘
(لغات الحدیث :2-69)
اصطلاح میں رجب قمری مہینوں میں ساتویں مہینے کا نام ہے اور یہ ان چار مہینوں میں بھی شامل ہے جنہیں شریعت اِسلامیہ میں حرمت والے قرار دیا گیا ہے ۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿إنَّ عِدّةَ الشَّهُوْرِ عِنْدَ اﷲِ اثْنَا عَشَرَ شَهراً فِیْ کِتَابِ اﷲِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَالاَرْضَ مِنْهَا أرْبَعة حُرُمٍ﴾
(التوبۃ:۳۶ )

’’یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے روز سے ہی اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور ان میں چار حرمت والے ہیں ۔ ‘‘

ان چارحرمت والے مہینوں سے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام ہیں ۔ جیساکہ یہ وضاحت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمائی ہے ۔
(صحیح البخاري:۴۶۶۲، ۳۱۹۷،صحیح مسلم:۱۶۷۹)

شیخ ابن عادل حنبلی رحمہ اللہ نے انہی چاروں کی حرمت پراجماع بھی نقل کیا ہے ۔
(تفسیر اللباب فی علوم الکتاب:10-85)

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر کوئی معترض کہے کہ یہ چار مہینے بھی دیگر مہینوں کی مانند ہیں تو پھر انہیں دوسروں سے ممتاز کیوں کیا گیا تو اس کاجواب یہ ہے کہ شریعت میں یہ چیز بعید نہیں کیونکہ شریعت میں مکہ مکرمہ کو دیگر شہروں سے زیادہ محترم قرار دیا گیا ہے ۔ ،جمعہ کے دن اور عرفہ کے دن کو باقی دنوں سے زیادہ محترم کہا گیا ہے، شب قدر کو باقی راتوں پر برتری دی گئی ہے ،بعض اشخاص کو رسالت عطا کر کے دوسروں پر فوقیت دی گئی ہے تو اگر بعض مہینوں کو دوسروں کے مقابلے میں امتیازی حیثیت دی گئی ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔أیضاً
حرمت و تعظیم میں ان چار مہینوں کی تخصیص اسی طرح ہے جیسے صلاۃ وسطیٰ کی تخصیص ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاة الْوُسْطیٰ﴾
(البقرۃ:۲۳۸)
’’یعنی نمازوں کی حفاظت کرو بطورِ خاص صلاۃ وسطیٰ (درمیانی نماز)کی۔ ‘‘

ان مہینوں کی حرمت کے دومفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے اور دوسرا یہ کہ یہ مہینے متبرک اور قابل احترام ہیں ۔ ان میں نیکیوں کاثواب زیادہ اور برائیوں کا گناہ زیادہ لکھا جاتا ہے ۔ پہلا مفہوم کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے ۔ شریعت اسلامیہ میں منسوخ ہو چکا ہے جبکہ دوسرا کہ یہ قابل احترام اور متبرک ہیں،ابھی بھی اسلام میں باقی ہے ۔
(معارف القرآن:4-372أیسر التفاسیر :۲!۷۴)

ماہ رجب کی خاص فضیلت
ماہ رجب کی اتنی عمومی فضیلت تو ثابت ہے کہ وہ چار حرمت والے مہینوں میں شامل ہونے کی وجہ سے باقی مہینوں سے زیادہ قابل احترام اور متبرک ہے، لیکن بطورِ خاص ماہ رجب کی فضیلت میں کوئی بھی روایت ثابت نہیں جیسا کہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے کہ

’’لم يرد فی رجب علی الخصوص سنة صحيحة ولاسنة ولاضعيفة ضعفا خفيفا بل جميع ما روی فيه علی الخصوص امام موضوع مکذوب أو ضعيف شديد الضعف‘‘

’’خاص طور پر ماہ رجب کے متعلق کوئی صحیح حسن یا کم درجے کی ضعیف سنت وارد نہیں بلکہ اس سلسلے میں وارد تمام روایات یا تو من گھڑت اورجھوٹی ہیں یا شدید ضعیف ہیں ۔ ‘‘
(السیل الجرار:۲!۱۴۳)

شیخ لاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ:

’’بطورِ خاص رجب کے روزے رکھنے کے متعلق تمام احادیث ضعیف بلکہ موضوع ہیں ۔ اہل علم ان میں سے کسی پربھی اعتماد نہیں کرتے ۔ ‘‘
(مجموع الفتاویٰ:۲۰!۲۹۰)

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ :
’’رجب کے روزے اور اس کی کچھ راتوں میں قیام کے متعلق جتنی بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ تمام جھوٹ اور بہتان ہیں ۔ ‘‘
(المنار المنیف:ص۹۶)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ :
’’ایسی کوئی بھی صحیح اور قابل حجت حدیث وارد نہیں جو ماہ رجب میں مطلقاً روزے رکھنے یارجب کے کسی معین دن کا روزہ رکھنے یا اس کی کسی رات کے قیام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو۔ ‘‘
(تبیین العجب، ص۱۱)
سید سابق رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ:
’’رجب میں روزے رکھنا دوسرے مہینوں میں روزے رکھنے سے افضل نہیں ۔ ‘‘
(فقہ السنۃ:۱!۳۸۳)

اہل علم کے درج بالا اَقوال سے معلوم ہوا کہ ماہ رجب کی کوئی بھی خاص فضیلت ثابت نہیں اورجن روایات میں اس کی کوئی بھی فضیلت مروی ہے وہ تمام کذب و افترا ہیں ۔
رجب کی فضیلت کے عدم ثبوت کے ضمن میں بعض اہل علم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت والے مہینوں میں روزے رکھنے کی ترغیب دلائی ہے ۔ ‘‘ اور چونکہ رجب بھی حرمت والے مہینوں میں شامل ہے ۔ اس لئے اس کے روزے اس عمومی حدیث کی وجہ سے مستحب ہوئے ۔ تو یہ واضح رہنا چاہئے کہ یہ روایت بھی ثابت نہیں بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے وضاحت فرمائی ہے ۔
(ضعیف أبوداؤد:۲۳۲۸)
ماہ رجب کی بدعات
حرمت والے مہینوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
﴿فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ أنْفُسَکُمْ ﴾(التوبۃ :۳۶)
’’یعنی ان مہینوں میں اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو۔ ‘‘

شیخ ابن عادل نے اس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے کہ اپنے نفسوں پر ظلم سے مراد ہے معاصی کا ارتکاب اور اطاعت کے کام ترک کر دینا۔
(اللباب فی علوم الکتاب :۱۰!۸۶)
تفسیر جلالین میں ہے کہ اپنے نفسوں پر ظلم سے مراد ہے ’گنا ہوں کا ارتکاب‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مہینوں میں برائی کا گناہ زیادہ ہوتا ہے ۔ (تفسیر الجلالین،ص۲۷۰)
امام ابوبکر الجزائری رحمہ اللہ نے بھی اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے ۔
(تفسیر أیسر التفاسیر:۲!۷۴)

معلوم ہوا کہ حرمت والے مہینوں میں خصوصی طور پر گنا ہوں کے ارتکاب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے چونکہ رجب بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے اس مہینے میں بھی یہی کوشش ہونی چاہئے مگر خدا کا کرنا ایسا ہے کہ اس مہینے میں وہ گناہ تو ہوتے ہی ہیں جو دوسرے مہینوں میں کئے جاتے ہیں ۔ مزید برآں کچھ ایسے گناہ بھی کئے جاتے ہیں جو محض اسی مہینے کے ساتھ خاص ہیں ۔

رجب کے کونڈے
ماہ رجب کی بدعات میں کونڈے بھرنے کی رسم بھی شامل ہے ۔ جس کے لئے ۲۲ رجب کا دن خاص کیا گیا ہے ۔ اس کے پس منظر میں مختلف واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک جعفر صادق اور لکڑہارن کا واقعہ بھی ہے ۔ اس میں ہے کہ جعفر صادق نے لکڑہارن سے کہا کہ جو بھی آج (یعنی ۲۲ رجب کے روز) میرے نام کے کونڈے بھر کرتقسیم کرے گا اس کی حاجت ضرور پوری ہو گی ورنہ روز قیامت میرا گریبان پکڑلینا، چنانچہ لکڑہارن نے کونڈے بھرے تو اس کی حاجت پوری ہو گئی۔
(داستان عجیب از مولانا محمود الحسن )

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ قصہ ہی من گھڑت ہے کیونکہ اس کا ذکر کسی بھی مستند ماخذ میں موجود نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ۲۲ رجب یا کسی بھی دن کی خاص فضیلت کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا اور یہ واقعہ اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کر لیاجائے تب بھی عہد رسالت سے صدیوں بعد کا ہے ۔ اور دین عہد رسالت میں مکمل ہو گیا تھا۔ بعد کا اضافہ دین شمار نہیں ہو گا بلکہ اسے دین میں بدعت اور گمراہی کہا گیا ہے جیساکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے

((کُلّ مُحْدَثة بِدْعةٌ وَکُلّ بِدْعةٍ ضَلَالةٌ))
(صحیح الجامع الصغیر للألباني:۱۳۵۳)
’’دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ‘‘

تیسری بات یہ ہے کہ یہ رسم شیعہ حضرات کی ایجاد معلوم ہوتی ہے کیونکہ جعفر صادق کا قصہ تو ثابت نہیں البتہ یہ ثابت ہے کہ ۲۲ رجب کو حضرت امیرمعاویہ (بزرگ صحابی رسول کاتب وحی اور خلیفۃ المسلمین ) کی وفات ہوئی تھی اور شیعہ حضرات کو ان سے جو بغض و عناد ہے وہ سب پر عیاں ہے اس لئے وہ ان کی وفات کے روز بطور جشن میٹھی اشیا تقسیم کرتے لیکن جب انہوں نے محسوس کیاکہ یہ رسم سنیوں میں بھی عام ہونی چاہئے تو جعفر صادق کا من گھڑت قصہ چھپوا کر ان میں تقسیم کرا دیا اور یوں یہ رسم عام سے عام ہوتی چلی گئی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ۲۲ رجب کے روز کونڈے بھرنے والی رسم خود ساختہ اور جاہلانہ ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

شب معراج
رجب کی ۲۷ تاریخ کو شب معراج منائی جاتی ہے ۔ دن کوروزہ اور رات کو قیام کیا جاتا ہے ۔ محافل نعت اور مختلف دینی مجالس منعقد کی جاتی ہیں اورمساجد میں چراغاں وغیرہ کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ قابل ذکر ہے کہ شب معراج کی تاریخ تو کجا اس کے مہینے میں بھی اختلاف ہے ۔ کچھ نے معراج کے لئے ربیع الاوّل، کچھ نے محرم اور کچھ نے رمضان کا ذکر کیا ہے ۔ (الرحیق المختوم،ص۱۳۷)

جب شب معراج کے مہینے میں ہی اختلاف ہے تو اس کی تاریخ کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے ۔
دوسرے یہ کہ اگر بالفرض یہ ثابت بھی ہو جائے کہ شب معراج ۲۷ رجب ہی ہے تب بھی اس دن کا خصوصی روزہ، قیام، محافل و مجالس اور چراغاں وغیرہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ بات طے ہے کہ معراج مکہ میں ہوئی اور اس کے بعد تقریباً تیرہ برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں موجود رہے ۔ اگر اس دن کوئی خاص عمل باعث برکت و فضیلت ہوتا تو سب سے پہلے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کرتے جبکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس دن کاکوئی بھی خاص عمل نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے ۔ تو اس دن کو بعض اعمال کے لئے خاص کرنا دین میں نئی ایجاد کردہ بدعت نہیں تو اور کیا ہے ؟ لہٰذا ایسی تمام بدعات و خرافات سے خود بھی بچنا چاہئے اور دوسروں کو بھی بچانا چاہئے ۔ نیز اگر کوئی نفلی روزہ و قیام کا اہتمام کرناہی چاہتا ہے تو اس کے لئے سنت نبویؐ موجود ہے ۔ آپؐ روزانہ رات کو گیارہ رکعت قیام کیا کرتے تھے ۔ (موطأ امام مالک:۲۴۳) اور ہر ہفتے میں سوموار اور جمعرات کا نفلی روزہ رکھا کرتے تھے ۔ (سنن أبوداؤد: ۲۴۳۶)
اس لئے اگر کوئی شخص نفلی روزہ رکھنا چاہے یا قیام اللیل کرناچاہے تو اس سنت کو اپنائے، بدعات میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت ہے جو کوشش و محنت کے باوجود انسان کے لئے ہلاکت کا باعث ہیں ۔

بدعات رجب سے متعلق مختلف فتاویٰ
1 شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ رجب یا کسی بھی دوسرے مہینے میں شب معراج کی تعیین کے متعلق صحیح احادیث میں کچھ بھی مذکور نہیں اور اس رات کی تعیین میں جو کچھ بھی مروی ہے وہ محدثین کی تحقیق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور اگر بالفرض اس رات کی تعیین ثابت بھی ہو جائے تب بھی مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ اسے بعض عبادات کے لئے خاص کریں یا اس میں مختلف مجالس و محافل کا انعقاد کریں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور اگر ایسا کوئی بھی کام مشروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول یا فعل کے ذریعے امت کے سامنے اس کی وضاحت ضرور فرما دیتے ۔ (مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعۃ :۱!۱۸۸)
2 شیخ صالح بن فوزان الفوزان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رجب کے پہلے روز روزہ رکھنا بدعت ہے شریعت کا حصہ نہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجب میں خاص طور پر روزوں کا اہتمام ثابت نہیں ۔ لہٰذا ماہ رجب کے پہلے روز روزہ رکھنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ عمل سنت ہے ، گناہ اور بدعت ہے ۔(فتاویٰ فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان :۱!۳۳)
3 سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ رجب کے پورے مہینے کے روزے رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا جوبھی ایسا کرے گا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپؐ کے طریقے کی مخالفت کرے گا اور بدعت کا مرتکب ٹھہرے گا۔(فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، رقم الفتویٰ:۵۱۶۹)
4 شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے کسی نے دریافت کیاکہ کچھ لوگ ماہ رجب میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ رجب میں اس کی خاص فضیلت ہے تو آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ؟ جواب میں شیخؒ نے فرمایا کہ یہ درست نہیں ۔ اگر تو وہ لوگ عبادت سمجھ کر ایسا کرتے ہیں تو یہ بدعت ہے اور اگر ان کے اموال پر سال ہی اسی مہینے پورا ہوتا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ۔ (البدع والمحدثات،ص۴۶۲)

خلاصۂ کلام
درج بالا بحث سے معلوم ہوا کہ ماہ رجب کی محض اتنی ہی فضیلت ثابت ہے کہ یہ ایک حرمت والا مہینہ ہے اس لئے اس کے احترام کا تقاضا ہے کہ اس میں خصوصی طور پر گنا ہوں سے بچنے اور عبادات بجا لانے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ اس سے بڑھ کر اس مہینے کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں اور اس سلسلے میں جوکچھ بھی بیان کیا جاتا ہے وہ محض کذب و افترا ہی ہے ۔ لہٰذا اس مہینے کو کسی بھی نیک عمل اور عبادت کے لئے خاص کرنا بدعت ہے خواہ وہ صلوۃ الرغائب ہو، شب معراج کی محافل و مجالس ہوں، کونڈوں کی رسم ہو یا کسی مخصوص دن کا روزہ ہو، سب ناجائز اور غیر شرعی امور ہیں ۔ اسلئے ان سے خود بھی بچنا چاہئے اور دوسروں کوبھی بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور صرف ایسے اعمال ہی اختیارکرنے چاہئیں جو سنت نبوی سے ثابت ہوں کیونکہ کامیابی صرف سنت کی اتباع میں ہی ہے ۔ واﷲ الموفق
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
کیا یہ کسی کتاب سے ماخوذ ہے؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791

ماہ رجب کے بارے میں وا رد شدہ آثار

(ایک فاضل بھائی کے مضمون سے اقتباس )

ماہ رجب کی فضیلت میں سر انجام دیئے جانے والے بعض اعمال کے متعلق بہت سی روایات ملتی ہیںجن کوتین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔احا دیث صحیحہ
ماہ رجب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے۔
اِنَّ الزَّمَانَ اسْتَدَارَکَہَیْئَۃِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتَ وَالارْض۔ (ابو داؤد کتاب المناسک)

’’سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: وقت (زمانہ) اس حالت میں پلٹ آیا ہے جس حالت میں اس روزتھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان پیدا کیے تھے سال میں بارہ مہینے ہیں ان میں سے چار حرمت والے ہیں وہ بھی تین تو لگاتار ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اورمحرم جبکہ چوتھا رجب مضر ہے جو کہ جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتاہے۔ ‘‘
اس صحیح حدیث میں صرف حرمت رجب کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے اس کے علاوہ ماہ رجب کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔

احادیث ضعیفہ:
فضائل رجب کے بارے میں کئی ایک ضعیف احادیث ہیں معدودے چند درج ذیل ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کہ جنت میں رجب نامی نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے جو آدمی ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس آدمی کو اس نہر سے پانی عطا فرمائے گا‘‘(رواہ البیہقی فی فضائل الاوقات)
امام ابن جوزی معروف کتاب’’ العلل المتناھیۃ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ اس حدیث میں مجہول رواۃ کی کثرت ہے۔ اس کی تمام اسناد ضعیف ہیں۔ (العلل المتناھیۃ ۶۵)
۲۔عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: کَانَ النَّبِی صلی اللہ علیہ و سلم اِذَا دَخَلَ رَجَب قَالَ اَلّٰلہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَب وَشَعبَان وَبَلغْنَا رَمْضَان۔ (رواہ احمد فی مسندہ)
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ماہ رجب کے آغاز میں یہ دعا مانگتے تھے : اے اللہ ہمارے لیے ماہ رجب وشعبان کو بابرکت بنا اور ہمیں ماہ رمضان تک زندہ رکھ‘‘ یہ حدیث بھی سخت درجہ کی ضعیف ہے اس کی سند میں زائدہ بن ابی رقاد راوی ہے جس کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل نے سخت جرح کی ہے۔ امام بخاری نے اسے منکر الحدیث جبکہ اما م نسائی نے اس کو غیر ثقہ قرار دیا ہے جبکہ ابن حبان نے اس کی روایت کو ناقابل اعتبار کہاہے۔ (تہذیب التہذیب ترجمہ رقم:۵۷۰)
۳۔ أنَّ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم لَمْ یَصُمْ بَعْدَ رَمْضَانَ اِلاّ رَجَباً وَشَعْبَان۔
’’رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک کے بعد ماہ رجب وشعبا ن کے علاوہ کسی ماہ میں مکمل روزے نہیں رکھے ‘‘
یہ حدیث بھی حد درجہ ضعیف ہے اس کی سند میں یوسف بن عطیہ نامی راوی کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے بہت زیادہ ضعیف کہا ہے۔

موضوع روایات:
ماہ رجب کی فضیلت میں موضوع روایات بھی بکثرت ہیں چند ایک درج ذیل ہیں۔
۱۔ ماہ رجب کی باقی مہینوں پر فضیلت ا س طرح ہے جس طرح قرآن مجید بقیہ تمام اذکا ر سے افضل ہے (تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب لابن حجر ص:۱۷)
۲۔ ماہ رجب اللہ کا،شعبان میرا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ) اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے (موضوعات لابن جوزی ۲/۲۰۶)
۳۔ رجب اللہ کا مہینہ ہے جس نے اس مہینے میں روزہ رکھا اس کے لئے اللہ کی خوشنودی واجب ہو جاتی ہے۔ (الفوائد المجموعۃ للشوکانی ص:۴۳۹، حدیث ۱۲۶۰)
۴۔ جس نے ماہ رجب میں تین دن روزہ رکھا اس کو پورے ماہ کے روزوں کا ثواب ملتا ہے اور جو اس ماہ میں سات دن روزہ رکھتا ہے اس پر جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔
۵۔ جس نے ماہ رجب کے روزے رکھے اور چار رکعت نماز ادا کی اس شخص کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک وہ جنت میں اپنا مقام نہ دیکھ لے۔ (موضوعات لابن جوزی ۲/۱۲۳)
ماہ رجب کی بدعات:
ہوس پرست علما ء نے عوام الناس کے مذہبی جذبات کو گرما کر ان بدعات کو رائج کیا ہے۔ عوام الناس تک کتاب وسنت کا واضح پیغام پہنچانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے ایمان کو بدعات کی آمیزش سے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ رجب کی مخصوص بدعات درج ذیل ہیں۔

۱۔ ماہ رجب کی بدعتی نمازیں:
ماہ رجب میںمخصوص ایام میں مخصوص طریقے سے کچھ نمازیںبالتزام ادا کی جاتی ہیں مثلاً صلاۃ الرغائب ماہ رجب کی مشہور ترین بدعات میں سرفہرست ہے اس نماز میں مخصوص اذکار مخصوص تعداد اور مخصوص حالا ت میں پڑھے جاتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
یہ نماز رجب کی پہلی جمعرات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس میں بارہ رکعتیںہوتی ہیں، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ القدر وسورۃ الاخلاص بالترتیب تین دفعہ پڑھی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بارہ رکعات دو دو رکعت کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر ساٹھ دفعہ یہ درود پڑھا جاتاہے ؛ اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ۔۔۔ پھر سجدہ کی حالت میں ساٹھ دفعہ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح کہا جاتاہے، سجدہ کے بعد یہ دعا ساٹھ دفعہ پڑھی جاتی ہے :رب اغفرلی وارحم وتجاوز عما تعلم انک انت العزیز الاعظم۔ پھر دوسرے سجدہ میں بھی اسی طرح کیا جاتاہے۔

فضیلت:
جس طرح صلاۃ الرغائب مشکل ترین اور پیچیدہ نماز ہے بعینہ اس کے متعلق ثواب وجزاء اور اس کی فضیلت بھی پیچیدہ اور ناقابل فہم ہے۔
مثلاً:۱۔ اس نماز کے بعد انسان کے تمام گناہ (چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں جتنے ہوں)معاف ہو جاتے ہیں۔
۲۔ اس نماز کو ادا کرنے والا قیامت کے دن ستررشتہ داروں کے لیے شفاعت کر سکے گا۔ صاحب قبر کہے گا تم کون ہو اللہ کی قسم میں نے تم سے زیادہ حسین خوش گفتار اور خوشبودار نہیں دیکھا ہے تو یہ ثواب اس کو کہے گا کہ میں تو اس نماز کا ثواب ہوں جو کہ تو نے رجب کی فلاں رات پڑھی تھی میں آج تیرا حق لوں گا، قبر میں تیری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو ختم کر دوں گا، قیامت کے دن میں تمہارے سر پر سایہ بن جائوں گااور تم کبھی بھی خیر سے محروم نہیں ہو گے۔
اس نماز کا ثواب خوشخبری سنائے گا کہ مجھے پڑھنے والے تو آج عذاب قبر سے بچ گیا ہے۔
حقیقت حال:
اس نماز کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اس نماز کی بنیاد ہی موضوع حدیث پر ہے جیسا کہ اس حدیث کے متصل بعدامام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ اس کی سند کے تمام رواۃ مجہول ہیں، میں نے علم رجال کی تمام کتب چھان ماری ہیں لیکن مجھے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ امام الشوکانی اس روایت کو الفوائد المجموعۃ میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایت ہے۔ اہل علم نے اس روایت کے موضوع ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ امام مقدسی اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو باطل اور موضوع قرار دیا ہے۔
۲۔ اگراس نماز کی اہمیت اتنی زیادہ تھی تو پھر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام نے اس کا اہتمام کیوں نہ کیا ؟یقینا وہ مقدس ہستیاں خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے والے تھے۔ پس عبادت کے وہ کام جو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم نے سرانجام نہیں دئیے وہ باقی امت کے لیے وہ کام عبادت نہیں بلکہ بدعت ہے۔
۳۔ نماز میں اطمینان اور سکون انتہائی ضروری ہے مگر صلاۃ الرغائب میں یہ چیز ممکن نہیں ہے کیونکہ نماز پڑھنے والا اذکار کی کثرت تعداد کو شمار کرتے وقت بہت زیادہ حرکت کا مرتکب ہو گا جو کہ اطمینان کے منافی ہے۔
۵۔ نماز میں خشیت وتواضع بھی لازمی امر ہے مگر اس بدعتی نماز میں یہ چیز عنقا اور مفقود ہو جاتی ہے۔
۶۔ اس نماز میں ہر دورکعت کے بعدعلیحدہ دو سجدے کئے جاتے ہیں، شریعت اسلامیہ میں نماز کے علاوہ ان سجدوں کے بارے میں کوئی نص نہیںہے۔
۷۔ اس نماز سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے جس میں آپؐ نے جمعہ کی رات کو خصوصی قیام سے منع کیا ہے۔ (مسلم ۲/۸۰۱)
اسی لیے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس نماز کو بدعت قرار دیتے ہوئے لکھا: اما صلاۃالرغائب فلا اصل لہا بل ھی محدثۃ فلا تستحب لا جماعۃ ولا فرادی۔ اس نماز کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو بدعت ہے جس کو نہ تو باجماعت ادا کرنا درست ہے اور نہ ہی منفرد۔ (مجموع الفتاویٰ :۲۳/۱۳۴)
امام نووی رحمہ اللہ شارح صحیح مسلم سے جب صلاۃ الرغائب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا : یہ نماز نہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ، صحابہ کرام اور نہ ہی ائمہ اربعہ میں سے کسی نے پڑھی ہے اور نہ ہی اس کی (فضیلت +طریقہ )کی طرف اشارہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بسند صحیح اس کے بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے بلکہ یہ تو بعد کے زمانے میں ایجاد کی گئی ہے۔ (البدع الحولیۃ، ص:۴۵۔۴۷)
اسی طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : وکذالک احادیث صلاۃ الرغائب لیلۃ اول جمعۃ من رجب کلہا کذب مختلق علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔ (المنار المنیف فی الصحیح والضعیف، ص:۹۵، حدیث:۱۶۷)
’’رجب کے پہلے جمعہ میں اد ا کی جانے والی نماز (یعنی صلاۃ الرغائب) کے بارے میں مذکور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہتان ہے۔‘‘
ماہ رجب میں خصوصی روزے رکھنا:
ماہ رجب کی مروجہ بدعات میں سے مشہور ترین بدعت اس مہینے کو روزہ کیلئے خاص کرنا بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث سے ثابت شدہ روزے باعث ثواب ہیں جب کہ ماہ رجب کے مخصوص روزے کسی صحیح نص سے یا اشارہ سے ثابت نہیں ہیں۔
اس مہینے کی پہلی دوسری اور تیسری تاریخ یا ساتویں تاریخ یا پورے مہینے کے روزے رکھے جاتے ہیں اس بدعت کو سنت کا رنگ دینے کیلئے سخت ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا لیا جاتاہے اس لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بدعتی روزوں کی تردید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ماہ رجب کے روزوں کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے نہ سلف صالحین میں سے کسی نے خصوصی طور پر ان روزوں کا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مہینہ میں روزے رکھنے والوں کو تعزیراً مارتے تھے اور فرماتے : اس (ماہ رجب) کو ماہ رمضان کے مثل نہ بنائو۔ (ارواء الغلیل : ۴/۱۱۳)
ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم یصم الثلاثۃ الا شہر سردا رجب شعبان ورمضان کما یفعلہ بعض الناس ولا صام فی رجب قط (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد ۲/۶۴)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی رجب شعبان اور رمضان میں تسلسل کے ساتھ روزے نہیں رکھے یہ فعل تو کچھ لوگوں نے اپنا لیا ہے۔ ماہ رجب اس میں توآپؐنے کبھی روزہ نہیں رکھا۔ واللہ اعلم
شب معراج کی عبادت:
ماہ رجب کی بدعات میں سے ایک اور بدعت شب معراج میں عبادت بھی ہے۔حالانکہ اس رات کی خصوصی عبادت قرآن وسنت تو کجا ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے۔ اس بدعت کو موضوع روایات کا سہارا دیا گیا ہے اور اس شب میں عبادت کا خصوصی اہتمام کتاب وسنت اور عقل سلیم کے سراسر منافی ہے۔​
 
Top