• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دیباچہ


کچھ عرصہ پہلے بعض دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قرآن و سنت میں بیان کیے گئے حرام امور کی ایک فہرست مرتب کر دی جائے تاکہ ان کی نشان دہی ہو سکے۔ اس حوالے سے متقدمین و متأخرین علماء نے کچھ کام کیا ہے ۔لیکن چونکہ یہ کتابیں عربی زبان میں ہیں جن سے صرف علماء ہی استفادہ کر سکتے ہیں اس لیے عوام الناس کے لیے اس ذخیرہ علم کو مفید بنانے کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں ''مُحرَّمات'' کے عنوان سے ایک ایسی جامع فہرست بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس میں ایسے تمام کبیرہ گناہوں کا احاطہ کر لیا جائے جن کے بارے میں قرآن و سنت میں وعید آئی ہے۔

ان مُحرَّمات میں بعض گناہ تو ایسے ہیں جن کا تعلق عقائد سے ہے' جبکہ بعض کا تعلق اعمال سے ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات سے ناواقفیت کی وجہ سے مسلم معاشرہ میں کھلے عام ان گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور لوگ جہالت کی بنا پر ان حرام کاموں کو جائز یا صغیرہ گناہوں کی طرح ہلکا سمجھتے ہیں' حالانکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ) (البقرة:١٨٧)
''یہ (محرَّمات) اللہ کی حدود ہیں' ان کے قریب بھی مت جائو''۔
قرآن میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہ عَذَاب مُّھِیْن) (النّساء)
''اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولۖ 'کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کرے گا' جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا' اور اس کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔''

اس سلسلۂ مضامین میں ہم ایک ایک کر کے ان حرام امور کو بیان کریں گے۔ یہ سلسلہ وار مضامین ماہنامہ 'میثاق' فروری تا دسمبر ٢٠٠٦ء کے شماروں میں ٨ اقساط میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ مضامین اس موضوع پر بعض عربی کتب مثلا امام ذہبی رحمہ اللہ کی 'الکبائر' اور شیخ صالح المنجد کی 'المحرمات' وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے مرتب کیے گئے تھے۔ اگرچہ اس موضوع پر مارکیٹ میں اب کافی کچھ اس سے بہتر کتابیں بھی موجود ہیں لیکن چونکہ راقم کے پاس یہ مواد یونی کوڈ میں موجود تھا لہذا فورم پر اس کی اشاعت کو مفید خیال کیا گیا۔ ان مضامین کو مناسب تہذیب و تنقیح کے بعد اس فورم ہر پیش کیا جا رہا ہے۔
حافظ محمد زبیر
ریسرچ ایسوسی ایٹ' قرآن اکیڈمی' لاہور
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مُحرَّمات
(حرام اُمور'جن سے بچنا ضروری ہے)

(١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا
محرما ت میں سب سے بڑا حرام فعل' اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے۔توحید کو اختیار کرنا اور شرک سے اجتناب کرنا ہی دین کا وہ اصل الاصول ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کا کوئی عمل قابل قبول نہیں اور دین و دنیا کی کامیابی او ر سعادت کا حصول بھی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ توحید پر عامل ہو اور اپنے دامن کوہر قسم کے شرک سے بچائے رکھے' لیکن اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی نوعیت کے شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ بعض اوقات انسان اپنے آپ کو موحد سمجھ رہا ہوتا ہے' حالانکہ اللہ کے ہاں اس کا شمار مشرکین میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَھُمْ مُّشْرِکُوْن) (یوسف)
''اوران میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں ۔''
یعنی بہت سے لوگ اللہ پر ایمان تو لے آتے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی قسم کے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں۔

ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی مسلمان سے شرک کا صدور ناممکن ہے'حالانکہ رسول اللہ ۖ کی اس بارے میں ایک حدیث ہے:
((وَاِنَّمَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیَ الْاَئِمَّةَ الْمُضِلِّیْنَ وَاِذَا وَقَعَ عَلَیْھِمُ السَّیْفُ لَمْ یُرْفَعْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَلْحَقَ حَیّ مِنْ اُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی تَعْبُدَ فِئَام مِّنْ اُمَّتِیَ الْاَوْثَانَ)) (١)
''اور مجھے اپنی اُمت کے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ اُن علماء کا ہے جو لوگوںکوگمراہ کریں گے' اور جب ایک دفعہ ان میں تلوار اُٹھ جائے گی تو پھر قیامت تک نہ رُکے گی۔اور قیامت اُس وقت تک نہ قائم ہو گی جب تک میری اُمت کا ایک گروہ مشرکوں سے نہ جا ملے اور میری اُمت کے بہت سارے لوگ بُت پرستی نہ شروع کردیں۔''
بعض اوقات اس شرک کو پہچاننا کتنا مشکل ہے' اس بارے میں حضرت ابن عباس کا قول ہے :
اَلْاِنْدَادُ ہُوَ الشِّرْکُ اَخْفٰی مِنْ دَبِیْبِ النَّمْلِ عَلٰی صَفَاةٍ سَوْدَائَ فِیْ ظُلْمَةِ اللَّیْلِ(٢)
''اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک ہے۔ اس شرک کو پہچاننا اتنا زیادہ مشکل ہے جتنا ایک انتہائی تاریک رات میں سیاہ پتھر پر چلنے والی سیاہ چیونٹی کے رینگنے کی آواز کو محسوس کرنا مشکل ہے۔''
لہٰذا اس معاملے میں ہر وقت انسان کو محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ صراطِ مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے اور ہمیں ایسا قلبِ سلیم اور براہیمی نظر عطا فرمائے کہ جس کے ذریعے سے ہم حق و باطل اور توحید و شرک میں امتیازکر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ شرک کی ہلاکتوں اور اقسام سے خوب اچھی طرح واقف ہو' تاکہ اس کے لیے اس موذی مرض سے بچنا آسان ہوسکے۔

شرک کی ہلاکتیں
دنیا اور آخرت میں شرک کے کیا نقصانات ہیں' اس بارے میں درج ذیل نصوص ملاحظہ فرمائیں ۔
١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے ۔ حضرت ابو بکرکی حدیث ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ](ثَلَاثًا)[)) قَالُوْا : قُلْنَا : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ' قَالَ : ((اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ…))
'' کیا میں تم کو سب سے بڑے کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟'' (آپ ۖنے تین بار فرمایا) صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہۖ! آپۖ نے فرمایا : ''اللہ کے ساتھ شرک کرنا…''
٢) ہر گناہ کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے معافی کا امکان ہے' لیکن شرک کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا واضح فرمان قرآ ن حکیم میں موجود ہے کہ وہ شرک کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء)(النساء:٤٨ و١١٦)
'' بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور بخش دے گا جو اِس کے علاوہ (گناہ) ہیں جس کے لیے وہ چاہے گا۔''
٣) شرک کرنے سے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے' اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت اس پر حرام ہو جاتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّہ مَنْ یُّشْرِکْ ِباللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰٹہُ النَّارُ)(المائدة:٧٢)
'' بے شک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تواللہ تعالیٰ نے اُس پر جنت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے۔''
٤) شرک ایسا قبیح گناہ ہے جو انسان کے تمام اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔ سورة الانعام میں تقریبا اٹھارہ انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعداللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) (الانعام)
'' اگر وہ سب ( انبیاء ) بھی شرک کرتے تو ان سے ان کے وہ تمام اعمال ضائع ہو جاتے جو وہ کرتے تھے۔''
سورة الزمر میں اللہ کے رسول ۖ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا:
(لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْن) (الزُّمر)
''اگر آپۖ نے بھی (بفرضِ محال ) شرک کیا تو آپۖ کے بھی تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے'اور آپۖ' خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔''
رسول اللہۖ کی ذاتِ اقدس سے ہم شرک جیسے قبیح فعل کے صدور کا تصور اور گمان بھی نہیں کر سکتے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر شرک کی شناعت اور برائی کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شرک اتنابڑا گناہ ہے کہ عام مسلمان تو کجا ' بالفرض اللہ کے رسول بھی اگر شرک کر لیتے توآپۖ کے تمام اعمال بھی ضائع ہو جاتے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شرک کی اقسام
قرآن و سنت میں شرک کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں:
١) شرکِ اکبر
شرکِ اکبر سے مرادعبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے'یعنی اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا شرکِ اکبر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ…) (بنی اسرائیل:٢٣)
''اور تیرے ربّ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے… ''
ہمارے معاشرے میں شرک فی العبادت کی مختلف اقسام رائج ہیں ۔ہم ذیل میں ان میں سے چند ایک کا ذکر کیے دیتے ہیں :
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مراسم عبودیت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا
مراسمِ عبودیت سے مراد عبادت کرنے کے ظاہری انداز اور طور طریقے ہیں۔ مثلاً نمازایک عبادت ہے' اس کا ہرہر رکن ( رکوع اور سجود وغیرہ) عبادت ہے۔ چونکہ اللہ کے بغیر کسی اور کی عبادت کرناشرک ہے' اس لیے اللہ کے سوا کسی کے سامنے رکوع کے برابر جھکنا یا سجدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
ارشادِباری تعالیٰ ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ…) (الحج:٧٧)
'' اے ایمان والو ! اپنے رب کے لیے رکوع ' سجدہ اور عبادت کرو… ''

اہل سنت کے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا حرام ہے۔ اولیاء اللہ کی قبروں یامزاروں پر جا کر سجدے کرنا' کسی عالم ' فقیہہ' حکمران' پیر'مذہبی یا سیاسی لیڈر کی تصویر یا ملکی پرچم کوسلامی دینے کی غرض سے اس کے سامنے تعظیماً رکوع کے برابر یا اس سے زیادہ جھکنا حرام ہے۔ اسی طرح ''قنوت'' یعنی تذلل و عاجزی کے ساتھ اللہ کے سوا کسی کے حضور دست بستہ کھڑے ہونا بھی حرام ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ)(البقرة)
''اور کھڑے رہو اللہ کے آگے ادب سے۔''
ہمارے ہاں بعض لوگ جہالت، نادانی یا تاویل کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ ان پر فوراً ہی مشرک کا فتویٰ لگانے کے بجائے پہلے ان کو سمجھانا چاہیے اور اتمام حجت اور دعوت و تبلیغ کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنے شرکیہ عقیدہ یا اعمال پر اصرار کرے تو اس کے عمل کو شرک کہا جائے گا اور اسے مجازا مشرک یا کلمہ گو مشرک کا نام بھی دیا جا سکتا ہے لیکن مشرک حقیقی قرار دینا ایک فتوی ہے جو داعی یا عامی کا کام نہیں ہے بلکہ یہ کبار اہل علم کا منصب ہے اور وہی اس بارے کوئی فتوی جاری کر سکتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اللہ کے علاوہ کسی اور سے دُعا کرنا
اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعا کرنا تا کہ وہ اس کی حاجات کو پورا کرے ' اسے رزق فراہم کرے اور اس کی مشکلات کو دُور کرے' شرک ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لاَّ یَسْتَجِیْبُ لَہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآء وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ) (الاحقاف)
''اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو اُس کو قیامت کے دن تک جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کی دعا سے بے خبرہیں!اور جب تمام انسان(قیامت کے دن) جمع کیے جائیں گے تو وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔''
ایک اور جگہ پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَاد اَمْثَالُکُمْ) (الاعراف:١٩٤)
''بے شک جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمہاری طرح اللہ کے بندے ہیں ۔''

متذکرہ بالا آیاتِ کریمہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت شاہ عبد القادر جیلانی 'حضرت علی ہجویری' حضرت لال شہباز قلندر' امام بری سرکار' حضرت بابا فرید گنج شکر' حضرت مادھو لال حسین' حضرت علی اور ان کے علاوہ جتنے بھی اولیاء اللہ گزرے ہیں جن سے لوگ اللہ کو چھوڑ کر فریادیں کرتے ہیں'سب کے سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں' وہ قیامت کے دن اپنے پکارنے والوں کی شفاعت تو کجا' بلکہ اُن سے بیزاری کا اعلان کریں گے ۔ اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں سے رزق وغیرہ طلب کرنا شرک ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی کی کتاب'' غنیة الطالبین '' کا مقدمہ ہی اگر پڑھ لیا جائے تو انسان پر واضح ہو جاتا ہے کہ وہ توحید کے کس عظیم مرتبے پر فائز تھے اور آج کل کے مسلمان کس حد تک اُن کے عقائد کو ماننے والے ہیں۔ آج جو کچھ ان کے نام پر ہو رہا ہے وہ خود اُن کی اپنی تعلیمات کے خلاف ہے' کیونکہ وہ تو قرآن و سنت کے متبعین میں سے تھے اور قرآن و سنت میں ایسے تمام افعال کی نفی کی گئی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْہُ وَاشْکُرُوْا لَہ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ) (العنکبوت)
''بے شک جن لوگوں کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے' پس اللہ ہی سے رزق طلب کرو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو' اسی کی طرف تمہیں لوٹایاجائے گا۔ ''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اللہ کے علاوہ کسی اور کو نفع یا نقصان کا مالک سمجھنا
اللہ کے علاوہ کسی اور کو اس نیت سے پکارنا کہ وہ اس کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے' یہ بھی شرک ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ہٰؤُلَآء شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ) (یونس:١٨)
''اور وہ اللہ کو چھوڑ کر اُن کی عبادت کرتے ہیں جو اُن کو نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان' اور وہ کہتے ہیں (ہم تو ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ) یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ ''
اس آیۂ مبارکہ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ان اولیاء اللہ کو اس غرض سے پکارنا کہ اللہ کے ہاں یہ ہماری سفارش کریں' جائز نہیں ہے۔کیونکہ نفع اور نقصان کے اختیارات اللہ نے اپنے پاس رکھے ہیں اور اپنے علاوہ کسی ولی یانبی' حتیٰ کہ اپنے پیارے پیغمبر محمد ۖ کو بھی نہیں دیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(قُلْ اِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا) (الجن)
''(اے نبی ۖ!ان سے) کہہ دیں کہ میں تمہارے لیے کسی بھلائی اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔''

یہاں پر ہم یہ بات واضح کرتے جائیں کہ ہمارے ہاں بعض حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ احناف کے ہاں ایسے مشرکانہ عقائد پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ متقدمین احناف کے مسلّمہ عقائد' شرک کی آمیزش سے پاک ہیں اور وہ عقیدہ میں سلفی العقیدہ ہیں اور اس بارے ہم اپنے ایک مضمون بعنوان " کیا ائمہ اربعہ مفوضہ ہیں؟" میں وضاحت کر چکے ہیں۔٭ لیکن بعض جاہل خطباء نے اپنے پیٹ کی خاطر قصے کہانیوں پر مشتمل غلط عقائد و نظریات معاشرے میں پھیلا رکھے ہیں۔ علاوہ ازیں متاخرین حنفیہ میں نظری و عملی تصوف کے نام سے بہت سے شرکیہ عقائد و اعمال نے رواج پا لیا ہے۔
٭ دیکھئے : مقدمہ شرح عقیدۂ طحاویہ از ابن ابی العز حنفی ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کسی ہستی کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کو پکارنا
کسی ہستی کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کو پکارنا بھی ازروئے قرآن اس کی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ) (الزمر:٣)
''(اور وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیںکرتے مگر اس وجہ سے کہ وہ ہمیں کسی درجہ میں اللہ کے قریب کر دیں ۔''

اللہ تعالیٰ تو انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی پوپ' پادری' پنڈت' پیر یا کسی اور درمیانی واسطے کی ضرورت قطعاً نہیں۔ مانا کہ چھت پر چڑھنے کے لیے کسی سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے 'کیونکہ چھت اور ہمارے درمیان فاصلہ ہے' لیکن اللہ تعالیٰ عرش پر موجود ہونے کے باوجود ہمارے انتہائی قریب ہے' اس کے اورہمارے درمیان کسی قسم کا حجاب اور پردہ نہیں ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ذبح کرنا
دورِ جاہلیت میں مشرکینِ مکّہ اپنے بُتوں اورجنات کو راضی کرنے کے لیے اپنی اولاد تک کو ان کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے۔جبکہ اللہ کے سوا کسی اور کی رضا یا خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کسی جانور کو ذبح کرنا حرام ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ)(الانعام)
''(آپۖ' )کہہ دیں کہ بے شک میری نماز' میری قربانی' میراجینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ ''
حضرت طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولۖ نے فرمایا:
((دَخَلَ الْجَنَّةَ رَجُل فِیْ ذُبَابٍ وَدَخَلَ النَّارَ رَجُل فِیْ ذُبَابٍ)) قَالُوْا وَکَیْفَ ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ ؟ قَالَ : ((مَرَّ رَجُلَانِ عَلٰی قَوْمٍ لَھُمْ صَنَم لَا یُجَاوِزْہُ حَتّٰی یُقَرِّبَ لَہ شَیْئًا' فَقَالُوْا لِاَحَدِہِمَا: قَرِّبْ! قَالَ: لَیْسَ عِنْدِیْ شَیْئ اُقَرِّبُ' قَالُوْا لَہ : قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَابًا' فَقَرَّبَ ذُبَابًا' فَخَلُّوْا سَبِیْلَہ' فَدَخَلَ النَّارَ' وَقَالُوْا لِلْآخَرِ: قَرِّبْ! فَقَالَ: مَا کُنْتُ لِاُقَرِّبَ لِاَحَدٍ شَیْئًا دُوْنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ' فَضَرَبُوْا عُنُقَہ' فَدَخَلَ الْجَنَّةَ)) (٣)
''ایک شخص صرف مکھی جیسی حقیر چیز کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور دوسرا شخص اسی مکھی جیسی حقیر چیز کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا''۔ صحابہ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسولۖ! یہ کیسے ہوا؟ آپۖ نے فرمایا: دو شخص ایک قبیلے کے پاس سے گزرے جن کا ایک بُت تھا اور کوئی شخص اس بُت پر کوئی چڑھاوا چڑھائے بغیر نہیں گزر سکتا تھا۔چنانچہ انہوں نے ایک سے کچھ نذرانہ دینے کے لیے کہاتو اُس نے کہا :میرے پاس نذرانہ دینے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا نذرانہ تمہیں ضرور دینا پڑے گا چاہے ایک مکھی ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ اس نے ایک مکھی پکڑ کر بھینٹ چڑھا دی تو انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیااوروہ جہنم میں داخل ہو گیا۔اسی طرح انہوں نے دوسرے سے کہاکہ وہ بھی نذرانہ پیش کرے۔اس نے کہا میں تو اللہ کو چھوڑ کر کسی کے آگے نذرانہ پیش نہیں کروں گا۔اس پر ان لوگوں نے اسے شہید کر دیا اور وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ ''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
جس جگہ غیر اللہ کے نام کی قربانی دی جاتی ہو، وہاں جانور ذبح کرنا
ایسی جگہ پر جانور ذبح کرنا جہاں شرک وغیرہ ہوتا ہو یا کسی دور میں ہوتا رہا ہو' جائز نہیں ہے۔حضرت ثابت بن ضحاک سے روایت ہے :
نَذَرَ رَجُل عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِۖ اَنْ یَّنْحَرَ اِبِلًا بِبُوَانَةَ فَاَتَی النَّبِیَّ ۖ فَقَالَ: اِنِّیْ نَذَرْتُ اَنْ اَنْحَرَ اِبِلًا بِبُوَانَةَ فَقَالَ النَّبِیُّۖ ((ہَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَن مِنْ اَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّةِ یُعْبَدُ؟)) قَالُوْا لَا' قَالَ: (( فَھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْد مِنْ اَعْیَادِھِمْ؟)) قَالُوْا لَا۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ: ((اَوْفِ بِنَذْرِکَ فَاِنَّہ لَا وَفَائَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَةِ اللّٰہِ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ)) (٤)
''اللہ کے رسولۖ کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ مقامِ بوانہ پر اونٹ ذبح کرے گا ۔وہ آپۖ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ مقام بوانہ پر اونٹ ذبح کروں تو آپۖ نے (دریافت) فرمایا :'' کیا اس جگہ زمانۂ جاہلیت کے بُتوں میں سے کوئی بُت تھا کہ جس کی عبادت کی جاتی رہی ہو؟'' صحابہ نے عرض کیا نہیں۔آپۖ نے پھر دریافت فرمایا :''کیاوہاں ان ( مشرکین) کا کوئی میلہ لگتا تھا؟''صحابہ نے عرض کیا نہیں'تو آپ ۖ نے فرمایا:''تم اپنی نذر پوری کر لو' کیونکہ اس نذر کا پورا کرناجائز نہیں ہے جو کہ اللہ کی نافرمانی میں مانی گئی ہو اور نہ اس نذر کا پورا کرنالازم ہے جو ابنِ آدم کے اختیار میں نہ ہو۔''
اس حدیث سے یہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے کہ ایسی قربانی جو اللہ کے لیے ہی کی جائے' لیکن ایسی جگہ ہو جہاں شرک وغیرہ ہوتا ہو مثلا داتا دربار وغیرہ پر' تو یہ بھی ناجائز اور حرام فعل اور شرک سے مشابہت ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی نذر ماننا
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نذر ونیاز ایک عبادت ہے ۔ اور عبادت چونکہ اللہ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں' اس لیے اللہ کے علاوہ کسی ولی' بزرگ یا پیر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی نذر مانناجا ئز نہیں ہے۔ حضرت طارق بن شہاب کی بیان کردہ مذکورہ بالا حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ غیر اللہ کی نذر ماننا یا چڑھاوا چڑھانا شرک ہے 'جبکہ حضرت ثابت بن ضحاک کی حدیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کے نام پر مانی ہوئی نذر کو بھی ایسی جگہ پر پورا کرنا جہاں شرک یا غیر اللہ کی پرستش ہو رہی ہو' جائز نہیں ہے۔اللہ کے رسولۖ کا ارشاد ہے:
((مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَّعْصِیَ اللّٰہَ فَلَا یَعْصِہ)) (٥)
''جو شخص ایسی نذر مانے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہوا سے چاہیے کہ اپنی نذر کو پورا کرے' اور جو کوئی ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔'' (یعنی اگر نذر ماننی ہی ہو توصرف اللہ کے نام کی ماننی چاہیے)۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top