عتیق الرحمٰن
رکن
- شمولیت
- مئی 19، 2019
- پیغامات
- 55
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 41
ماہِ رمضان میں ہماری معاشرتی ترجیحات
تحریر: جناب پروفیسر عبدالعظیم جانباز
معاشرے کے افراد کو ان کے معاشی، سیاسی حقوق کا شعور دے اور معاشرے میں منفی رویوں کے خاتمے، انتہاء پسندی اور نفرت کو اعتدال اور محبت سے بدلنے میں معاون ہو جائے۔ عوام کے شعور کو بیدار کرے‘ انہیں ان کے حقوق کی آگاہی دینے اور مقتدر طبقات کی طرف سے معاشرے کو دی جانے والی اذیت، نا انصافی اور ظلم کے خلاف اٹھنے کی ترغیب دے۔ عوام کو احساس دلائے کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں سحری و افطاری کے اوقات میں بھی بجلی سے محروم کرنے والے طبقات ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں۔ حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام کو سہولت و آسودگی دینا نہیں بلکہ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پیس کر انہیں جانوروں سے بدتر زندگی دینا ہے۔
لوگ دنیوی اعتبار سے رمضان المبارک کی آمد کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ گھروں میں مہینے بھر کی اشیاء خوردنوش کی لمبی چوڑی لسٹیں بنتی ہیں، بھرپور خریداری کی جاتی ہے، بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے، حکومت بھی لوگوں کی سہولت کی خاطر سستے رمضان بازار لگاتی ہے۔ ان سب باتوں کی اہمیت اپنی جگہ ان سے انکار ممکن نہیں۔ رمضان المبارک بطریق احسن گزارنے کیلئے ان ضروریات زندگی کا ہونا ضروری ہے لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ کچھ ضروریات اور لوازمات ان سے بھی زیادہ ضروری ہیں۔ وہ یہ کہ رمضان المبارک میں عبادات کی ترتیب کیا ہو گی؟ گھر میں روزانہ کتنے پارے پڑھے جائیں گے؟ نوافل کتنے ادا کئے جائیں گے؟ قیام اللیل کا اہتمام کیسے ہو گا؟ بچوں کی اصلاح کیسے ہو گی؟ گھر کا ماحول کیسے اسلامی بنایا جائے گا؟ ان کو روزہ رکھنے کی ترغیب کیسے دلائی جائے گی؟ رب کو کیسے منایا جائے گا؟ گناہوں کو کیسے بخشوایا جائے گا؟ رمضان کا حق کیسے ادا ہو گا اور روزہ کو با مقصد کیسے بنایا جائے گا؟ ہر شخص اپنے انداز، اپنے حساب اور اپنے طور طریقے کے مطابق رمضان المبارک کا اہتمام و استقبال کرتا اور اس کے فائدے سمیٹتا ہے۔ ذخیرہ اندوز ذخیرہ اندوزی کر کے اشیاء خور و نوش کی مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے۔ دکاندار قیمتیں بڑھا کر مالی فائدے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، کپڑے کا کاروبار کرنے والا سال بھر کی کمائی ایک مہینے میں کر لینے کی فکر میں رہتا ہے۔
پوری دنیا میںیہ اصول ہے کہ اہم مذہبی تہواروں پراشیائے خورونوش اور اشیائے صرف میں کمی کر دی جاتی ہے، پورے یورپی ممالک میں ۲۵ دسمبر کو کرسمس کے موقع پر تمام اشیائے صرف کی قیمتوںمیں کمی کر دی جاتی ہے۔عرب ممالک میں بھی رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں جگہ جگہ مفت سحری و افطار ی کروائی جاتی ہے، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوںمیںانتہائی کمی کر دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ان میں سے کوئی ایک مقصد بھی رمضان المبارک کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کیا ہم نے رمضان کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تزکیہ نفس اور اپنا محاسبہ کیا ہے یا نہیں؟ کیا کسی نے سوچا اور اس بات کا جائزہ لیا کہ اس کے ایمان کا لیول کتنا بڑھا؟ ایمان کتنا مضبوط ہوا؟ رب کے ساتھ تعلق کتنا بڑھا؟ بیوی بچوں کی کتنی اصلاح ہوئی؟ اور اہل خانہ کو رب کا کتنا قرب حاصل ہوا؟رمضان المبارک کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا تزکیہ ہو، معاشرہ کی اصلاح ہو، اللہ کا قرب حاصل ہو، عبادات میں پختگی ہو، جنت کی طلب ہو، جہنم سے نفرت ہو، تلاوت میں باقاعدگی ہو، رزق حلال کی چاہت ہو، رزق حرام سے اعراض ہو، تقویٰ کے حصول کا جذبہ ہو، ایمان کی لذت و حلاوت ہو، ہاتھ میں سخاوت ہو، سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہو، مسجد سے الفت ہو اس لئے کہ رمضان کے مہینے میں کثرت سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کو تلاش کرتے ہیں کہ کون نماز پڑھ رہا ہے؟ کون تلاوت کر رہا ہے؟ کون جہاد کر رہا ہے؟ کون صدقہ و خیرات کر رہا ہے؟ کون امر بالمعروف اور کون نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہا ہے؟ کون اپنے گھروں کی اور معاشرے کی اصلاح کر رہا ہے؟ کون اپنے بچوں کو نیکی کی تلقین کر رہا اور کون روزے رکھ رہا ہے؟