• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مثالی طالب بننے کے لیے ضروری باتیں۔(ظفر اقبال ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
مثالی طالب بننے کے لیے ضروری باتیں
انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق عمل اور علم کا ہی ہے کہ دیگر مخلوقات میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی معلومات اور علم میں اضافہ کریں ۔جبکہ انسان دیگر ذرائع کو استعمال کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے ۔علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مہذب بناتا ہے اسے اچھے اور برے میں فرق سیکھاتاہے،اللہ تعالی نے اپنے نبی پہ وحی کا آغاز بھی علم کی آیات سے کیا ،سورۃ علق نازل کرکے ،ایک علم والا اور جاہل انسان برابر نہیں ہو سکتے، اللہ تعالی فرماتا ہے۔
يَرْ‌فَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَ‌جَاتٍ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير
اور اللہ تعالی تم میں ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جو علم دیے گئے ہیں درجے بلند کردے گا اور اللہ تعالی(ہر اس کام سے) جو تم کر رہے
ہو (خوب)باخبر ہے۔(سورہ مجادلہ میں آیت نمبر :۱۱)
علم ایک عبادت ہے اور عبادت کی دو شرطیں ہیں ایک یہ کہ وہ عبادت اللہ کے لیے خاص ہواور دوسری یہوہ سنت کے مطابق ۔علماء انبیاء کے وارث ہیں ،علوم کی کئی اقسام ہے لیکن سب سے افضل علم وہ ہے جو انبیاء و رسل لے کر آئے ۔یعنی اللہ کی ذات،اسکے اسماء و صفات اور افعال اور اس کے دین و شریعت کی معرفت مندرجہ ذیل مقاصد کا بنیادی حصہ ہیں۔

علم حاصل کرنےکے اغراض و مقاصد
تعليمی عمل چار بنيادی عنا صر کا مجموعہ ہے۔یعنی مقاصدےتعلیم، نصاب، طريقہ ہائے تدريس اور جائزہ لينے کے طريقے۔ ”مقاصدتعلیم”کو اہم ترين عنصرکا اعزاز حاصل ہے۔ اس کو اگر تعليم کے عمل کا دِل کہاجائے تو بے جانہ ہوگا۔ مقصد تعلیم حقيقت ميں اس آلے کی مانند ہے جس کے تحت تعلیمی ادارے اپنےفرائض سر انجام ديتے ہيں اور قومی مقاصدتعلیم حاصل کرنے ميں معاون ثابت ہوتے ہيں۔ مقاصد تعليم کواگر نشانِ منزل سمجھا جائے تو نصاب اور طریقہ تدریس اس منزل تک پہنچنے کارستہ ہے اور جائزے کا عمل اس کی کامیابی جانچنے کا طریقہ ۔
پس تعلیم کے اولين مقاصد حاصل کرنے کے لیےطلبہ ميں تصور آخرت اور نظر يہ حيات کی آگاہی پيدا کی جائے۔یعنی کہ افراد کو زندگی کا مفہوم اور مقصد، دنيا ميں انسان کی حيثيت ، توحيد ورسالت اور آخرت کے انسانی زندگی پر اثرات اور اخلاقيات کے اسلامی اصولوں سے آگاہی ہو۔ نصاب ميں يہ قوت موجود ہوکہ وہ ايسے افراد پيدا کرے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے ميں اسلامی نظريات پر بھر پور يقين رکھتے ہوں اور اسی يقين کی روشنی ميں زندگی کے ہر ميدان ميں اپنا رستہ خود بنا سکيں۔اب آتے ہیں تعلیم حاصل کرنے کے مقاصد کی طرف کہ کن مقاصد کو مد نظر رکھ کر ہم کامیابی کی طرف بڑھ سکتے ہیں ‘ذیل میں ہم ان کا مختصر تبصرہ کرتے ہیں ۔

مندرجہ ذیل چیزوں کی غرض سے علم حاصل کرنا چاہیے ۔
٭اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے علم حاصل کرنا چاہیے۔
٭اپنے آپ سے جہالت کو دور کرنے کےلیے علم حاصل کرنا چاہیے ۔
٭پورے معاشرے سے جہالت کے خاتمے کی غرض سے علم حاصل کرنا چاہیے۔
٭دین کی سر بلندی کے لیے علم حاصل کرنا چاہیے ۔
٭نیکی کا حکم دینے کی غرض سے علم حاصل کرنا چاہیے۔
٭برائی سے لوگوں کو منع کرنے کی غرض سے علم حاصل کرنا چاہیے۔

طالب علم کاکردار کیسا ہونا چاہیے؟
طالب علم کا اپنے سیرت وکردار کی بہتری کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرنا ہوگا۔
٭مصیبتوں پر صبر کرنا
٭اپنی طاقت کے مطابق حصول علم کے لیے کوشش کرنا
٭اپنی عمر کو فضول کاموں میں ضائع مت کرنا
٭لالچ اور حرص سے بچنے والا ہو
٭
تکبر ‘غرور اور حسد سے بچنے والا ہو
٭غیبت‘ چغلی ‘خیانت‘بد گوئی ‘بد نظری ‘نشے وغیرہ جیسی قبیح چیزوں سے بچنے والا ہو
٭علم اور اہل علم کی عزت کرنے والا ہو
٭ علمی مجلس یا کلاس میں باادب ہو کر بیٹھے اور استاد کا حیا کرنے والا ہو
٭استاد پر علمی کے حصول میں مکمل اعتماد ہو کیونکہ استاد کی گفتگو اس کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے
٭استا د پر تنقید اور استاد کی باتوں کا مذاق نہ اڑائے
٭استاد سے قریب ہو کر بیٹھنا چاہیے بغیر کسی عذر کے استاد سے دور ہو کر بیٹھنا علم سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے
٭ طالب علم کو چاہیے کہ رات کے آخری پہر یا صبح صادق یعنی تہجد کے وقت دو رکعت نماز ادا کر کےیا صبح کی نمازکے بعد اللہ کے حضور دعا کر کے اپنے صبح کو یاد کرے سبق کو یاد کرنے کے لیے یہ بہترین اوقات ہیں۔
٭طالب علم کو چاہیے کے ذہین اور علم دوست لوگوں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے
٭فضول قسم کی کھیلوں‘مجالس ‘سیاحتی ٹور سے پرہیز کیا جائے
٭وقت کی پابندی کو اپنی زندگی حصہ بنا لے
٭نمازکی پابندی کرنے والا ہو
٭اپنے ساتھیوں‘ کلاس فیلوز‘بہن بھائیوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنے والا ہو
٭کتاب سے محبت کرنے والا ہو
٭مطالعہ کا عادی ہو
٭علم میں اضافہ کے لیے علمی سیمنار ‘مجالس ‘ورکشاپس اور جہاں سے بھی علم کی میں بہتری خیال کرے چاہیے دوردراز کے سفر کر کے ہی علم حاصل کرنے کے لیے ہی کیوں نہ جانا پڑھے جائےاور علم حاصل کرے۔
٭اہل علم کا قرب حاصل کرے اور ان سے استفادہ کی غرض سے ملاقاتیں کرے ۔
٭اپنے ہم عصر اورکلاس فیلوز سے علمی تکرار کرے

سستی اور علاج و اسباب
سستی کی تعریف

سستی فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت (سست) کے ساتھ (ی) بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے بنا ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٩ء سے (خاورنامہ) میں مستعمل ملتا ہے۔بمعنی ناراستی، کاہلی، ڈھیلا پن، کمزوری، بھول، ایہام۔
سستی کےاسباب اور وجوہات
٭
کثرت بلغم اور نشے کی عادت۔
کثرت بلغم اور صحت کی خرابی کے ساتھ ساتھ صحت یابی کی بنیادی لوازمات سے پہلو تہی بھی سستی کا سبب بنتی ہے ۔جیسے کھانا زیادہ کھانا، دیر بعد نہانام، نہ اور دانتوں کی صفائی کا خیال نہ رکھنا وغیرہ۔
٭ مناسب ترجیحات کا فقدان
سستی کی ایک اہم وجہ، زندگی میں بلند یا مختصر مدت کے اہداف تک پہنچنے کیلئے مناسب ترجیحات کا نہ ہونا ہے۔
٭وقت کا غیر مناسب استعمال
اگر کوئی شخص ایسے کاموں کو جنہیں ایک دن میں انجام دے سکتا ہو ان کیلئے صحیح ٹائم شیڈول نہ بنائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ اس دن ایک یا چند کاموں کو انجام نہ دے پائے.
٭ لذت طلبی کی عادت
بعض افراد اس غلط سوچ کی بنیاد پر کہ وقت حاضر کو غنیمت سمجھو اور اس سے لذت اٹھاؤ ،کسی بھی سخت کام کو انجام دینے کے خواہشمند نہیں ہوتے۔
٭ زندگی میں بڑے اہداف کے حصول میں درجہ بندی کا فقدان
اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ سستی کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ، زندگی میں بلند اور مختصر میعاد کے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے درجہ بندی کا نہ ہونا بھی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایک دن میں کئی کاموں کو ایک ساتھ انجام دینا چاہتا ہو لیکن کاموں میں صحیح طرح اہمیت بندی نہ کرے تو زیادہ احتمال یہی ہے کہ اس دن کئی ایک یا تمام کاموں کو انجام نہ دے پائے۔

٭ عیش و نشاط کی طرف رغبت ہے۔
سستی کی وجوہات میں سے ایک اور وجہ انسان میں عیش و نشاط کی طرف رغبت ہے۔ کچھ لوگ اس غلط سوچ کی بنیاد پر کہ لمحہ حاضر کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، اہم کاموں کو انجام دینے میں دھیان نہیں دیتے۔
٭ کمال پسندی کی عادت
قابل توجہ بات یہ ہے کہ کمال پسندی بھی سستی کے اسباب میں سے ہے۔ کچھ لوگ صرف اس بناء پر کہ ان کا ہر کام بغیر عیب اور نقص کے ہونا چاہیے‘ ایسے کاموں کو جن کے بارے سوچتے ہیں کہ شاید انہیں انجام دینے میں کوئی کمی ممکن نہ رہ جائے، انہیں انجام نہیں دیتے۔
٭ضد بازی اور مخالفت بھی سستی کے عوامل میں سے ہے۔
مثال کے طور پر کچھ لوگ کسی سے خفا ہونے کی وجہ سے، جان بوجھ کر ضد کی وجہ سے کسی خاص اور اہم کام کو انجام نہیں دیتے یہ بھی سستی کی ایک قسم ہے۔
٭ مبالغہ آمیزی یا کام کو اہمیت نہ دینا۔
اسی طرح کام کے بارے میں مبالغہ آمیزی یا اسے کم اہمیت سمجھنا بھی سستی کا باعث بن سکتا ہے. کچھ لوگ کسی کام کو انجام دیتے وقت اسے اتنا بڑا کرتے ہیں کہ بعد میں اس سے سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں اور کبھی کبھار تو کسی کام کو اس قدر کم اہمیت اور معمولی سمجھتے ہیں کہ اسے مسلسل ٹرخاتے ہیں، یہ بھی سستی کی ایک قسم ہے۔
٭ والدین کا اپنے بچوں کو غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں کا عادی بنانا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ بعض والدین اپنے کرتوتوں کے بدولت اپنے بچوں کو سست اور کاہل پروان چڑھاتے ہیں۔ جب ماں باپ اپنے بچوں کو کوئی ذمہ داری نہیں دیتے تو درحقیقت معاشرے کو سست اور کاہل نسل سپرد کرتے ہیں۔سستی ایک قسم کی عادت ہے اور جب والدین اپنی اولاد کیلئے تمام تر سہولیات فراہم کریں تو درحقیقت انہیں سستی کی طرف راغب کررہے ہیں۔
سستی کا علاج
سستی سے چھٹکارے کیلئے متعدد راہ حل موجود ہیں. اسی سلسلے میں کچھ سادہ آسان لیکن مفید راہ حل کو ہم بیان کریں گے. یاد رکھئے ضروری نہیں کہ آپ پہلی قدم میں ان تمام راہ حل کو انجام دیں. بہتر ہے کہ آغاز میں ایک یا چند راہ حل کو آزمائیں، اگر کارگر نہ ہوں تو بعد میں دوسرے راہ حل کو انجام دیں۔ تاکہ ہمیشہ کیلئے اس غلط عادت سے رہائی مل سکے۔
مندرجہ ذیل چیزوں سے سستی کا خاتمہ ممکن ہے ۔
٭خوشک روٹی کا استعمال

پراٹھے کی بجائے خشک روٹی کا استعمال کیا جائے تا کہ معدہ ہلکا رہے اور میٹا بولزم نارمل رہے۔پراٹھا کھانے سے آپ دن بھر پیاس سے نڈھال رہیں گے ۔
٭منقع یا کجھور کا استعمال
کھجور میں فائبر، پوٹاشیم، کاپر، مینگنیز، میگنیشم اور وٹامن بی سکس جیسے اجزاءشامل ہوتے ہیں جو کہ متعدد طبی فوائد کا باعث بنتے ہیں۔جن میں سےنظام ہاضمہ کو بہتر اور قبض سے نجات دلائے‘دماغی صحت بہتر بنائے اور ہڈیوں کی مضبوطی قابل ذکر ہیں ۔
٭مسواک کا استعمال

مسواک بھی بلغم کو کم کرتی ہے اور حافظےکو تیز کرتی ہے اور صحت و تندرستی کی علامت ہے ۔
ارشاد نبوی ہے۔

’’عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ ﷺ السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب‘‘
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مسواک منہ کو بہت زیادہ پاک صاف کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ خوش کرنے والی چیز ہے۔
(مسند احمد، سنن نسائی، سنن دار می، مسند امام شافعی)
٭معلومات کی مناسب وقت پرفراہمی
کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے لوازمات کو تیار رکھیں۔ کام کے بارے میں جس قدر زیادہ معلومات ہونگی اور پہلے سے اس کے تمام لوازمات تیار ہونگے، اتنا ہی آپ اس کام کو بہتر طریقے سے اور فوری طور پر انجام دے پائیں گے۔
٭اپنی صحت کا خیال رکھیں اور معاون غذا کا استعمال کریں
اپنی جسمانی طاقت اور صحت کا خیال رکھیں۔ ورزش کریں اور صبح کو مکمل اور بھرپور ناشتہ کریں۔ صحیح ناشتہ کئے بغیر کام والے دن کا آغاز ایسے ہی ہے جیسے کسی جنگ میں بغیر اسلحہ کے کوئی لڑنے جائے۔ لہذا کام کاج کےذہنی موانع کو پہچانیں اور کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے اپنی ذہنی طاقت کو مزید طاقتور بنائیں۔ کام کے دوران تھوڑا سا آرام یا کوئی من پسند غذا کےاستعمال جیسے امور آپ کی توانائی کو بھرپور طریقے سے کام کو انجام دینے کیلئے معاون ہوسکتے ہیں۔
٭پورے اطمعنان کے ساتھ آسان جگہ سے کام کا آغاز کریں
کام کو جہاں سے بھی آسان لگے، فورا شروع کریں۔ یاد رکھیں قدم اول اٹھاتے ہی آپ آدھے کام کو انجام دے چکے ہیں۔ اب چند قدم مزید آگے بڑھیں۔ جب آپ کسی کام میں مشغول ہونگے تب اسے چھوڑنا اور ادھورا رکھنا آپ کیلئے دشوار ہوگا۔
٭ٹائم مینجمنٹ اور وقت کی پابندی
اپنے اہم کام انجام دینے کیلئے ایک خاص وقت متعین کریں پھر اپنے تمام وجود کے ساتھ اس کام میں جت جائیں۔ آپ کی نگاہ ہمیشہ بلند ہونی چاہیے، البتہ اپنے لئے چھوٹےاہداف کاانتخاب کریں۔ عظیم اہداف تبھی حاصل ہونگے جب وہ چھوٹے اور مربوط اہداف کے مجموعے میں بدل جائیں۔
٭ اپنے لئے کوئی انعام مقرر کریں
کام کے ہر مرحلے کو انجام دینے کے بعد اپنے آپ کو کوئی چھوٹا سا انعام ضرور دیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انعام دینے کے وعدے پر ضرور عمل کریں۔ کیونکہ اس طرح کام کے دوران خوشی اور انعام کی یاد سے آپ زیادہ دلچسپی سے کام کو انجام دیتے رہیں گے۔
٭ جسمانی طاقت اور صلاحیتوں کا خیال رکھیں
غیر منطقی طور پر مثبت سوچ رکھنا اور حد سے زیادہ اپنے آپ سے توقع رکھنا بھی منفی سوچ کی طرح، سستی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اپنے روزمرہ کاموں کی فہرست کو اپنی جسمانی طاقت اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے متعیں کریں اور اس سے زیادہ کام کی ذمہ داری اپنے گردن پر نہ لیں۔
٭ کام کو ادھورا نہ چھوڑیں
جس کام کا آغاز کیا ہے اسے لازمی طور پر مکمل کریں۔ پھر بھی اگر تھکے ہوئے ہیں تو تھوڑا سا آرام کرلیں لیکن کام کو ادھورا نہ چھوڑیں۔ کوئی بھی چیز انسان کو ادھورے کام سے زیادہ بور نہیں کرتی۔ لیکن جب آپ کام کو کامیابی سے مکمل کرتے ہیں تو طاقت اور اعتماد کی لہر دوبارہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے گی۔
٭ اپنے آپ کو مجبور نہ کریں
کسی کام کو انجام دینے کیلئے «مجھے یہ کام انجام دینا چاہیے» کہنے کے بجائے، کوشش کریں اس کام کے ٹھوس اور منطقی فوائد کو اپنے ذہن میں دہرایں۔ آپ کا لاشعوری ذہن سختی اور دباؤ کے احساس سے نفرت کرتا ہے۔
٭کچھ دیر آرام کر لیں
اگر سستی پر قابو پانے کیلئے کوئی بھی طریقہ کار نہ ہوتو یہ طریقہ بھی آزمائیے۔ مثلاً کسی کرسی پر بیٹھ جائیں اور کوشش کریں کچھ دیر کیلئے کوئی بھی کام نہ کریں یہاں تک کہ فکر بھی نہ کریں۔ بہت جلد آپ محسوس کریں گے کہ اس بےکاری کو آپ حتی کہ آدھے گھنٹے کیلئے بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ لہذا خود بخود اٹھ کر کسی نہ کسی کام میں مشغول ہوجائیں گے۔
٭غیر ضروری کاموں سے چھٹکارہ
غیر ضروری کاموں کو بالکل انجام نہ دیں۔ ایسے کاموں میں آپ بالکل سستی کرسکتے ہیں۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں انجام دینے کیلئے کوئی خاص وقت متعین کرکے اسے ضرور انجام دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب انسان خوشگوار موڈ میں ہو، تو کام کرنا اس کیلئے نہایت ہی آسان ہوتا ہے۔ لیکن آپ اپنے کاموں کو انجام دینے کیلئے کبھی بھی خوشگوار موڈ کا انتظار نہ کریں۔
٭احساس پشیمانی سے نجات
جب آپ کسی کام کو انجام دینا چاہتے ہیں لیکن ہر بار اسے ٹالتے رہیں تو اس سستی کے بارے میں ایک احساس گناہ آپ کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ آپ کوشش کریں ندامت اور پشیمانی کے احساس کی بجائے آپ فورا ہی اسے انجام دیں تاکہ احساس گناہ کے بجائے آپ میں کام کو انجام دینے کے لطف کا احساس ہو۔
٭ سستی کو شکست دے دیں
کام کے آغاز سے قبل، سب سے پہلے اپنے سست اور کاہل ہونے کے بارے میں جو تصور آپ کے ذہن میں ہے، اسے بھول جائیے۔ سستی کو کبھی بھی اپنے نزدیک پھٹکنے نہ دیں۔ اس کی بجائے اس احساس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں تا کہ کبھی بھی یہ سوچ آپ کے ذہن میں دوبارہ پیدا نہ ہو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ گزرتے وقت میں آپ کا کام اور پروجیکٹ سست روئی کا شکار نہ ہو، تو پھر اپنے جذبات کو اس راہ میں ہمیشہ طاقتور رکھیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ زمانے میں جب کسی اہم کام کو آپ نے انجام دیا ہو، اس حالت میں جو احساس آپ کو حاصل ہو اسے سوچیں۔ سستی پر قابو پانے کے سلسلے میں چند کامیاب تجربات کو ہمیشہ یاد رکھا کریں اور ہر بار اس کے مثبت نتائج کو ذہن میں دہرائیں۔ جب بھی اس راستے میں شدید سستی اور کاہلی میں مبتلا ہوئیں تب بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کام کو پھر سے شروع کریں۔
 
Top