• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجمل اور اسکی اقسام

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
مجمل اور اسکی اقسام

1 مجمل

تعریف: لغت میں جو چیز جمع کی گئی ہو اسے مجمل کہتے ہیں، اور کسی چیز کا جملہ اس کا مجموعہ ہوتا ہے جیسے حساب کا جملہ۔

اصطلاح میں : اس لفظ کو کہتے ہیں جو دو یا دو سے زیادہ معنوں کا احتمال رکھتا ہوں، اس طرح کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح حاصل نہ ہو یا ان کئی معنوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح حاصل نہ ہو۔

اس کی مثالوں میں سے ایک لفظ ’قرء‘ ہے جو دو معنوں کے درمیان برابری کی سطح پر متردد ہے، یعنی طہر اور حیض۔ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے۔اسی تردد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں لفظ ’قرء‘ کی مراد سمجھنے میں اختلاف واقع ہوا ہے۔﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ ﴾ [البقرة:228] اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے نفسوں کے ساتھ تین قرء تک انتظار کریں یعنی عدت گزاریں۔

تو امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ نے اسے طہر پر محمول کیا ہے اور ابوحنیفہ اور احمد رحمہما اللہ نے اسے حیض پر محمول کیا ہے۔

اجمال کی اقسام:

اجمال کبھی مرکب ہوتا ہے اور کبھی مفرد، کبھی اسم ہوتا ہے ، کبھی فعل اور کبھی حرف اور کبھی کبھی تو اختلاف محذوف حرف کی اصل کا ہوتا ہے۔

مثالیں:


مرکب میں اجمال: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان علی مقام ہے: ﴿ إلاَّ أَن يعْفُونَ أَوْ يعْفُوَ الَّذِي بِيدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ﴾ [البقرة:237] مگریہ کہ وہ معاف کردیں یا وہ شخص جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔

تو جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ، اس میں احتمال ہے کہ وہ شوہر بھی ہوسکتا ہے اور عورت کا ولی بھی۔ اسی وجہ سے امام احمد اور امام شافعی رحمہما اللہ نے اس کو شوہر پر محمول کیا ہےا ور امام مالک رحمہ اللہ نے اسے عورت کے ولی پر محمول کیا ہے۔

مفر د میں اجمال:

۱۔ اسم میں اجمال:اس کی مثال والا لفظ پیچھے گزرچکا ہے جو ’قرء‘ ہے۔ اسی طرح لفظ ’عین‘ بھی اسی کی مثال ہے جو آنکھ ، چشمہ اور نقد تینوں میں سے کسی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔

۲۔ فعل میں اجمال:جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان عالی شان ہے: ﴿ وَاللَّيلِ إذَا عَسْعَسَ ﴾ [التكوير:17] رات کی قسم! جب وہ آنے/ جانے لگے۔

تو عسعس کا لفظ آنے اور جانے میں تردد کی وجہ سے فعل میں اجمال کی مثال ہے۔

۳۔ حرف میں اجمال: جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ذیشان ہے: ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيدِيكُم مِّنْهُ ﴾ [المائدة:6] تو اپنے ہاتھوں اور چہروں کو دھو لو۔

اب احتمال ہے کہ ہوسکتا ہے ’مِنْ‘ تبعیض کےلیے ہو یا ابتداء غایت کےلیے۔ اسی وجہ سے امام احمد اور شافعی رحمہما اللہ نے اسے تبعیض کےلیے مانا ہے اور امام مالک اور ابوحنیفہ رحمہما اللہ نے اسے ابتداء غایت پر محمول کیا ہے۔

محذوف حرف کی اصل میں اختلاف کی وجہ سے اجمال: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ ﴾ [النساء:127] تم ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو۔ یا تم ان سے نکاح کرنے سے بے رغبتی اختیار کرتے ہو۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ ہوسکتا ہے ’وَتَرْغَبُونَ‘ کے بعد ’فی‘ محذوف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم ان سے ان کی خوبصورتی کی وجہ سے نکاح کرنے میں دلچسپی رکھتے ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محذوف حرف ’عَنْ‘ ہو یعنی تم ان سے ان کی غربت اور بدصورتی کی وجہ سے نکاح کرنے سے اعراض کرتے ہو۔

مجمل میں عمل: سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ یہاں کوئی قرینہ یا ایک معنی کو ترجیح دینے والی کوئی چیز موجود ہے یا نہیں۔ اگر کوئی قرینہ یا ترجیح پائی جائے تو اسی کے مطابق عمل کیا جائے اور اگر کوئی چیز نہ ملے تو اس سے استدلال کرنا چھوڑ دیا جائے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ : ” إذا وجد الاحتمال بطل الاستدلال “ جب احتمال پایا جائےتو استدلال کرنا باطل ہوجاتا ہے۔


ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top