• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرم الحرام اور ایام عاشورا میں واقعاتِ کربلا بیان کرنے کا حکم

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
محرم الحرام اور ایام عاشورا میں واقعاتِ کربلا بیان کرنے کا حکم

تحریر: محمد صالح حسن


ماہ محرم الحرام کے آغاز سے لے کر اختتام تک جو بدعات و خرافات کا بازار گرم رہتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس سلسلے میں روافض جو کچھ کرتے ہیں ہمیں اس سے سروکار نہیں۔ لیکن ان کی ہم نوائی میں اہل سنت کا ایک طبقہ بھی حبِ اہل بیت کے نام پر اہلِ بدعت کے شانہ بہ شانہ کھڑا نظر آتا ہے۔

یہ لوگ در حقیقت روافض کی جانب سے محبت اہل بیت کے ڈھونگ سے احساسِ کم تری کا شکار ہو کر انھی مخصوص ایام میں باہر نکل آتے ہیں۔ جگہ جگہ اسٹیج سجا لیے جاتے ہیں، خطبا اور واعظین اپنے روایتی انداز میں (جو بہت حد تک شیعوں سے ملتا جلتا اور اسی لب و لہجے سے متاثر ہوتا ہے) تقاریر کا اہتمام کرتے ہیں اور عوام کو واقعہ کربلا کی من پسند اور من گھڑت تفصیلات سناتے ہیں۔

ان میں سے اکثر تو پیشہ ور واعظین ہوتے ہیں جن کی دال روٹی ہی جلسوں اور تقریروں سے وابستہ ہے، لہذا وہ اسی طرح کے مواقع کے منتظر رہتے ہیں، جب کہ بعض خطبا شیعی آئیڈیالوجی سے بے حد متاثر ہیں اور اسی سوچ و فکر کو آگے بڑھانے میں شی_عوں کے سہولت کار کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔

ہر سال عشرۂ محرم میں ایک طرف روافض اپنے امام باڑوں میں تبرائی مجالس منعقد کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ خطباء اور واعظین مساجد اور چوکوں اور چوراہوں میں "فلسفہ شہادتِ حسین کانفرنس"، "شہداے کربلا کانفرنس" اور اسی طرح کی نا جانے کون کون سی کانفرنسوں کے نام پر اسٹیج سجا لیتے ہیں۔

ان "کانفرنسوں" اور جلسوں میں بے سروپا روایات کی بنیاد پر واقعہ کربلا کو حق و باطل کا معرکہ باور کروایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو "حسینی اور یزیدی" گروہوں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے، عوام سے کہلوایا جاتا ہے کہ کہو "میں حسینی ہوں"۔

یوں جاہل اور بھولی بھالی عوام کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر ان کی منفی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اور جو عوام پہلے ہی کئی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے اسے اس جلسے سے ایک نئے گروہ کا "لیبل" لگا کر روانہ کر دیا جاتا ہے۔

یہ واعظین واقعہ کربلا کو بڑی رنگ آمیزی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محقق علما نے واقعہ کربلا کو عوام کے سامنے بیان کرنے سے منع کیا ہے اور بعض نے اسے بدعت بھی قرار دیا ہے۔

مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ رقم طرز ہیں:

"جہاں تک اہلِ علم و تحقیق علماے اہل سنت کا تعلق ہے وہ واقعات کربلا تک کی رنگ آمیز تفصیلات کو بیان کرنے کو ناجائز کہتے ہیں۔۔ افسوس ہے کہ اہل سنت کی بہت بڑی اکثریت عاشورے کو شہادت حسین کی وجہ سے حق و باطل کا معرکہ قرار دے رہی ہے، چناں چہ

"اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد"
جیسے مصرعے اور مقولے زبان زدِ عوام و خواص ہیں، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ اس حادثۂ فاجعہ کے وقوع کی بنا پر ان دنوں کو کوئی دینی اہمیت دینا تصریحات علمائے اہل سنت کی رو سے بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ "

[آثارِ حنیف بھوجیانی :١/١٥٧]

آگے چل کر لکھتے ہیں:

"واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے پہلے ساڑھے تین سو سال تک شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی اس اہمیت کا کوئی وجود نہ تھا، کیوں کہ اس سے قبل حضرت فاروق اعظم، حت عثمان غنی ذو النورین رضی اللہ عنہ اور خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے والد گرامی قدر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بے دردانہ شہادتیں اسلامی شوکت و سطوت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوئیں، لیکن کسی صحابی، تابعی، محدث، فقیہ اور صوفی نے ان میں سے کسی کا سوگ نہیں منایا۔"

[آثارِ حنیف بھوجیانی : ١/١٥٨]

مفسر قرآن اور مایہ ناز اہل حدیث عالم دین حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ اہل سنت کے اس رویے پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:

"عشرہ محرم میں عام دستور و رواج ہے کہ شیعی اثرات کے زیر اثر واقعات کربلا مخصوص رنگ اور افسانوی و دیومالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔شیعی ذاکرین تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے اہل سنت کے واعظان خوش گفتار اور خطیبان سحر بیان بھی گرمیِ محفل اور عوام سے داد و تحسین وصول کرنے کے لیے اسی تال سر میں ان واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو شیعیت کی مخصوص ایجاد اور ان کی انفرادیت کا غماز ہے"

[اہل سنت اور محرم الحرام، ص : ۱۳]

حافظ صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں:

"بدقسمتی سے اہل سنت میں سے ایک بدعت نواز حلقہ اگرچہ نوحہ و ماتم کا شیعی انداز تو اختیار نہیں کرتا لیکن ان دس دنوں میں بہت سی ایسی باتیں اختیار کرتا ہے جن سے رفض و تشیع کی ہمنوائی اور ان کے مذہب باطل کا فروغ ہوتا ہے، مثلاً
شیعوں کی طرح سانحۂ کربلا کو مبالغے اور رنگ آمیزی سے بیان کرنا۔
"

[حوالہ مذکور، ص : ۲۳]

امام محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے ایامِ عاشوراء میں خصوصیت سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ذکر اور شہادت کے بیان کو بدعات حقیقیہ میں شمار کیا ہے۔ (الاصلاح، ص: ٥١٨)

علامہ ابن حجر ہیتمی، امام غزالی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں:

ويحرم على الواعظ وغيره رواية مقتل الحسين وحكاياته وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فإنه يهيج على بغض الصحابة والطعن فيهم

"واعظوں کے لیے حرام ہے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی روایتوں کو جلسوں کی زینت بنائیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات کا ذکر کریں، کیوں کہ اس سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض کی تخم ریزی ہوتی ہے اور ان پر نکتہ چینی کے راستے کھلتے ہیں"

[الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة: ٢/٥٤٠]


ان جلسوں، کانفرنسوں کا ایک غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حتیٰ کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے والد یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے یومِ شہادت پر یہ طبقہ جلسوں اور کانفرنسوں کا کوئی اہتمام نہیں کرتا۔ حالاں کہ اہل سنت کے نزدیک خلفائے ثلاثہ ہر لحاظ سے مقام و مرتبے میں حسین رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں۔ "شہدائے کربلا کانفرنس" اور "شہادت حسین زندہ باد کانفرنس" کی طرح یہ لوگ کبھی "شہادت عمر، شہادت عثمان اور شہادت علی کانفرنس" منعقد کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ اس کی وجہ شیعی پروپیگنڈے سے حد درجہ مرعوبیت ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں اور جن کی شہادتیں، شہادتِ حسین سے زیادہ دردناک ہیں جیسے سیدنا عثمان کی شہادت، ان کے لیے جلسوں اور کانفرنسوں کا اہتمام آخر کیوں نہیں کیا جاتا؟

FB_IMG_1629279720087.jpg


FB_IMG_1629279730250.jpg


FB_IMG_1629279735345.jpg


FB_IMG_1629279743194.jpg
 
Top