• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

ہانی بن عبد اللہ بن محمد جبیر، ترجمہ: عمران اسلم
انسانوں کی اصلاح سے خالق حقیقی جل جلالہ سے بڑھ کر اور کون آگاہ ہو سکتا ہے، جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے اور کوئی ذات بھی ایسی نہیں ہے جو انسانی حالات و وقائع سے اس سے زیادہ باخبر ہو۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
(اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ١ؕ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ) (الملك:١٤)
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے، حالانکہ وہ باریک بین اور خبردار ہے۔‘‘
وہ بابرکت ذات جس نے نفس انسانی کو بنایا اور اس کی نیکی و بُرائی اور اس کے ابہام کو جانتی ہے کہ انسان کس طرح مائل بہ نیکی ہوسکتا ہے اور کیسے تقویٰ کے راستوں پر گامزن ہوسکتا ہے، اگرچہ اس دور میں نام نہاد تجدد اور آزادی کے دعویدار انسان کی فلاح کے لاکھ دعوے کریں۔ فرمان عالی شان ہے:
’’وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ١۫ وَ يُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا‘‘(النساء:٢٧)
’’اور اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کردور نکل جاؤ۔‘‘
مذہبِ اسلام میں حیاتِ دنیوی کے حوالے سے منفرداور بے مثال ہدایات موجود ہیں۔ سعادت و کامرانی کایہ واحد مذہب ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی جمیع مشکلات و مصائب کا حل موجود ہے۔ذیل میں ہم انسانی زندگی کے دو اہم مسائل ’’مجبوری اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق اور اس کے وقوع یا عدمِ وقوع‘‘ کے بارے فقہاے اسلام کی آرا پیش کررہے ہیں جس سے اسلام کے انسانیت کی فلاح وسعادت کے دعوے کی بھرپور تصدیق وتائید ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں فقہا کے اَقوال و اَدلہ پیش کرنے کے بعد راجح موقف کو آخرمیں درج کیا جائے گا۔
’طلاق‘ کی لغوی تعریف
یہ مصدر ہے:طلقت المرأة وطلقت تطلق طلاقا فهي طالق سے یعنی چھوڑنا، ترک کرنا اور الگ کر دینا ۔کہا جاتا ہے:طلق البلاد یعنی اس نے شہر چھوڑ دیا، اور أطلق الأسیر یعنی قیدی کو رہا کردیا۔اسی طرح یہ چند دیگر معانی پربھی دلالت کرتا ہے:
• اس کا اطلاق پاک، صاف اور حلال پر بھی ہوتا ہے۔کہاجاتا ہے :هو لك طلق یعنی وہ تیرے لیے حلال ہے۔
• اسی طرح بُعد اور دوری پر بھی بولا جاتا ہے، کہا جاتا ہے:طلق فلان ’’فلاں شخص دور ہوا۔‘‘
• اسے خروج اور نکلنے کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتاہے جیساکہ أنت طلق من هذا الأمر(اللسان:٤؍٢٦٩٦، مجمل اللغہ:٣؍٣٣٠) ’’یعنی تو اس معاملے سے خارج ہے۔‘‘
مذکورہ معانی پر گہری نظر ڈالتے ہیں تو مقصود لفظ ’طلاق‘ اور ان میں ہم یک گونہ ربط پاتے ہیں۔جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اس کو چھوڑ رہا ہوتا ہے اور کسی دوسرے کے لیے اسے حلال کررہا ہوتا ہے۔ اس سے دوری اختیار کر رہا ہوتا ہے تو اس عقد سے بھی نکل رہا ہوتا ہے جو ان دونوں کو جمع کیے ہوئے تھا،چنانچہ لفظ طلاق میں یہ تمام معانی جمع ہو جاتے ہیں۔ (حافظ ابن حجر فی فتح الباری :٩؍٢٥٨)
طلاق کی شرعی تعریف
طلاق کی شرعی تعریف کے سلسلہ میں فقہائے کرام کی طرف سے متعدد عبارات دیکھنے میں آئی ہیں ۔ ان میں سے جامع و مانع تعریف اس طرح ہوگی:
حل قید النکاح (وبعضه) في الحال أوالمآل بلفظ مخصوص (الدر المختار:٤١٤٢)
’’حال یا مستقبل میں کسی مخصوص لفظ کے ساتھ نکاح کی گرہ کھولنا۔‘‘
یہ تعریف الدر المختار کی ہے جس پر اہل علم کااتفاق موجود ہے۔میں نے اس میں (وبعضه) کا اضافہ اس لیے کیاہے کہ اس میں طلاقِ رجعی بھی داخل ہو جائے ۔(الروض المربع لابن قاسم:٤٨٢٦)
طلاق کی مشروعیت پر دلائل
١۔طلاق کی مشروعیت پر کتاب وسنت اور اجماع سے بھی واضح دلائل موجود ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے :
’’اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ‘‘(البقرۃ:٢٢٩)
’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔‘‘
٢۔ایک جگہ ارشاد ہے:
’’يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ۠ لِعِدَّتِهِنَّ‘‘(الطلاق:١)
’’اے نبیﷺ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت میں طلاق دیا کرو۔‘‘
٣۔اِرشاد نبویﷺ ہے:
«إنما الطلاق لمن أخذ بالساق» (سنن ابن ماجہ:٢٠٨١)
’’طلاق کا اختیار اسی کو ہے جو پنڈلی تھامتا ہے۔‘‘
اسی طرح آپﷺ نے حضرت حفصؓہ کو طلاق دی اور پھر ان سے رجوع کیا۔(سنن نسائی:٣٥٦٠،سنن ابوداؤد:٢٢٨٣)
طلاق کی مشروعیت پر بیسیوں احادیث و آثار موجود ہیں۔(نیل الاوطار:٦؍٢٤٧، جمع الفوائد:١؍٦٧١)
٤۔جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو صدرِ اوّل سے لے کر موجودہ زمانہ تک طلاق کے جواز پراجماع چلاآرہا ہے اور کسی ایک نے بھی اس کاانکارنہیں کیا۔(المغنی لابن قدامہ:١٠ ؍٣٢٣)
مجبوری (اِكراه) کی طلاق
الإکراه لغوی طور پر یہ أکَرِهَ یَکرَه سے مصدر ہے۔ یعنی کسی کوایسے کام کے کرنے یا چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ اصلاً یہ کلمہ رضا اور پسند کی مخالفت پر دلالت کر تا ہے ۔ امام فرا کہتے ہیں:
یقال أقامني على کره ــ بالفتح ــ إذا أکرهك علیه إلىٰ أن قال: فیصیر الکره بالفتح فعل المضطر (اللسان:٥؍٣٨٦٥)
’’کہا جاتا ہے مجھے مجبور کیا گیا۔ یعنی جب یہ فتحہ کے ساتھ ہوتو اس سے مراد مجبور شخص کا فعل ہو گا۔‘‘
اکراہ کی اصطلاحی تعریف :
’’انسان کاایساکام کرنا یاکوئی ایسا کام چھوڑنا جس کے لیے وہ راضی نہ ہو۔ اگر اسے مجبور کیے بغیر آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اکراہ سے مراد آدمی کا کوئی ایسا کام کرنا ہے جو وہ کسی دوسرے کے لیے انجام دیتا ہے۔(معجم لغة الفقهاء:ص٨٥)
مختلف اعتبار سے اِکراہ کی متعدد اقسام ہیں۔اِکراہ اقوال میں بھی ہو سکتا ہے اور افعال میں بھی۔جہاں تک افعال کا تعلق ہے تو اس کی بھی دو اقسام ہیں: مجبور اور غیر مجبور۔
اَقوال میں اکراہ
علماے کرام نے اقوال میں جبر کی صحت کو تسلیم کیا اور اس پر اتفاق کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جو شخص حرام قول پر مجبور کیا جائے، اُس پر جبر معتبر مانا جائے گا۔اسے وہ حرام بات کہ کر اپنے آپپ کو چھڑانا جائزہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ زبردستی کا تصور تمام اقوال میں پایا جاتا ہے ،لہٰذا جب کوئی شخص کسی بات کے کہنے پر مجبور کر دیا جائے تو اس پر کوئی حکم مرتب نہیں ہو گا اور وہ لغو جائے گا۔
اس سلسلے میں احناف نے فسخ اور عدم فسخ کے مابین تفریق کوملحوظ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اکراہ خرید وفروخت اور اُجرت دینے میں ہو پھر تو وہ فسخ ہو جائے گا ، لیکن طلاق، عتاق (آزادی) اور نکاح میں فسخ کا احتمال باقی نہیں رہے گا۔ لہٰذا جو شخص بیع و تجارت کے لیے مجبور کیے جانے کے بعد بیع کرلے تو اس کو اختیار ہے، چاہے تو اس بیع کو باقی رکھے یا پھر فسخ کردے،لیکن طلاق، آزادی اور نکاح میں میں اختیار باقی نہیں رہے گا۔(العنایة والکفایة:٨؍١٦٦)
تاہم اس ضمن میں اگر ادلہ شرعیہ کا جائزہ لیا جائے تو عدم تفریق کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ فرمانِ عالی شان ہے:
’’اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ‘‘(النحل:١٠٦)
’’مگر یہ کہ وہ مجبور کیاگیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘
امام شافعی اس کے متعلق فرماتے ہیں:
إن اﷲ سبحانه وتعالىٰ لما وضع الکفر عمن تلفظ به حال الکراه أسقط عنه أحکام الکفر، کذٰلك سقط عن المکره ما دون الکفر لإن الأعظم إذا سقط سقط ما هو دونه من باب أولىٰ (الام:٣،٢٧٠)
’’ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حالتِ اکراہ میں کلمۂ کفر کہنے میں رخصت عنایت کی ہے اور اس سےکفریہ احکام ساقط کیے ہیں، بالکل اسی طرح کفر کے علاوہ دیگر چیزیں بھی مجبور سے ساقط ہوجائیں گی، کیونکہ جب بڑا گناہ ساقط ہوگیا تو چھوٹے گناہ تو بالاولیٰ ساقط ہوجائیں گے۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إن اﷲ وضع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استُکرهوا علیه» (سنن ابن ماجہ:٢٠٤٥)
’’اللہ تعالیٰ نے میری اُمت سے خطا و نسیان اورمجبوری سے کیے جانے والے کام معاف کر دئیے ہیں۔‘‘
ابن قیم الجوزیہ کہتے ہیں:’’ مکرہ کی کسی کلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، قرآنِ کریم بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیاجائے، وہ کافر نہیں ہو گا اور اسی طرح جو اسلام کے لیے مجبور کیاجائے، اسے مسلمان بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ سنت میں بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجبور شخص سے تجاوز کیا ہے اور اس کو مؤاخذے سے بری قرار دیا ہے……اس کے بعد امام ابن قیم اقوال اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اَقوال میں اکراہ اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق یہ ہے کہ افعال کے وقوع پذیر ہو جانے کے بعد اس کے مفاسد کا خاتمہ ناممکن ہے۔ جبکہ اقوال کے مفاسد کو سوئے ہوئے اور مجنون پر قیاس کرتے ہوئے دور کیا جا سکتا ہے۔‘‘(زاد المعاد:٥؍٢٠٥،٢٠٦)
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اکراہ (جبر) کی ایک تقسیم درست اور غیر درست کے اعتبار سے بھی کی گئی ہے۔غیر درست اکراہ تو وہ ہے کہ جس میں ظلم و زیادتی سے کوئی بات منوائی گئی ہو۔ جبکہ درست اِکراہ یہ ہے کہ جس میں حاکم کسی شخص کو اپنا مال بیچنے پر مجبور کرے تاکہ وہ اس سے اپنا قرض ادا کرے۔(جامع العلوم والحکم: ص٣٧٧)
یا وہ ایلاء کرنے والے کو طلاق دینے پر مجبور کرے جب کہ وہ رجوع کرنے سے انکا رکرے۔
اکراہ کی شرائط
اہل علم نے اکراہ کی درج ذیل شرائط کا تذکرہ کیا ہے:
١۔اکراہ اس شخص کی طرف سے ہو گا جو صاحب قدرت ہو جیسے حکمران۔
٢۔مجبور کو ظن غال ہو کہ اکر میں نے اس کی بات نہ مانی تو یہ وعید اور اپنی دھمکی کو نافذ کر دے گا اور مجبور اس سے بچنے یا بھاگنے سے عاجز ہو۔
٣۔اکراہ ایسی چیز سے ہو جس سے مجبور کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو۔(شرح الکبیر:٢؍٣٦٧)
ان شروط پر مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگوں نے چند دیگر شرائط کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ظاہر بات یہ ہے کہ اکراہ کی تحدید حاکم اور مفتی کے ساتھ خاص کی جائے گی اور انہی کے ثابت کردہ اکراہ کا اعتبار کیا جائے گا۔کیونکہ یہ لوگوں کے احوال کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔(الکفایة:٨؍١٦٨)
اکراہ کی صورت میں وقوع ِ طلاق
اس تحریر میں مجبوری کی طلاق کو موضوعِ بحث بنانے کا مقصد اس قضیے کا حل ہے کہ ایسی طلاق وقوع پذیرہوتی ہے یا نہیں؟
امام مالک، شافعی،احمد اور داؤد ظاہری ﷭ کے نزدیک ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہی قول عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابن عمر، ابن زبیر، ابن عباس اور دیگر کثیر جماعت کا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین نے اس طلاق کے وقوع کا موقف اختیار کیاہے اور یہی موقف شعبی، نخعی اور ثوری ﷭ کا بھی ہے۔(الکفایة والعنایة:٣؍٣٤٤)
سبب ِاختلاف یہ ہے کہ مجبور کیا جانے والا مختار ہے یا نہیں؟ کیونکہ طلاق کے الفاظ بولنے والے کا ارادہ تو طلاق دینے کا نہیں ہوتا اور وہ تو اپنے تئیں دو برائیوں میں سے کم تر برائی کو اختیار کر رہا ہوتا ہے اور وہ مجبور کرنے والے کی وعید سے بچنے کے لیے طلاق دینے کو اختیار کر لیتا ہے ۔
اَحناف اور ان کے مؤیدین کے دلائل
١۔نصب الرایة میں ہے کہ ایک آدمی سو رہا تھا کہ اس کی بیوی نے چھری پکڑ کر اس کے گلے پر رکھی اور دھمکی دی کہ تو مجھے طلاق دے، ورنہ میں تیرا کام تمام کردوں گی۔ اس شخص نے اسے اللہ کا واسطہ دیا لیکن وہ نہ مانی۔لہٰذا اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور تمام ماجرا بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا:
«لاقیلولة في الطلاق» (نصب الرایة:٣؍٢٢٢) ’’طلاق میں کوئی فسخ نہیں ہے۔‘‘
٢۔ابوہریرہ سے روایت ہے:
«ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النکاح والطلاق والرجعة» (سنن ترمذی: ١١٨٤)
’’تین چیزوں کی سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع۔‘‘
اَحناف اس حدیث سے اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ مذاق کرنے والے کا مقصد تو وقوعِ طلاق نہیں ہوتا بلکہ اس نے فقط لفظ کا ارادہ کیا ہوتا ہے۔ اس کی طلاق کا واقع ہونا واضح کرتا ہے کہ مجرد لفظ کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ اس طرح مجبور کو بھی مذاق کرنے والے پر قیاس کیا جائے گا، کیونکہ دونوں کا مقصود لفظ ہوتا ہے ،معنیٰ مراد نہیں ہوتا۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
٣۔حضرت عمر سے مروی ہے:
أربع مبهمات مقفولات لیس فیهن رد: النکاح والطلاق، والعتاق والصدقة (ايضاً)
’’چار مبہم چیزیں بند کی ہوئی ان میں واپسی نہیں ہو سکتی:نکاح،طلاق، آزادی اور صدقہ‘‘
٤۔ایک حدیث حضرت حذیفہؓ اور ان کے والدِ گرامی سے متعلق ہے جب ان دونوں سے مشرکین نے نہ لڑنے کا حلف لیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«نفى لهم بعهدهم ونستعین اﷲ علیهم» (صحیح مسلم:١٧٨٧)
’’ ہم ان سے معاہدہ پورا کریں گے اور اللہ سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے۔‘‘
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قسم حالت اکراہ اور غیر اکراہ میں برابرہے۔لہٰذا مجرد لفظ کے ساتھ کسی حکم کی نفی کے لیے اکراہ کو معتبر نہیں مانا جائے گا۔ جیسا کہ طلاق۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
٥۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں طلاق ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس پر غیر مجبور کی طلاق کے احکام مرتب ہوں گے۔(الهدایة: ٣؍٣٤٤)
دلائل کا جائزہ
١۔سب سے پہلے نقل کی جانے والی حدیث: لا قیلولة في الطلاق ضعیف ہے۔ امام ابن حزم اس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’هٰذا خبر في غایة السقوط‘‘(المحلیٰ:١٠؍٣٠٤) لہٰذا اس سے استدلال بھی ساقط ہوا۔
٢۔اور جو«ثلاث جدهن جد…» سے استدلال کرتے ہوئے مکرہ کو مذاق کرنے والے پر قیاس کیاگیا ہے تو یہ قیاس درست نہیں ہے۔(تہذیب السنن لابن القیم:٦؍١٨٨)
کیونکہ مجبور شخص نہ تو لفظ کا ارادہ کرتا ہے اور نہ اس کے سبب کا وہ تو لفظ کے بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ،اگرچہ قصد پر مجبور نہیں ہوتا جب کہ مذاق کرنے والا تو لفظ طلاق اپنے اختیار سے بولتا ہے اگرچہ اس کے سبب کا قصد نہیں کرتا۔لہذا جو شخص اپنے اختیار سے سبب کو اختیار کرے اس پر تو مسبب لازم ہو جائے گا،جیسے مذاق کرنے والا ہے ،لیکن مجبور نہ تو لفظ کا ا رادہ کرتا ہے نہ اس کے سبب کا تو اسے مذاق کرنے والے پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟
٣۔ذکر کردہ حضرت عمرؓ کا قول ہمیں نہیں ملا۔ اگر ہم اس کی صحت کا اعتبار کر بھی لیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب طلاق واقع ہوجائے گی تو پھر دوبارہ لوٹناممکن نہیں رہے گا جبکہ مکرہ کی طلاق تو واقع ہی نہیں ہوئی۔ وہ تو مجبوری کی بنا پر صرف اور صرف لفظ بول رہا ہے۔تاکہ وہ مجبور کرنے والے سے بچ سکےجب کہ حضرت عمرکے متعلق صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اُنہوں نے مکرہ کی طلاق کو لغو قرار دیا۔(زاد المعاد:٥؍٢٠٦ تا ٢٠٩)
٤۔اور جو حضرت حذیفہ اور ان کے والد کا واقعہ سامنے رکھتے ہوئے طلاق کو قسم پر قیاس کیا گیا ہے اور ان دونوں کومجرد لفظ کے ساتھ متعلق کیا گیاہے۔
تو اس کا جواب بھی یہ ہے کہ یہ قیاس درست نہیں ہے، کیونکہ طلاق میں صرف لفظ کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے متکلم کا ارادہ اور اس کے مدلولات کا علم ضروری ہے، کیونکہ شارع نے سوئے ہوئے، بھولنے والے اور پاگل کی طلاق کو واقع نہیں کیا ۔(ایضاً:٥؍٢٠٤،٢٠٥)
اس سے یقیناً ان دونوں کے مابین فرق نظر آتا ہے لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔
٥۔اس سے استدلال کہ یہ طلاق مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس کی طلاق کی تنفیذ اسی طرح ہوگی جس طرح غیر مکرہ کی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہم اس سے ملتے جلتے دیگر دلائل کا جائزہ لے چکے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکرہ کو غیر مکرہ پر قیاس کرنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے۔اس کی تردید دوسرے قول کے دلائل سے بھی ہو جائے گی جو ہم ذکر کرنے والے ہیں۔
مجبوری کی طلاق کے غیر معتبر ہونےپر جمہورکے دلائل
١۔حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کہتے ہوئے سنا:
«لا طلاق ولا عتاق في غلاق» (مسند احمد:٦؍٢٧٦)
’’زبردستی کی کوئی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘
اور اِکراہ زبردستی میں شامل ہے، کیونکہ مجبورومکرہ شخص تصرف کا حق کھو بیٹھتاہے۔
٢۔حضرت علی ؓسے موقوفاً روایت ہے:
’’کل طلاق جائز إلا طلاق المعتوه والمكره‘‘(سنن ترمذی : ١١٩١)
’’دیوانے اور مكره کے سوا ہرایک کی طلاق جائز ہے۔‘‘
٣۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عباس کا قول ہے:
’’طلاق السکران والمستکره لیس بجائز‘‘(صحیح بخاری، ترجمة الباب : باب الطلاق فی الغلاق)
’’مجبوری اور نشے کی حالت میں طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
٤۔ثابت بن احنف نے عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب کی اُمّ ولد سے نکاح کرلیا۔ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے مجھے بلایا۔میں اُن کے ہاں آیا تو وہاں دو غلام کوڑے اور زنجیریں پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس نے مجھ سے کہا: تو نے میرے باپ کی اُمّ ولد سے میری رضا کے بغیر نکاح کیاہے۔ میں تجھے موت کے گھاٹ اُتار دوں گا۔ پھر کہنے لگا: تو طلاق دیتا ہے یا میں کچھ کروں؟ تومیں نے کہا: ہزار بار طلاق۔ میں اس کے ہاں سے نکل کرعبداللہ بن عمر ؓکے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: یہ طلاق نہیں ہے، اپنی بیوی کے پاس چلا جا۔ پھر میں عبداللہ بن زبیر کے پاس آیا تو اُنہوں نے بھی یہی فرمایا۔(مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق: ١٢٤٥)
٥۔چونکہ یہ قول زبردستی منوایا جاتا ہے، اس لیے یہ کوئی تاثیر نہیں رکھتا۔ جیسا کہ مجبوری کی حالت میں کلمۂ کفر کہنا۔(المغنی:١٠؍٣٥١، زادالمعاد:٥؍٢٠٤)
بیان کردہ عمومی دلائل سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
راجح موقف
بیان کردہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ مکرہ کی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں:
١۔جمہور کے دلائل کا قوی ہونا۔
٢۔احناف کے دلائل کا کمزور ہونا،کیونکہ ان پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں۔
٣۔یہی موقف اُصولِ شریعہ اور قواعد کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیوں کا رد ہو جاتا ہے ۔ شیخ احمد دہلوی کہتے ہیں:
’’اگر مکرہ کی طلاق کو طلاق شمار کیا جائے تو اس سے زبردستی کا دروازہ کھل جائے گا اور بعید نہیں ہے کہ کوئی طاقتور اسی دروازہ سے کمزور کی بیوی کو چھین لے۔ جب بھی اس کے دل کو کوئی خاتون بھلی لگے، وہ تلوار کے زور پر زبردستی طلاق دلوائے گا۔ لیکن جب اس قسم کی اُمیدوں کا سدباب کر دیا جائے گا تو لوگ ان مظالم سے بچے رہیں گے جو اکراہ کی وجہ سے پیش آسکتے ہیں۔‘‘(حجۃ البالغۃ:2؍138)
بہت سے محققین اسی موقف کے حامل نظر آتے ہیں، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ(مجموع الفتاویٰ:٣٣؍١١٠)، ابن قیم (زادالمعاد: ٥؍٣٠٤)، امام شوکانی(نیل الوطار:٦؍٢٦٥) اور نواب صدیق بن حسن قنوجی(الروضة الندیة:٢؍٤٢) شامل ہیں۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
اَقوال میں اکراہ
علماے کرام نے اقوال میں جبر کی صحت کو تسلیم کیا اور اس پر اتفاق کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جو شخص حرام قول پر مجبور کیا جائے، اُس پر جبر معتبر مانا جائے گا۔اسے وہ حرام بات کہ کر اپنے آپ کو چھڑانا جائزہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ زبردستی کا تصور تمام اقوال میں پایا جاتا ہے ،لہٰذا جب کوئی شخص کسی بات کے کہنے پر مجبور کر دیا جائے تو اس پر کوئی حکم مرتب نہیں ہو گا اور وہ لغو جائے گا۔
اکراہ کی شرائط
اہل علم نے اکراہ کی درج ذیل شرائط کا تذکرہ کیا ہے:
١۔اکراہ اس شخص کی طرف سے ہو گا جو صاحب قدرت ہو جیسے حکمران۔
کیا ہم اس اکراہ کی مثال میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نفاذ تین طلاق کے فیصلے کو لے سکتے ہیں؟

بیان کردہ عمومی دلائل سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
راجح موقف
بیان کردہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ مکرہ کی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں:
١۔جمہور کے دلائل کا قوی ہونا۔
٢۔احناف کے دلائل کا کمزور ہونا،کیونکہ ان پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں۔
معاف کیجیے گا کیا جمہور بھی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور انہیں راجح موقف کی حمایت میں پیش کیا جا سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر آپ نے کیوں پیش کیا اور اگر ہاں تو ایک مجلس کی تین طلاق میں آپ جمہور کے موقف کو کیوں مسترد کرتے ہیں ؟ جبکہ جمہور کے بر خلاف آپ کے پاس ایک خبرواحد، شاذ ، اور ایک مردود حدیث کے سوا کچھ نہیں؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عمرمعاویہ بھائی
اکراہ کی صورت میں دلائل شرعیہ سے واضح حکم یہ ہے کہ ایسی صورت میں کوئی حکم مرتب نہیں ہوگا۔اور دلائل پر اعتراض نہ کرنے کی صورت میں آپ بھی اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں۔اگر نہیں تو پھر دلائل شرعیہ سے وضاحت کریں۔
آپ نے اکراہ کی شرائط میں ایک شرط کو نقل کرکے کہا کہ
’’ کیا ہم اس اکراہ کی مثال میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نفاذ تین طلاق کے فیصلے کو لے سکتے ہیں؟ ‘‘
تو بھائی اس پر پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ اکراہ کا کوئی خاص وقت اور کوئی خاص وجہ ہوتی ہے یا نہیں ؟؟؟ اگر خاص وقت اور خاص وجہ ہوتی ہے تو پھر حضرت عمر  نے بھی ایک خاص وقت میں خاص وجہ کےلیے تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی دیا تھا۔کیا آپ حضرت عمر سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ جس میں انہوں نے یہ کہا ہو کہ میرا یہ فتوی عین شریعت ہے اور آپ ﷺ کا بھی یہی مقصود ہوتا تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں؟؟اور قیامت تک یہ فتوی جاری رہے گا ؟؟
بھائی کیا جس حدیث میں تین کو تین شمار کرنے کا بیان ہے اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ کا یہ عمل تہدیداً اور بطور سزا کے تھا۔
ایک منٹ کےلیے اگر ہم اس فیصلے کو شرعی مان لیں سیاسی اور تعزیری نہ لیں تو عہد رسالتﷺ ،عہدابی بکر اور خود عہد عمر کے ابتدائی دوسالوں میں جو فیصلہ تھا تو پھر اس کی کیا حیثیت ہوگی ؟؟؟واضح کریں
باقی بھائی اس موضوع پر دلائل سے آپ سے پہلے بھی بحث ہوچکی ہے اور اب پھر یہاں آپ وہی بات شروع کرنے لگے ہیں ۔اور آپ کا تب سے ایک ہی اعتراض چلا آرہا ہے۔معذرت دوبارہ یہاں وہی بحث شروع نہیں کی جاسکتی۔
جو موضوع ہے کہ ’’ مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم‘‘ تو کیا یہ طلاق آپ کے نزدیک واقع ہوگی یا نہیں۔ اس پر بحث کرنی ہے تو ٹھیک ۔ورنہ اگر آپ کا صرف وہی حضرت عمر  والا اعتراض ہے تو آپ ’’ ایک مجلس کی تین طلاق اور خلیفہ راشد حضرت عمر‘‘ والی پوسٹ کا دوبارہ اور بار بار مطالعہ کریں ۔ان شاء اللہ آپ کا ذہن کھل جائے گا۔ والسلام
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
معاف کیجیے گا کیا جمہور بھی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور انہیں راجح موقف کی حمایت میں پیش کیا جا سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر آپ نے کیوں پیش کیا اور اگر ہاں تو ایک مجلس کی تین طلاق میں آپ جمہور کے موقف کو کیوں مسترد کرتے ہیں ؟ جبکہ جمہور کے بر خلاف آپ کے پاس ایک خبرواحد، شاذ ، اور ایک مردود حدیث کے سوا کچھ نہیں؟
عمر بھائی ہمیں تو تلاش بسیار کے بعد ایسی عبارت نہیں مل سکی جس میں ’راجح موقف کی حمایت میں جمہور کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہو۔‘ صرف اتنا کہا گیاہے کہ مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کےحوالے سےراجح موقف جمہور کا ہے کیونکہ ان کے دلائل قوی ہیں۔ آپ کا اس پر بھی اعتراض کرنا سمجھ سے بالا ہے۔ ویسے اگر آپ ایسی کوئی عبارت ڈھونڈ نکالیں تو خوشی ہو گی۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
باقی بھائی اس موضوع پر دلائل سے آپ سے پہلے بھی بحث ہوچکی ہے اور اب پھر یہاں آپ وہی بات شروع کرنے لگے ہیں ۔اور آپ کا تب سے ایک ہی اعتراض چلا آرہا ہے۔معذرت دوبارہ یہاں وہی بحث شروع نہیں کی جاسکتی۔
نہیں وہ موضوع تشنہ رہ گیا ہے کہ میرے بے سوال نکات ، دلائل ، سب بے جواب کے بے جواب پڑے ہوئے ہیں، آپ لوگوں نے صرف اپنی بات پوری کی اور بس ، خیر اس کو چھوڑیں، یہاں میرا وہ بحث چھیڑنے کا ارادہ نہیں یہ موضوع ہی اور ہے۔

بھائی کیا جس حدیث میں تین کو تین شمار کرنے کا بیان ہے اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ کا یہ عمل تہدیداً اور بطور سزا کے تھا۔
بھائی صاحب یہ تہدیداً اور بطور سزا کے الفاظ آپ جناب کے خود سے اخذ کردہ ہیں مذکورہ حدیث میں ایسے کوئی الفاظ نہیں ، یہ وہ مطالب ہیں جو ابن القیم اور ابن تیمیہ نے اخذ کیے اور مزے کی بات، زادالمعاد میں خود ہی ابن القیم لکھتے ہیں کہ شریعت میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ جس سے پتہ چلے کہ بطور سزا یا تہدید میاں بیوی میں علیحدگی کرا دی گئی ہو۔ اب بتائیے ؟

جو موضوع ہے کہ ’’ مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم‘‘ تو کیا یہ طلاق آپ کے نزدیک واقع ہوگی یا نہیں۔ اس پر بحث کرنی ہے تو ٹھیک
۔
ان شاء اللہ ہم اس موضوع پر مہذبانہ انداز میں اپنے اپنے دلائل دیں گے۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
عمر بھائی ہمیں تو تلاش بسیار کے بعد ایسی عبارت نہیں مل سکی جس میں ’راجح موقف کی حمایت میں جمہور کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہو۔‘ صرف اتنا کہا گیاہے کہ مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کےحوالے سےراجح موقف جمہور کا ہے کیونکہ ان کے دلائل قوی ہیں۔ آپ کا اس پر بھی اعتراض کرنا سمجھ سے بالا ہے۔ ویسے اگر آپ ایسی کوئی عبارت ڈھونڈ نکالیں تو خوشی ہو گی۔
راجح موقف
جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں:
١۔جمہور کے دلائل کا قوی ہونا۔
کمال ہے جناب یہ اوپر کیا لکھا ہوا ہوا ہے کہ جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں۔
راجح موقف بمطاق قرآن و سنہ ہونا چاہیے نہ کہ بمطابق جمہور۔
اگر آپ کا جواب ہے کہ یہاں جمہور کا موقف بمطابق قرآن و سنہ ہے تو پھر جہاں آپ حضرات جمہور کے موقف کو رد کرتے ہیں وہاں وہ قرآن و سنہ کے مطابق نہیں ہوتا ہو گا؟
تنبیہہ: پوسٹ میں نامناسب الفاظ میں تبدیلی کی گئی ہے۔ انتظامیہ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عمر معاویہ بھائی
پہلی تو بات یہ ہے کہ آپ کا وہ موضوع تشنہ نہیں رہ گیا تھا ۔آپ خود اپنے اصولوں پر قائم نہیں رہے تھے اور نہ ہی دوسرے بھائیوں کی بات کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے اس وجہ سے فضول بحث سے وہاں معذرت کرلی گئی تھی۔میرے ان الفاظ میں کوئی بات اچھی نہ لگے تو معافی کا طلبگار۔
بھائی جان آپ نے جو اقتباس لے کر اعتراض یا سوال اٹھانے کی کوشش کی تھی اس کا جواب دینے کے ساتھ آپ پر بھی کچھ سوال اٹھائے گئے تھے پہلے ان کا جواب دینا آپ پر ضروری ہے۔
آپ نے اقتباس لیا کہ
’’بھائی کیا جس حدیث میں تین کو تین شمار کرنے کا بیان ہے اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ کا یہ عمل تہدیداً اور بطور سزا کے تھا۔‘‘
تو اس پر آپ نے یہ کہا
’’بھائی صاحب یہ تہدیداً اور بطور سزا کے الفاظ آپ جناب کے خود سے اخذ کردہ ہیں مذکورہ حدیث میں ایسے کوئی الفاظ نہیں‘‘
عمرمعاویہ بھائی ذرا غور کریں کہ اس فتوی کی عبارت پر جو حضرت عمر  نے دیا ہے
1۔عہد رسالتمآبﷺ ، عہد ابوبکر صدیق اور عہد عمر  کے ابتدائی دوسال میں ایک ہی طلاق کا شمار ہونا۔
2۔جس کام میں لوگوں کا سوچ سے کام لینا چاہیئے تھا اس میں انہوں نے جلدی کی
3۔ہم کیوں نہ اس کو نافذ کردیں۔
سب سے پہلے تو آپ اس بات کا جواب دیں
ایک منٹ کےلیے اگر ہم اس فیصلے کو شرعی مان لیں سیاسی اور تعزیری نہ لیں تو عہد رسالتﷺ ،عہدابی بکر اور خود عہد عمر کے ابتدائی دوسالوں میں جو فیصلہ تھا تو پھر اس کی کیا حیثیت ہوگی ؟؟؟واضح کریں
حضرت عمر  ایک فتوی دیتے ہوئے یہ کیوں کہہ رہے ہیں ۔ان الفاظ کے بیان کا مقصد کیا تھا’’ جس کام میں لوگوں کا سوچ سے کام لینا چاہیئے تھا اس میں انہوں نے جلدی کی ‘‘
اور آپ  کا یہ کہنا کہ ’’ہم کیوں نہ اس کونافذ کردیں‘‘ اس سے ایک بات یہ واضح ہے کہ کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین قرار دینا پہلے نافذ نہیں تھا تب تو حضرت عمر  نے یہ کہا۔دوسرا ان الفاظ پر اگر غور کریں تو یہ الفاظ بول بول کر کہہ رہے ہیں کہ یہ فتوی حضرت عمر  کا کسی سبب کی وجہ سے ہے ۔اور وہ سبب نمبر 2 ہے۔
اب رہی یہ بات کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی کے خلاف حضرت عمر نے کیوں حکم نافذ کیا ؟ تو اس کی وجہ اسی حدیث میں ہی بیان کردی گئی ہے کہ لوگ کثرت سے طلاقیں دینے لگ گئے تھےجبکہ شریعت نے اس میں انتہائی غوروفکراور صبر وتحمل سے کام لینے کی تاکید کی ہے
بیک وقت تین طلاقیں شریعت اسلامیہ میں سخت ناپسندیدہ فعل ہے ۔جس کے متعلق ’’تلعب بكتاب الله‘‘آپ ﷺکا غصے ہوکر یہ کہنا کہ ’’أيلعب بكتاب الله وانا بين اظهركم‘‘(النسائی)او رخود حضرت عمر  کا یہ عمل’’ان عمر كان اذا اتي برجل طلق امرأته ثلاثاأوجع ظهره‘‘(فتح الباری)
دیکھیں بھائی جان بیک وقت تین طلاق کے بولنے پر آپ کا یہ کہنا کہ کتاب اللہ سے کھیلا جارہا ہے اور حضرت عمر کا ایسے آدمی کو درے لگانا۔یہ سب کچھ کیوں ؟
ایک طرف آپ نے درے لگار ہے ہیں اور دوسری طرف تین کے تین ہونے کا فتوی دے رہے ہیں ۔تویہ سب کیا ہے ؟؟
اور آپ سے ایک اور سوال ہے ہم کہتے ہیں کہ یہ حضرت عمر  کا تعزیری و تہدیدی اقدام تھا جو اجتہاداً حضرت عمر  نے اختیار کیا تھا۔کیا آپ اس کے ساتھ حضرت عمر  کے تمام اجتہادی مسائل کو من وعن اسی طرح قبول کرتے ہیں۔جس طرح طلاق والا مسئلہ قبول کررہے ہیں یا نہیں ؟؟؟
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
وَلَا عَهْدَ لَنَا فِي الشَّرِيعَةِ بِالْعُقُوبَةِ بِالطَّلَاقِ، وَالتَّفْرِيقِ بَيْنَ الزَّوْجَيْنِ​
شریعت میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ بطور سزا و تہدید میاں بیوی میں تفریق کرا دی گئی ہو،
زاد العماد جلد ۵ صفحہ 194 فصل طلاق سکران​
1۔عہد رسالتمآبﷺ ، عہد ابوبکر صدیق اور عہد عمر  کے ابتدائی دوسال میں ایک ہی طلاق کا شمار ہونا۔
2۔جس کام میں لوگوں کا سوچ سے کام لینا چاہیئے تھا اس میں انہوں نے جلدی کی
3۔ہم کیوں نہ اس کو نافذ کردیں۔
معذرت کے کہ سزا و تہدید کے الفاظ نہیں ملے، دوسرے میں نے ایک جگہ زادالمعاد سے حافظ ابن القیم کی عبارت نقل کی تھی کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ شریعت میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ بطور سزا و تہدید میاں بیوی میں تفریق کرا دی گئی ہو،
اور میں کہتا ہوں کہ یہ تصور ہی ہولناک ہے کہ بطور سزا ایک خاندان کو توڑ پھوڑ دیا جائے اور وہ ابھی ایسے مسئلے میں کہ جہاں خود اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے رخصت بھی موجود ہو۔ بقول آپ کے جب نبی پاک کے دور میں قرآن و سنت سے کھیلا گیا اور نبی پاک سخت غضبناک ہوئے تو انکی سنت مبارکہ کیا تھی؟ پھر کس کی جرات ہو سکتی ہے کہ بطور سزا ایسی تفریق کرائے اور کیا جانثاران نبی ختم ہو چکے تھے کہ انہوں نے چپ چاپ نبی پاک کی ایک جیتی جاگتی سنت کو ذبح ہوتے دیکھا، ممکن ہی نہیں۔ وہ بھی اس طرح کہ لا تعداد مثالیں ہیں کہ کبھی عمر رضی اللہ عنہ کو بر سرمنبر دو چادروں کے معاملے میں ایک بدو ٹوک دیتا ہے، کبھی مہر کے مسئلے میں ایک عورت ٹوک دیتی ہے، کبھی حد کے معاملے میں حضرت علی ٹوک دیتے ہیں، اور کبھی بھوک سے تنگ آئی ہوئی عورت سیدنا عمر کو انہی کی موجودگی میں اللہ سے ڈراتی ہے۔ ایسے معاشرے میں ایسی سزا کہ جس کا تصور بھی بقول ابن القیم شریعت میں نہیں تھا کیسے نافذ ہو سکتی ہے؟

سب سے پہلے تو آپ اس بات کا جواب دیں
ایک منٹ کےلیے اگر ہم اس فیصلے کو شرعی مان لیں سیاسی اور تعزیری نہ لیں تو عہد رسالتﷺ ،عہدابی بکر اور خود عہد عمر کے ابتدائی دوسالوں میں جو فیصلہ تھا تو پھر اس کی کیا حیثیت ہوگی ؟؟؟واضح کریں
افسوس کہ میری پوسٹس پڑھی ہی نہیں گئیں ورنہ میں اس کا جواب دے چکا ہوں۔ لیجیے

امیر المومنین فی الحدیث اما م بخاری رحمہ بھی البقرۃ کی آیت 229 سے ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کی دلیل لیتےہیں۔اور نیچے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دلیل کو ثابت کرتے ہیں۔ امام بخاری نے ان احادیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی اور انہیں باب من اجازہ طلاق الثلاث میں بیان کیا۔
دیکھیے صحیح بخاری جلد ۷
امام بخاری رحمہ صحیح بخاری میں باب باندھتے ہیں۔
باب من اجاز طلاق الثلاث لقول اللہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان
باب جس نے تین طلاقو ں کی اجازت دی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں کہ طلاق تو دوبار ہی کی ہے، اس کے بعد یا تو رکھ لینا ہےقاعدے کے مطابق یا پھر خوشی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
نیچے عویمر عجلانی کی لعان کے بعد طلاق والی حدیث بیان کرتےہیں۔
نیچے رفاہ قرضی کی طلاق والی والی حدیث بیان کرتے ہیں۔

اور امیر المونین فی الحدیث اپنی صحیح میں ایک اور باب باندھتے ہیں جس کا نام رکھتے ہیں۔
با ب اللعان و من طلق بعد اللعان
لعان اور لعان کے بعد طلاق دینے کا بیان
اور اس میں پھر عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث لاتےہیں۔

ثابت ہوا کہ قرآن و سنت کے مطابق پہلے بھی ایسے ہی ہوتا تھا، یہ میرے نہیں امیر المومنین فی الحدیث ، امام بخاری کے دلائل ہیں۔​

اور یہ لیجئے محقق اہل حدیث حافظ زبیر علی زئی کی گواہی کہ ایک مجلس میں تین طلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دی گئی اور نافذ بھی ہوئی۔

عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث کے بارے میں محقق اہل حدیث حافظ زبیر علی زئی موطا امام مالک صفحہ 319 پر لکھتے ہیں صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی، لہذا جدائی کا سبب طلاق ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے ، لیکن یہ قول محل نظر ہے۔

اور ساتھ ہی اس کی گواہی بھی دے رہے ہیں کہ گو کہ یہ طریقہ غلط تھا اور بدعی تھا مگر بدعی طلاق بھی نافذ ہو کر رہتی ہے۔

اسی کتاب کے صفحہ 320 پر لکھتے ہیں۔
حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر دی جائے تو یہ شمار ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہےاگر چہ ایسی طلاق دینا غلط ہے۔

امام نسائی رحمہ نے بھی احادیث مبارکہ سے ایک مجلس کی تین طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی اور باب باندھا اور اس باب کے تحت احادیث بیان کیں۔
دیکھیے سنن نسائی جلد دوم
امام نسائی سنن نسائی میں باب باندھتے ہیں،
باب الرخصۃ فی ذالک،
یکبارگی تین طلاق دینے کی رخصت۔
اور نیچے عویمر عجلانی کی طلاق والی حدیث بیان کرتےہیں۔
اورنیچے فاطمہ بنت قیس کی طلاق والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
امام نسائی نے آپ کی دلیل والی حدیث ابن عباس کو غیر مدخولہ کے بارے میں کہا اور طلاق غیر مدخولہ کے باب میں بیان کیا۔
باب طلاق الثلاث المتفرقۃ قبل الدخول بالزوجۃ
تین طلاق متفرق کر دینے کا بیان زوجہ کے ساتھ دخول سے پہلے
اور نیچے ابوصہبا و ابن عباس والی حدیث بیان کرتےہیں۔

دیکھا آپ نے امام نسائی بھی اس کے قائل ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق کاوقوع دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ہوا۔​

امام ماجہ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں اور مجلس واحد کی تین طلاق کا باب باندھتے ہیں اور نیچے ، امام نسائی کے نقش قدم پر بطور دلیل فاطمہ بنت قیس والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
باب من طلق ثلاثا فی مجلس واحد
باب اس کے بارے میں جو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دے۔
اور نیچے فاطمہ بنت قیس والی حدیث بیان کرتےہیں۔

امام ترمذی بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں اور آپ کی دوسری دلیل حدیث رکانہ کو طلاق البتہ کے باب میں بیان کرتے ہیں ۔
باب ماجاء فی الرجل یطلق امراتہ البتۃ
باب جو شخص اپنی بیوی کو البتہ کےلفظ سے طلاق دے
اور نیچے حدیث رکانہ لاتے ہیں۔

امام ابن ماجہ اور امام ترمذی بھی اس ہی کے قائل ہیں۔

اب اپنے دلائل کی مضبوطی دیکھیے
ابو محمد موفق حنبلی کی المغنی لابن قدامۃجلد 7 صفحہ 370 دیکھیے۔
وَإِنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَعَ الثَّلَاثُ، وَحَرُمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَلَا فَرْقَ بَيْنَ قَبْلِ الدُّخُولِ وَبَعْدَهُ. رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَالْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ. وَكَانَ عَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، يَقُولُونَ: مَنْ طَلَّقَ الْبِكْرَ ثَلَاثَةً فَهِيَ وَاحِدَةٌ. وَرَوَى طَاوُسٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَرَوَى سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَمَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، خِلَافَ رِوَايَةِ طَاوُسٍ، أَخْرَجَهُ أَيْضًا أَبُو دَاوُد. وَأَفْتَى ابْنُ عَبَّاسٍ بِخِلَافِ مَا رَوَاهُ عَنْهُ طَاوُسٌ۔
ابن عباس، ابو ہریرہ ، ابن عمر، عبداللہ بن عمرو، ابن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق واقع ہو جاتی ہیں اور عورت اس پر حرام ہو جائے گی حتی کہ کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور پھر بیوہ ہو یا طلاق پائے اور اس میں مدخولہ یا غیر مدخولہ کا کوئی فرق نہیں۔
اور یہی قول ہے بعد کے اکثر اہل علم کا تابعین اور ائمہ میں سےبھی۔
اور عطاء ، طاؤس سعید بن جبیر، ابو الشعثا اور عمرو بن دینار کا کہنا ہے کہ غیر مدخولہ کی اکٹھی تین طلاقیں ایک ہوں گی۔
اور طاؤس ابن عباس سے روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی ابتدائی خلافت میں تین طلاقیں ایک ہوتی تھیں، اور سعید بن جبیر، عمرو بن دینار، مجاہد، اور مالک بن الحارث ابن عباس سے طاؤس کی روایت کے خلاف روایت کرتےہیں، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی طاؤس کی روایت کے خلاف ہے۔

اسی حدیث کی علتیں جو سلف و خلف نے بیان کی ہیں بے شمار ہیں۔

۱۔ خبر واحدہے ، جبکہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ معاشرے میں اتنا بڑا ہلچل مچا دینے والا کام ہو اور اس کو بیان کرنے والا صرف ایک راوی ہو۔
۲۔ ابن عباس کے باقی شاگرد اس کے خلاف روایت کرتےہیں۔
۳۔ اس کے معانی و مطالب میں بہت گنجائش ہے اور صرف وہی مطلب نہیں نکلتا جو آپ نکال رہے ہیں،جیسے سلف و خلف نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ غیر مدخولہ کے متعلق ہو، ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کے متعلق ہو کہ جو لفظ البتہ سے طلاق دیتا ہے اور نیت ایک کی رکھتا ہے، جیسا کہ البتہ سے ایک یا تین کچھ بھی مراد ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کے متعلق ہو جو طلاق تو ایک دے رہا تھا مگر تاکیدا اسی کو دھرا رہا تھا۔
۴۔ سب سے بڑی بات کہ راوی یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اس کے خلاف موجود ہے، ہو نہیں سکتا کہ جبرا لامۃ جیسے صحابی کے پاس نبی کریم ﷺ کی کوئی سنت موجود ہو اور وہ اس کے خلاف فتویٰ بھی دیں؟

اور یہ دیکھیے آپ کی دوسری دلیل حدیث رکانہ کے بارے میں سنن بیقہی سے فرق یہ ہے کہ آپ بیہقی کی اس حدیث کا حوالہ تو دیتے ہیں مگر اس حدیث پر جو حکم لگا ہے وہ بیان نہیں کیا جاتا دیکھیے پوری حدیث مع حکم کے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ رُكَانَةُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟ " قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا , فَقَالَ: " فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ " قَالَ: نَعَمْ قَالَ: " فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ " فَرَاجَعَهَا فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَرَى إِنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ فَتِلْكَ السُّنَّةُ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا النَّاسُ وَالَّتِي أَمَرَ اللهُ لَهَا {فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ أنا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ نا مُسْلِمُ بْنُ عِصَامٍ نا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدٍ نا عَمِّي نا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ فَذَكَرَهُ وَهَذَا الْإِسْنَادُ لَا تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ مَعَ ثَمَانِيَةٍ رَوَوْا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فُتْيَاهُ بِخِلَافِ ذَلِكَ وَمَعَ رِوَايَةِ أَوْلَادِ رُكَانَةَ أَنَّ طَلَاقَ رُكَانَةَ كَانَ وَاحِدَةً وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ
سنن بیہقی جلد ۷ صفحہ 555

یہ اسناد اس معاملے میں حجت نہیں کیونکہ 8 راوی ابن عباس سے اس کے مخالف روایت کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ رکانہ کےگھر والے بھی کہتےہیں کہ رکانہ نے ایک طلاق دی تھی۔

حدیث رکانہ پر ایک اور بڑا اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ جب اس عہد بلکہ ابتدائی عہد عمر رضی اللہ عنہ تک تین طلاقیں ایک ہی سمجھی جاتی تھیں، تو پھر رکانہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی، کسی ضرر کا اندیشہ تھا تو پوچھا گیا تھاناں۔ اور رکانہ ہی کے حوالے سے سنن ابو داؤد میں وارد حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین بار حلف دے کر پوچھتے ہیں کہ تمہاری مراد کیا تھی ، رجعی طلاق یا قطعی طلاق؟ وہی سوال کہ اگر ایک طہر میں تین کا محل ہی نہیں تھا تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟

اور پیچھے ایک پوسٹ میں انس بھائی نے اغاثہ سے ایک مردود روایت رجوع عمر کے بارے میں بیان کی تھی کہ جس کی اتنی اہمیت ہے کہ سلف و خلف میں سے سوائے ابن القیم کے کسی نے اس روایت کو اپنے موقف کی دلیل میں بیان نہیں کیا۔ نیچے دیکھیے اس کے ایک راوی کے میزان الاعتدال سے حالات۔ یہ راوی کچھ نہیں، ثقہ نہیں، ضعیف بھی ہے اور صحابہ پر جھوٹ بھی بولتا تھا، اور اس کی کتابیں دفن کر دینے کے قابل ہیں۔

سیدنا عمر نے اپنے اس اجتہادی فیصلے پر آخری ایام میں اظہار ندامت بھی فرمایا تھا کہ انہیں بطور سزا یہ اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ (دیکھئے إغاثة اللهفان 1 ؍ 351)

2475 - خالد بن يزيد بن عبد الرحمن بن أبي مالك [ق] الدمشقي.
وقال أحمد: ليس بشئ.
وقال النسائي: غير ثقة.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال ابن عدي، عن ابن أبي عصمة، عن أحمد بن أبي يحيى: سمعت أحمد بن حنبل يقول: خالد بن يزيد بن أبي مالك ليس بشئ.
وقال ابن أبي الحواري سمعت ابن معين يقول: بالعراق كتاب بنبغى أن يدفن تفسير الكلبي، عن أبي صالح.
وبالشام كتاب ينبغي أن يدفن كتاب الديات لخالد بن يزيد بن أبي مالك، لم يرض أن يكذب على أبيه حتى كذب على الصحابة.

امام شوکانی نیل اوطار جلد 6 صفحہ 274 میں لکھتے ہیں۔
فَذَهَبَ جُمْهُورُ التَّابِعِينَ وَكَثِيرٌ مِنْ الصَّحَابَةِ وَأَئِمَّةِ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةِ وَطَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ مِنْهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
(ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں ) یہی مذہب جمہور تابعین اور کثیر صحابہ اور ائمہ مذاہب اربعہ اور اہل بیت میں سے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
سنن سعيد بن منصور ﴿1 / 314﴾
1130 - حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْغَازُ بْنُ جَبَلَةَ الْجُبْلَانِيُّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عِمْرَانَ الطَّائِيِّ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ نَائِمًا مَعَ امْرَأَتِهِ فَقَامَتْ فَأَخَذَتْ سِكِّينًا فَجَلَسَتْ عَلَى صَدْرِهِ وَوَضَعَتِ السِّكِّينَ عَلَى حَلْقِهِ وَقَالَتْ: لَتُطَلِّقَنِّي ثَلَاثًا الْبَتَّةَ وَإِلَّا ذَبَحْتُكَ، فَنَاشَدَهَا اللَّهَ، فَأَبَتْ عَلَيْهِ فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا قَيْلُولَةَ فِي الطَّلَاقِ»
سنن سعيد بن منصور ﴿1 / 314﴾
1131 - حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْغَازِ بْنِ جَبَلَةَ الْجُبْلَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ صَفْوَانَ الْأَصَمَّ، يَقُولُ: بَيْنَا رَجُلٌ نَائِمٌ لَمْ يَرُعْهُ إِلَّا وَامْرَأَتُهُ [ص:315] جَالِسَةٌ عَلَى صَدْرِهِ، وَاضِعَةً السِّكِّينَ عَلَى فُؤَادِهِ وَهِيَ تَقُولُ: لَتُطَلِّقَنِّي أَوْ لَأَقْتُلَنَّكَ , فَطَلَّقَهَا، ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «لَا قَيْلُولَةَ فِي الطَّلَاقِ، وَلَا قَيْلُولَةَ فِي الطَّلَاقِ»

مجبوری کی طلاق واقع ہو جاتی ہے اس لیے کہ وہ عاقل و بالغ ہےاور طلاق دینے کا اہل ہے۔اور اپنی بیوی کو قصدا طلاق دے رہا ہے اور اپنے آپ کو بچا رہا ہے۔اور نقصان میں سے جو اسے کم تر نظر آتا ہے اٹھا لیتا ہے۔ اور یہ کام وہ قصد اور ارادے سے کرنے کی علامت ہے، بے شک وہ اس حکم کے نافذ ہونے کو پسند نہیں کرتا مگر یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی مذاق میں نکاح یا طلاق دے اور وہ اس کے لاگو ہونے کو پسند ن کرے مگر حکم تو لاگو ہو گیا گو کہ اس کی نیت ایسے کرنے کی نہیں تھی وہ تو مذاق کر رہا تھا۔
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خطا ء و نسیان معاف کر دیا ہے تو اس کا حکم اخروی ہے یعنی گناہ سے درگزر کر دیاہے۔ مگر دنیا کے احکام تو لاگو ہو ں گے مثلا بھولے سے نماز میں سہو ہو جائے تو سجدہ سہو کرنا پڑے گا، قتل خطا موجب کفارہ ہے، اگر کوئی خطا سے اپنے مورث کو قتل کر دے تو قاتل میراث سے محروم ہو جاتا ہے۔

جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معتوہ (جس کی عقل مغلوب ہو جاتی ہو) کی طلاق کے علاوہ ہر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔مگر وہ دیوانہ جسےکبھی کبھی ہوش آ جاتا ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (6 / 409):
11415 - عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: «كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ»
مسند ابن الجعد (1 / 120):
742 - وَبِهِ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَابِسُ بْنُ رَبِيعَةَ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ، إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ»

743 - حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسٍ مِثْلَهُ [ص:121].

744 - حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنا هُشَيْمٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: نا عَابِسٌ مِثْلَهُ
مصنف ابن أبي شيبة (4 / 72):
17912 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: «كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ»
17914 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ»

شرح مشكل الآثار (12 / 245):
وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: " كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ "
بخاری کتاب الطلاق
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: " كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ

١۔سب سے پہلے نقل کی جانے والی حدیث: لا قیلولة في الطلاق ضعیف ہے۔ امام ابن حزم اس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’هٰذا خبر في غایة السقوط‘‘(المحلیٰ:١٠؍٣٠٤) لہٰذا اس سے استدلال بھی ساقط ہوا۔
سبحان اللہ ابن حزم نے کہہ دیا اور ضعیف ہو گیا ، وجوہات نقل کریں تاکہ جواب دیا جا سکے، یہ کیا بات ہوئی ابن حزم کیا صاحب شریعہ ہیں کہ ان کا کہنا ہی کافی ہے ، جناب وجوہات بمعہ اسناد نقل کریں۔

٢۔اور جو«ثلاث جدهن جد…» سے استدلال کرتے ہوئے مکرہ کو مذاق کرنے والے پر قیاس کیاگیا ہے تو یہ قیاس درست نہیں ہے۔(تہذیب السنن لابن القیم:٦؍١٨٨)
کیونکہ مجبور شخص نہ تو لفظ کا ارادہ کرتا ہے اور نہ اس کے سبب کا وہ تو لفظ کے بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ،اگرچہ قصد پر مجبور نہیں ہوتا جب کہ مذاق کرنے والا تو لفظ طلاق اپنے اختیار سے بولتا ہے اگرچہ اس کے سبب کا قصد نہیں کرتا۔
سبحان اللہ وہ قیاس درست نہیں اور یہ ابن القیم والا قیاس درست ہے کیسے ؟

جیسے مذاق والا شخص صرف لفظ بولتا ہے ، نیت نہیں رکھتا مگر حکم لاگو ہو جاتا ہے، گو وہ اسے پسند نہیں کرتا۔
مجبور شخص بھی لفظ بولتا ہے ، نیت نہیں رکھتا مگر حکم لاگو ہو جاتا ہے، گو وہ اسے پسند نہیں کرتا۔

«لا طلاق ولا عتاق في غلاق» (مسند احمد:٦؍٢٧٦)
’’زبردستی کی کوئی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘
سنن ابو داؤد جلد ۲ صفحہ 674 امام ابو داؤد کہتے ہیں الغلاق اور الاغلاق میرے خیال میں غضب اور غصے کے معنی میں ہے۔
’’طلاق السکران والمستکره لیس بجائز‘‘(صحیح بخاری، ترجمة الباب : باب الطلاق فی الغلاق)
’’مجبوری اور نشے کی حالت میں طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
موطا امام مالک سے
عَنْ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ وَسُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ سُئِلَا عَنْ طَلَاقِ السَّکْرَانِ فَقَالَا إِذَا طَلَّقَ السَّکْرَانُ جَازَ طَلَاقُهُ وَإِنْ قَتَلَ قُتِلَ بِهِ
سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ جو شخص نشے میں مست ہو اور طلاق دے اس کا کیا حکم ہے دونوں نے کہا کہ طلاق پڑ جائے گی اور وہ نشے میں مار ڈالے کسی کو تو مارا جائے گا ۔

گو طلاق دینے کی نیت نہیں مگر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جو نیت کے ساتھ تو واقع ہوتی ہیں مذاق میں بھی واقع ہو جاتی ہیں طلاق، نکاح اور طلاق کے بعد رجوع کرنا(جامع ترمذی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عمرمعاویہ بھائی جان
آپ نے بجا فرمایا کہ اس طر ح کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔بھائی مثال نہ ملنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں لیا جاسکتا کہ حضرت عمر  کا وہ فتوی بھی بطورسزا و تہدید نہیں تھا۔یادر ہے حضرت عمر نےیہ فتوی دے تو دیا تھا اور فتوی کے الفاظ میں یہ الفاظ بھی ہیں
’’ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔ ‘‘
لیکن زبردستی اس فتوی پر کسی کو عمل کروایا ہو یہ آپ ثابت کریں۔؟ فتوی تو دیا جاسکتا ہے لیکن اس فتوی پر زبردستی کسی کو عمل کروانا یہ نہیں ہوسکتا ہاں اس فتوی کےمطابق جو کام کرے گا اس پر وہ فتوی لاگو ہوجائے گا۔
اس لیے ہمارا کہنا کہ حضرت عمر کا یہ فتوی بطور سزا کے تھا اس بات پر آپ کا زادالمعاد سے عبارت پیش کرنا بالکل بے محل ہے۔
باقی اس مسئلہ تفصیل جاننے کےلیے آپ اس پوسٹ کا مطالعہ کریں۔جو کہ ابھی پوسٹ کی گئی ہیں ۔ ان شاءاللہ بات سمجھ آجائے گی۔اور ہاں اس موضوع پر مزید گفتگو بے فائدہ ہوگی کیونکہ مسئلہ واضح ہوچکا ہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپﷺ کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے دین کی وہ سمجھ دے جو اللہ تعالی اور آپ ﷺ کا مقصود تھا ، مقصود ہے۔آمين يارب العالمين

رہی بات اس موضوع پر بحث کی ’’مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم‘‘ تو ان شاءاللہ موقع ملتے ہی بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
 
Top