• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محاسبئہ نفس

شمولیت
دسمبر 11، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
48
محاسبئہ نفس

ابوصفوان عبدالرزاق جامعیؔ

الحمد للہ رب العلمین والصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین ، امابعد​

ایک مومن کے لئے ٖٖضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں " ایک کامیاب تاجر کی علامت یہ ہے کہ وہ دن،رات اپنی تجارت کا جائزہ لیتارہتا ہے اورسال میں ایک مرتبہ اپنے لين دين ، کاروبار ، تجارت اور نفع اور نقصان کي جانچ پڑتال کرتا ہے، اگر اسے اپنی تجارت ميں فائدہ نظر آئےتو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور پھر ان ذرائع کو تلاش کرتا ہے جن سے فائدہ پہنچا ، اور پھر اپنے فائدے کو مزيد بڑھانے کے لئے وہ ان تمام وسائل کا استعمال کرتا ہے جو اسے ايک کامياب تاجرکےزمرے میں شامل کرسکتاہے،اور اگر بدقسمتي سے اسے نقصان پہنچا ہے ،تو پھر وہ ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگاتا ہے جس کي وجہ سےاس کی تجارت کونقصان پہنچا، اور آئندہ انہيں استعمال نہ کرنے کا مکمل ارادہ کرلیتاہے ۔

بالکل اسی طرح مومن بھی صبح و شام اپنے اعمال کا جائزہ ليتا اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہتا ہےکہ مَیں فائدے میں ہوں یاپھر نقصان میں ، اگرفائدے میں ہے تواللہ کی شکرگذاری بجالاتا ہےاوراگرنقصان میں ہے توان تمام نافرمانیوں اوربرائیوں سے مکمل اجتناب کرتاہے۔

امير المومنين سيدنا عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ میں فرمایا" لوگو ! اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے قبل کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اپنے اعمال کو قيامت کے ميزان ميں تولے جانے سے پہلے تول ليا کرو اور قيامت کي پيشي کے لئے اپنے آپ کو تيار کر لو ، جس دن کہ تم اپنے اس رب کے سامنے پيش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی راز نہيں چھپا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي الدنيا في " محاسبة النفس " قال الألباني رحمہ اللہ ،موقوف)

اسی اللہ تعالٰی نےنفس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر59/ 18)

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے ۔

اس آیت کی تفسیر میں مولاناعبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ تحریر فرماتےہیں" ہرشخص کو آخرت کا دھیان رکھنا چاہئے :۔ کل سے مراد قیامت کا دن یا اخروی زندگی ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں اس کی دنیا کی پوری زندگی ''آج'' ہے۔ دنیا دارالعمل ہے جس کا پھل اسے آخرت میں ملے گا، جو کچھ بوئے گا، وہی کچھ کاٹے گا اور جتنا بوئے گا اتنا ہی کاٹے گا۔ ان اصولوں کے تحت ہر انسان کو خود اپنا محتسب بنایا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اعمال پر خود نظر رکھے۔ اسے سیدھے اور غلط راستے، نیکی اور بدی، اچھے اور برے کی تمیز بھی عطا کر دی گئی ہے اور پوری وضاحت کے ساتھ سب کچھ بتا بھی دیا گیا ہے۔ اب یہ اس کا اپنا کام ہے کہ خود دیکھتا رہے کہ وہ کون سی راہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس راہ پر وہ گامزن ہے۔ وہ اسے جہنم کی طرف لے جارہی ہو؟ اور سورہ قیامۃ میں فرمایا کہ انسان کو اتنی سمجھ دے دی گئی ہے کہ وہ اپنے اعمال کا خود ہی محاسبہ کر سکے۔ اگر وہ اپنے حق میں مصالحت اور بہانہ تراشیاں چھوڑ دے تو وہ اپنے اعمال کا وزن کرسکتا ہے۔ اور اسے ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے' اس لیے کہ اگر وہ ہروقت اللہ سے ڈرتا رہے گا تو سیدھے راستے سے چوکے گا نہیں۔ اور نہ ہی اللہ کی نافرمانی کے کام کرے گا۔ دوسری بات جو اسے ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے یہ ہے کہ اس کا مال و دولت، اس کی تندرستی، اس کی استعداد اور اس کی سرگرمیاں آیا دنیا کے حصول تک ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہیں یا وہ آخرت کے لیے کچھ سامان مہیا کر رہا ہے۔ یہ احتساب خود اسے ایسی باتوں پر آمادہ کر دے گا جو آخرت میں اس کے لیے سود مند ہوں"۔( تفسیر تیسیر القرآن )

آخرت کی کاميابی کے لئے نفس کا تزکیہ نہایت ہی اہم اورضروری ہےجس کے بغیر جنت کا حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔نفس انسانی کی تین مختلف قسمیں یا حالتیں ہیں اور یہ سب قرآن کریم کی مختلف آیات سے ثابت ہیں۔ (1) نفسِ امّارہ (2) نفسِ لوّامہ (3) نفسِ مطمئنہ

(1) نفسِ امّارہ: ایسانفس جوانسان کو دنیوی لذات وشہوات کی طرف کھینچتااوررب کی نافرمانیوں پر آمادہ کرتا ہے ۔ جیساکہ ارشادربانی ہے۔ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ ۔ میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے ،مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا رب پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔ [يوسف12/ 53]

(2) نفسِ لوّامہ:وہ نفس جوانسان سے غلطیوں کا ارتکاب ہونے کے بعداس پر ندامت کے آنسو بہاتا ہے ۔اللہ تعالٰی نے نفس لوامہ کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا۔لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ * وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ۔ میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے والا ہو ۔(القيامة 75/ 1- 2)

(3) نفسِ مطمئنہ:ایساپاکیزہ نفس جوہر قسم کی برے عادتوں سے پاک وصاف ہوتا ہےاوررب کی اطاعت پرگامزن رہتاہے۔فرمان الہٰی ہے۔يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ *ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً * فَادْخُلِي فِي عِبَادِي * وَادْخُلِي جَنَّتِي۔ اے اطمینان والی روح۔اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی۔تو میرے (نیک) بندوں میں شامل ہوجا ۔اور میری جنت میں داخل ہوجا ۔(الفجر 89/ 27- 30)

نفس میں فجوراورتقویٰ

اللہ تعالیٰ نے چھے چیزوں کی قسم کھانے کے بعدساتویں قسم نفس کی کھائی اورفرمایا: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا * فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا * قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا * وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ۔قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی ۔پھر سمجھ دی اسکو بدکاری سے اور بچ کر چلنے کی۔جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا ۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوگا۔ (الشمس 91/ 7 – 10)

نفس میں پہلے برائی اورتقویٰ بعد،ایساکیوں؟

اگرہم قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تویہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی اوررسولﷺنے ہمیں خیر کاحکم دیا ہے اورشر سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے،لیکن اس آیتِ میں نفس کے بارے میں بتلایا جارہا ہے کہ اس نفس میں شر (فجور)پہلے ہے اورخیر (تقویٰ)اس کے بعد! آخرکیوں ؟

اگر آپ جنگل میں چلے جائیں تو آپ کو کانٹے دار درخت زیادہ ملیں گے بنسبت پھلدار درختوں کے،اوراگر آپ کو پھلدار درخت چاہئے ہوں توآپ کو وہ درخت لگانے ہوں گے۔جیسے آم،امرود،پپیتہ وغیرہ۔ ٹھیک اسی طرح اس نفس میں برائیاں پہلے ہیں اوربھلائیاں بعد میں!!!

اسی لئے یہ نفس شرک وکفرکی طرف پہلے دوڑتاہے ،توحید کی طرف اس کوکھینچ کر لانا پڑتا ہے۔

بدعات رسم ورواج کو پہلے قبول کرتا ہے ،سنت رسول rاور اسلامی تعلیمات کی طرف اسکو دعوت دینا پڑتاہے۔

فسق وفجوراوربرائیوں کی طرف یہ جلدی راغب ہوتا ہے، مسجد اور دینی مجلسوں کی طرف اس کوبلانا پڑتا ہے۔

نفس مرتا ہے یا دبتا ہے!

انسان جب تک نیک اعمال کرتا رہتا ہے تو اس کا نفس دبارہتا ہے اورجیسے ہی نافرمانیاں کرنا شروع کرتا ہے تو نفس پوری طاقت کے ساتھ ابھرتا ہےاور اس کو ہلاک وبرباد کردیتا ہے۔

مثلا آپ نے دیکھا ہوگا کہ ندی یانالے کے کنارے جوبھی کانٹے دار درخت ہوتے ہیں جب پانی زیادہ ہوتا ہے تو وہ درخت دبتے ہیں اور جیسے ہی پانی نیچے کیطرف اترتا ہے تو پھروہ۔۔۔پوری طاقت کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ٹھیک نفس کا بھی یہی حال ہے۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا محاسبہ نفس

مشہور اسلامي کمانڈر اور فاتح مصر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت جب قريب آيا تو آپ نے اپنے چہرے کو ديوار کی طرف کر کے خوب رويا ، اس عالم ميں ان کے فرزند عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ان سے کہنے لگے: اے ابا جان کیوں رو رہے ہیں کیا اللہ کے رسول اللہ rنے آپ کو یہ بشارت نہیں سنائی؟ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد rاللہ کے رسول ہیں اورفرمایا مجھ پر تین دور گزرے ہیں ۔

(1)ایک دور : وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول ﷺسے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ ﷺپر قابو پا کر آپ ﷺکو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا ۔

(2)دوسرادور: جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ ﷺکے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺنے فرمایا : اے عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ ﷺنے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ rنے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں؟ اور رسول اللہ ﷺسے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ ﷺسے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ ﷺکی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ ﷺکو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ ﷺکی صورت مبارک کے متعلق پوچھتے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آپ ﷺکو بوجہ عظمت وجلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی ۔

(3)تیسرادور:پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کر دو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب ( تمہاري دعا اور استغفار ) سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( صحیح مسلم)

اسی لئے ہر مسلمان کو چاہئیے کہ اپنےنفس کا محاسبہ کرتا رہے ،اللہ تعالٰی ہمیں نفس کے ہر شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین یارب العلمین
 
Top