مُحرَّمات
(حرام اُمور'جن سے بچنا ضروری ہے)
(١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا
محرما ت میں سب سے بڑا حرام فعل' اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے۔توحید کو اختیار کرنا اور شرک سے اجتناب کرنا ہی دین کا وہ اصل الاصول ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کا کوئی عمل قابل قبول نہیں اور دین و دنیا کی کامیابی او ر سعادت کا حصول بھی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ توحید پر عامل ہو اور اپنے دامن کوہر قسم کے شرک سے بچائے رکھے' لیکن اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی نوعیت کے شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ ب
عض اوقات انسان اپنے آپ کو موحد سمجھ رہا ہوتا ہے' حالانکہ اللہ کے ہاں اس کا شمار مشرکین میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَھُمْ مُّشْرِکُوْن) (یوسف)
''اوران میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں ۔''
یعنی بہت سے لوگ اللہ پر ایمان تو لے آتے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی قسم کے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی مسلمان سے شرک کا صدور ناممکن ہے'حالانکہ رسول اللہ ۖ کی اس بارے میں ایک حدیث ہے:
((وَاِنَّمَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیَ الْاَئِمَّةَ الْمُضِلِّیْنَ وَاِذَا وَقَعَ عَلَیْھِمُ السَّیْفُ لَمْ یُرْفَعْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَلْحَقَ حَیّ مِنْ اُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی تَعْبُدَ فِئَام مِّنْ اُمَّتِیَ الْاَوْثَانَ)) (١)
''اور مجھے اپنی اُمت کے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ اُن علماء کا ہے جو لوگوںکوگمراہ کریں گے' اور جب ایک دفعہ ان میں تلوار اُٹھ جائے گی تو پھر قیامت تک نہ رُکے گی۔اور قیامت اُس وقت تک نہ قائم ہو گی جب تک میری اُمت کا ایک گروہ مشرکوں سے نہ جا ملے اور میری اُمت کے بہت سارے لوگ بُت پرستی نہ شروع کردیں۔''
بعض اوقات اس شرک کو پہچاننا کتنا مشکل ہے' اس بارے میں حضرت ابن عباس کا قول ہے :
اَلْاِنْدَادُ ہُوَ الشِّرْکُ اَخْفٰی مِنْ دَبِیْبِ النَّمْلِ عَلٰی صَفَاةٍ سَوْدَائَ فِیْ ظُلْمَةِ اللَّیْلِ(٢)
''اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک ہے۔ اس شرک کو پہچاننا اتنا زیادہ مشکل ہے جتنا ایک انتہائی تاریک رات میں سیاہ پتھر پر چلنے والی سیاہ چیونٹی کے رینگنے کی آواز کو محسوس کرنا مشکل ہے۔''
لہٰذا اس معاملے میں ہر وقت انسان کو محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ صراطِ مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے اور ہمیں ایسا قلبِ سلیم اور براہیمی نظر عطا فرمائے کہ جس کے ذریعے سے ہم حق و باطل اور توحید و شرک میں امتیازکر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ شرک کی ہلاکتوں اور اقسام سے خوب اچھی طرح واقف ہو' تاکہ اس کے لیے اس موذی مرض سے بچنا آسان ہوسکے۔
شرک کی ہلاکتیں
دنیا اور آخرت میں شرک کے کیا نقصانات ہیں' اس بارے میں درج ذیل نصوص ملاحظہ فرمائیں ۔
١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے ۔ حضرت ابو بکرکی حدیث ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ](ثَلَاثًا)[)) قَالُوْا : قُلْنَا : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ' قَالَ : ((اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ…))
'' کیا میں تم کو سب سے بڑے کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟'' (آپ ۖنے تین بار فرمایا) صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہۖ! آپۖ نے فرمایا : ''اللہ کے ساتھ شرک کرنا…''
٢) ہر گناہ کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے معافی کا امکان ہے' لیکن شرک کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا واضح فرمان قرآ ن حکیم میں موجود ہے کہ وہ شرک کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء)(النساء:٤٨ و١١٦)
'' بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور بخش دے گا جو اِس کے علاوہ (گناہ) ہیں جس کے لیے وہ چاہے گا۔''
٣) شرک کرنے سے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے' اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت اس پر حرام ہو جاتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّہ مَنْ یُّشْرِکْ ِباللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰٹہُ النَّارُ)(المائدة:٧٢)
'' بے شک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تواللہ تعالیٰ نے اُس پر جنت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے۔''
٤) شرک ایسا قبیح گناہ ہے جو انسان کے تمام اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔ سورة الانعام میں تقریبا اٹھارہ انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعداللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) (الانعام)
'' اگر وہ سب ( انبیاء ) بھی شرک کرتے تو ان سے ان کے وہ تمام اعمال ضائع ہو جاتے جو وہ کرتے تھے۔''
سورة الزمر میں اللہ کے رسول ۖ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا:
(لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْن) (الزُّمر)
''اگر آپۖ نے بھی (بفرضِ محال ) شرک کیا تو آپۖ کے بھی تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے'اور آپۖ' خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔''
رسول اللہۖ کی ذاتِ اقدس سے ہم شرک جیسے قبیح فعل کے صدور کا تصور اور گمان بھی نہیں کر سکتے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر شرک کی شناعت اور برائی کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شرک اتنابڑا گناہ ہے کہ عام مسلمان تو کجا ' بالفرض اللہ کے رسول بھی اگر شرک کر لیتے توآپۖ کے تمام اعمال بھی ضائع ہو جاتے۔