• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی تحریر سے خوشہ چینی

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بعض جہلاء یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کہ کلمہ '' لا الٰہ الا اﷲ'' ایک ایسا قول ہے کہ جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ صرف زبان سے پڑھ لینا ہی مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔
لیکن ان کی یہ بات توحید کے منافی ہے ۔اور '' لاَ الٰہَ اِلاَّ اﷲ'' کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی۔
توحید اور کلمہ توحید کا معنی اور مفہوم بہت ہی عظمت اور جلالت کا حامل ہے ۔ چنانچہ ا س معنیٰ کا ماحصل یہ ہے کہ اس وقت تک انسان مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ غیر اللہ کی عبادت سے برآت اور لاتعلقی کا اظہار نہ کرے۔ اور صرف ایک اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی عبادت کرنے لگے۔ اور اس کا دل ہر قدم پر اس کی طرف ہی متوجہ ہو۔جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قال اﷲ تعالیٰ: {وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہ ٌ وَاحِدٌ لَا اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ}
(سورۃ البقرۃ:164)
اور تمہارا معبود صرف ایک اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے ۔ اور اس کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے وہی نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
نیز فرمایا :۔
و قال اﷲ تعالٰی:۔ {قُلْ اِنِّیْ ٓ اُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْن وَ أُمِرْتُ ِلاَنْ أَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ قُلْ اِنِّیْ ٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۔قُلْ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہُ دِیْنِیْ}۔(سورہ الزمر:15-12)
''اے محمد (ﷺ) ! کہہ دو کہ مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے ۔ کہ میں ایک اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کروں پورے اخلاص کے ساتھ ۔''
ان آیات او ران جیسی دیگر آیات نے توحید کے مفہوم کو بخوبی واضح اور متعین کر دیا ہے۔اور یہ واضح کر دیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنا اور غیر اللہ کی عبادت سے احتراز کرنا ہی اصل توحید ہے ۔
اب اگر کوئی شخص '' لا الٰہ الا اﷲ'' تو پڑھتا ہے لیکن اس کے معنیٰ کو نہیں جانتا اور نہ ہی اسے عملاً اپناتا ہے۔
''یا کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں موحد ہوں ۔او روہ توحید کے معنیٰ کو نہیں سمجھتا اورنتیجتاً وہ بعض اوقات کچھ عبادتیں غیر اللہ کے نام پر کر بیٹھتا ہے۔
''مثلاً غیر اللہ سے دعا مانگنے لگے۔
'' یا کہ کسی غیر اللہ کے متعلق یہ سمجھ کر کہ یہ بھی مجھے نقصان پہنچانے پر قادر ہے اس کا خوف اپنے دل میں بٹھائے۔
''یا غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دے بیٹھے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
تو ایسے شخص کا دعویٰ توحید باطل ہے او روہ مشرک ہے اس موقف کو ثابت کرنے کے لئے بہت سی آیات و احادیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :۔
و قول اﷲ تعالیٰ: {اُوْٓلٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا} (سورہ الاسرآء:58)
'' یہ لوگ (جن کو کہ وہ (اللہ تعالیٰ کے سوا) پکارتے ہیں ۔وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہء (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں اللہ کا زیادہ مقرب ہوتا ہے۔ اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں۔ اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بیشک تمہارے پروردگار کا عذاب اسی لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے''۔
اس آیت کا صحیح مفہوم اس سے پہلی والی آیت سے ملکر سمجھ میں آئے گا۔
چنانچہ پچھلی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
''(اے پیغمبر) ان سے کہہ دیجئے کہ پکارو ان کو جنہیں تم اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا اپنا معبود خیال کرتے ہو۔ وہ تم سے تمہاری تکلیف دور کرنے یا اس تکلیف کو کسی غیر کی طرف پھیرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے''۔
اور اسی آیت میں فرمایا:
''جن کو تم پکارتے ہو وہ تو خود اپنے رب کو پکارتے ہیں''۔
دراصل مشرکین دوسروں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے تھے۔ چنانچہ کوئی فرشتوں کی عبادت کرتا تھا اور کوئی عیسیٰ علیہ السلام کی اور کوئی شمس و قمر کی عبادت کرتا تھا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب جنہیں تم پکارتے ہووہ توخود اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اسی کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اسی کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
تو جو اِس میں اپنی ذات کے لئے کسی کا محتاج ہو وہ تمہارے احتیاج کو کیسے پورا کر سکتا ہے؟
مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت نے توحید اور ''لا الٰہ الا اﷲ'' کے مفہوم کو خوب واضح کر دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ صرف ایک اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارا جائے۔ آیت سے بخوبی واضح ہوا کہ غیر اللہ یعنی نیک لوگوں کو پکارنا یا اپنی تکلیفوں اور بیماریوں کے ازالہ کیلئے ان کا وسیلہ اور سفارش لینا شرک ہے۔ چنانچہ مکہ اور دیگر علاقوں کے مشرک نیک لوگوں کو پکارا کرتے تھے۔ مثلاً فرشتے، مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ اور انکی اولاد اور والدہ اور عزیر علیہ السلام وغیرہ۔ اور ان لوگوں کو پکارنے کی وجہ سے ہی وہ مشرک کہلاتے تھے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنمی بن گئے۔
قال اﷲ تعالیٰ: {وَاِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ لِاَبِیْہِ وَ قَوْمِہٖ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ۔ اِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ} (سورۃ الزخرف:28-27)
چنانچہ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق خبر دی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے سامنے غیر اللہ کی عبادت سے بیزاری کا اعلان فرمایا۔ اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہنے کا اظہار فرمایا۔
اللہ تبارک و تعالیٰنے اس اعلان کو ذکر کر کے فرمایا :
فی قولہٖ: {وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْعَقِبِہ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ}۔
یعنی یہ کلمہ وہ اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے تاکہ ان کی اولاد اسی کی طرف رجوع کرے۔
مفسرین فرماتے ہیں کہ جو کلمہ انہوں نے اپنی اولاد میں چھوڑا تھا ۔وہ کلمہ یہ ہے:
'' لَا اِلٰـہ اِلَّا اﷲُ ''
اس تفسیر کی روشنی میں توحید کا اصل مفہوم واضح ہو گیا۔ چنانچہ موحد وہ ہے جو کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح غیر اللہ سے بیزاری اور ناراضگی کا اظہار کرے۔ اور ایک اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کر لے۔
اور اگر کوئی شخص غیر اللہ سے بیزار نہیں اور ایک اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا تو وہ مشرک ہے۔
قولہ تعالیٰ: {اِتّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲِ}(سورۃ التوبہ:33)
یعنی ان لوگوں (عیسائیوں) نے اپنے عالموں او رعابدوں کو اللہ کے بجائے معبود بنالیا
اس آیت مبارکہ کی صحیح تفسیر نبی ﷺ کی ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ چنانچہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب اسلام قبول کر کے نبی ﷺ کے پاس آتے ہیں تو آپ اس وقت سورئہ توبہ کی یہی آیت پڑھ رہے تھے۔ تو عدی رضی اللہ عنہ نے کہا: انہوں نے علماء وغیرہ کی کبھی عبادت نہیں کی (پھر قرآن نے کیسے کہہ دیا کہ انہیں لوگوں نے اپنا رب مان لیا تھا) تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
فقال: اِنَّھُمْ حَرَّمُوْا عَلَیْہِمُ الْحَلَال وَحَلَّلُوْا لَھُمْ الْحَرَام فَاتَّبَعُوْھُمْ فَذٰلِکَ عِبَادَتُھُمْ
ان کے علماء نے حلال چیزوں کو ان پر حرام کر دیا اور حرام چیزوں کو ان کیلئے حلال کر دیا تو انہوں نے اس معاملہ میں ان کی تابعداری کرلی، یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔
 
Top